خالق کائنات نے انسان کی سرشت میں اختیار و ارادہ کی
صلاحیت عطا کی اورپھر اس میں جو الوہیاتی توانائی پھونکی اْسی کی بدولت
انسان نے کائنات کے راز دریافت کرنا شروع کیے۔ اْس نے فطرت سے چھیڑ چھاڑ
بھی شروع کردی۔ کائنات کے راز جاننے اور اپنی مرضی کی دنیا بنانے کی لگن
روز اول سے اس کے خمیرمیں تھی جسے علامہ اقبال نے پیام مشرق میں بہت
خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے کہ
تو شب آفریدی چراغ آفریدم تو خاک آفریدی ایاغ آفریدم
بیان و کہسار و راغ آفرید م خیابان و گلزار و باغ آفریدم
اے خدا تو نے اندھیری رات پیدا کی تو میں نے اْس کا اندھیرا دور کرنے کے
لیے چراغ بنا لیا اور تو مٹی پیدا کی تو میں اس سے پیالہ بنا لیا۔ تو نے
بیاباں اور پہاڑ پیدا کیے تو میں نے بستیاں اور باغ بنا لیے۔ زمین آسماں
میں جو کچھ بھی تھا اس کے خالق نے اْس کے لیے مسخر کردیا تھا بس اب کیا تھا
وہ اس کی جستجو میں لگ گیا اور اْس نے فطرت کے راز دریافت کرنا شروع کردیئے۔
اْس نے یہ بھی معلوم کرلیا کہ جانداروں کے جسم کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور
اسی خلیہ کے مرکز میں اْس کی تمام خصوصیات اور وراثت دھاگوں کی صورت میں
موجود ہے جسے اْس نے لونیہ Chromosom کا نام دیا۔ ان لونیہ پر مورثہ
geneموجود ہوتے ہیں جو در اصل لمبے زنجیری سالمے ہوتے ہیں جسے وراثتی مادہ
DNA کا نام دیا گیا۔ساخت اور کارکردگی کے اعتبار سے تمام جانداروں کے خلیے
ایک جیسے ہوتے ہیں جبکہ وراثتی مادہ کی مخصوص ساخت اور ترتیب مختلف
جانداروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔یہ ڈی این اے اگرچہ جانداروں میں بہت
ہی قلیل مقدار میں ہوتا ہے مگر جسم کے تمام کام، کارکردگی اور خصوصیات کو
یہی چلاتا ہے۔ اسی کھوج کے سفر نے انسان نے یہ معلوم کرلیا کہ انسانی جسم
تقریباََ تیس ہزار مورثے Genesکاحامل ہے اور انسانی وراثتی بیماریاں انہی
مورثوں کی تبدیلوں یا فعل میں خرابی کی وجہ سے ہوتی ہیں اسی لیے اْن کا
علاج ادویات یا جراحی سے ممکن نہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ
ان جین پر دسترس حاصل کی جائے تاکہ ایک تو یہ معلوم کیا جائے کہ کہاں
خرابیاں ہیں اور اْن کو درست کیسے کیا جائے۔ اسی جستجو نے طبی سائنس کی
دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جسے تراریخت تکنیک technology transgenic
کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق و جستجو میں انسان اب مورثہ کے فعل کو اپنی مرضی سے
دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر کسی مورثہ gene کو جسم سے نکال دیا جائے تو کیا
ہوگا اور اگر کسی میں کوئی جین موجود نہیں لیکن اگر وہ اْس میں داخل کردی
جائے تو پھر صورت حال کیا ہوگی۔ اس طرح وراثتی بیماریوں کا باعث بننے والی
مورثہ تلاش کی جاسکیں گی اور علاج کیا جا سکے گا۔چونکہ جس طرح سے انسانوں
میں جین موجود ہیں اسی طرح تمام جانداروں میں جین ہوتے ہیں لہذا کسی ایسے
جانور کی تلاش تھی جسے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ یہ مشکل
چوہے نے آسان کردی۔ جی ہاں انسان اور چوہے کے اٹھانوے فی صد سے زائد مورثے
ایک جیسے ہیں لہذا چوہا جینیاتی سائنس کے میدان میں تحقیق کا باعث بنا۔ اگر
اﷲ کا پیدا کردہ چوہا نہ ہوتا تو آج میڈیکل سائنس اس قدر ترقی یافتہ نہ
ہوتی اور اس وقت بھی طبی تحقیق میں سب سے زیادہ چوہے ہی زیر استعمال ہیں
اور بہت سے نوبل انعامات چوہوں پر کیے گئے تجربات کی بنیاد پر دیئے گے ہیں
اس لحاظ سے وہ ہمارے دوست ہیں۔جین کی تبدیوں کی بنیاد پر پہلا ٹرانس جینک
چوہا ۱۹۷۴ میں پیدا کیا گیااور یوں تحقیق کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا۔
پیچیدہ انسانی بیماریاں جو کہ وارثت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کے کھوج کا
سلسلہ شروع ہوگیا۔ سرطان، رعشہ، ہیموفیلیا، ذیابیطس، الزائمر اور دوسری بہت
سی بیماریوں کے ماڈل چوہے اس تکنیک سے بننے لگے۔ ٹرانس جینک،
ژنتیک(کایمرا)اور حال ہی میں دریافت ہونے والی CRISPR Cas تکنیک بہت سی
بیماریوں اور پیدائشی نقائص اوربانجھ پن کے علاج میں امید افزا ثابت ہورہی
ہیں ۔ اس بات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ دنیابھر میں اس ہونے والی تحقیق
میں رابطہ اور آپس میں معلومات کے تبادلہ کے لیے ایک مربوط پلیٹ فارم ہونا
چاہیے جس کا آغاز سویڈن کی معروف میڈیکل یونیوسٹی کارولنسکا انسٹیٹیوٹ کے
شعبہ ٹرانس جینک ٹیکنالوجی (راقم بھی اسی شعبہ سے وابستہ ہے) نے اس کا بیڑا
اٹھایا اور ۱۹۹۹ء میں پہلی بین الاقوامی کانفرس سٹاک ہوم میں منعقد کی۔ اب
یہ دنیا بھر کے جینیاتی سائنس دانوں اور ماہرین کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن
گیا جس میں دنیا بھر کی جامعات ، طبی تحقیق سے وابستہ ادارے اور افراد اس
میں شامل ہیں۔ ہر ڈیڑھ سال بعد دنیا کے کسی ملک میں اس انجمن کا بین
لاقوامی اجلاس ہوتا ہے مگر قابل افسوس ہے کہ اسلامی دنیا سے ایران، ترکی
اور سعودی عرب کی برائے نام نمائدگی ہے جبکہ پاکستان سمیت عالم اسلام کے
تمام ممالک اس میں شامل نہیں جس سے مسلم ممالک کی سائنسی پس ماندگی کا
اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں روایتی علاج کا انداز بدل جائے
گا ۔نینو ٹیکنالوجی اور جینیاتی تحقیق ایسے دو میدان میں جو مستقبل کا تعین
کریں گے۔جینیٹک انجنئیرنگ کی بدولت نئی فصلیں ، بیماریوں کے خلاف مدافعت
رکھنے والے پودے، انسانی علاج کے لیے اہم مادے پیدا کرنے والے جانور اور
بیماریوں کے علاج میں مددگار طریقہ کار وضع ہوں گے۔ بڑھتی ہوئی انسانی
آبادی اور کم ہوتی زرخیز زمین کی وجہ سے انسانی خوارک کا مسئلہ بھی یہی علم
سائنس حل کرے گا۔ دنیا میں اسی کا تسلط ہوگا جس کے پاس علم و حکمت ہوگی۔
خدا کی آخری کتاب بار بار ہمیں تعلیم و تحقیق کا درس دیتی ہے مگر ہم اْصے
صرف پڑھتے ہیں اور اْس پر عمل دوسرے کرتے ہیں۔ آج بھی روح اقبال یہ سوال
کررہی ہے کہ
کس طرح ہوا کند ، تیرا نشتر تحقیق ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
|