کراچی میں بجلی کے بحران نے جو خوف ناک صورت اختیار کر لی
ہے اسے دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی سازش کے تحت ایسا کیا جارہا
ہے۔ رمضان المبارک سے قبل بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک خاص شیڈول کے مطابق ہورہی
تھی۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جو بقول ’کے الیکٹرک‘ بجلی چوری کے علاقوں
میں نہیں آتے۔ جو علاقے ’کے الیکٹرک‘ کی اس فہرست میں ہیں جہاں پر ان کے
بقول بجلی چوری ہوتی ہے ، ناجائز کنڈے لگے ہوئے ہیں ان علاقوں میں تو لوڈ
شیڈنگ کا کوئی شیڈول ہی نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے لیکن وہ علاقے جو ’کے
الیکٹرک‘ کی اس فہرست میں نہیں آتے چوبیس گھنٹوں میں ایک ایک گھنٹے کے لیے
تین سے چار بار لوڈ شیڈنگ ہورہی تھے۔ لوگ اس کے عادی ہوگئے تھے ۔ یہ بڑی حد
تک مناسب اس لیے تھا کہ ہر چھ یا سات گھنٹے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی کا
چلے جانا برداشت ہورہا تھا، جنریٹر اور یو پی ایس بھی اس مشقت کو برداشت کر
لیا کرتے تھے۔اب ان علاقوں میں رمضان شروع ہوتے ہی دو سے ڈھائی بلکہ اس سے
بھی زیادہ وقت کے لیے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، عین افطار اور سحری کے وقت بجلی
کا آنکھ مچولی سے مکینوں کی مشکلات حد سے زیادہ ہوگئیں ہیں اس لیے کہ یوپی
ایس اور جنریٹر بھی اتنا طویل وقت لوڈ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ رمضان
المبارک کے آغاز پر وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا یہ بیان کہ’ سحری اور
افطار میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی‘، یہ بیان پڑھ کر تسلی ہوئی تھی،
خوشی بھی کہ چلو کم از کم سحری اور افطار میں تو بجلی موجود ہوگی لیکن ایسا
لگتا ہے کہ خواجہ آصف کے اس بیان سے کراچی کی بجلی کوایسی ضد ہوئی کہ اس نے
فیصلہ کر لیا کہ اب جب تک رمضان ہیں اس نے سحری اور افطاری کے وقت ہی چلے
جانا ہے ۔ تاکہ کراچی کے عوام کو معلوم ہوجائے کہ نون لیگ اور مرکزی حکومت
کراچی سے کس قدر محبت رکھتی ہے۔ حکومت سندھ ’کے الیکٹرک ‘ کے ہاتھوں مصیبت
میں گرفتار کراچی کے عوام کے ساتھ احتجاج میں بھی شریک ہے۔ اس لیے کہ اسے
معلوم ہے کہ یہ سب کچھ مرکزی حکومت کے کھاتے میں جارہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق کراچی میں بجلی کے بحران کی تحقیقات
کاآغاز ہوچکا ہے۔ معلوم کیا جائے گا کہ ’کے الیکٹرک‘ نے سرمایہ کاری کی
شرائط پوری کیں یا نہیں، لوڈ شیڈنگ کی وجہ بجلی کی پیداوار ہے یا ٹرانسمیشن
واقعی کوئی فنی خرابی ۔ نیپرا کی ٹیم نے گزشتہ دنوں ’کے الیکٹرک ‘ کے
افسران سے ملاقات کر کے حقائق جاننے کی کوشش کی، ٹیم نے بن قاسم پاور پلانٹ
سمیت دیگر تنصیبات کا دورہ بھی کیا۔تحقیقاتی ٹیم کراچی میں بجلی کے بحران
اور روز روز ہونیوالے بریک ڈاؤنز کے بارے میں ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔ جب
سے موجودہ انتظامیہ نے ’کے الیکٹرک ‘ کمپنی کو خریدا ہے کراچی میں بجلی کی
فراہمی کے معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ماہرین معاشیات تو بڑے
صنعتی اور پیداواری اداروں کو سرکاری سرپرستی کے بجائے پرائیویٹ کرنے کو
بہتری کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پاکستان اسٹیل مل، پی
آئی اے، ریلوے ، واپڈاجیسے بڑے اداروں کو پرائیواٹائز کرنے کی کوشش میں ہے۔
’کے الیکٹرک ‘ جو سرکاری سرپرستی میں عرصہ دراز تک کام کرتی رہی ہے ، اس کی
کارکردگی میں بہتری لانے اور عوام کو بجلی کی زیادہ بہتر سہولتیں فراہم
کرنے کی غرض سے اسے فروخت کر دیا گیا تھا لیکن زمینی حقائق بتا تے ہیں کہ
یہ تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ ’کے الیکٹرک ‘ کی کارکردگی نجی ملکیت میں
آنے سے پہلے سے زیادہ خراب ہوگئی۔ماضی میں نیپرا کی جانب سے ’کے الیکٹرک ‘
پر جرمانہ کیا جاچکا ہے۔ جرمانے کی رقم ادا کردینا ’کے الیکٹرکے لیے کوئی
بڑی بات نہیں۔ اس کی مالکان نے وہ رقم اپنی جیب سے ادا نہیں کرنی بلکہ عوام
کی جیبوں سے ناجائز طور پر حاصل کی ہوئی رقم سے ادا کردی جائے گی۔ اگر اس
بار بھی تحقیقاتی ٹیم نے ’کے الیکٹرک ‘ پر جرمانے کی سزا تجویز کی تو اس سے
کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ادارے کی کارکردگی کا ہر پہلو
سے جائزہ لے اور اس ادارے نے کراچی کے شہریوں کو کس قدر لوٹا ہے، اسے کتنا
منافع حاصل ہوا ، اس نے بجلی کی پیدا وار کے لیے کون کون سے نئے پاور پلانٹ
لگائے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں جب بھی بریک ڈاؤأن ہوتا ہے بن قاسم کے
پاور پلانٹ میں خرابی کے باعث ہی ہوتا ہے۔ اس بات میں بھی بڑی حد تک صداقت
ہے کہ بن قاسم پاور پلانٹ کو ’کے الیکٹرک ‘ مکمل استعداد کے ساتھ نہیں
چلاتی جس کے باعث بریک ڈاؤن ہوجاتا ہے ۔ میں اس سے قبل بھی ’کے الیکٹرک ‘
کی کارکردگی کے حوالے سے بعنوان ’’کے الیکٹرک ‘ ایک متمرد ادارہ: اصلاح کی
ضرورت ہے‘‘ لکھ چکاہوں جو روزنامہ آزاد ریاست کی اشاعت 15اپریل کو شائع
ہواتھا ۔ رمضان میں خاص طور پر سحری اور افطار کے وقت بجلی کی آنکھ مچولی
انتہائی تکلیف دے اور پریشان کن ہے۔ پیمرا کی تحقیقات غیر جانبدارانہ ہو
بھی گیں اوریقیناًاس میں ’کے الیکٹرک ‘ کی کوتاہیوں کی طویل فہرست کا سامنے
آجانا بڑی بات نہیں ہوگا اس لیے کہ ’کے الیکٹرک ‘ کی کارکردگی کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں ، سب پر عیاں ہے۔ پیمرا کی ٹیم ’کے الیکٹرک ‘ پرجرمانہ کی سزا ہی
تجویز کرے گی ۔ جیسا کہا گیا کہ ’کے الیکٹرک ‘ کے لیے جرمانہ ادا کردینا
کوئی مشکل نہیں وہ جرمانے کی رقم خوشی خوشی اداکردے گی۔ اس لیے کہ ناجزئز
طور پر زیادہ بلنگ کر کے یہ ادارہ کراچی کے شہریوں کو بری طرح لوٹ رہا ہے۔
میٹر جل جائے یا خراب ہوجائے تو اسے بدلنے میں مہینوں لگا دیتی ہے اوراس
دوران ہر ماہ کئی گنا بل وصول کیا جاتا ہے۔ بجلی کا کوئی فالٹ ہوجائے تو
ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے ، صارفین کو صرف یہ سننے کو ملتا ہے کہ
تمام آپریٹر مصروف ہیں۔ یقیناًوہ مصروف ہوتے ہیں گفت وشنید میں، کھانے اور
پینے میں، ہنسی اور مزاق میں، خوش گپیوں میں، اگر قسمت سے کسی نے فون ریسیو
کربھی لیا اور کمپلین نمبر مل بھی گیا تو رات رات بھر انتظار میں گزرجاتا
ہے متعلقہ اہل کار آکر نہیں دیتے۔ کنڈے لگانا قانوناً جرم ہے۔ ان ناجائز
کنڈوں کو عوام تو اپنی جان کا رسک لے کر نہیں اتاریں گے۔ یہ کام تو’کے
الیکٹرک ‘ کے اہل کاروں کا ہے کہ وہ ناجائز کنڈے اتاریں ۔ کیا ان کے علم
میں نہیں کہ کہا ں کہاں کنڈے لگے ہیں، انہیں سب علم ہوتا ہے ۔ ایک بات جو
گزشتہ دنوں دیکھنے میں آئی کہ پولیس اسٹیشنز جو اکثر کنڈے کی بجلی پر چل
رہے تھے ’کے الیکٹرک ‘ نے انہیں میٹر لگا دیے۔ یہ اچھی بات ہوئی ۔ پولیس
اسٹیشن کے لیے بجلی کا بل ادا کرنا کوئی مشکل بات نہیں ، وہ بھی یہ بوجھ
غریب عوام پر ڈال دیں گے۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے کہ ’کے الیکٹرک ‘ نے از خود
انہیں میٹرلگادیے۔ اسی طرح ہمارے ہاں کئی قسم کے ادارے ایسے ہیں جو کنڈے پر
اعلانیہ چل رہے ہیں۔ ان میں بعض مساجد بھی شامل ہیں۔ بنیادی بات تو یہ ہے
کی کیا کنڈے کی بجلی سے نمازیوں کی نماز ہوجائے گی؟ یہاں مجبوری آجاتی ہے۔
’کے الیکٹرک ‘ کو چاہیے کہ مساجد جو کنڈے پر چل رہی ہیں وہاں بھی میٹر
لگادے۔ تاکہ نمازیوں کی نماز تو جائز ہوجائے۔ ایک مسجد میں جب یہ مسئلہ در
پیش ہوا تو انتظامیہ نے ’کے الیکٹرک ‘ سے رابطہ کیا اور کہا کہ مسجد میں
میٹر لگادیا جائے ۔’کے الیکٹرک ‘ کا جواب تھا کہ مسجد کی انتظامیہ میں سے
کوئی بھی نمازی میٹر اپنے نام سے لگوالے۔ یہ کیا منطق اور کون سا قانون ہے۔
پولیس اسٹیشن میں جو میٹر لگائے گئے کیا ایس ایچ او کے نام پر لگائے گئے
ہیں۔ یقیناًنہیں تو پھر مسجد میں میٹر کسی شخص کے نام پر لگانے کی کیا منطق
ہے۔یہ سمجھ سے بالا ہے۔ کچھ عرصہ بعد وہ شخص جس کے نام پر میٹر لگایا گیا
وہ کسی اور محلے میں چلا جاتا ہے انتظامیہ بدل جاتی ہے ، بل ادا نہیں ہوتا
، کون ذمہ دار ہوگا۔ ’کے الیکٹرک ‘ تو بجلی منقطع کردے گی۔ اس قسم کے
معاملات کی جانب بھی ’کے الیکٹرک ‘ کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ۔ امید ہے
’کے الیکٹرک ‘ ہوش کے ناخون لے گی۔ اگر اس نے اپنا رویہ نہ بدلہ تو اہل
کراچی نے جس طرح فروٹ فروشوں کو اپنے باہمی اتحاد سے کڑی سزا دی ہے ، ’کے
الیکٹرک ‘ کے ساتھ بھی اسی قسم کا رویہ اختیار کر کے اسے کڑی سزا دیں گے۔
|