گلگت بلتستان 1836ء سے ہی مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست جموں
و کشمیر کا آئینی حصہ رہا ہے ، 110 سالوں تک یہاں ڈوگروں کی بالواسطہ یا
بلا واسطہ حکومت رہی اور گزشتہ71 سالوں سے یہ خطہ اپنی قومی تشخص سے محروم
چلا آ رہا ہے۔1934ء1937ء اور 1941ء میں ریاست جموں و کشمیر اسمبلی کے لئے
منعقدہ ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے پانچ افراد خطے کی نمائندگی
کرتے رہے ہیں۔ انگریزوں نے جب ہری سنگھ کے ساتھ معاہدہ ختم کیا تو یکم اگست
1947 ء کو گھنسارا سنگھ نے بطور پہلا اور آخری گورنرناردرن صوبہ( لداخ و
گلگت ) ریاست جموں و کشمیر کا انتظامی کنٹرول سنبھالا اوریکم نومبر تک صرف
تین مہینے گورنر رہا ۔اپنی آزادی کی 16 دنوں کی مختصر مدت پورا کرنے کے
بعد" آزاد جمہوریہ گلگت" صوبہ سرحدکے ایک نائب تحصیلدار کی نیابت میں داخل
ہو گیاا ور " گلگت ایجنسی " کو ایف سی آر کی شکنجے میں کس لیا گیا، جبکہ
پاکستان کی آئینی حصوں میں ایف سی آر کا نظام نہیں تھا ۔ ادھر بلتستان لداخ
سے کٹ کر گلگت میں شامل ہو گیا ۔گلگت ایجنسی 1950ء تک صوبہ سرحد کے پو
لیٹیکل ایجنٹ کے زیر انتظام رہا ،اس کے بعدگلگت ایجنسی کو دوبارہ ناردرن
ایریاز نام پر بحال کیا گیا۔یہ در اصل پاکستان کے نادرن ایریاز کی مناسبت
سے نہیں تھا بلکہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جموں و کشمیرریاست کا تیسرا صوبہ (
ناردرن پرووینس) کی نسبت سے تھا ۔جس کا ذکر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں آ
چکا تھا۔ اسی ضمن میں آزاد کشمیر اور ناردرن ایریازپر مشتمل انتظامی یونٹ
بنائی گئی جسے KANA ڈویژن نام دیا گیا ۔
معاہدہ کراچی پر عمل درآمد کرتے ہوئے 1950ء میں گلگت بلتستان کا انتظامی
کنٹرول صوبہ سرحدسے اٹھا کر وزارت امورکشمیرکے ماتحت کر دیا گیا اور
"پولیٹیکل ایجنٹ" کو"پولیٹیکل ریزیڈنٹ" نام دیا گیااور1952ء میں کشمیر
افیرز کے جوائنٹ سکریٹری کو نادردن ایریاز (گلگت بلتستان ) کا "پولیٹیکل
ریزیڈنٹ" مقرر کیا گیا۔1958 ء میں ماتح گلگت کرنل مرزا حسن خان کی سیاسی
جماعت "گلگت لیگ" پر پابندی لگائی گئی جو کہ گلگت بلتستان کی پہلی سیاسی
جماعت تھی ۔ گلگت لیگ پر پابندی کے بعد کرنل مرزا حسن نے آزادکشمیر میں سول
سروس جوائنٹ کی۔1958ء میں جب پاکستان میں مارشل لاء لگا تو اس وقت گلگت
بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر یہاں مارشل لاء نہیں لگایا گیا ۔
1967ء پولیٹیکل ریزیڈنٹ کو " ریزیڈنٹ" نام دیا گیا اور پہلی بارریزیڈنٹ کا
صدر دفتر گلگت میں کھولا گیااورایک ریزیڈنٹ کے ماتحت دو پولیٹیکل ایجنٹ کی
تقرری عمل میں لائی گئی ۔ایک گلگت کے لئے اور دوسرا بلتستان کے لئے۔ ان
پولیٹیکل ایجنٹوں کے پاس انتظامیہ، ریوینیو، عدلیہ ، غرض تمام اختیارات تھے
۔ 1970ء میں گلگت بلتستان میں پہلی بار 16 رکنی ناردرن ایریاز کونسل کے لئے
انتخابات ہوئے ،ریزیڈنٹ اس کونسل کا سربراہ ہوتا تھا اور عوامی منتخب
نمائندے ریزیڈنٹ کے ماتحت تھے۔بعد میں وزیر امور کشمیر کو اس ناردرن ایریاز
کونسل کا چئیرمین بنایا گیا۔ آج 47 سال بعد وزیر اعظم پاکستان،گلگت بلتستان
کونسل کا چئیرمین ہے۔
گلگت بلتستان ماضی بعید میں بھی کسی منظم تحریک کا حامل نہیں رہا ہے ، یہاں
تبدیلی ہمیشہ کسی نہ کسی حادثے کا پیش خیمہ رہا ہے۔ یکم نومبر کے بعدایک
اور حادثے نے گلگت بلتستان کی سیاسی و انتظامی صورت حال بدل کر رکھ دیا،
ایک فوجی آفیسر کی بچی امتحان میں فیل ہوگئی ، آفیسر کی بیوی نے سکول کا
سونامی دورہ کیا اور اسکول کی ہیڈ مسٹریس سے طوفان بد تمیزی کی۔ شکایت ڈپٹی
کمشنرتک پہنچی اورہیڈمسٹریس کو ملازمت سے معطل کر دی گئی، ہیڈ مسٹریس کی
بحالی کی درخواست لے کر جانے والے عمائدین کو بھی ڈپٹی کمشنرنے جھاڑ پلا دی
، عوام ہیڈ مسٹریس اور عمائدین کی بے عزتی پر سراپا احتجاج ہو گئے۔ احتجاج
دیکھتے ہے دیکھتے حقوق کی تحریک اور ایف سی آر ہٹاؤ تحریک میں بدل گیا۔
عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے ریاستی طاقت کا استعمال ہوا۔سکیورٹی فورسس نے
نہتے شہریوں پر گولی چلائی ایک کشروٹ کا نوجوان رجب علی شہید ہوگیا ۔ رجب
علی گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے جان دینے والا پہلا شہید
ہے۔ تنظیم ملت کے درجنوں افراد گرفتار کر لئے گئے۔ ظلم کے خلاف عوامی عدالت
لگ گئی جیل کو توڑا گیا اور قیدیوں کو رہا کروا ئے گئے۔۔
ساٹھ کی دہائی گلگت بلتستان میں سیاسی شعور کا ارتقائی دور کہلایا جا سکتا
ہے ، اس عشرے میں کراچی ،لاہور اورپنڈی میں حصول تعلیم کے لئے جانے والے
طلباء اور باشعور لوگوں نے ایک تنظیم گلگت بلتستان جمہوری محاذ کے نام سے
بنائی ، اس تنظیم نے پہلی با ر گلگت بلتستان نام متعارف کرایا ۔یہ تنظیم
1973ء تک متحرک رہی۔ اس کے بعد1973 ء میں کراچی میں زیر تعلیم طلباء نے
گلگت بلتستان اسٹوڈینس فیڈریشن کی بنیاد رکھی جوکہ فعال جدو جہد کے بعد
1976ء کے بعد غیر فعال ہوئی۔ان تنظیموں نے گلگت بلتستان سے ایف سی آر کے
کالے قانون کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لٹریچر، میگزین اور ہفت
روزہ اخبارات کی اشاعت کے ذریعے گلگت بلتستان کے حالات سے دنیا کو آگاہ
کیا۔
2 مارچ1963ء کو پاکستان اور چین کے درمیان بارڈر منیجمنٹ معاہدہ ہوا تو اس
معاہدے کی آرٹیکل 6 میں یہ شرط رکھا گیا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کی صورت
میں چین یہاں بننے والی اس وقت کی حکومت سے دوبارہ معاہدہ کرے گی اور یہ
معاہدہ کلعدم ہوگا۔ اس معاہدے کو "سنکیانگ کشمیر بارڈر معاہدہ "کہا جاتا
ہے۔ سنکیانگ گلگت معاہدہ نہیں کہلاتا ۔ جب اس معاہدے کے خلاف انڈیا نے16
مارچ 1963ء کو اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں احتجاج کیا تو
پاکستان کے وزیر خارجہ ذولفقار علی بھٹو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان
اور چین کے درمیان باڑدر معاہدہ ، جموں و کشمیر کی اکائیوں( گلگت بلتستان)
کی متنازعہ حیثیت پر اثر اندازنہیں ہو گا۔
2 جولائی1972 ء کو جب شملہ میں ذوالفقار علی بھٹواور بھارتی وزیر اعظم
اندرا گاندھی کے درمیان مذاکرات طے پا رہے تھے تو اس وقت اندرا گاندھی نے
بھٹو کی توجہ" گلگت ایجنسی" کی طرف مبذول کراتے ہوئے پوچھا کہ مسٹر بھٹو آپ
نے گلگت میں ایف سی آر کس قانون کے تحت لگایا ہوا ہے جبکہ یہ خطہ ریاست
جموں و کشمیر کا اٹوٹ انگ ہے ۔ مذاکرات کے بعد جب بھٹو پاکستان واپس آئے تو
انہوں نے اگست 1972ء میں گلگت بلتستان سے ایف سی آر کا کالا قانون ختم کرنے
کا اعلان کیااور نیا انتظامی اصطلاحات متعارف کروایا۔جس کے مطابق ریزیڈنٹ
اور پولیٹیکل ایجنٹ کو بالترتیب کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نام دیا گیا ، راجگی
نظام کو بھی ختم کیاگیا، گلگت اور بلتستان ایجنسی کو ڈسٹرکٹ کا نام دیا
گیا۔اور دیامر کو بھی الگ ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا گیا۔ بھٹو نے ایف سی آرکا
خاتمہ کرکے نہ صرف پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ کم کیا بلکہ بھارتی وزیر
اعظم اندرا گاندھی کو بھی نرم پیغام دیا کہ پاکستان متنازعہ ریاست جموں و
کشمیر کے اس اہم خطے ( گلگت بلتستان ) میں اقوام متحدہ کے قرار دادوں پر
عمل پیرا ہے۔
ستمبر1974 ء میں بھٹو نے گلگت کا دورہ کیا اپنے اس اہم دورے کے موقع پر
انہوں نے گانچھے اور غذر ڈسٹرکٹس کا اعلان بھی کیا ۔ انہوں نے ناردرن
ایریازکے عوام کو خوردنی اشیاء پر سبسیڈی کا اعلان بھی کیا جو کہ بھارت کے
زیر انتظام متنازعہ خطے کے عوام کو حاصل تھا ۔۔ بھٹوکوگلگت بلتستان کی
مسلمہ بین الاقوامی متنازعہ حیثیت کا ادراک تھا اس لئے جب دورۂ گلگت کے
موقع پر عوام نے بھٹو سے صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا تو بھٹو نے بر جستہ کہا
کہ"صوبہ تاریخ بناتی ہے بھٹو نہیں بناتا"۔آئین پاکستان1973 ء کے خالق
ذوالفقار علی بھٹو گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئین میں شامل نہیں کر سکے
البتہ سستے داموں اناج کی فراہمی کا اعلان کر کے بھٹو نے گلگت بلتستان کے
عوام کے دلوں پر نہ صرف راج کیا بلکہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی خلاف ورزی کر کے
یہاں کی ڈیمو گریبی کو تبدیل کرنے کی نئی تاریخ بھی رقم کی۔سٹیٹ سبجیکٹ
رولزکی خلاف ورزی کا بنیادی مقصد خطے میں غیر مقامیوں کی بڑے پیمانے پر
آباد کاری کو ممکن بنا کریکم نومبر1947 ء جیسی عوامی انقلاب یا بغاوت کے
امکان کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا تھا۔
یکم نومبر1947 ء کو گورنرگلگت گھنسارا سنگھ کی اپنے سکیورٹی گاڑدز کے
ہاتھوں یرغمال بنائے جانے والے مہم کو ہم ڈوگروں سے" آزادی" کا نام دیتے
ہیں جبکہ اس سارے گیم کا کرتا دھرتا گلگت اسکاؤٹ کے سربراہ میجر براؤن نے
اسے" بغاوت گلگت" کہا ہے۔ میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا ہوں کہ یہ بغاوت تھی
یا آزادی ۔ اگر اسے آزادی کہا جائے تو 70 سال گزرنے کے باوجودگلگت بلتستان
نہ آزاد ریاست ہے اور نہ ہی کسی ریاست کا حصہ ہے ۔ دنیا میں جب کوئی خطہ
آزادی حاصل کر لیتا ہے تو وہ اپنی آزاد حکومت تشکیل دیتی ہے اور اس آزادی
کو دنیا کے دوسرے ممالک تسلیم کرتے ہیں ۔ اگر یہ ملک اپنی آزادی و خود
مختاری کو قائم رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے تو کسی دوسرے ملک کے ساتھ
الحاق کر لیتا ہے۔
گلگت بلتستان کی 16دنوں کی آزادی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اور پاکستان کے
ساتھ الحاق کی عوامی خواہش میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی اس کے
باوجود حکومت پاکستان نے پہلے گلگت بلتستان کی آزاد حکومت کوپشاور سے ایک
نائب تحصیلدار ( پولیٹکل ایجنٹ) بھیج کر ختم کر دیا ۔( بقول میجر براؤن
:میں نے حکومت پاکستان کو تار دیا تھاکہ اس خطے پر کنٹرول حاصل کریں)۔اس کے
بعد نہ گلگت بلتستان کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا اور نہ ہی الحاق کو قبول
کیا۔ 1949ء میں کراچی معاہدہ کر کے گلگت بلتستان کی آزادی کو " بغاوت" قرار
دیتے ہوئے اسے دوبارہ ریاست جموں و کشمیر سے جوڑ دیا گیا ،جس کی وجہ سے آج
بھی ہم نہ تیرہ میں ہیں نہ تین میں ہیں۔
ان صورت حال کے پیش نظر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یکم نومبر کی مہم جوئی ایک
نامکمل آزادی کی تحریک تھی اور ساتھ ہی ساتھ ایک ناکام بغاوت بھی۔ہم اس جنگ
آزادی میں 48 ہزار مربع اراضی کو واگزار کرانے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اس
خطے کو آزاد رکھنے یا کسی اور ملک کے ساتھ الحاق کروانے میں ناکام ہو گئے
تھے اور آج بھی ناکام ہیں۔ ایک سازش کے تحت ہماری آزادی کی بازی پلٹا دی
گئی ہم نے ڈوگروں کو زوجیلہ سے بھگا دئیے تھے ، ڈوگروں کو واپس آنے کی ہمت
نہیں ہوئی البتہ ہمیں" مسئلہ کشمیر" نامی دوڑی میں باندھ کر دوبارہ ڈوگرہ
ریاست کے حوالے کر دیا گیا۔ ہماری جیتی ہوئی آزادی کی جنگ کو غلامی میں بدل
دینے والوں کا محاسبہ کرنے کے بجا ئے ہم آ ج بھی الحاقی افسانے گھڑنے اور
جھوٹی تاریخیں لکھ لکھ کر اپنے دل کو بہلانے اور نئی نسل کو کھڈے لائن
لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہم 1947 ء کی بغاوت میں نا
کام ہوئے اور آزادی کی تحریک میں بھی کامیابی نہیں ملی۔اس لئے یہ کہا جا
سکتا ہے کہ یکم نومبر والا سانحہ نہ بغاوت تھی نہ آزادی بلکہ ایک انگریز
فوجی آفیسر کی سازش تھی جسے" گریٹ گیم "کہا گیا ہے۔
اگرچہ میجر براؤن نے گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت کا بیج روز اول سے ہی
بویا تھا ، ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جنرل ضیا ء نے گلگت بلتستان میں"
فرقہ واریت " کو فروغ دیا۔5 جولائی 1977ء کوجنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں
مارشل لاء کا نفاذ کیا اور نادرن ایریاز( گلگت بلتستان ) کو بھی مارشل لاء
کا زون ای قرار دے دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے پہلی بار گلگت بلتستان کی
متنازعہ حیثیت کا پینڈورا بکس کھولا اور کشمیری قیادت کی طرف سے بھی سخت
قسم کا رد عمل سامنے آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپریل 1982 ء میں ایک اخباری
بیان جاری کیا کہ" کشمیر متنازعہ ہے جبکہ ہنزہ ، گلگت اور سکردو متنازعہ
نہیں ہے" ۔ جنرل ضیاء نے گلگت بلتستان سے تین افراد کو مجلس شوریٰ میں مبصر
منتخب کیا اور 15 اپریل 1985 ء کوگلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ
میں نمائندگی دینے کا اعلان کر دیا۔ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ گلگت
بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے سفارشات مرتب کی جا سکے ۔ اس
کمیٹی نے اپنی رپورٹ صدر پاکستان کو پیش کر دی لیکن اس کا کوئی نتیجہ سامنے
نہیں آیا اور نہ ہی اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا۔ ضیاء الحق نے گلگت
بلتستان کا طوفانی دورہ کیا اور گلگت بلتستان کی فضائیں کئی سالوں تک" مرد
مومن مرد حق ، ضیاء الحق ضیاء الحق" کے نعروں سے گو نجتی رہی۔ایک عشرہ گلگت
بلتستان کے عوام نے ضیا ء الحق کی جھوٹی تسلیوں کے سہارے گزارا۔
جنرل ضیاء الحق گلگت بلتستان کو پاکستان کی آئین میں شامل کرنے میں تو
کامیاب نہیں ہوئے البتہ گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو پڑوان چڑھانے میں
خاصا کامیاب رہا ۔ مئی 1988ء میں جنرل ضیا ء الحق کی ایماء پر ایک لاکھ سے
زائد عسکریت پسندوں نے گلگت بلتستان پر فرقہ وارانہ لشکر کشی کی اور گلگت
بلتستان میں آگ و خون کا کھیل کھیلا ۔88ء کی شیعہ نسل کشی کا منصوبہ در اصل
جنرل ضیاء الحق کا فرقہ وارنہ گریٹ گیم تھا ۔۔ اس گریٹ گیم میں منصوبہ
سازوں، حملہ آوروں اورسہولت کاروں کو بنیادی مقصد میں کامیابی نہیں ملی
البتہ گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کا زہر اس طرح گھول دیا گیا کہ یہ خطہ
آج بھی اس سازشی منصوبے کے اثر سے آزاد نہیں ہو سکا ۔گلگت بلتستان میں غیر
مقامیوں کو بسانے کے لئے بھٹواور ضیاء کا مشن مشترک اور طریقہ واردات مختلف
تھا ، بھٹو نے سٹیٹ سبجیکٹ رولزکی خلاف ورزی کرکے مقامی اکثریت کو اقلیت
میں بدلنے کی منصوبہ بندی کی۔ جبکہ ضیاء الحق مقامی آبادی کی نسل کشی کر کے
غیر مقامیوں کو یہاں آباد کرانا چاہتا تھا۔
جنرل ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی قیادت میں
پاکستان پیپلز پارٹی کو حکومت ملی تو پی پی پی گلگت بلتستان کے صدر، قربان
علی( مرحوم) کو وزیر اعظم پاکستان کا مشیر چن لیا گیا۔ جب پی پی پی دوسری
بار اقتدار میں آئی تو 25اپریل 1994ء کو ناردرن ایریاز کے لئے پیکیج کا
اعلان ہوا جس کے مطابق گلگت بلتستان میں پہلی بار جماعتی بنیاد پر 24 حلقوں
میں ناردرن ایریاز کونسل کے لئے انتخابات ہوئے ،وزیر امور کشمیر و شمالی
علاقہ جات کونسل کا چیف ایگزیکٹیو قرار پایا ، عوامی نمائندوں کو ڈپٹی چیف
ایگزیکٹوکو منتخب کرنے کا اختیار ملا۔ گلگت بلتستان کی عنان حکومت کی بھا گ
دوڑ بدستور KANA ڈویژن کے پاس ہی رہی۔ 1994 ء کے جماعتی انتخابات میں فرقہ
وارانہ نعروں کی بنیاد پر تحریک جعفریہ پاکستا ن کو بھاری اکثریت سے
کامیابی ملی لیکن یہ جماعت اپنی انتخابی منشور "پانچواں صوبہ" کو عملی جامہ
پہنانے میں بری طرح نا کام رہی ۔ اگرچہ تحریک جعفریہ پاکستان( اسلامی تحریک
پاکستان)،جمعیت علماء اسلام، مجلس وحدت مسلمین ، اور جماعت اسلامی جیسی
مذہبی جماعتیں اپنی مخصوص مسلکی حلقوں میں سیاست کر رہی ہے لیکن پاکستان
پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی گلگت بلتستان میں دو مختلف
مسلکوں کی ترجمان جماعتیں سمجھی جاتی رہی ہیں۔ قانون ساز اسمبلی اور کونسل
میں عہدوں کی تقسیم بھی مسلکی بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔ مسلک کا استعمال ہی
وہ ریاستی حکمت عملی ، وفاقی پارٹیوں کا منشور اورعمومی سوچ ہے جو گلگت
بلتستان کے عوام کو قومی اور اجتماعی مفادات کے لئے ایکا ہونے نہیں دیتی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 28 مئی 1999 ء کے فیصلے پر عمل در آمد کو یقینی
بنانے کے لئے اس وقت کے وزیر امور کشمیر عبدالمجید ملک 2 اکتوبر 1999ء کو
اسلام آباد سے گلگت بلتستان پہنچے اور اعلان کیا کہ حکومت ناردرن ایریاز
کونسل کو بہت جلد ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل بنائے گی، دس دن بعد مسلم
لیگ ن کاگلگت بلتستان میں ریفارمز لانے کا خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا
جب12 اکتوبر1999 ء کوآرمی چیف جنرل پرویزمشرف نے مسلم لیگ ن کی حکومت کا
تختہ الٹ دیا۔ جب مشرف نے ملک میں مارشل لاء لگا کر عوامی حکومتوں کو ختم
کر دیا اس وقت گلگت بلتستان کی متنازعہ اور الگ حیثیت کے مدنظر ناردرن
ایریاز کونسل کو نہیں توڑا گیا بلکہ آرمی کو گلگت بلتستان کی انتظامی
معاملات میں براہ راست شامل کیا گیا ۔ سول انتظامیہ اور عوام پر کڑی نظر
رکھنے کے لئے تمام ڈسٹرکٹس میں آرمی مونٹیرنگ ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔
جنرل مشرف کی حکومت نے 7 جولائی2000 ء میں ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل
کے بر وقت انتخابات منعقد کرائے ۔ جنرل مشرف کا گلگت بلتستان پر موقف جنرل
ضیاء سے بالکل مختلف اور دوک ٹوک تھا ۔ جنرل مشرف نے بھارتی وزیر اعظم
واجپائی سے آگرہ میں ایک ناکام مذاکرات کئے ، اس مذاکرات کے دوران جنرل
مشرف نے گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کی ایک الگ اکائی (Identity) قرار
دیا ۔انہوں نے ریاست جموں و کشمیر کی اکائیوں کو تقسیم کرکے مسئلہ کشمیر کو
حل کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔جس میں گلگت اور بلتستان کی تقسیم بھی زیر غور
تھا۔ جنرل مشرف نے23 اگست2007 ء میں گلگت بلتستان کے لئے ایک نیا پیکیج
متعارف کرایا اس کے مطابق ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل کا نام ناردرن
ایریاز لیجسٹیو اسمبلی ((NALA رکھا گیا ۔ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کو ترقی دے کر
چیف ایگزیکٹیو بنایا گیاجبکہ چیف ایگزیکٹیو( وزیر امور کشمیر و ناردرن
ایریاز) کواس اسمبلی کا چئیرمین بنایا گیا۔اس بار اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر
کے عہدے بھی متعارف کرائے گئے۔اس پیکیچ کے مطابق بھی تمام اختیارات وزیر
امور کشمیرو شمالی علاقہ جات کے پاس ہی رہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے9ستمبر2009 کو گلگت بلتستان کے لئے ایک نیا انتظامی
پیکیج کا اعلان کیااسے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈسیلف گورننس آرڈر 2009ء
کہا جاتا ہے۔ ناردرن ایریاز کوتبدیل کر کے گلگت بلتستان نام دوبارہ بحال
کیا گیا۔ سیلف گورنینس آرڈر 2009 ء کے تحت گلگت بلتستان میں ایک ہی وقت میں
دو انتظامی سیٹ اپ بنائے گئے ایک سیٹ اپ صوبائی طرز کی" گلگت بلتستان قانون
ساز اسمبلی " بنائی جس کا سربراہ وزیر اعلی ہے۔ دوسری سیٹ ا پ ریاستی طرز
کی بنائی جسے" گلگت بلتستان کونسل "کہا جاتا ہے جس کا سربراہ وزیر اعظم
پاکستان ہے۔اس انتظامی سیٹ اپ کے مطابق گورنمنٹ سے مراد گلگت بلتستان اور
شہری سے مراد گلگت بلتستان کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد ہیں۔ گلگت بلتستان
صوبہ نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں صوبائی طرز کی انتظامی یونٹ بنائی گئی ہے۔
اس پیکیج کے مطابق بھی وزیر امور کشمیر ،گلگت بلتستان کے ہر سیاہ و سفید کا
مالک ہے، گلگت بلتستان کا وزیر اعلٰی پاکستان کے وزیر اعظم کو نہیں بلکہ
وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کوجواب دہ ہے۔ اس انتظامی سیٹ اپ کے ذریعے
گلگت بلتستان کے عوام کو دھوکہ دیا گیا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ بن
گیا ہے اور اس پیکیج کی آڑ میں گلگت بلتستان کو مکمل طور پر غیر مقامی
بیورو کریسی کے حوالے کیا گیا ۔ یہاں انسداد دہشت گردی، نیشنل ایکشن پلان
اورشیڈول فورتھ جیسے کالے قوانین کا اطلاق کر کے عوامی حقوق کے لئے اٹھنے
والی ہر آواز کو دبانے کے لئے راہ ہموار کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت بھی گلگت بلتستان میں نئے انتظامی ا
صطلاحات لانا چاہتی ہے اس مقصد کے لئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی
میں ایک کمیٹی دو سال قبل بنائی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر مسلم لیگ ن
کو اسی صورت میں برتری مل سکتی ہے کہ وہ پی پی پی سے بڑھ کر کوئی انقلابی
قدم اٹھائے ، یہ انقلابی قدم گلگت بلتستان سے نو آبادیاتی نظام حکومت کا
خاتمہ کرتے ہوئے یہاں مکمل خود مختار اور با اختیار قانون ساز اسمبلی کی
تشکیل ہی ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت ، گلگت بلتستان کی
متنازعہ حیثیت کو قائم و دائم رکھتے ہوئے ایک بار پھر انتظامی اصطلاحات
لانے جا رہی ہے۔ جس میں گلگت بلتستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے مبصر
لئے جائیں گے۔ آئینی حقوق کے معاملے پرجس طرح حکومت پاکستان بے بس ہے اسی
طرح گلگت بلتستان کے عوام میں بھی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ۔ ایک حلقہ
فکر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنا نے کا مطالبہ کر
رہے ہیں جبکہ دوسرا مکتب فکر آزاد کشمیر طرز کی سیٹ اپ کو گلگت بلتستان کی
آئینی بحران کا ممکنہ حل سمجھتے ہیں۔ قوم پرست جماعتیں بھی آزاد کشمیر طرز
کی سیٹ اپ کو تنازعہ کشمیرکے حل ہونے تک قابل عمل سمجھتے ہیں۔گلگت بلتستان
کی تشخص کا بحران دن بہ دن پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس پیچیدگی کو سمجھنے کے
لئے عالمی اور پاکستان کی عدالتوں کے فیصلوں کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ منزل
تک پہنچنے کے لئے راستے کا تعین کرنے میں آسانی ہو۔
گلگت بلتستان کی آئینی حقوق کا مقدمہ عالمی عدالت میں زیر التواء ہے تاہم
یہ مقدمہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی عدالتوں میں بھی چلتا رہا ہے اور
عدالتوں نے جوفیصلے صادر کئے ہیں ، وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔گلگت
بلتستان کی آئینی حیثیت پر آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے ملک مسکین اور حاجی
بشیرکی درخواست پر18 مارچ1993 ء کو اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ "گلگت
بلتستان آزاد کشمیر کا تاریخی اور آئینی حصہ ہے ، آزاد کشمیر حکومت یہاں
انتظامی ادارے قائم کرے"۔حکومت آزاد کشمیر نے اس عدالتی حکم کو آزاد کشمیر
سپریم کورٹ میں چیلینج کیا تھا۔ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے 14 ستمبر 1994ء
کو اپنے فیصلہ میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ" گلگت بلتستان ریاست
جموں و کشمیر کا حصہ ہے لیکن آزاد کشمیر کا حصہ نہیں ہے ، اس لئے آزاد
کشمیر حکومت کو گلگت بلتستان کو اپنی انتظامی کنٹرول میں لینے کی ضرورت
نہیں"۔
گلگت بلتستان کے عوام میں سپریم کورٹ پاکستان کا عدالتی حکم نامہ بہت مقبول
ہے اور بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ پاکستان کے حکم پر عمل در
آمد ہونا چائیے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی تاریخی فیصلہ28 اپریل1999ء میں
صفحہ نمبر 42 پر حکم صادر کرتا ہے کہ"گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے ا
نڈیا ، چین تبت ، روس کے درمیان ایک انتہائی حساس خطہ ہے ، یہ عدالت فیصلہ
نہیں کر سکتی کہ گلگت بلتستان کو کس طرح کی حکومت د ینی چائیے کیونکہ اس
بات کی آئین پاکستان اجازت نہیں دیتی،اور نہ ہی ہم ہدایت دے سکتے ہیں کہ
گلگت بلتستان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے کیونکہ یہ ملک کے عظیم تر
مفاد میں نہیں در اصل یہاں اقوام متحدہ کے زیر نگراں رائے شماری ہونا
ہے"۔آگے یہ بھی حکم کرتا ہے کہ"ناردرن ایریاز ریاست جموں و کشمیر کا آئینی
حصہ تھے ، حکومت پاکستان چھہ مہینوں کے اندر یہاں بنیادی حقوق،سیاسی اور
انتظامی اداروں کی فراہمی کو یقینی بنائیں ، اس طرح کے اقدام سے مسئلہ
کشمیر پر پاکستان کا موقف پر کوئی فرق نہیں پڑنا چائیےـ "
عالمی عدالت کا فیصلہ بھی بیان کئے دیتے ہیں تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو
اس اہم نکتے کو سمجھنے میں مدد ملے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی
حصہ و صوبہ بنانے کے بارے میں عالمی عدالت کیا کہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی
سکیورٹی کونسل کی قرارداد 30 مارچ1951 ء میں پاکستان اور انڈیا نے اس بات
کو قبول کرکے د ستخط کئے ہیں کہ "پاکستان اور انڈیا کی اسمبلیوں کو ریاست
جموں و کشمیر کی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا"۔ قابل غور
حقیقت یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر اور جموں و کشمیر کی اسمبلیوں کو بھی
پاکستان یا انڈیا سے الحاق کا حق حاصل نہیں ہوگا اور اسی طرح گلگت بلتستان
کی این سی پی (Non Constitutional Province) اسمبلی کو بھی کسی سے الحاق کا
حق حاصل نہیں ہے۔یہ اسمبلی ایک لاکھ چوبیس ہزار قراردادیں پاس کرے جب تک
مسئلہ کشمیر عالمی عدالت میں زیر التواء رہے گا پاکستان گلگت بلتستان کو
آئینی حصہ نہیں بنا سکتی ہے اسی طرح انڈیا،لداخ ، جموں ،اودھم پور اور
کاتھواہ کو اپنا حصہ نہیں بناسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ان خطوں کی عوام بھی
مسئلہ کشمیرسے جان چھڑا کر انڈین یونین کا مستقل حصہ بننے کے خواہشمند ہیں۔
اگر گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کیا گیا تو بھارت فوری طور پرلداخ
،جموں ،اودھم پور اور کاتھواہ کو انڈین یونین کا حصہ بنائے گی اس سے مسئلہ
کشمیر خود بخود دم توڑ دے گی۔مسئلہ کشمیر کا زندہ رہنا ضروی ہے کیونکہ یہ
کسی کے لئے شہ رگ اور کسی کے لئے ا ٹوٹ انگ ہے جبکہ گلگت بلتستان زیو
ر(Jewel ) ہے اس لئے تو زیور 70 سالوں سے شہ رگ سے لٹکی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ
ہے کہ گلگت بلتستان ان دنوں قومی تشخص کی بد ترین بحرانی کیفیت سے دوچار
ہے۔ |