چین نے ترقی کی دوڑ میں پاکستانیوں کو شامل کرکے ہم پر
بڑا احسان کیا ہے۔پاکستانیوں کو کھلے دل سے شکریہ اداکرنا چاہئے۔پوری دنیا
میں آجکل چینی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں۔چین کا ون بیٹ ون روڈ منصوبہ عالمی
پریس کاسب سے اہم موضوع ہے۔چین نے اسی منصوبہ پر14اور15مئی کو بیجنگ میں
ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا۔29۔ممالک کے سربراہان اور کل130ممالک کے
وفود نے شرکت کی۔بتایا گیا کہ یورپ ،ایشیاء اور افریقہ کے تینوں براعظموں
کو اس منصوبے سے فائدہ ہوگا۔پاکستان کی نمائندگی بھرپور تھی۔وزیر اعظم نواز
شریف کابینہ کے ارکان اور چاروں صوبائی وزراء اعلیٰ اس کانفرنس میں شریک
رہے۔موجودہ دورہ میں پاکستان کے لئے 3اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے۔کراچی سے
طورخم تک کے بوسیدہ ریلوے نظام کو جدید ترین بنانے کا منصوبہ ان سب میں اہم
ہے۔اس ریلوے سسٹم کو انگریزی دورمیں صدیوں پہلے بنایا گیاتھا۔پاکستانی اس
میں کوئی بڑی تبدیلی نہ کرسکے اور نتیجتاً ریلوے میں چند دنوں کے بعد کوئی
حادثہ ہوجاتا ہے۔اس مین برانچ کوML1کہا جاتا ہے۔ریلوے کو طورخم اور کراچی
کے درمیان 2۔رویہ بنانے اور upgradeکرنیکا فائنل فیصلہ چینی ریلوے کمپنی
اور پاکستان ریلوے نے طے کرلیا ہے۔یہ کام کئی سالوں میں مکمل ہوگا۔موجودہ
دورہ میں گوادر ایسٹ بے،پر چھ رویہ شاہراہ تعمیر کرنے کا معاہدہ بھی فائنل
ہوگیا ہے۔ساتھ ہی ریلوے ٹریک بھی بچھے گا۔یوں گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے
میں آسانی ہوجائے گی۔گوادر میں سمارٹ سٹی کا منصوبہ بھی موجودہ دورہ چین
میں فائنل ہوگیاہے۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جو چین نے بنایا ہے یہ
یورپ،ایشیاء اور افریقہ کو ملانے والا اتنا بڑا منصوبہ ہے جو کبھی کسی قوم
نے نہیں بنایا ۔اور نہ اس کے بارے کبھی سوچا گیا۔چین کی یہ سوچ عالمی سطح
کی ہے ۔اس کے اپنے ملک تک محدود نہیں ہے۔سڑکیں ،ریلوے ،بندرگاہیں اور ہوائی
اڈے جب ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت ایشیاء افریقہ اور یورپ تک بنیں گے۔
تو پوری دنیا کے انسانوں ،تجارت،سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو فائدہ
ہوگا۔پاکستان کا سی پیک اس بڑے منصوبہ کا بڑا اہم پروجیکٹ ہے۔دراصل
یہ15۔سالہ پروگرام ہے۔اور2030ء تک جاکر اس کی واضح شکل بنے گی۔چین کے صوبے
سنکیانگ کو پورے پاکستان کی جدید ترین شاہراہوں ریلوے اور بندرگاہوں سے ملا
دیا جائے گا۔اس پورے پاکستان کے عوام اور کاروبار کو فائدہ پہنچے گا۔مجھے
یاد ہے کہ جب میں نے70ء کی دہائی کے شروع میں پڑھانا شروع کیاتھا۔تب
پاکستان کی فی کس آمدنی چین کی فی کس آمدنی سے زیادہ ہوتی تھی۔چین میں تب
پاکستان سے زیادہ غربت تھی۔جونہی چینی لیڈروں نے اپنے کو باہر کے سرمایہ
اور جدید ٹیکنالوجی کے لئے کھولا۔چین نے تیزی سے ترقی شروع کی اور اب چند
دہائیوں ہی میں وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے۔اس کی سالانہ
جی۔ڈی۔پی۔اب12ٹریلین ڈالر کے قریب آگئی ہے۔صرف امریکہ اس سے آگے ہے۔چند سال
پہلے تک ایسے سال بھی آئے کہ چین10۔فیصد سالانہ کے لہاظ سے ترقی کررہا
تھا۔اور چند سال میں چین کی معیشت دگنی ہورہی تھی۔اب چین نے سالانہ شرح
نموکو خود ہی کم کرلیا ہے۔تاکہ تیزی سے آگے بڑھتا ہوا چین کسی حادثے کا
شکار نہ ہوجائے۔چین کو اپنے پرانے دوست پاکستان کا بڑا خیال ہے۔اس نے ترقی
کی دوڑ میں پاکستان کو شامل کرناضروری سمجھا۔ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں سب
سے زیادہ اہمیت پاکستان ہی کو دی جارہی ہے۔سی پیک کے فائنل ڈرافٹ کی منظوری
29۔دسمبر2015ء کو دی گئی۔اور پاکستان میں کئی چینی کمپنیوں نے کام شروع
کردیا۔چین کی توجہ ابھی انرجی منصوبوں کی طرف سب سے زیادہ ہے۔موٹرویز اور
ایکسپریس ویز پر بھی کام ہورہا ہے۔سڑکوں کی تعمیر پاکستان کی اپنی کمپنیاں
بھی کررہی ہیں۔لاہور۔ملتان۔کراچی موٹروے کاسب سے بڑا حصہ سکھر اور ملتان
چینی کمپنی کو دے دیاگیا ہے۔سڑکوں کے یہ تمام منصوبے جب مکمل ہونگے تو
پاکستان کا منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں
سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔سفر نہ صرف آسان بلکہ تیز ہوجائے گا۔تجارتی قافلے
کا شغر سے گوادر اور کراچی تک چند ہی دنوں میں پہنچ جایاکریں گے۔چند سال
پہلے کو دیکھا جائے تو پاکستان سرمایہ کی کمی کا شکار تھا۔کوئی ملک پاکستان
میں بڑی سرمایہ کاری لانے کے لئے تیار نہ تھا۔جونہی نوازشریف صاحب مرکز میں
آئے انہوں نے پہلا دورہ ہی چین کا کیا اور چینی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان
کی طرف موڑ دیا۔عمران خان کے دھرنوں کی وجہ سے چند ماہ سی پیک کے منصوبے
تاخیر کا شکار تو ضرور ہوئے لیکن آخر کار2سال پہلے سے عملاً کام شروع
ہوگیا۔15مئی کو ہی ایک انگریزی اخبار نے لونگ ٹرم پلان کے 2مسودے شائع کئے
ہیں ایک 30۔صفحات پر مشتمل اور دوسرا 231۔صفحات پر مشتمل ہے۔ 30۔صفحات کا
مختصر مسودہ پاکستان کے تمام صوبوں کو دیکر ان سے منظوری لے لی گئی
ہے۔آئندہ15سال میں چین اور پاکستان نے ملکر کیاکرنا ہے۔یہ تمام باتیں طے
کرلی گئی ہیں۔زراعت کی ترقی کے لئے بھی ہزاروں ایکڑ اراضی چینی کمپنیوں کو
دی جائیگی۔یہ کمپنیاں بیجوں کی نئی اقسام پر تحقیق کریں گی۔اور آبپاشی کی
نئی ٹیکنالوجی استعمال کرکے زرعی پیداوار بڑھائیں گی۔لمبے منصوبے میں یہ
بھی شامل ہے کہ پشاور سے کراچی تک تمام شہروں کو سیف سٹی بنایا جائے گا۔ان
تمام شہروں کی ویڈیو لنک سے نگرانی کی جائے گی۔نیشنل فائبر آپٹک سسٹم کا
پروگرام بھی لونگ ٹرم پلان کا حصہ ہے۔سنکیانگ سے کراچی اور گوادر تک اس
سسٹم پر انٹرنیٹ اور ٹی۔وی سسٹم چلیں گے۔جونقشہ لونگ ٹرم پلان کا جاری ہوا
ہے اس میں5زون بہت اہم ہیں۔1۔سنکیانگ کا جنوبی زون۔صنعت۔نقل وحمل اور معاشی
ترقی۔2۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات۔معدنیات اور سیاحت۔3۔درمیانی
پاکستان۔صنعت اور معاشی ترقی۔4۔پاکستان کا مغربی زون۔انرجی۔نقل وحمل اور
تجارت۔ 5۔پاکستان کا جنوبی زون۔انرجی۔نقل وحمل ۔تجارت اور کاروبار کی
ترقی۔اسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لمبے عرصے میں چین کے مغربی صوبوں سے لیکر
پاکستان کے تمام علاقوں کی زرعی،صنعتی اور کاروباری ترقی کے پروگرام اس میں
شامل ہیں۔محمد نوازشریف نے15۔مئی کو بیجنگ کانفرنس میں
کہا"ریل،سڑکیں،بندرگاہیں اور ہوائی اڈے بننے سے اس پورے علاقہ کا منظر نامہ
بدل جائے گا"نواز شریف اور چین کے صدر یورپ،ایشیاء اور افریقہ میں بدلتا ہو
امنظر نامہ دیکھ رہے ہیں۔دوست وہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں ڈٹ کر ساتھ
دے۔چین نے پاکستان کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں کھڑے ہوکر دوستی کاحق اداکردیا
ہے۔صرف بیانات سے بات نہیں بنتی۔اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں چینی
ماہرین کا م کرتے نظر آتے ہیں۔جب کام فیلڈ میں شروع ہوجائے توبات بہت آگے
بڑھ جاتی ہے۔پاکستانیوں کو بھی چاہئے کہ اپنے ذمہ کاکام محنت اور دیانت
داری سے کریں۔ان تمام منصوبوں کے لئے جواربوں ڈالر آرہے ہیں ۔ان میں شفافیت
کا ہونا ضروری ہے۔رقومات زیادہ چینی کمپنیاں ،چینی بنکوں سے قرض لیکر خرچ
کریں گی۔دونوں قوموں کے ماہرین کے لئے ضروری ہے کہ پروجیکٹ کے لئے طے کردہ
پوری رقم اسی پروجیکٹ پر خرچ ہو۔دونوں قوموں کو صرف اسی صورت میں فائدہ
ہوگا۔کسی بھی موقع پر ایک دوسرے پر بد اعتمادی نہ ہو۔ابتدا میں سی پیک کے
لئے 46۔ارب ڈالر طے ہوئے تھے۔اب یہ رقم زیادہ سے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔اور
2030ء میں جاکر پتہ چلے گا کہ سی پیک کے مختلف حصوں پر پاکستان نے کتنا خرچ
کیا اور چینی کمپنیوں نے کتنا سرمایہ لگایا۔چینی کمپنیوں نے ان منصوبوں پر
خرچ کرکے اپنا سرمایہ اور منافع واپس بھی لینا ہے۔چینی حکومت کے قرض بھی
واپس ہونے ہیں۔امید ہے کہ دونوں قومیں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آگے
بڑھیں گی۔2030ء میں پاکستان کا منظر نامہ بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ |