فیصلے میں فرق کیوں،ایک سوال ؟

اس تعلق سے’ ٹائمز ناؤ ‘کی ویب سائٹ پر نٹالیا جارج نے بھی سوال اٹھایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ کیا بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری نربھیا سے کسی طرح کم غیر انسانی تھی ۔اس طرح کے سوالات ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیںجن کا اٹھنا غیر فطری بھی نہیں ۔جبراً عصمت دری اور زناکاری ایسے سنگین جرائم ہیں جس کی سزا موت سے کم ہونی بھی نہیں چاہئے ، مختصراور ہلکی سزائیں مجرمین کے حوصلوں کو پست نہیں،بڑھا دیتی ہیں ۔جرم کا سد باب سخت ترین اور عبرتناک سزاؤں کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح انصاف کے معیار سے بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اس سے عوامی سطح پر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہی احساس انسانی فطرت و جبلت کا رخ موڑدیتا ہے جس کے شدید دباؤ سے انسان کے اندر بیٹھا ہوا شیطان بیدار ہوجاتا ہے پھر وہ ایسی مکروہ حرکتوں کا ارتکاب کرتا ہے جس سے پورا سماج اور معاشرہ کراہ اٹھتا ہے اور انسانیت لرزہ براندام ہوجاتی ہے ۔

گذشتہ ہفتے سپریم کور ٹ اور ممبئی ہائی کورٹ کے ذریعے عصمت دری کے دو اہم مقدمات کے فیصلے سنائے گئےاتفاق سے یہ دونوں معاملے بڑی حد تک ایک ہی نوعیت کے اور ایک دوسرے سے مماثل تھے جن میں دو مختلف خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی ، ایک خاتون بلقیس بانو تھی جسے گجرات کے دنگوں اور قتل عام کے دوران گیارہ مجرمین نے بڑی بے دردی اور بے رحمی سے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا خاتون کے مطابق جب گجرات میں قتل عام ہورہا تھا اور مسلمانوں کی دادفریاد سننے والاکوئی نہیں تھا اور لوگ گھر بارچھوڑکر محفوظ مقامات پر منتقل ہورہے تھے اس وقت وہ بھی اپنے خاندان کے ۱۷؍افراد کے ساتھ تحفظ کی تلاش میں نکل پڑی تبھی اچانک بلوائیوں نے ان پر حملہ کردیا اور اس کے سامنے ہی خواتین کی عصمت تارتار کردی گئی اور مردوں کو قتل کردیا گیا جس میں اس کی ۳؍ سالہ معصوم بچی بھی شامل تھی ،پھر خوداس کے ساتھ بھی وہی گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ، وہ بیہوش ہوگئی، جب ہوش آیا تو اس کے سامنے صرف لاشیں ہی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور اس کے قریب اس کی دو بچیاں بری طرح بلک رہی تھیں بعد میں اسے کچھ مددگار تنظیموں کے ذریعے تحفظاتی کیمپ میں پہنچادیا گیا ۔

دوسرا معاملہ جیوتی ( نربھیا ) کا تھا جو دہلی کے کے ایک مقام پر اپنے دوست کے ساتھ گھر جانے کیلئے بس کے انتظا ر میں کھڑی تھی بس آئی اور وہ دونوں اسمیں سوارہوگئے لیکن بس میں پہلے سے موجود چھ افراد نے دوست کی موجودگی میں اس کے ساتھ حیوانیت و درندگی کا ایسا کھیل رچایا جس سے انسان تو کیا شیطان بھی کانپ جائے یہاں تک کہ ان درندوں نے اس کے نازک مقامات پر بھی شدید ضربیں پہنچائیں ۔میڈیکل رپورٹوں کے مطابق اندرون جسم اسے اتنی شدید ضرب پہنچی تھی کہ اس کا جسم روح کا ساتھ نہ دے سکا اور بالآخر زندگی اور موت کی جنگ لڑتے لڑتے وہ ہار گئی ۔

اس میں دو رائے نہیں کہ نربھیا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی بھی طرح فراموش کئے جانے کے لائق نہیں تھا اور یقینا ً اس کا رد عمل بھی لوگوں نے دیکھا پورے ملک میں اس واقعے کے خلاف احتجاجات کی صدائیں بلند کی گئیں یہاں تک کہ دہلی کے انڈیا گیٹ پر احتجاجیوں کا جو اژدحام تھا اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا ۔حیوانیت اور درندگی کے خلاف لوگوں کا یہ اتحاد عظیم بہر حال کسی نعمت سے کم نہیں تھا اور یہ امن و انصاف کے حصول کی ایک ایسی نظیر قائم کرگیا جو بڑی خوش آئندتھی اور وہی ہوا بھی یعنی نربھیا کے ساتھ مکمل انصاف کی فراہمی جس نے آزردہ اور کمہلائے ہوئے چہروں پر بہار کی برسات کردی ۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ۴؍ مئی کو آیا جس میں نربھیا کے چار مجرمین کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ، اس کے دوسرے ہی دن ممبئی ہائی کورٹ نے بلقیس معاملے کے گیارہ مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی ۔یہ دونوں معاملے اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ہی جیسے تھے لیکن تھوڑے فرق کے ساتھ ، ظاہر ہے دونوں واقعات الگ الگ جگہوں پر ہوئے ان کی تاریخ اور دن بھی الگ تھے لیکن نوعیت میں کوئی فرق نہیں تھا مگر سزائیں ضرور مختلف ہوگئیں ۔فیصلے کے اسی فرق نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ایسا کیوں ہوا ۔اس تعلق سے مختلف لوگوں نے سوالات بھی اٹھائے ہیں ۔جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ بلقیس بانو کیس بھی استثنا کے دائرے میں آتا ہے اور اس کے مجرمین کو بھی سزائے موت ملنی چاہئے تھی ۔مشہور قانون داں پرشانت بھوشن کہتے ہیں ’میں عام طور پر پھانسی جیسی سزاؤں کی مخالفت کرتا ہو ںلیکن جب نربھیا کے مجرمین کو پھانسی کی سزا دی جاسکتی ہے تو پھر بلقیس کے مجرمین کو کیوں نہیں ؟۔راج دیپ سر دیسائی اس تعلق سے کہتے ہیں ’نربھیا کے قاتلوں کو سزائے موت اور بلقیس بانو کے زانیوں کو سزائے عمر قید یہ انصاف ہے یا ( کچھ اور ؟) برکھا دت کہتی ہیں ’مجھ سے کئی لوگ سوال کررہے ہیں کہ جب میں نربھیا کے قاتلوں کیلئے پھانسی کی مانگ کرتی ہو ں تو پھر بلقیس کے مجرمین کا کیا ؟ جنہوں نے اس کی بچی اور گھر کے دیگر افراد کو اس کے سامنے ہی قتل کردیا ۔جی ہاں بانو کے زانیوں کو بھی سزائے موت ملنی چاہیئے ۔سواتی چترویدی کے مطابق بلقیس بانو کےمعاملے کو استثنیٰ کیوں نہیں مانا گیا ؟ جس نے اپنی ۳؍سال کی معصوم بچی کو اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا اور اجتماعی آبروریزی کا دکھ ابھی تک جھیل رہی ہے ۔

اس تعلق سے’ ٹائمز ناؤ ‘کی ویب سائٹ پر نٹالیا جارج نے بھی سوال اٹھایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ کیا بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری نربھیا سے کسی طرح کم غیر انسانی تھی ۔اس طرح کے سوالات ہزاروں لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیںجن کا اٹھنا غیر فطری بھی نہیں ۔جبراً عصمت دری اور زناکاری ایسے سنگین جرائم ہیں جس کی سزا موت سے کم ہونی بھی نہیں چاہئے ، مختصراور ہلکی سزائیں مجرمین کے حوصلوں کو پست نہیں،بڑھا دیتی ہیں ۔جرم کا سد باب سخت ترین اور عبرتناک سزاؤں کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح انصاف کے معیار سے بھی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا اس سے عوامی سطح پر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے اور یہی احساس انسانی فطرت و جبلت کا رخ موڑدیتا ہے جس کے شدید دباؤ سے انسان کے اندر بیٹھا ہوا شیطان بیدار ہوجاتا ہے پھر وہ ایسی مکروہ حرکتوں کا ارتکاب کرتا ہے جس سے پورا سماج اور معاشرہ کراہ اٹھتا ہے اور انسانیت لرزہ براندام ہوجاتی ہے ۔

ایک وقت میں ایک ہی نوعیت کے دو معاملوں میں الگ الگ فیصلے یقینا ً بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں ۔عدالت عظمیٰ کے اس انتہائی منصفانہ فیصلے سے جہاں ایک طرف نربھیا کے والدین ، قریبی عزیز یہاں تک کہ ملک کے سبھی انصاف پسند افراد بے حد خوش ہیں لیکن دوسری طرف ۱۵؍ سال سے انصاف کا انتظار کرنے والی بلقیس بانو کو جو انصاف ملا ہے کیا وہ بھی اسی قدر خوش ہے۔؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب کا ہر کوئی منتظر ہے ۔

Vaseel Khan
About the Author: Vaseel Khan Read More Articles by Vaseel Khan: 126 Articles with 106272 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.