جس وقت جناب راحیل شریف کو مشترکہ اسلامی فوج کا سربراہ
بنایا گیا تو اُس وقت بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ یہ اتحاد کس کے خلاف بن
رہا ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت کی مروعبیت کا یہ عالم ہے کہ سعودی عرب کی ہاں
میں ہاں ملاتا ہے۔ اسلامی ممالک کی فوج کا کمانڈر پاکستان کے کامیاب ترین
جرنیل راحیل شریف کو مقرر کرکے عالم اسلام کے خلاف ہذیان بکنے والے نئے
امریکی صدر کو سعودی عرب میں دعوت دی اور ایسا پروٹوکول دیا جیسا مفتوح
علاقے کی عوام فاتح بادشاہ کو دیتے ہیں۔ پاکستان بھی اِس ا مریکی دورے کے
دوران ہونے والے سربراہی اجلاس میں شریک ہوا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ
وہ ہتک آمیز سلوک کیا گیا کہ خدا کی پناہ ایسا لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی
پاکستان ہے جو سعودی عرب کی حفاظت کے غم میں مرئے جارہا تھا۔ پاکستانی وفد
کے ساتھ وزیر اعظم کی شرکت کو سرئے سے نظر انداز کردیا گیا ۔ پاکستانی وزیر
اعظم کو حتیٰ کے خطاب کی دعوت نہ ملی۔ یوں ہمارئے وزیراعظم اپنا سا مُنہ لے
کر رہ گئے۔ اسلامی سربراہی اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کو
کھلے الفاظ میں دھمکی دی گئی اور ٹرمپ نے کہا کہ ایران خود کو درست کرلے
ورنہ اُسے مزہ چکھائیں گئے۔ گویا امریکی صدر کے دورئے کے دوران ایک حقیت تو
آشکار ہوگئی کہ اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد کس کے خلاف بنایا گیا ہے اور کس
کی اِس کو سرپرستی حاصل ہے تو صاحبو صاف ظاہر ہے ایران کے خلاف اور امریکہ
کی سرپرستی میں۔ اب رہا سعودی عرب کا پاکستانی خارجہ پالیسی کے حوالے سے
کردار تو جناب سعودی عرب کی مودی حکومت سے پیار کی پینگوں کا عالم یہ ہے کہ
مودی کو بھارت کی جانب سے سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا
گیاہے۔ایران کے ساتھ بھارت کی محبت کا علم یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف دہشت
گردی کے نیٹ ورک ایران سے آپریٹ ہوتا رہا ہے۔ توجناب ہمارا مکہ اور مدینہ
سعودی عرب میں ہے اِس لیے ہماری عقیدتیں اُس طرح ہیں لیکن سعودی عرب اور
ایران پاکستان کے دُشمن بھارت کے ساتھ باہمی شیر وشکر ہیں۔ اِس لیے ہمیں
اپنی خارجہ پالیسی کے مرکزی ستون کشمیر کی آزادی کے معاملے میں اِن دونوں
ممالک کی بھارت کے ساتھ گاڑی دوستی ہے۔ یہ درست ہے کہ متذکرہ بالا دونوں
ممالک کی اپنی پالیساں بھی ہیں لیکن ہم کیوں پھر صرف اکیلے سعودی عرب کے
لیے ہلکان ہو جارہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ایرانی چیف آف آرمی کابیان جس میں
موصوف نے پاکستان کو دھمکی دی اور پھر چند دن بعد پاکستانی علاقے میں
فائرنگ کرکے ایک فوجی شہید بھی کردیا گیا۔ سعودی عرب نے کھربوں روپے کی
خریداری جو کہ اسلحے کے لیے ہے وہ امریکہ سے خریدنے کے معائدئے کیے ہیں۔
پاکستان کو اُمت مسلمہ کا جو درد زبانی کلامی کھائے جارہا ہے اُس کا
شاخسانہ ہمارئے سامنے ہے کہ ایران، افغانستان، بنگلہ دیش ، خلیجی ممالک،
سعودی عرب اِن تمام مسلمان ممالک کے بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ۔ایک
ہم ہیں کہ ہمیں ہر طرف سے سنگ باریوں کا سامنا ہے ۔ موجودہ حالات میں ہماری
ترجیح ہونی چاہیے کہ ہم ایران افغانستان بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو معمول
کی صورتحال پر لائیں اور اپنی خارجہ پالیسی کا مرکز و محور چین اور ترکی کو
بنائیں۔ایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے پاکستان کے اندر بھی بہت
سے مسائل پیدا ہوجا تے ہے۔فرقہ و رانہ معاملے پر بھی ایران اور سعودی عرب
کا پاکستان کے اندرنی حالات خراب کرنے میں بھر پور کردار ہے۔امریکی پالیسوں
کا ہمیشہ سے یہ انداز رہا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح بھی خودمختار نہ ہونے
دیا جائے۔ امریکہ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو علمبردار ہے اِس لیے اُس نے
اپنی معیشت کی مضبوطی کی خاطر، مصر عراق، افغانستان،لیبیاء شام میں لاکھوں
انسانوں کا قتل کرایا ہے لیکن اُس کی ہوس ہے کہ پورا ہونے کا نام ہی نہیں
لے رہی۔پاکستان کو استعمال کرکے امریکہ نے روس کا دھڑن تختہ کردیا تھا لیکن
آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ پاکستان اب امریکہ کا حاشیہ بردار نہیں رہا
بلکہ پاکستان نے ترکی اور چین کے ساتھ زبردست معاشی معاملات طے کیے ہیں۔
چین چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کامخالف ہے اور عالمی معیشت میں اِس کا کردار
سوشلز م کی بنیا دپر رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین نے اپنی معاشی
اور سماجی نظام کو سوشلزم کے دائرئے کے اندر رہتے ہوئے اصِ طرح ڈھالا ہے کہ
اُس کا رویہ تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ ہے۔ پاکستان چونکہ چین کا ہمسایہ
ہے اور بھارت پاکستان کا دُشمن ہے اور بھارت امریکہ دوستی کے چرچے ہیں اِن
حالات میں اگر چین نے پاکستان میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور
چین گوادر پورٹ کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے تو پھر چین پاکستان کے تحفظ کی
خاطر کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ بھارت کا چین کے ساتھ ہمیشہ سے سرد ماحول
رہا ہے۔ چونکہ چین اور بھارت دونوں آبادی کے لحاظ سے بہت بڑئے ممالک ہیں
اور افرادی قوت کی بہتات نے اِن کو معاشی طور پر مستحکم کر رکھا ہے۔ بھارت
ہر معاملے میں پاکستان کا دُشمن ہے اور بھارت نے بنگلہ دیش، افغانستان اور
اب ایران کو بھی اپنے ساتھ ہاں میں ہاں ملانے کے لیے رکھا ہوا ہے۔روس جو
بندرگاہ تاریخ کی بدترین لڑائی لڑنے کے باوجود حاصل نہ کرسکا وہ سب کچھ چین
کو پاکستان نے محبت خلوص پیار سے پیش کردیا ہے۔ اِس لیے اب پاکستان کی
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پاکستان کے ساتھ ساتھ چین پر بھی آن پڑی ہے۔ اِس
لیے پاکستان کے معاملات خراب کرنے میں بھارت افغانستان اور ایران سے جو مدد
حاصل کر رہا ہے اُس کے لیے اب شائد چین پاکستان کی مدد کرئے گا۔پاکستانی
تشویش کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نے کانگریس کو آگاہ
کیا ہے کہ اسلام آباد افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ پر گہری
تشویش ہے،وہ اپنی مغربی سرحد پر نئی دہلی کے بڑھتے ہوئے جھکاؤسے نمٹنے کے
لیے چین کی مدد طلب کرسکتا ہے۔ افغانستان میں پاکستانی دلچسپی کے حوالے سے
ہونے والا یہ مباحثہ افغان جنگ پر ہونے والی کانگریس کی سماعت کا حصہ تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کے لیے نئی پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے
اور اس حوالے سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی مشاورت پر امریکی میڈیا اور تھنک
ٹینکس کی خاص نظر ہے۔ امریکی کانگریس کے رکن ایڈم کنزنگر نے مشورہ دیا تھا
کہ پاکستان میں مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا
جائے جس پر واشنگٹن کے مبصرین کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گرد افغانستان میں
امریکی فوجی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں تو ٹرمپ انتظامیہ اس
مشورے پر عمل کرسکتی ہے۔امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں ہونے والی
حالیہ سماعت کے دوران بھی امریکی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے جنگ سے
متاثرہ افغان سرزمین کی صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کیا تھا، جس کے چند روز
قبل جاری ہونے والے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس بحث کا بیشتر حصہ پاکستان کے
حوالے سے تھا۔سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت درجنوں خفیہ ایجنسیز کی ٹیموں
کی سربراہی کرنے والے نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر ڈین کوٹس کے مطابق پاکستان
بین الاقوامی تنہائی کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے اور بھارت کی بین
الاقوامی اہمیت کے اضافے کے تناظر میں اپنی پوزیشن کو دیکھتا ہے۔ پاکستان
کو بھارت کے بڑھتے ہوئے غیرملکی اثرورسوخ اور امریکا سے مضبوط ہوتے تعلقات
پر بھی تشویش ہے اور اپنی تنہائی سے چھٹکارے کے لیے چین سے رجوع کرسکتا
ہے'۔ڈائریکٹر ڈین کوٹس نے دعوی کیا کہ 'اسلام آباد پاکستان میں موجود
عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خاتمے میں ناکام ہوچکا ہے اور اس ناکامی
کی وجہ سے یہ دہشت گرد گروہ خطے میں امریکی مفاد کے لیے خطرہ ہیں جو بھارت
اور افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی جاری رکھیں گے'۔ڈیفنس انٹیلی جنس
ڈائریکٹر لیفٹننٹ جنرل ونسنٹ اسٹیورٹ کہتے ہیں کہ 'پاکستان، افغانستان کے
بارے میں ویسی ہی خواہش رکھتا ہے جیسی ہم رکھتے ہیں، یعنی پرامن، محفوظ اور
مستحکم افغانستان، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایسا افغانستان چاہتا ہے جہاں
بھارت کا واضح اثرورسوخ موجود نہ ہو'۔لیفٹننٹ جنرل کا کہنا تھا کہ 'پاکستان
تمام چیلنجز کو بھارت کی جانب سے لاحق خدشات کی نظر سے دیکھتا ہے لہذا وہ
دہشت گرد تنظیموں کو اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہے تاکہ اگر افغانستان کا
جھکاؤ بھارت کی جانب بڑھتا ہے تو وہ پاکستانی مفاد کے لیے ناموافق مستحکم
اور محفوظ افغانستان کی حامی نہیں رہیں گے۔ بھارت ہزاروں میل دور بیٹھے
سامراج امریکہ کے ساتھ پیار کی پینگیں ڈال کر پاکستان کو ڈرا دھمکا رہا ہے
لیکن شاید اب بھارت کو عقل آجانی چاہیے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر
چکا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کرنا اب چین کی بھی ضرورت ہے۔پاکستان کو اپنی
خارجہ پالیسی کو اِس طرح ترتیب دینا ہوگا کہ ہم ایران بنگلہ دیش اور
افغانستان کو بھارت کی جھولی سے نکالیں۔ اکیلے صرف سعودی عرب کی خاطر ہم نے
ہمیشہ سب کچھ کیا ہے وہ بھارت ایران اور سعودی عرب دونوں کا بہترین دوست ہے۔
جس وقت مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کا قتل کیا جارہا تھا ۔ مسلمانوں بہنوں
کی عصمت دری کی جارہی تھی عین اُس وقت مودی کو سعودب عرب کا سب سے بڑا سول
ایوارڈ خادم حرمین عطا فرما رہے تھے۔پاکستان خود کو اِس مخمصے سے
نکالے۔پاکستان زندہ آباد پاک فوج زندہ آباد ۔نجف اشرف اور خاک مدینہ کی خاک
ہماری آنکھوں کا سُرمہ ہے۔ |