عبدالوہاب خاں سلیم: ایک کتاب دوست شخصیت

لائبریری سائنس کی دنیا میں ایک جانا پہچانا نام عبدالوہاب خاں سلیم کا بھی ہے۔ ان کی دل آویز شخصیت ایسی ہی ہے کہ اہل علم و دانش انھیں یاد ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کے ادبی و علمی ذوق کا اظہار کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ ان کے حسن اخلاق کے سبھی گرویدہ ہیں۔

عبدالوہاب خاں سلیم کا آبائی تعلق اتردیس سنبھل مراد آباد سے ہے۔ تاریخ پیدائش ۶فروری ۱۹۳۹ءہے۔ ۱۹۵۱ ء میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ لائبریری سائنس میں ۱۹۷۱ء میں کراچی یونی ورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ اس سے قبل ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے لائبریری سائنس کا سرٹیفکٹ کورس کیا۔ پنجاب یونی ورسٹی میں ملازمت کی۔ ۱۹۷۳ء سے نیویارک میں مستقل قیام ہے۔ ان کی اولاد اعلٰی تعلیم یافتہ اور اعلٰی مناصب پر فائز ہے۔

دیار غیر میں جانے کے بعد بھی انھوں نے وطن عزیز سے رشتہ نہیں توڑا بلکہ اہل علم اور اہل کتاب سے روابط رکھے۔ یہاں میں چنداہل قلم اور باذوق اصحاب کے تاثرات پیش کرنا چاہتی ہوں جن کو پڑھ کر قارئین عبدالوہاب خاں سلیم کی ادبی اور فلاحی شخصیت سے واقف ہو سکیں۔

پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری[امریکہ] : عبدالوہاب خاں سلیم۔۔۔عبدالوہاب صاحب کو سفرنامے، ادبی، سوانحی کتب و رسائل کے مطالعہ کا بڑا شوق ہے۔ انھوں نے ایک بار بتایا کہ ان کے پاس اردو، عربی اور انگریزی کی تقریباپندرہ ہزار کتابیں جمع ہو گئی ہیں۔ ان میں کثیر تعداد حج اور عمرے کے سفر ناموں کی ہے۔ ان میں بعض تو بہت ہی نایاب اور کمیاب نسخے ہیں جو انھوں نے ہندوستان، پاکستان، برطانیہ اور امریکہ کے کتب خانوں سے فوٹو کاپی کروا کر محفوظ کیے ہیں۔ ایسے ہی ادبی اور سوانحی کتب کی بڑی تعداد ہے۔ عبدالوہاب صاحب کا حافظہ ماشاءاللہ غضب کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کو ساری کتابوں کے مندرجات از بر ہیں۔ جب بھی گفتگو ہوتی ہے، مصنفین کے حالات، واقعات، سرگزشت اس طرح سناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ[کراچی]: خدمت خلق کے پیامبر۔۔۔عبدالوہاب خاں سلیم محبت کرنے والے انسان ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں، انسان، مسلمان، پاکستان سے محبت رکھتے ہیں۔ حج و عمرہ کی متعدد سعادتوں نے انھیں انسان دوستی، دکھ درد میں شرکت، مہمان نوازی، رقتِ قلب اور وسعت نظر سے نوازا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے اس لئے بیوائوں، یتیموں، غریبوں، کتب خانہ داروں، مصنفین اور علمی و ادبی اداروں کی سر پرستی فرماتے ہیں۔

کتاب کے رسیا ہیں دنیا بھر سے کتابیں منگواتے ہیں، پڑھتے ہیں اور مختلف کتب خانوں کو ہدیہ کرتے ہیں، زود حس اور زود رنج ہیں لیکن فلاح انسانی کے لئے جو کچھ انھوں نے کیا وہ فقیدالمثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت کے ساتھ زندگی عطا فرمائے کہ وہ خدمت خلق کے پیامبر ہیں۔

ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی[کراچی]:ایک کتاب دوست۔۔۔ عبدالوہاب خاں سلیم اللہ کی وحدانیت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ خوف خدا کے جذبے سے سرشار مذہبی ذہن کے مالک ہیں۔ متعدد عمرے اور حج کرچکے ہیں۔ سنا ہے ہر سال ہی زیارت بیت اللہ کو جاتے ہیں۔

عبدالوہاب خاں سلیم کو اللہ نے فراخ دل اور مدد کرنے والا جذبہ عطا کیا ہے۔ وہ اپنے شناسا احباب کی معاونت کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔لکھاریوں کی دل سے مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے مصنفین کی حوصلہ افزائ کی جس کے باعث ان کی تخلیقات منظر عام پر آسکیں۔ کتابوں کے دیوانے ہیں، اچھی کتاب یا ان کے خصوصی موضوعات پر کوئی کتاب ان کے علم میں آجائے تو وہ کسی نہ کسی طرح حاصل کر ہی لیتے ہیں۔
خود نوشت اور سوانح حیات وہاب صاحب کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ آپ احباب کی سوانح میں دلچسپی رکھتے ہیں، انھیں سوانح لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں تو ان کی سوانح میں دیگر لوگوں کی دلچسپی کا خیال کرتے ہوئے خاں صاحب کواس جانب توجہ دینی چاہیے۔ انھوں نے بے شمار خود نوشت اور سوانح حیات کا مطالعہ بھی کیا ہے، ان کے لئے یقینا یہ کام مشکل نہ ہوگا۔

سید جمیل احمد رضوی[لاہور]: عبد الوہاب خاں سلیم[چند یادیں اور تاثرات]۔۔۔ جب میں ماضی کے آئینے میں جھانکتا ہوں تو مجھے بہت سے مناظر نظر آتے ہیں۔ اپنی سروس کے حوالے سے یاد پڑتا ہے کہ میں نے جولائی ۱۹۶۳ء میں پنجاب یونی ورسٹی لائبریری میں سروس اختیار کی۔ عبدالوہاب خاں سلیم صاحب نے اسی ادارے میں ۱۹۶۰ء میں ملازمت کا آغاز کیا۔ وہ ۱۹۷۳ء میں امریکہ چلے گئے۔اگر چہ وہ امریکہ چلے گئے لیکن انھوں نے مسلسل احباب سے بذریعہ خط وکتابت رابطہ رکھا۔ ایک زمانے میں وہ برق رفتاری کے ساتھ خطوط لکھا کرتے تھے اور اس کو اپنا مشغلہ سمجھتے تھے۔ اتنے مصروف معاشرے میں رہ کر مسلسل بذریعہ خطوط رابطہ رکھنے کا سہرا خاں صاحب کے سر ہے۔اب وہ عالم پیری میں ہیں اور ان کے رابطہ کا انداز بدل گیا ہے۔ اب وہ فون کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کی گفتگو اتنی طویل ہوتی ہے کہ اس کو گھنٹوں کے پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔ جب گفتگو کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب میں بھی تھک گیا ہوں اور آپ بھی آرام کریں۔پھر بات ہوگی۔

خاں صاحب نہ صرف اپنے پروفیشنل رفقائے کار کو یاد کرتے ہیں، بلکہ اس دور کے لائبریری میں کام کرنے والے اٹنڈنٹس کا ذکر بھی اکثر کرتے ہیں ۔ ان کے بچوں کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں کہ وہ کہاں ہوتے ہیں، کیا کام کرتے ہیں اگر وہ زیر دست ہوں تو ان کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں۔

میں نے خاں صاحب کے متعلق اپنی تالیف "عبدالوہاب خاں سلیم[پیکرجودوعطا]" میں لکھا ہے کہ وہ کتابوں بالخصوص سفرناموں کے حصول میں نہایت بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ شب بیداری کرتے ہیں۔ ان کی اس کیفیت کو ' کبھی سوزوسازرومی' اور کبھی ' پیچ و تاب رازی' کے مستعار الفاظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس حوالےسے اپنے خط کا جواب نہ ملنے کی صورت میں گلہ و شکوہ کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ گلہ و شکوہ اپنے احباب سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی سے رکھے۔

پروفیسر ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر[کراچی]:برادر بزرگ۔۔۔ میرے اور وہاب صاحب کےدرمیان قدر مشترک کتاب داری ہے۔انھیں کتابیں خریدنے، پڑھنے اور جمع کرنے کا ذوق ہی نہیں جنون بھی ہے۔ ان کے کتب خانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اسفار و عمرہ کا یہ سب سے بڑا ذاتی ذخیرہ کتب ہے۔کتابوں کے علاوہ بر صغیر پاک و ہند کے علمی و ادبی رسائل و جرائد کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ کتابیں علی گڑھ یونی ورسٹی کی لائبریری کو عطیہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

جب میں شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کی صدرشعبہ بنی تو انھوں نے مبارک باد کا خط لکھا اور پھر فون پر بات کی اور یہ پیش کش کی کہ اس موقع پر شعبہ کی لائبریری میں ایک گوشہ قائم کرنا چاہتا ہوں۔ جس میں میری طرف سے عطیہ کردہ کتب رکھی جائیں لہذا ۲۰۰۲ء میں شعبہ میں 'گوشہ عبدالوہاب خاں سلیم" قائم کیا گیا، اس میں اب تک دو ہزار سے زائد کتب جمع ہوچکی ہیں، جن میں ہندوستان سے منگوائی گئی کتب بھی شامل ہیں اور اس ذخیرہ میں مسلسل وہاب صاحب کی طرف سے اضافہ ہورہا ہے۔

شعبہ اسلامی تاریخ کے طلبا و طالبات کے لئے وظائف کا اجرا بھی انھی کی طرف سے تھا۔ انھوں نے اس خواہش کا بھی اظہار کیاکہ میرے دور صدارت میں وہ ذہین مگر ضرورت مند طلبا و طالبات کو وظائف دینا چاہتے ہیں لہذا میرے دور صدارت کے سات سالوں تک یہ سلسلہ جاری رہا جس سے متعدد طلبا و طالبات فیض یاب ہوئے۔

وقار مانوی[دہلی]:اظہار عقیدت۔۔۔ محترم عبدالوہاب خاں سلیم کے ادبی ذوق مطالعہ کا یہ عالم ہے کہ اردو کے بہت سے رسائل مثلا ماہنامہ آجکل، اردو دنیا، کتاب نما، سہ ماہی اردو ادب، سہ ماہی اردو بک ریویو، ہفت روزہ ہماری زبان نئی دہلی، ماہنامہ شاعر بمبئی، ماہنامہ انشاء کلکتہ، سہ ماہی خدا بخش لائبریری کا جرنل پٹنہ وغیرہ سب یہاں سے ان کے لئےمستقل طور پر بھیجے جاتے ہیں۔ وہاب صاحب کی خوبی یہ ہے کہ کتابوں کی طلب کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ اپنی فرمائشوں کی تعمیل پر وہ شکر گزاری کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔
وہاب صاحب کی فیاضی، ادب نوازی، غرباء پروری اور ان کے فلاحی کاموں کو دیکھتے ہوئے مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ روانگی سے قبل ہمارے وہاب صاحب نے اپنے دوست ڈاکڑ سلیم اختر سے جو کہا تھا کہ "بھائی سلیم ، اگرچہ میں پیسہ کمانے جارہاہوں اور اس کے لیے سب کچھ کر گزروں گا مگر پیسے کے علاوہ بھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہوں" وہ گھڑی یقینا قبولیت کی گھڑی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی پکار سنی اور ان کا کہا پورا کیا۔ اب الحمدللہ وہ بامراد ہیں۔ باری تعالیٰ نے انھیں دونوں جہاں کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ سب سے بڑی دولت ہر دلعزیزی ہے اور بے شمار بندگان خدا کا ان کے اور ان کے اہل خانہ کے لیے مصروف دعا رہنا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں پروان چڑھنے والے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت اور ملی تہذیب سے غافل نہیں رہنے دیا۔ والدین کے لیے یہ فخر کی بات ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں طبعاً بہت ہی سادہ مزاج تھا مجھے اس دنیا کو اگر کچھ سمجھنے کا موقع ملا ہے تو وہ بھی محترم عبدالوہاب خاں سلیم صاحب کی بدولت اور میں نے خود اس کا اظہار بھی موصوف سے بارہا کیاہے۔ مجھے اس ضمن میں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

سیدمعراج جامی[کراچی]: درد دل کے واسطے پیدا کیا وہاب کو۔۔۔ وہاب صاحب کی طبیعت، عادات، فطرت اور مزاج سے بہت زیادہ واقف ہوگیا ہوں اور اب میں یہ باتیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ:
وہاب صاحب ایک درد مند دل رکھتے ہیں۔
وہاب صاحب نے ایک طویل مدت تک کمایا مگر اسے اپنے پاس جمع نہیں رکھا۔
وہاب صاحب میں وضع داری بہت زیادہ ہے۔
وہاب صاحب میں قطعی کوئی گھمنڈ، غرور اور بڑاپن نہیں ہے۔

وہاب صاحب کی سوچ مثبت، قلب گداز، ذہن کشادہ، عمل صالح اور زبان نیک ہے اگر ان میں دولت کمانے کی طلب تھی تو یہ تمنا بھی تھی کہ کمائی ہوئے دولت کو اپنے پاس جمع نہیں کرنا، اس میں بنی نوع انسانوں کا بھی حق ہے اور اس حق کی ادائیگی بھی فراخ دلی سے کرنی ہے تنگ دلی سے نہیں۔

وہاب صاحب نے اپنی اسی ثروت مندی سے نیویارک جیسے شہر میں ایک نجی لائبریری اپنے گھر میں قائم کر لی ہے ۔ ان کی بیگم ایک دیندار اور نیک خاتون ہیں۔ ان کی نیکی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ ہزاروں کتابیں بھی برداشت کررہی ہیں مگر اُف تک نہیں کرتی ہیں۔

وہاب صاحب میں جو خامی یا کمی ہے وہ ان کی طبیعت کا فطری پن ہے مثلاً اپنی پسند کی چیز کو حاصل کرنے کے لیے پاک و ہند کے دوستوں کو کہیں گے تو اس انداز سے کہ ان کا یہ کام فوراً ہوجائے، یعنی کوئی کتاب چاہیے تو ان کے فون کے رکھنے کے بعد وہ شخص کتاب حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہو، کتاب حاصل کرے اور فوراً ہوائی ڈاک سے بذریعہ رجسٹر انھیں پوسٹ کردے۔ حسن اتفاق سے کوئی کتاب دو روز میں حاصل کرکے بھیج بھی دی اور وہ انھیں اگلے دو روز تک نہیں ملے گی تو بے چینی کے اتنے فون آئیں گے کہ بھیجنے والا افسوس کرے گا کہ میں نے ناحق ہوائی ڈاک سے کتاب بھیجی، خود جا کردے آتا تو صرف ایک دن ہی لگتا۔

تاہم اس پہلو کے باوجود وہاب صاحب خلق خدا کے لیے سائبان ہیں۔ ان کی کشادگی، خلوص اور دوستی کی روشنی میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک انسان ہونے کا اعزاز اور اشرف المخلوقات ہونے کا حق ادا کررہے ہیں۔

تصور حسین جنجوعہ[نیویارک]: ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔۔۔عبدالوہاب خاں سلیم سے مل کر واقعی جی خوش ہوتا ہے۔ خان صاحب کا جیسا نام ہے، ویسا ہی ان کا کام ہے۔ان کی جس عادت نے مجھے بطور خاص متاثر کیاہے وہ ان کا کسی پر بوجھ نہ بننا ہے۔ اگر کبھی میں نے معمولی سے معمولی چیز کے دام ادا کرنے کی کوشش کی تو فوراً انھوں نے یہ فرماتے ہوئے روک دیا کہ بھئی میں ریٹائرڈ آدمی ہوں۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ تمہارا پیسا تمہارے بچوں کے لیے ہے۔

عبدالوہاب خاں سلیم ادب دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ادب پروری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔خان صاحب سطحی طور پر کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ کتاب میں گم ہوجاتے ہیں۔ عام لوگ تو صرف کتاب کا مطالعہ کرنے تک محدود رہتے ہیں مگر آپ مصنف کی شخصیت کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔ انھیں متعدد اہل قلم کی زندگیوں کے بہت سے واقعات معلوم ہیں۔

عبدالوہاب خاں صحیح معنوں میں سلیم الفطرت اور سلیم القلب انسان ہیں۔ ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی میل، حسد، کدورت یا بغض نہیں۔ان کی زبان سے کبھی کسی کا گلہ یا شکایت سننے میں نہیں آئی۔ "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے" کی عملی تفسیر ہیں۔ ہاں انھیں دنیا کے دگرگوں حالات کا شاکی ضرور دیکھا ہے۔ وہ دنیا میں برپا شر اور فساد پر ماتم کناں نظر آتے ہیں۔ اگر دوسروں کے لیے جینے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو اس مقصد کے لیےان کی زندگی بہترین استاد کا کام دے سکتی ہے۔

عبدالوہاب خاں سلیم ایک ملنسار اور سماجی انسان واقع ہوئے ہیں۔ لوگوں سے بہت جلد، بلکہ پہلی ہی ملاقات میں بے تکلف ہوجاتے ہیں مگر کیا مجال کہ اس بے تکلفی میں ناشائستگی کا شائبہ تک ہو۔ ان کی گفتگو بےحد مہذب اور باوقار ہوتی ہے۔ وہ کوئی مذہبی شخصیت نہیں۔ وہ خود بھی اپنے عالم دین یا مفتی ہونے کے دعوے دار نہیں مگر میں انھیں خدا رسیدا انسان سمجھتا ہوں کہ وہ احترام آدمیت کے قائل ہیں اور آدمی کا مقام ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں اور آدمیت کا احترام خدا تک رسائی کا پہلا زینہ ہے۔

میری [نسرین شگفتہ کی] عبدالوہاب خاںسلیم صاحب سے ملاقات نہیں ہوئی،فون پر ہی گفتگو رہتی ہے۔میں گذشتہ پانچ برسوں سے شناسا ہوں۔مجھے اپنی چھوٹی بہن کا درجہ دیتے ہیں۔ اپنے پورے کنبہ سے میرا تعارف کروایا ہے۔میرے بچوں اور بچوں کے بچوں کی خیریت پوچھتے رہتے ہیں۔سب کے نام اور عمریں یاد ہیں۔

کراچی میں عبدالوہاب صاحب کی طرف سے کوئی پروگرام یا دعوت ہوتی ہے تو اس کے اہتمام کی ذمہ داری میری ہوتی ہے۔ پروگرام کے بعد اس کی تفصیلات اور تصاویر بنا کر ایمیل کر دیتی ہوں تو فوراً ہی فون کرکے خوشی کا اظہار اورشکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کراچی سے اپنی پسند کی کتابیں اور رسائل منگوانے کے لئے مجھ سے بھی رابطہ کرتے ہیں۔

آپ بہت شفیق انسان ہیں اس کے علاوہ خدا ترس بھی ہیں ، غریبوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کریڈل ویلفئیر اورگنائزیشن کی طرف سےجب ہم نے غریب اور ذہین بچوں کی تعلیم کے لیے اسکالر شپ کا پروگرام شروع کیا تو بچوں کے لیے اسکالر شپ ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری نے عبدالوہاب خاں سلیم کی طرف سے عنایت کی۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور صحت کاملہ کے ساتھ زندگی عطا فرمائے۔آمین۔