ڈان لیکس کا معاملہ حل ہونے سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہورہی
ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہے جو آئے دن تھرڈ ایمپائر کے ڈراوے دیا کرتے
تھے۔ جن کی سیاست ہی چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنا ہوتی ہے۔ ایسے لوگ
عوامی خدمت کے لیے محنت اور مشقت کا مشکل راستہ اختیار کرنے کی بجائے کسی
کے کندھے پر سوار ہوکر اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان
لوگوں کو توقع تھی کہ فوج ڈان لیکس کے ایشو پر غصہ دکھائے گی، او ر ٓائینی
حکومت کو برطرف کرکے انہیں اٹھاکر اقتدار میں لے آئے گی۔ ایسے لوگ اس
معاملہ کے حل ہوجانے سے اپنی منزل دور جاتی دیکھ رہے ہیں۔وہ الٹی سیدھی
تاویلیں پیش کرکے خود کو تسلی تو دے رہے ہیں۔مگر یہ دل کے بہلانے کو غالب
یہ خیال اچھا ہے کی تفسیر سے کم نہیں۔ اندر ہی اندر یہ لوگ تلملا رہے ہیں
اور اپنایہ وار بھی خالی جاتے دیکھ کر اپنے ہاتھوں اپنا منہ نوچ رہے
ہیں۔کچھ لوگ ا س لیے ناخوش ہیں کہ وہ اس طرح کے کاموں کا کریڈٹ صرف اور صرف
اپنا حق سمجھتے ہیں۔ نواز شریف حکومت پر جب جمہوریت کو مضبوط کرنے کا لیبل
لگے تو انہیں بالکل نہیں بھاتا۔ قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف سید خورشید
شاہ کے احساسات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں۔فرماتے ہیں کہ میرے مطابق ڈان لیکس
کا معاملہ ملک کی سیکورٹی او راداروں کا مسئلہ تھا۔ قوم کو بتایا جائے کہ
کیا مسئلہ تھا۔ جس کے باعث ڈیڈ لاک پیدا ہوا۔ قوم کو بتایا جائے کہ مسئلہ
میں کون رکاوٹ تھا ۔ او ر کیسے حل ہوا ۔ ڈان لیکس کے معاملے میں اصل ذمہ
دار وزیر اعظم ہاؤس تھا۔
پی پی کی طرف سے نیو ز لیکس کا معاملہ سلجھ جانے پر بے چینی سے کروٹیں
بدلنا نامناسب رویہ ہے۔ٹویٹ کے واپس لیے جانے سے اورجمہوری وزیر اعظم کو
فائنل اتھارٹی تسلیم کیے جانے سے جمہوریت مذید مضبوط ہوئی۔مگر پی پی کے
رہنما بجائے وزیر اعظم کو مبارک باد دینے کے سیخ پا ہورہے ہیں۔بدقسمتی سے
پی پی کی اپنی تاریخ اس طرح کے کارناموں سے بچی ہوئی ہے۔شایداس لیے زیادہ
پریشانی ہورہی ہے۔ پی پی نے آمریت کا مقابلہ کرنے کی بجائے زیادہ تر اسے
قبول کرنے او ر اس کے ساتھ چلنے کی حکمت عملی اپنائی۔جبکہ لیگی قیادت کے
ساتھ مقتدر حلقوں کی ناراضگی ہی یہی ہے کہ اس نے باغیانہ سیاست اختیار
کی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبار مشروط اقتدار قبول کیا ۔ ایک بار جب انہیں
اٹھاسی کے الیکشن میں کامیابی ملی تو انہیں ایک میٹنگ او ر ایک لسٹ کے
ذریعے ان کی حدود و قیود بتادی گئی۔انہیں بتادیاکہ انہوں نے کیا کیا کرنا
ہے۔او ر کیا کیا نہیں کرنا۔تمام باتیں قبول کرنے کے بعد ان سے وزارت عظمی
کا حلف لیا گیا۔دوسری بار ایک لمبے عرصے تک خود ساختہ جلاوطنی کے بعد این
آر او کی شکل میں مشروط اقتدار قبول کرلیا گیا۔تب شاید انہوں نے پاکستان کے
تب کے حالات کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا۔ان دنوں محترمہ اپنے ہم عصر
سیاستدان نواز شریف کی باغیانہ سیاست کا حشر دیکھ چکی تھیںَ۔ پہلے شہبا ز
شریف نے بغیر ڈیل کے وطن واپس آنے کی کوشش کی ۔ انہیں واپس بھجوادیا گیا ۔
اس کے بعد نوازشریف خود باغیانہ انداز میں وطن واپس آنے کی کوشش میں ناکام
ہوئے انہیں بھی ایک دوسری پرواز کے ذریعے واپس بھجوادیا گیا۔ محترمہ اگر
کچھ سال او رجلا وطنی پر آمادہ ہوجاتیں۔ وطن واپس آنے کی بجائے میثاق
جمہوریت کی روح کو تازگی دیتیں تو شاید حالات مختلف ہوتے۔اگر وہ تب لیگی
قیادت کا ساتھ مل کر جمہوریت کی آئے دن کی بے توقیری کے خاتمے کے لیے کوئی
راہ نکالتی تو شاید غیر جمہوری قوتوں کو پسپائی کی طرف دھکیلا جاسکتاتھا۔اس
طر ح کی کسی مشترکہ کوشش کے کامیاب ہوجانے کے بعد انہیں این آراو کا سہارا
نہ لینا پڑتا۔اس طریقے سے اگرجمہوری قیادت وطن واپسی آتی تو یقیناًاپنی
مرضی اور صوابدید کی حکمرانی قائم کرتی۔ مگر محترمہ نے ایک بار پھر مشقت کی
بجائے ایک سیدھا سادا راستہ چنا۔
خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی کہلوانے کی شوقین یہ جماعت اس ایشو پر پرو
اسٹیبلشمنٹ جماعت کا رول پلے کررہی ہے۔ بجائے جمہوریت کی کامیابی کا جشن
منانے او رجمہوری رہنماؤں کے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے کے ۔ اس
کامیابی پر آہ و فغاں شروع ہے۔ یہ آہ وبکاں ان جماعتو ں کی طرف سے تو شاید
عجب نہ ہوتاجو چور دروازوں سے اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہیں۔ مگر
پیپلزپارٹی جو خود کو جمہوری پارٹی کہلاتی ہے۔ جس کا نعرہ ہی اب راج کرے گی
خلق خداہے۔ جس کا موٹو ہی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس کے لیے جمہوری
حکومت پر اس معاملہ پر ٹیڑھے اور تیکھے سوالات اٹھانے سمجھ سے بالا تر ہیں۔
آپ کی پارٹی شاید اس طرح کی باتوں کی عادی نہیں ۔ آپ لوگوں نے باتوں کی حد
تک آمریت کے خلاف جنگیں لڑیں۔ مگر عملا آپ نے جب بھی موقع ملا کسی نہ کسی
آمر کے گناہوں پر پردہ ڈالا۔آپ کی ایک حکومت نے ایوب او ر یحی کے تما م
ترسیاہ وسپید کو فراموش کروانے کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔دوسری حکومت نے
ضیاالحق کے مارشل لا ئی دور کی تباہیوں پر مٹی پاؤ پالیسی اپنائی ۔آپ کی
پارٹی کی تیسری حکومت نے مشرف حکومت کے سیاہ دورپر درگزرکرنے میں فراخدلی
دکھائی۔حالانکہ ا س کے دور حکومت میں آپ کی لیڈر کی شہادت ہوئی۔مگر پارٹی
قیادت نے مشرف پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی۔مشرف کے خلاف غداری کا مقدمے
اور ڈان لیکس پر نواز شریف حکومت نے جو ثابت قدمی دکھائی۔آپ کی جماعت کے
کھاتے میں اس طرح کا کوئی باب نہیں ہے۔آپ جمہوریت اور جمہور کی گردان تو
رٹتے رہتے ہیں۔مگر کیاآپ کی اب تک کی پرفارمنس سے جمہوریت حقیقی معنوں میں
مضبوط ہوئی ہے۔الٹا کئی بار مفلوج او رہانپتی آمریت کو آپ لوگوں نے تازہ دم
کیا۔اور اسے اتنا حوصلہ فراہم کیا کہ جلد ہی وہ جمہوریت پر شب خون مارنے کے
قابل ہوگئی۔ پارٹی کی اس پرفارمنس نے آپ کا اینٹی اسٹیبلشمنت پارٹی کا لیبل
دھندلا رکھا ہے۔عملا اس لیبل کی حیثیت اونچی دوکان پھیکا پکوان سے بڑھ کر
کچھ نہیں۔ |