سعودی عرب :لارنس آف عریبیہ سے ڈونلڈ ٹرمپ تک

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد مسلمان ممالک کے میڈیا میں ایک خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ہر کہیں اس کے مختلف پہلوؤں پر چرچا ہو رہاہے اور ہر لحاظ سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ عالم اسلام کے لیے اس کی اہمیت ہو نہ ہو لیکن ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں اس کی اہمیت ضرور ہے اس لیے کہ یہ کانفرنس امریکی آشیر باد کی حامل تھی اور امریکی مفادات سے ہم آہنگ بھی۔ سو جس کا کھانا اس کا گانا میڈیا کا ہی تو وطیرہ ہے۔ چنانچہ بتایا یہ جاتا ہے کہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد انتہا پسندی اور عالمی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا ، نیز اس موقع پر امریکہ اور اسلامی ممالک کے درمیان تجارت ، دفاع اور ’’ ثقافتی شعبوں میں تعاون‘‘ پر بھی بات ہوئی۔ کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب اصل اہمیت کا حامل تھا جس میں خاص طور پر ایران کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی۔دراصل یہی اس کانفرنس کا اصل مقصد تھا اور اسی مقصد کے لیے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان 380ارب ڈالرز کے معاہدے ہوئے ۔ کانفرنس میں 54اسلامی ممالک نے شرکت کی۔ ہمارے وزیر اعظیم صاحب خصوصی طور پر چارٹرڈ طیارے کے ذریعے 60افراد کا وفد لے کر پہنچے۔ مگر نہ تو جس طرح پاکستانی وزیر اعظم کو تقریر کا کوئی موقع ہی ملا اور نہ اس کانفرنس میں پاکستان کو کوئی اہمیت ہی دی گئی اسی طرح سعودی عرب سمیت باقی 53اسلامی ممالک کے حصے میں حقیقتاًصرف خوش فہمیاں ہی آئیں۔ یعنی اسلامی سربراہی کانفرنس صرف نام کی تھی اصل میں مقاصد سارے کے سارے پورے ہوئے امریکہ اور ٹرمپ کے۔ جس نے ایک طرف چائنہ کے عالمی اقتصادی منصوبہ OBORکا بھر پور جواب 380ارب ڈالر کے معاہدے کر کے دیا تو دوسری طرف مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات یعنی صیہونی عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ اسلامی ممالک کے حصے میں آئے صرف کچھ امریکی دلاسے ، سراب اور فریب۔ یعنی ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر اسلامی سربراہوں کا اکٹھ یہودیوں کے کٹھ پتلی امریکی صدر کے فریب میں آگیا اور یہی وہ امریکی فریب اور اسلامی سربراہوں کی خوش فہمی ہے جس نے عراق ، شام ، مصر ، لیبیا اور افغانستان کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ اسلامی دنیا اس حال تک کیوں نہ پہنچتی جب اﷲ تعالیٰ کا قرآن پاک میں فرمان ہے کہ’’ اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ(تو) ایک دوسرے کے دوست ہیں ‘‘۔ یعنی ان کا ازلی مشن صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ مگر قرآن سے روگردانی یعنی اصلی ہدایت سے محرومی نے ہمارے لیڈروں کو اس قدر اندھا ، بہرہ اور گونگا کر دیا ہے کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا۔

یہی وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے جو اپنی الیکشن مہم میں اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن بن کر اُبھرا اور صدر بن جانے کے بعد بھی باقاعدہ اس نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کا حکم جاری کیا۔ اگرچہ اس میں اسے ناکامی ہوئی مگر اس کے عزائم اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہ تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے اسلامی لیڈروں کی آنکھوں پر پٹی بندھ گئی ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہی بحیثیت امریکی صدر اپنا داتا اور مشکل کشا مان رہے ہیں۔ حالانکہ بات بہت واضح ہے کہ اسرائیل کے استحکام اور عزائم کی تکمیل کے لیے جو کام ایران سے عراق ، شام ،یمن اور دیگر اسلامی خطوں میں لیا جانا مقصود تھا وہ لیا جا چکا۔ اب انتظار صرف ایک ایسی جنگ عظیم کا ہے جو مسلم ممالک کے درمیان ہو ، جس میں تباہی صرف مسلمانوں کی ہو ،وسائل مسلمانوں کے خرچ ہوں ، اسرائیل کے اہداف کی تکمیل ہو اور اس پر الزام بھی کوئی نہ آئے۔

چنانچہ اس جنگ کی تیاری کے لیے پچھلی کئی دہائیوں نہیں ، کئی سالوں بھی نہیں بلکہ کئی صدیوں سے پلاننگ جاری تھی۔خاص طور پر جب اکیلے صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں پورے یورپ کو ذلت آمیز شکست ہوئی تھی تو عیسائیوں اور یہودیوں کے بڑے دماغوں نے مل کر یہی نتیجہ نکالا تھا کہ جب تک مسلمان متحد ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کے اتحاد اور ان کی طاقت کا واحد سرچشمہ نظام خلافت قائم ہے تب تک نہ تو یہودیوں کے مقاصد پورے ہو سکتے ہیں اور نہ دنیا پر عیسائی غلبے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے بعد سے ہی مستشرقین مغرب نے مسلمانوں میں نسلی ، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ کدورتوں اور نفرتوں کے بیج بونا شروع کیے۔ عربوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف اُٹھانے کے لیے لارنس آف عریبیہ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، شام کا علوی قبیلہ بھی نظام خلافت کے خلاف فرانس کے ہاتھوں میں کھیلا۔ایرانیوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف بھڑکانے کے لیے قدیم ایرانی بادشاہتوں کی عظمتوں کو بھی اُجاگر کیا گیا اور اس طرح اُمت مسلمہ کے حصے بخرے کرکے اس کے قلب میں اس اسرائیل کی بنیاد رکھی گئی جس کے استحکام اور توسیع کے لیے اُمت مسلمہ کا امن و امان گروی رکھ دیا گیا۔ صدام حسین جیسی مضبوط حکومتیں بھی اسی کی بھینٹ چڑھ گئیں اور اس کو ختم کرنے کے لیے بھی سارا خرچہ سعودی عرب اور کویت سے لیا گیا۔ حالانکہ سعودی عرب ، کویت اور عراق کا آپس میں بنیادی جھگڑا کوئی نہیں تھا مگر یہ جھگڑا پیدا کیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح آج ایران کے خلاف سعودی حکومت کو کھڑا کیا جارہاہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس سے ذرا کچھ پہلے ایران کا سخت بیان آیا تھا کہ ہم مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر پورے عرب کو جب چاہیں تباہ کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ اس کو محض اتفاق ہی کہیں گے کہ مگر یہ اتفاق نہیں۔ امریکہ عراق اور افغانستان میں کثیر سرمایہ اور وسائل جھونک کے دینے باجود بھی مطلوبہ اہداف نہیں حاصل کر پایا۔ یہاں تک کہ اسلحہ سازی پر پلتی بڑھتی اس کی معیشت ڈانواڈول ہو رہی تھی۔ لہٰذا ایک طرف اس کی معیشت کو سہارے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف اسرائیل کے اگلے اہداف تک پہنچنے کے لیے کسی نئی جنگ میں براہ راست کود جانے کی بجائے دو مسلمان قوتوں کو ہی لڑانا مقصود تھا۔ اسی مقصد کے لیے مسلمان ممالک کا مشترکہ فوجی اتحاد قائم کیا گیا تھا جو امریکہ کی ایما پر اور اس کے اہداف کے حصول کی اگلی ہی کوشش تھی۔ اب اس کوشش کو کسی منطقی نتیجے تک پہنچانا بھی تو ہے۔ لہٰذا اس فوجی اتحاد کو سامان حرب و ضرب سے لیس کرنا بھی توامریکہ کی ذمہ داری ہے۔ 380ارب ڈالرز کی رقم جس کا بیشتر حصہ فوجی ہتھیاروں کی خریداری پر صرف ہو گا کی ادائیگی سعودی عرب کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ کثیر رقم اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں نہیں بلکہ اُمت مسلمہ کی مزید تباہی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ لارنس آف عریبیہ نے تو عربوں کو صرف اُمت مسلمہ کے قومی دھارے سے نکال کر عرب بادشاہتوں کا راستہ دکھایا تھا مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں تباہی و بربادی کے علاوہ ان کا کوئی انجام نظر نہیں آتا۔ لارنس آف عریبیہ سے ڈونلڈ ٹرمپ تک کا یہ سفر عربوں کے لیے چاہے کتنا ہی شاندار اور ترقی پر مبنی کیوں نہ ہو اسلامی تاریخ میں اسے مسلمانوں کی بدترین شکست ، پسپائی اور نامعقولیت سے تعبیر کیا جائے گا۔ اسے عالم اسلام کی ترقی ، تعمیراور راہنمائی کبھی نہیں کہا جا سکتاچاہے جتنے بھی بڑے معاہدے کر لیے جائے اورجنتے بھی ڈالرز خرچ کر لیے جائیں۔ یہ ترقی ، تعمیراورعالم اسلامی کی راہنمائی تو تب ہوتی جب یہ سرمایہ اور وسائل اُمت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے لیے اور عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں کے خلاف لڑنے میں خرچ ہوتے۔ تب شاید پورا عالم اسلام بھی عربوں کے پیچھے کھڑا ہوتا اور مسلمانوں کو دنیا کی کوئی سپر پاور بھی شکست نہ دے پاتی۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ عالم اسلام میں ایک دو ہی سہی مگر ایسے لیڈرز پیدا کر دے جو اُمت کو سرابوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لے آئیں۔
 

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 52267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.