مفت بجلی مانگنے والوں کو کون سمجھا ئے گا ؟

نماز فجر کی ادائیگی کے بعد میں گھر کی جانب آرہاتھا تو میرے ساتھ لیسکو اتھارٹی کاایک پرانا ملازم بھی تھا۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ پشاور اور خیبر پختوانخواہ میں بجلی کی اتنی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے ۔یہ تو سراسر زیادتی ہے ۔ اس نے جواب دیا ۔آپ کو اصل صورت حال کا علم نہیں ہے ۔ میں نے کہا وہ کیسے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف خیبرپختونخواہ کاہی مسئلہ نہیں۔ کراچی ٗاندرون سندھ ٗ بلوچستان کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ لوگ بجلی تو بلا تعطل مانگتے ہیں لیکن کوئی بل دینے کو تیار نہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایک جگہ کیسکو کاایک اہلکا ر بل کی مسلسل عدم ادائیگی کی بناپر کنکشن کاٹنے کھمبے پر چڑھا تو نیچے کھڑے ہوئے بااثر افراد نے مٹی کا تیل چھڑک کرآگ لگا دی اور وہ بیچارہ کھمبے کے اوپر ہی آگ میں جل کر راکھ ہوگیا ۔ خیبر پختوانخواہ میں واپڈا کے دفاتر اوربجلی کے گرڈ اسٹیشنوں سمیت لیویز کے تھانوں کو آگ لگاکر راکھ بنا دیاگیا ۔اس بپھرے ہوئے ہجوم میں ایم پی اے اور ایم این اے بھی شامل تھے ۔ صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوج طلب کرلی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا خیبر پختوانخواہ میں گاؤں کے گاؤں مفت بجلی استعمال کرتے ہیں اگر پیسکو اتھارٹی کا کوئی اہلکار عدم ادائیگی کی وجہ سے کنکشن کاٹنے جاتا ہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ 18 روپے فی یونٹ خرید کرکیسے مفت بجلی دی جا سکتی ہے ۔پشاور میں بھی آدھے سے زیادہ لوگ یہ کہتے ہوئے بجلی کے بل ادانہیں کرتے کہ یہ بجلی ہمارے تربیلا ڈیم سے بنی ہے ۔تربیلا ڈیم چونکہ ہمارے صوبے میں آتا ہے اس لیے ہم سے بجلی کے بل کیوں دیں۔یہ سوچ وہاں کے شہری سے لے کر وزیر تک کی ہے ۔اب ان کو کون سمجھائے کہ بجلی بنانے اور صارفین تک پہنچانے کے لیے کھربوں خرچ ہو تے ہیں اگر بل ادا نہیں ہوں گے تو وہ کہاں سے آئیں گے ۔ یہی حال خیبر پختوانخواہ ٗ بلوچستان ٗ کراچی اور اندرون سندھ کا ہے ۔بجلی کے بل صرف پنجاب کے لوگ ہی ادا کرتے ہیں ۔با قی صوبوں میں بجلی کے بل دینے والوں کی شرح صرف دس سے پندرہ فیصدہے ۔ آپ نے سنا ہوگا کہ حکومت بجلی پیدا کرنے والے پاور پروجیکٹ کو چار پانچ سو ارب روپے سالانہ قومی خزانے سے جو ادا کرتی ہے وہ انہی مفت خوروں کی استعمال شدہ بجلی کی قیمت ہوتی ہے ۔ بجلی فرنس آئل سے بنے یا ڈیموں کے پانی سے ۔ بجلی بنانے اور اسے صارفین تک پہنچانے کے لیے لاکھوں ملازمین کی خدمات کے علاوہ انتہائی قیمتی نٹ ورک بھی شامل ہوتا ہے ۔ یہ نٹ ورک اور تنصیبات مفت تعمیر نہیں ہوتے ۔ایک گریڈ اسٹیشن قائم کرنے پر چار ارب روپے لگ جاتے ہیں ۔ جبکہ بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کی تعدادلاکھوں بتائی جاتی ہے ۔ کیا وہ تنخواہ نہیں لیتے ۔ اپنی جان کو خطروں میں ڈال کر وہ بجلی کو پاورپروجیکٹ سے صارفین کے گھروں تک پہنچاتے ہیں ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لیکن خیبر پختونخواہ کے بھائی تربیلا ڈیم کی وجہ سے بجلی اپنے گھر میں بھی مفت مانگتے ہیں ۔کراچی میں پیپلزپارٹی اورایم کیو ایم کے غنڈہ عناصر ڈائریکٹ کنڈے ڈال کر گھروں اور دفتروں میں چوری کی بجلی سے ائیرکنڈیشنڈچلاتے ہیں ۔ان کو پکڑنے اورکنڈے اتارنے کی ہمت کراچی الیکٹرک کمپنی کے کارکنوں نہیں کرسکتے ۔ جس نے بھی یہ کوشش کی اس کی نعش یا توبوری میں بندکسی گندے نالے سے ملے گی یا اسے زرداری ٹولہ اغوا کروا کر اندورن سندھ میں کسی وڈیرے کی قید میں ڈال دے گا جہاں موت تک رہائی ناممکن ہے۔شنید تو یہاں تک ہے کہ سندھ سمیت پورے ملک میں جتنے بھی سیاسی جلسے ٗ بھٹو خاندان کی برسیاں اورجنم دن منائے جاتے ہیں ۔ حکومتی سرپرستی میں چوری کی بجلی ہی استعمال کی جاتی ہے ۔ پنجاب ٗ کے پی کے میں بھی عمرانی اور مسلم لیگی جلسے چوری کی بجلی سے ہی منعقد ہوتے ہیں ۔ اب بتائیں کون ان غنڈوں ٗوڈیروں اور سیاسی لیٹروں سے الجھے گا۔یہاں ایک چورنہیں ہے سبھی حمام میں ننگے ہیں۔ لیسکو اتھارٹی کے ملازم نے بتایا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی صرف پنجاب میں کی جاتی ہے لیکن یہاں بھی سیاسی لیٹرے بجلی چوری میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ میں نے کہا واپڈا کے اہلکار پولیس کی مدد کیوں حاصل نہیں کرتے ۔جواب میں کہا پولیس والے مقامی حکومتوں اور وڈیروں کے ملازم ہی ہوتے ہیں اگر کہیں کاروائی کے لیے چلے بھی جائیں تو رشوت لے کر واپس آجاتے ہیں۔ اب ہر جگہ فوج طلب نہیں کی جاسکتی ۔ فوج سرحدوں کا دفاع کرے یا بجلی کے بل ادا نہ کرنے والوں کے خلاف ٹینک توپیں لے کر لڑے گی ۔ یہاں تک تو اس ملازم کی باتیں تھیں لیکن میری ذاتی رائے میں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کرنے والوں کے شناختی کارڈ ٗ ڈرائیونگ لائسنس ٗ پاسپورٹ بلاامتیاز منسوخ کردینے چاہیئں۔چوہدری نثار کے مطابق 600 ڈالر مالی امداد حاصل کرنے کے لیے دس ہزار پاکستانیوں نے افغانیوں کے عارضی سکونتی کارڈ بھی بنوا رکھے ہیں۔بہرکیف بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے جرم کو ختم کرنے کے لیے عوامی نمائندوں کواپنے اپنے حلقے کے عوام کو یہ بتا نا چاہیئے کہ بجلی تربیلا ڈیم کے پانی سے بنے یا کسی بھی پاورپروجیکٹ سے ۔ اس کو بنانے اور گھر گھر پہنچانے کے لیے حکومت کھربوں روپے خرچ کرتی ہے۔صرف ایک ٹرانسفارمر کی قیمت چار کروڑ ہے۔ اس لیے جتنی بجلی استعمال کی جائے اس کے بل اداکرنا لازمی اور قومی فرض ہے ۔ خیبر پختونخواہ میں عوامی نمائندگی کا حق عمران خاں کے پاس ہے اگرعمران اپنے ووٹروں کو بجلی کے بل اداکرنے کے لیے کہیں تو صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔لیکن عمران قومی تنصیبات کو نقصان پہنچتا دیکھ کر خاموش ہیں میں سمجھتا ہوں یہ قومی جرم ہے۔ اسی طرح کراچی اور اندرون سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جبکہ پاکستانی میڈیاکو بھی ملک بھر کے صارفین کو بجلی پیداکرنے ٗ سپلائی کرنے اور دیگر نٹ ورک کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے عوام کو یہ باور کروانا ہوگا کہ بجلی سے متعلقہ املاک اور تنصیبات عوام کی ملکیت ہیں جن کے ٹیکسوں سے یہ تنصیبات تعمیر کی جاتی ہیں۔ان تنصیبات اور بجلی کے نٹ ورک کی حفاظت کرنا اور بجلی کے بل بروقت ادا کرنا عوام کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیئے ۔ بدقسمتی سے حقوق تو ہم سب مانگتے ہیں لیکن اپنے فرائض پورے کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔ان باتوں سے قطع نظر بطور خاص رمضان اور پنجاب میں بجلی کی بار بار ٹرپنگ انتہائی تکلیف دہ امر ہے جسے ٹھیک کرنے کے لیے نواز شریف اور وفاقی وزیر بجلی کو راست اقدامات کرنے ہوں گے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.