وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی حکومت
کے قیام کے بعدآزاد کشمیر کے صحافیوں سے ملاقات میں اپنی حکومت کی ترجیحات
میں کشمیر کاز اور گڈ گورنینس کو اولیت دینے کی بات کی تھی،دوبارہ ملاقات
میں اس حوالے سے کی جانے والی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا اور اب تیسری ملاقات
میں انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار بنانے کے حوالے سے
آئینی ترامیم کے لئے وفاقی حکومت سے رابطے تیز کئے گئے ہیں اور اب اس حوالے
سے 'گیند وفاقی حکومت کے کورٹ' میں ہے۔وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر
خان نے آج( جمعہ کو) کشمیر ہائوس اسلام آباد کے ایوان وزیر اعظم میں
صحافیوں سے ملاقات میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں،عوام نے جدوجہد اور
قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے تاہم کشمیریوں کی جدوجہد کو نتیجہ خیز
بنانے کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے،وفاقی حکومت کے ساتھ آزاد کشمیر کے
امور کے حوالے سے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں،صحافیوں اور دانشوروں کو یکجاء
ہو کر کام کرنا چاہئے،آزاد کشمیر میں حکومت کسی کی بھی ہو،آزاد کشمیر کے
امور کے حوالے سے سب کی ایک آواز ہونی چاہئے اوراس حوالے سے متحد ہو کر کام
کرنا چاہئے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے صحافیوں سے مقبوضہ کشمیر کی
موجودہ صورتحال،مسئلہ کشمیر،مسئلہ کشمیر کے حل کے ذرائع،آزاد کشمیر حکومت
کو انتظامی اور مالیاتی امور پر با اختیار کرنے سے متعلق مختلف امور پر
تفصیلی بات چیت اور مشاور ت کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اخبارات و
جرائد میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق زیادہ سے زیادہ خبریں اور کالم ،مضامین
شائع کئے جائیں اور مقبوضہ کشمیرکی صورتحال سے متعلق خبروں کو نمایاں طور
پر شائع کیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے ہمارے بھائیوں کو یہ پیغام جائے کہ
ان کی جدوجہد آزاد ی میں ان کے آزاد کشمیر کے بھائی مکمل طور پر ان کے ساتھ
ہیں۔وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کے وفاقی حکومت سے
متعلق حقوق کے معاملے میں سیاستدانوں،صحافیوں اور دانشوروں کو اپنے اپنے
طور پر بھی متحرک ہوتے ہوئے اپنا کردار ادا کر نا چاہئے اور یہ بہت موثر ہو
سکتا ہے۔اس موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے صحافیوں کی
طرف سے کشمیر کاز اور آزاد کشمیر کے امور سے متعلق کئی اقدامات سے اتفاق
کیا اور اس سلسلے میں صحافیوں کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی
۔وزیراعظم آزاد کشمیر سے ملاقات کرنے والے صحافیوں کے گروپ میں آل کشمیر
نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب،کشمیر جرنلسٹ فورم کے صدر سردار عابد
خورشید،سابق وائس چیئر مین پریس فائونڈیشن امجد چودھری اور دوسرے ریاستی
صحافیوں امتیاز بٹ،شہزاد راٹھور،اعجاز عباسی،خواجہ متین،راجہ کفیل،سردار
عبدالحمید،محی الدین ڈار،ارشد ثانی،ظفر،عمر فاروق،نوید صادق اور راقم(اطہر
مسعود وانی) سے ملاقات کی۔ممبر آزاد کشمیر اسمبلی احمد رضا قادری،ممبر
کشمیر کونسل عبدالخالق وصی کے علاوہ ڈی جی پی ایم آفس ملک ذوالفقار اور
پریس سیکرٹری راجہ وسیم بھی اس موقع پر موجود تھے۔
وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ
جب بھی آزاد کشمیر کے سیاستدان اپنے حقوق کے حوالے سے متحد ہوئے،آزاد کشمیر
کو کچھ حاصل(ایکٹ1970) ہوا لیکن جب وہ انتشار کا شکار ہوئے تو ان پر 1974ء
کا ایکٹ تھونپ دیا گیا۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے ایک سوال کے جواب
میں مہاجرین مقیم پاکستان کی اسمبلی سیٹیوں کے خاتمے کی بات کو
آئینی،قانونی اور اخلاقی دلیل سے مسترد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جو باشندہ
اپنی مرضی سے ریاست چھوڑ کر باہر چلا جائے تو اس کی دو نسلوں کے بعد ان کا
حق ختم ہو جاتا ہے لیکن پاکستان مقیم مہاجرین کو زبردستی اپنے وطن سے نکالا
گیا ہے۔اس موقع پر ممبر آزاد کشمیر اسمبلی احمد رضا قادری نے بتایا کہ ان
کی مقبوضہ کشمیر میں موجود جائیداد اب بھی متروکہ املاک کے کسٹوڈین کے پاس
ہمارے ہی نام سے محفوظ ہے اور ایسی جائیدادوں کا آنے والے کرایہ بھی ہمارے
نام سرکاری طور پر جمع ہو رہا ہے۔اسی حوالے سے تیسری دلیل میں نے یہ پیش کی
کہ مہاجرین مقیم پاکستان کا صرف رائے شماری کے وقت ووٹ ڈالنے کا ہی معاملہ
نہیں ہے بلکہ مہاجرین مقیم پاکستان آزاد کشمیر حکومت کا لازمی جز ہیں،حکومت
کی ہیت اور جز کا آئینی،قانونی اور تحریکی طور پر حصہ ہیں۔
پاکستان میں آئندہ سال عام انتخابات ہوں گے اور یوں آزاد کشمیر حکومت کو با
اختیار بنانے سے متعلق اقدامات کے لئے صرف چند ہی ماہ کا عرصہ باقی ہے۔اس
کے بعد پاکستان میں الیکشن کی تیاریاں شروع ہو جائیں گے اور دیگر کئی اہم
امور کی طرح آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ترامیم کا معاملہ بھی آئندہ
حکومت کی صوابدید بن جائے گا۔اس وقت تک صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان
نواز شریف نے آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار بنانے سے متعلق تمام
مطالبات،سفارشات سے اتفاق کیا ہے اور اس حوالے سے وزیر اعظم آزاد کشمیر
راجہ فاروق حیدر خان وفاقی حکومت سے رابطے تیز کئے ہوئے ہیں۔آزادکشمیر
حکومت کو ششیں کر رہی ہے،تاہم اس حوالے سے عوامی دبائو کے عوامل بھی ناگزیر
ہیں۔حیران کن طور پر انہی دنوں ایک بار پھر آزاد کشمیر میں ایسی باتوں کو
موضوع بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جس سے عوام میں تقسیم اور انتشار کو ہوا مل
سکتی ہے ۔ آزاد کشمیر میں شعور کے نام پر انتشار پیدا کرنے کے بجائے آزاد
کشمیر حکومت کو نا صرف انتظامی اور مالیاتی بلکہ تحریکی حوالے سے بھی با
اختیار بنائے جانے کے بنیادی اہمیت کے حامل معاملے کو موضوع بنانے اور اس
حوالے سے تمام عوامی حلقوں کو متحرک کئے جانے کی ضرورت ہے۔خود حکومت
پاکستان کے مختلف اہم عہدیداروں کی طرف سے آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کشمیر
کے بیس کیمپ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔بیس کیمپ کا مطلب ہے کہ آزاد کشمیر
حکومت تمام ریاست کشمیر کی نمائندہ حکومت ہو تا کہ کشمیریوں کا مقدمہ خود
دنیا کے سامنے بنیادی اورشدید متاثرہ فریق کے طور پر پیش کر سکے۔ہمارا
وفاقی حکومت سے یہی تو مطالبہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کو آزا حکومت ریاست
جموں و کشمیر قرار دیتے یوئے ،اس حکومت کو با اختیار،ذمہ دار اورباوقار
بنانے کے لئے تحریکی،انتظامی اور مالیاتی امور میں اختیارات تفویض کیئے
جائیں۔اس وقت صورتحال یہ درپیش ہے کہ آزاد کشمیر میں کئی دوسرے منفی
رجحانات کے علاوہ اضلاع کے درمیان بھی عناد ،بیزاری اور لاتعلقی واضح طور
پر دیکھنے میں آ رہی ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں شعور کے نام پر
انتشار پیدا کرنے کے داعی کشمیر کونسل کے ذریعے ہونے والی نا انصافیوں کو
موضوع کیوں نہیں بناتے؟آزاد کشمیر حکومت کو نا صرف انتظامی اور مالیاتی
بلکہ تحریکی حوالے سے بھی با اختیار بنائے جانے کے بنیادی اہمیت کے حامل
معاملے کو اپنا ہدف کیوںنہیں بناتے؟ اس رجحان کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں،
وجہ جو بھی ہو ،آزاد خطے کے ریاستی عوام کو اس طرز عمل سے بچانے کی ضرورت
بھی درپیش ہے، اور انہیں آزاد کشمیر حکومت کو آزاد حکومت ریاست جموں و
کشمیر بنانے کے اصولی موقف کے عوامل اور ثمرات سے آگاہ کرنے کی شعوری مہم
از حد ضروری ہے۔ |