“کرپشن” نے اس ملک کو ”امر بیل“ کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ اس
وقت پاکستان میں سب سے زیادہ شور بھی کرپشن کے خاتمے کیلئے برپا ہے۔ یہاں
پر کرپشن صحتمندی کی علامت بن چکی ہے۔ ایک ایسا عمل جسے ذہانت کا معیار
سمجھا جاتا ہے۔
”کرپشن“ ايک سماجی بُرائی ہے جس کی لاتعداد شاخیں اور شکلیں ہیں، ہر بُرائی
اور بیماری میں اس کا حصہ ہے، مگر اس کی بدترین صورت سیاسی رہنمائوں اور
حکمرانوں کا اس میں ملوث ہونا ہے۔ جو اقتدار میں رہتے ہوئے عوامی فنڈوں کا
استعمال اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کیلئے کرتے ہیں اور پھر ان کی پیروی
کرتے ہوئے یہ سلسلہ اداروں تک جا پہنچتا ہے۔
“کرپشن” ایک جڑوا بچے کی طرح آئی تو پاکستان بنتے ہی اس کے ساتھ ساتھ تھی،
لیکن آج وہ بالغ ہو چکی ہے۔ اس وقت پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے
کرپشن کے سلسلے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ بس ہر کسی کا طریقہ واردات الگ
الگ ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پیارے پاکستان میں کرپشن ”ضرب المثل“ کا
درجہ اختیار کر چکی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک مشہور قول ہے کہ، ”کام، کام
اور بس کام“ موجودہ حکمرانوں نے اس قول میں ترمیم کرتے ہوئے اسے کچھ اس طرح
سے بنادیا ہے ” کرپشن، کرپشن اور بس کرپشن“ حاصل مطلب یہ کہ مچھلی پانی کے
علاوہ رہ سکتی ہے لیکن اس ملک کے حکمران کرپشن کے علاوہ نہیں رہ سکتے۔
ملک کے حکمرانوں نے کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے ملک کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔
حکمرانوں نے قومی خزانے کو لوُٹ کر اپنے محل تعمیر کردیئے ہیں، اور غریب
عوام کو رہنے کیلئے چھت تک میسر نہیں۔ عام آدمی تعلیم، صحت اور روزگار جیسی
بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے عام
آدمی کی زندگی دن بدن ابتر اور عذاب بنتی جا رہی ہے۔
یہاں پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے، جو اس طرح سے ہے:
ریلوے کی ملازمت کیلئے ایک شخص کا انٹرویو ہو رہا تھا۔ انٹرویو لینے والے
نے امیدوار سے پوچھا کہ
“اگر تم دیکھو کہ دو گاڑیان ایک ہی پٹڑی پے آمنے سامنے آ رہی ہیں تو کیا
کروگے؟”
ملازمت کے خواہشمند نے کہا “میں کانٹا تبدیل کردوں گا۔”
“اگر اس وقت کانٹا تبدیل کرنا ممکن نہ ہو تو کیا کرو گے؟”
“پھر لال جھنڈی لہرائوں گا۔”
“ اگر اس وقت لال جھنڈی بھی ہاتھ نہ لگے تو کیا کروگے؟”
“ تو پھر بتی ہاتھ میں لیکر خطرے کا اشارہ کروں گا۔”
“ لیکن اگر اس وقت بتی بھی نہ ملے تو کیا کروگے؟”
“ تو پھر گھر سے اپنے چھوٹے بچے کو لے آئوں گا۔”
“تمہارا بیٹا آکر کیا کرے گا؟”
“کچھ بھی نہیں۔” انٹرویو دینے والے نے جواب دیتے ہوئے کہا “دراصل میرے بیٹے
کو گاڑیوں کا ٹکر دیکھنے کا بہت شوق ہے۔”
حاصل مطلب کہ ہمارے حکمرانوں کی بدترین حکمرانی اور پیدہ کردہ صورتحال میں
سے اس بات کا حتمی امکان ہے کہ ملک میں کسی بھی وقت تباہی مچانے والا کوئ
بھی حادثہ رونما ہو سکتا ہے لہٰذا تماشہ دیکھنے والوں کو تیار رہنا چاہیئے۔
ویسے تو اٹھسٹھ سال قبل اپنے قیام سے ہی پاکستان عدم استحکام اور بحرانوں
کا شکار رہا ہے، گذشتہ کچھ برس سے تشدد، بے حسی، مہنگائی، اور بے قابو غربت
غیر معمولی حدود تک پہنچ چکی ہیں۔ فریب، جھوٹ، منافقت، خودغرضی، کرپشن،
سازشوں اور بے رحمی نے سماج کے اقدار تبدیل کردیئے ہیں۔ حکمران بدماشی اور
لوٹ کھسوٹ کے ننگے ناچ میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی اور جاپانی تو
بغیر ناک کے بھی بے خوف ہیں اور اپنے چھوٹے ناکوں کو مسلسل اونچا رکھتے
ہوئے اپنا عزت نفس اور معیار برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن ہماری لمبے ناکوں
والی قوم لٹیروں کی غلامی اختیار کرتے ہوئے مسلسل اپنے ناک کٹاتی رہی ہے۔
جیالے اور شریف کہلانے والے حکمران ہمیں لوہے کے چنے چبانے پر مجبور کرتے آ
رہے ہیں اور ہم صبر سے وہ چبا رہے ہیں۔
اگر پاکستانی حکمرانوں کے شاہی تیور اور رہن سہن دیکھی جائے تو لگتا ہے
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی سرزمیں کے آدہے حصے پر ڈالر پیدا ہوتے ہیں
اور باقی آدہی سرزمین پائونڈ اگاتی ہے۔ لیکن جب یہاں کے عوام کے حال دیکھے
جاتے ہیں تو ملک کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی
زندگی بسر کرتی نظر آتی ہے۔
آج پاکستان پر ایسے حکمران مسلط ہیں جن کے دور میں عوام بھوک کی وجہ سے
اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔یہ ایسے حکمران ہیں جن کے آنگنوں
میں ہیلیکاپٹر کھڑے ہیں اور ان کے محلاتوں کے باہر مسلح لشکر وں کے پہرے
لگے ہوئے ہیں، لیکن پاکستانی عوام کہیں بھوک کے باعث مر رہی ہے تو کہیں
گندے پانی کے سبب۔ اس ملک کی عوام غربت، بھوک اور بیماری کی وجہ سے مر رہی
ہے یا ماری جاتی ہے اور چور لٹیرے حکمران ملک کو گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں۔
پاکستانی عوام آج ہر طرح کے بحران کا شکار ہے۔ ملک میں نہ تو ٹرین ٹائیم پر
آتی ہے نہ جہاز وقت پر پرواز کرتا ہے، نہ عوام راستوں کو روزگار فراہم ہے
نہ بجلی گئس اور تین اوقات کی روٹی میسر ہے۔ لیکن پھر بھی سیاسی مداریوں کے
جلسوں میں لوگوں کی کمی نظر نہیں آ رہی۔ حکومت اور اپوزیشن نے پاکستانی
عدالتوں کو اپنے مسائل میں الجھا رکھا ہے۔قومی خزانے سے کروڑوں روپے ایسے
ذاتی مقدمات اور وکیلوں پر خرچ کیئے جاتے ہیں جن کا عوام یا پاکستان کے
مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے قومی خزانے
کو بے دردی سے لوٹا ہے ان کو اور ان کی نسلوں کو جمہوریت کا علمبردار کہا
جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نام کیسے بھی ہوں لیکن ان کی شناخت خاندانی ہے۔
آج باپ ہے تو کل بیٹا ہوگا، آج بھائی ہے تو کل بہن ہوگی۔ قوم نے اپنی
آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔
عوامی قیادت کی غداری، حکمرانوں کی بے حسی، شرافت کے نام پر بدماشی اور
احتساب کے نام پر بدعنوانی آج اس ملک کا معمول بنا ہوا ہے۔ نظام کے
رکھوالوں کے پاس بیہودگی اور دہوکے بازی کے علاوہ دینے کیلئے کچھ بھی نہیں۔
انہوں نے تمام قوم کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جس کے پاس معمولی سا بھی
اختیار ہے اس کی سوچ مجرمانہ ہے۔ ہر طرف لٹیروں کا راج ہے۔ مجھے تو محظ
اسیمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ارکان ہی نہیں بلکہ تمام معاشرہ مجرم نظر آ رہا
ہے۔اب تو خود کو اس سماج کا فرد کہلاتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے۔
کاش ! اس ملک میں بھی کوئی “انا ہزاری” ہوتا جو “کرپشن” کیخلاف مردوں کی
طرح کھڑا ہوجاتا، جس کا اپنا دامن صاف ہوتا اور جو عوام میں سے ہوتا۔ |