’ہم نے امیر شہر کو سجدہ نہیں کیا ‘

قاعدہ ہے دیر آید درست ا ٓید ۔ اب جب اس وفد نے ہمارے مسائل وہاں پیش کیے ہیں ، حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اسے اچھی نظروں سے دیکھنی چاہئے نہ کہ کج نگاہی کے ساتھ۔ اس ملاقات کو کاسہ لیسی او ر ابن الوقتی پر محمول نہیں کرناچاہئے ۔ اس سے قبل بھی مولوی پر مشتمل وفد مودی سے ملنے گیا تھا۔ لیکن اس وفد کا کوئی ایجنڈہ نہیں تھا، کوئی مقصد نہیں تھا سوائے اس کے کہ قوم کا سودا ہو؛ لیکن اس وفد کے پاس ایجنڈہ تھا، مقاصد تھے کہ ہماری قوم پر جو آپ کی حکومت ظلم کررہی ہے اسے روکا جائے۔ آسامیوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے۔ طلاق ثلاثہ مذہبی معاملہ ہے اس میں آپ کی حکومت دخل اندازی نہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی مسلمانوں کے ایک طبقے نے پی ایم او کی پریس ریلیز پر تو اعتبار کرلیا لیکن جمعیۃ علما ہند جیسی عظیم تنظیم کی پریس ریلیز پر اعتبار نہیں کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے وزیراعظم سے ملاقات کیا کرلی کہ ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ ہر کوئی ان پچیس افرا د پر مشتمل وفد کو چاپلوس کاسہ لیس اور ابن الوقت جیسے برے القاب سے نواز رہے ہیں ۔ کوئی جمعیۃ علماء کی دیرینہ تمنا کی برآئی کہہ رہے ہیں تو کوئی ساری حدود پار کرکے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس وفد نے ملت اسلامیہ ہند کا سودا مودی حکومت کے ہاتھوں کرلیا ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا استاد محترم قاری عثمان منصور پوری، جو کہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے داماد ہیں وہ مودی کی کاسہ لیسی کرسکتے ہیں؟ کیا مولانا محمود مدنی جو شیخ الاسلام کے پوتے اور حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی کے لڑکے ہیں وہ مودی کے سامنے سرنگوں ہوں گے؟ کیا مولانا بدرالدین اجمل جیسی مقدس ہستیاں مودی سے مسلمانوں کا سودا کرسکتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ؛بلکہ یہ مخالفین کے دل کی بھڑاس ہے اور طعن و تشنیع کا طریقۂ بزدلانہ ہے ـ ایک شخص بھلے ہی وہ اس کا ماضی انسانی خون سے رنگین کیوں نہ ہو لیکن جب وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہے تو اس جمہوری ملک میں آپ کو اس کرسی پر متمکن شخص کو وزیر اعظم تسلیم کرنا پڑے گا اور جب آپ نے اسے تسلیم کیا ہے تو اپنے مسائل اس کے روبرو پیش کرنے ہوں گے؛ کیوں کہ وہ پورے ایک ارب ہندوستانیوں کا وزیر اعظم ہے۔ صرف ہندوئوں کا نہیں ہے۔ اسی امر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند (محمود مدنی) گروپ نے مسلمانوں کے مسائل ، آسام میں مسلمانوں کی شہریت اور طلاق ثلاثہ جیسے موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے مودی سے ملاقات کی ؟ لیکن اس ملاقات پر سوالات کھڑے کیے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ملاقات کے بعد محمود مدنی خوشی کے مارے اس طرح پریسکانفرنس سے خطاب کررہے تھے گویا انہوں نے کوئی بڑا تیر مار دیا ہو۔کچھ لوگوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران اس طرح مودی جی سے ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ دیرینہ مراسم اور بے تکلف دوست بھی ہوں۔ تو کچھ لوگوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کو بھی شامل کرتے ہوئے کہا کہ محمود مدنی صاحب نے ان گجرات فسادات متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑک دی ہے مودی سے مل کر۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم تو نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں ان سے سوا ل کرنا چاہوں گا کہ جب آپ ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں تو کیا اپنے مسائل حکومت کے سامنے نہیں پیش کریں گے؟ اور اگر کریں گے تو کیا طریقہ کار ہوگا؟ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ مولانا محمود مدنی نے مسلمانوں کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ نہیں کرتے تب بھی کچھ لوگ اعتراض کرتے کہ ہمارے رہنما کوئی کام نہیں کرتے ہیں؟ اور جب کررہے ہیں تو کہہ رہے ہیں کاسہ لیسی پر مجبور ہوگئےـ تین سال کے عرصہ میں اب جاکر ان کی آنکھیں کھلی ہیں؟ قاعدہ ہے دیر آید درست ا ٓید ۔ اب جب اس وفد نے ہمارے مسائل وہاں پیش کیے ہیں ، حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اسے اچھی نظروں سے دیکھنی چاہئے نہ کہ کج نگاہی کے ساتھ۔ اس ملاقات کو کاسہ لیسی او ر ابن الوقتی پر محمول نہیں کرناچاہئے ۔ اس سے قبل بھی مولوی پر مشتمل وفد مودی سے ملنے گیا تھا۔ لیکن اس وفد کا کوئی ایجنڈہ نہیں تھا، کوئی مقصد نہیں تھا سوائے اس کے کہ قوم کا سودا ہو؛ لیکن اس وفد کے پاس ایجنڈہ تھا، مقاصد تھے کہ ہماری قوم پر جو آپ کی حکومت ظلم کررہی ہے اسے روکا جائے۔ آسامیوں کو ہندوستانی شہریت دی جائے۔ طلاق ثلاثہ مذہبی معاملہ ہے اس میں آپ کی حکومت دخل اندازی نہ کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر بھی مسلمانوں کے ایک طبقے نے پی ایم او کی پریس ریلیز پر تو اعتبار کرلیا لیکن جمعیۃ علما ہند جیسی عظیم تنظیم کی پریس ریلیز پر اعتبار نہیں کیا۔ انہیں ہی مورد الزام ٹھہرانے لگے کہ یہ علما بک گئے ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کا سودا کرلیا ہے ۔ اتنا یاد رکھیں جمعیۃ علما ہند کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ـ جنگ آزادی سے لے کر آج تک مسلمانوں کی حقیقی رہنما تنظیم یہی ہے جو آج تک مسلمانوں کی دادرسی کرتی ہوئی آئی ہے۔ آج بھلے یہ دو حصوں میں منقسم ہے لیکن اس تقسیم سے ’اختلاف علماء رحمت‘ امت کا فائدہ ہی ہوا ہے نہ کہ نقصان۔ آج بھی ہر جگہ جمعیۃ علما ہند مسلمانوں کے مسائل حل کررہی ہے، خواہ جیلوں میں قید بے قصور مسلمانوں کی رہائی کا مسئلہ ہو یا پھر فساد زدہ علاقوں میں بازآبادکاری کا مسئلہ ـ یہی وہ تنظیم ہے جو سب سے آگے بلامسلک و مذہب نظر آتی ہے۔ اس تنظیم پر انگلی اُٹھانا اور اس پر کاسہ لیسی کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ کیوں کہ ان کے آبائو اجداد نے انگریزوں کو سلامی دینے کے بجائے کفن سر پر باندھ کر توپوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر آزادی کے نغمے گائے ہیں۔ ان کے آباو اجداد نے ہمیشہ اپنے افعال سے یہ ثابت کیا تھا کہ ہم امیر شہر کو سجدہ کرنے نہیں بلکہ ان سے دو دو ہاتھ کرنے آئے ہیں اور ان ہی نفوس قدسیہ کی یہ اولادیں یہ تنظیم اپنے اباء کی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کی مسیحائی کو اپنا ایمان سمجھتی ہے ـ ان کے خون میں یہ نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کا سودا کریں، ان کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ وہ کاسہ لیسی کریں، انہوں نے ہر وقت ہر جگہ حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلمانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ ’ہم نے امیر شہر کو کبھی سجدہ نہیں کیا‘ ان کی سرشت میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ وہ غداری کریں۔ غداری کرنے والوں کے چہرے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ کون میر جعفر ہے اور کون میر صادق ۔ ان کے چہرے منور نہیں ہوا کرتے بلکہ ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ کاسہ لیس رہنما اپنے مفاد کی خاطر حکومت وقت سے سودا کرلیتے ہیں؛ لیکن باغیر ت علما کی جماعت جن کی ایک تاریخ ہے وہ نہیں بکا کرتی، وہ صرف اور صرف اپنی قوم کی فلاح وترقی کے لیے سوچا کرتی ہے ،وہ اگر حکومت وقت سے ملنے جاتی بھی ہے تو اس کا مقصد قوم کو بیچنا نہیں؛ بلکہ قوم پر ہورہے مظالم کے خلاف حکومت وقت کو آگاہ کرنا اور مثبت اقدامات کے لئے آمادہ کرنا ہے ـ ۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77684 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.