اس مسلمہ حقیقت سے کون مسلمان انکار کرسکتاہے۔کہ اﷲ تعا
لی نے اس کا ئنات کو ھمارے آقاومولا حضور پرنور حضرت محمد مصطفی ﷺکے لیے
تخلیق فرمایا ہے۔اور اہل دنیا کی دنیوی اور آخروی فلاح وبھلائی کے لئے
انبیاء کرام ؑکو معبوث فرمایا ۔ہمارے آقاومولا ختمی مرتبت نبی کریم حضرت
محمد مصطفی کریم و روف ورحیمﷺجب اس دنیا میں تشریف لائے تو اس پر فتن اور
جاہلیت کے دور میں آپﷺکی ذات پاک ایک منارہ نور ثابت ہوئی ۔اسی نور کی
کرنوں نے ساری دنیا کواپنی جلومیں لے لیا ۔اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے
تبلیغ اسلام کی غرض سے دوردرازکے علاقوں کو اپنا مسلن بنایا ۔اور آقائے نام
دار حضرت محمد مصطفی کریمﷺکی آفاقی وسچی تعلیم اور پیغام سے عالم میں پھیلے
ہوئے اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کیا ۔انہیں مصطفے کریم ﷺنورکی کرنوں میں
سے ایک حضرت حاجی محمدنوشہ گنج بخش رحمتہ اﷲ علیہ کی ذات بابرکات بھی ہے
۔حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخشؒکا سلسلہ نسب خاندان عالی شان سادات صحیح
النسب علوی عباسی سے ملتا ہے ۔
آپ کا اسم گرامی حاجی محمد لقب نوشاہ۔خطاب گنج بخش۔وارث الانبیاء غالب
الاولیا تھا ۔اور صاحبان طریقت ۔حقیقت ۔شریعت ۔اورمعرفت نے ان بہت سے اوصاف
،جمیلہ سے پکارا آپ سراج العارفین ۔شمش العاشقین۔قطب الثقلین۔سلطان
اولیاء۔امام صدولایت۔ضیائے بدرہدایت سالار ارباب طریقت واقف رازحقیقت ۔کاشف
اسرار،ولی مادر زار۔صاحب جذب وعشق ومحبت وذوق وشوق وزہدوریاضیت ۔تقوی
وکرامات تھے۔اور حضرت سخی بادشاہ سلیمان نوری حضوری قادری بھلوالیؒکے
مریدوخلیفہ اعظم تھے ۔اور آپؒمرید حضرت شاہ معروف خوشانیؒ کے تھے ۔آپ کے
والدبزرگوار کا نام حاجی الحر مین شرفین حضرت سید ابواسماعیل علاوالدین
حسین غازی تھا ۔جواکا براولیاء وقت میں سے تھے ۔اور اکثر سفر حج میں
باپیادہ رہتے تھے ۔آپؒنے پیادہ سات حج کیے تھے ۔اور اسی لئے ان کو حاجی
الحرمین شرفین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔اور آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم
گرامی حضرت بی بی جیونیؒتھا۔
ولاد ت باسعادت۔آپؒکی والادت باسعادت شب دوشنبہ بتاریخ یکم رمضان المبارک
959ٗٗء ہجری کے مطابق 1552 اعیسوی بمقام گھگانوالی تحصیل وضلع منڈی
بہاؤالدین میں ہوئی ۔
عطائے خرقہ۔حضرت سخی شاہ سلیما ن نوری با لہام غیبی گہگانوالی میں تشریف
لائے اور اپنے لباس مبارک سے ایک چادر مبارک آپ کی والدہ ماجدہ کو عطاکی
۔اور آپ کی والدہ ماجد ہ کو ارشاد فرمایا کہ مولودکواس چادر مبا رک میں
لپیٹنا اور پھر اس چادر کو اور اس مولودکو احتیاط سے رکھنا اور ہم بھی اس
کی خبر گیری کرتے رہیں گے ۔ شریف التواریخ میں منقول ہے کہ یہ وہی چادر
مبارک ہے جو حضرت غوث الاعظم ؒ نے اپنے فرزند اکبر شیخ عبد الوہاب ؒکو
عطافرمائی تھی ۔ اور سلسلہ وار حضرت سخی بادشاہ کو پہنچی ۔
تربیت۔آپ ؒکے والدبزرگوار تواکثرحج میں رہتے تھے۔اس لئے زیادہ تر آپ کی
تربیت اپنی والدہ ماجدہ اور چچامحترم شاہ رحیم الدین علویؒکی آغوش محبت میں
ہوئی ۔بچپن میں آپ کی محافظت کے لئے ملائکہ نوری مقرر تھے ۔اگر کوئی ناپاک
ہاتھ یا نا پاک جسم والی عورت آپ کو ہاتھ لگاتی تو نقصان اٹھا تی ۔اوائل
عمری ہی میں جذبہ الہی نے ایسی کشش کی کہ آپ گھر سے تنہاجنگل میں چلے جاتے
اور اجاڑاور ویران جگہ کو اپنی عبادت کے لئے مسکن بناتے اور مجاہدہ میں
مشغول رہاکرتے ۔اور اسی شغل تنہائی کو دیکھ کر آپ کی والدہ ماجدہ کے دل میں
آپ کے نکاح کا خیال آیا کہ شاید گھر میں دل جمی سے بیٹھ جائیں تو آپ نے
نوشہرہ تارڑاں کے اپنی ہی قوم کے مشہور بزرگ حضرشیخ فتح محمدؒ کی صاحبزادی
سے نکاح کیا ۔اورنوشہرہ تارڑاں کی پر فضا ء مقام کو دیکھتے ہوئے آپ نے یہاں
پر سکونت اختیا ر کرلی ۔
تحصیل علم ۔آپ ؒ کو جوانی میں علم کا شوق پیدا ہوا ۔چند اسباق اپنے والد
بزرگوار سے حاصل کئے اور حضرت شاہ علاوالدین آپ کو موضع جاگو تارڑمیں حضرت
مولوی حافظ قائم الدین اور حافظ بڈ ھا صاحب کے پاس لے گئے جو اس وقت قرآت
سبعہ کے ماہر تھے ۔اورکمالات باطنی میں یکتاتھے ۔اگر چہ آپ سبق بہت یاد
کرتے لیکن قرات کے قوائد مخارج اچھی طرح ادانہ ہوتے تھے ۔ایک شب خواب میں
دیکھا کہ دو فرشتے آئے اور فرمایا کہ میاں حاجی محمد ہم فرشتے ہیں اور خدا
کے حکم سے تجھے قرآن کریم کی تعلیم دینے آئے ہیں ۔اپنا منہ کھولو تو فرشتہ
نے آپ کے منہ میں انگلی رکھی اور قرآت ازبر کرادی ۔اور صبح جب استاد سے سبق
لینے کے لئے گے تو اس طرح لفظ ادا ہوتے تھے کہ استادمحترم بھی کسی وقت ایسے
نہ اد اکرسکتے تھے ۔
فرشتوں کی تعلیم دینے سے آپ پر تمام علوم لدنی کے دروازے کھل گئے قرآن مجید
حفظ ہوگیا ۔علوم منقول ومعقول کی تحصیل کرکے آپ بارگاہ ایزدی میں مقرب ہوئے
حافظ صاحب نے آپ کو سند علمیہ دے کر رخصت کیا اس کے بعد بزرگان دین کی
اتباع کرتے ہوئے سیر کے لئے روانہ ہوئے تاکہ بزرگان دین سے استفادہ کیا
جائے ۔اسی سلسلہ میں آپ اپنے چند مخلص ہمراہیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے
لاہور تشریف لائے اور زیارت بزرگان سے مشرف ہوئے خصوصا حضور داتا گنج بخش
علی ہجویری ؒ کے مزارشریف سے استفادہ کیا اوران ہی دنوں قطب مکہ حضرت شیخ
عبد الوہاب متقی قادری شاذلی ؒ جو لاہور میں حضرت شیخ فرید بخاری کی مسجد
میں تشریف فرما تھے ان سے استفادہ کیا ۔
بیعت۔اگر چہ آپؒ عبادت وریاضت میں ہر دم مشغول رہتے تھے لیکن علم معرفت کے
جواسرار حقائق صدریہ تھے سوائے وسیلہ شیخ کامل کے حاصل ہونا غیر ممکن ہے اس
لئے متلاشی فقراہوئے اتفاقاًحضر ت ملا کریم الدین جو کالوی کی تعریف سنی
جوکہ حضرت سخی شاہ سلیما ن نوری حضوری ؒ کے خلفائے کاملین میں سے تھے ان سے
ملاقات کی اور ملاقات میں حضرت سخی شاہ سلیمان نوری حضوری کے اوصاف پاکیزہ
سن کردل میں آپ سخی شاہ نوری کی زیارت کے لئے باہمراہی ملا صاحب آپ کی خدمت
میں بھلوال شریف میں حا ضری کے لئے حاضر ہوئے۔اور سخی بادشاہ ؒ نے آپ کو
دیکھ کر کہا کہ حاجی محمد بابا آپ نے بہت انتظار کرایا ہے ۔آپ ؒ کو دیکھ کے
مرشد بہت ہی خوش ہوئے ۔اور پہلی ہی نظر مرشد کا مل سے آپ ؒ کی حالت دگرگو ں
ہوگئی ۔حضرت سخی پیرؒ نے فرمایا کہ میاں حاجی محمد سامنے آؤ اور آپؒ مرشد
کا مل کے سامنے ہوئے اور قدم بوسی کی اور حضرت سخی بادشاہ نے آپ کا ہاتھ
پکڑا کر اپنی بیعت میں لے لیا اور محبت سے آپ کو گلے سے لگایا ۔اور اپنی
زبا ن مبارک سے یہ الفاظ ادا کئے کہ الحمد اﷲ حق دار کو حق پہنچا اور اہل
کو اس کی امانت پہنچی ۔
حضرت بابا ولایت شاہ قادری نوشاہی ؒ سلسلہ عالیہ قادریہ نوشاہیہ کی روشن
کڑی کے ایک چمکتے آفتاب ہیں آپ ضلع امرتسر کے نواحی گاؤں کیر تن گڑھ تھاندے
میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم کی تکمیل اوردینی اور دنیاوی علوم کی تحصیل
کے بعد آپ نے شیخ المشائخ خواجہ الحاج خیرشاہؒ سے سلسلہ عالیہ نوشاہیہ میں
بیعت کی ۔حضرت بابا ولایت شاہ قادری ؒ صاحب خلق عظیمﷺ کے اسوہ مبارکہ کی
پیروی فرمایا کرتے۔آپ ؒ غربا ء فقرا ء کی خاص دلجوئی فرماتے اور ان کی
تکلیف رفع فرمانے پر کمر بستہ رہتے ۔کبھی کوئی سوالی آپ ؒ کی بارگاہ سے
دامن مراد خالی لے کرنہ گیا ۔آپ ؒ امرا ء کو بھی غرباء کی مالی اعانت کی
تلقین فرمایا کرتے ۔آپ ؒ صاحب کشف وکرامات تھے آپ ؒکی متعدد کراما ت میں طے
زمان اور ابروبادو باراں میں تصرف ایسے محیر العقول واقعات شامل ہیں آپ ؒ
کی کرامات کا خاص پہلواتبات حقائق اور البطال باطل تھا ۔متعددکرامات کا
ظہور ایسے مواقع پرہوا جب اسلام اور صوفیائے کرام کی حقانیت کو چیلنج کیا
گیا ۔
پاکستا ن 14اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر جب نمودار ہو اتو تمام با طل
قوتیں جن میں ہندو ازم سب سے زیادہ کا رفرما تھا اوندھے منہ گرپڑے ۔اسلام
سچائی ہے ،اسلام حق ہے ۔اسلام یقین محکم ہے ۔باطل ،باطل ہے بے شک باطل مٹنے
ہی کیلئے ہوتا ہے ۔یہ وہی باطل ہے جب نبی کریم ﷺ نے مکہ پاک کو فتح کیا تو
تما م کفار کے منصوبے ناکام اور نیست ونا بود ہوگئے ۔اور تمام
چکاچوندروشنیا ں ناکام پڑ گئیں اور خورشید اسلام اپنی مکمل آب وتاب سے
چمکنے لگا ۔علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح ؒ جیسی ہستیاں بھی
صوفیا کرام اور بزرگا ن دین سے کم نہیں ۔ان کے خوابوں کی تعمیر ،جہد مسلسل
مشقت ،استحکام اور محنت سے ہی ہم آزادی کی نعمتو ں سے مالا مال ہوئے ۔قیام
پاکستان کی بنیاد تو محمدبن قاسم کے دور سے ہی شروع ہوگئی تھی ۔پاکستان
بنانے میں عظیم قائد اور اقبال ؒ کے ہمنشینوں نے جس قدر جانفشانی اور
جوانمردی کا مظاہرہ کیا ۔وہ جذبہ ،حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمر فاروق
ؓجیسے عظیم لوگوں کی شخصیتوں کا پرتو ہے ۔تحریک پاکستان میں علما ء مشائخ
،دانشوروں،صوفیا ء کرام کا کردار محتا ج تعارف نہیں ۔انہوں نے لا الہ الا
اﷲ کا نعرہ حق بلند کیا اورقائد اعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا ان صوفیاء اکرام
میں جناب عزت مآب حضرت بابا ولایت شاہ قادری نوشاہی ؒ کا نام بھی صف اول
میں شمار ہوتا ہے ۔
حضرت با با ولایت شاہ قادری نوشاہی خدمت خلق کو بہت زیادہ ملحوظ خاظر رکھتے
تھے کوئی بھی سائل آجاتا تو س کو خدمت خلق نہ صرف معاشی طور پر بلکہ روحانی
،معاشرتی اور اخلا قی اقدار کو بھی پروان چڑھا تے تھے۔حضور باباخالی نہ
لوٹاتے تھے ۔بلکہ اس دامن بھر دیتے تھے ۔
ولایت شاہ ؒکی کرامات سے اکثر لوگ فیضیاب ہوتے تھے ،ایک دن آپ چک نمبر
121شمالی میں تشریف فرما تھے اوررات کا وقت تھا اسی اثناء میں ایک دیہاتی
آپ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا حضور بابا صاحب میری بیٹی کو جنات کا سایہ
ہے اور اسی وجہ سے میری بیٹی اس وقت تکلیف میں مبتلا ہے اور آپؒ مہربانی
فرمائیں اور ہمیں اس پریشانی سے نجات دلائیں اگر آپؒ میرے ساتھ تشریف لیں
چلیں تو ہمارے لئے یہ بڑی سعادت ہوگی اور حضور باباصاحب ؒ اس وقت آپ ؒ و ظا
ئف میں مصرف تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ اس جن کو جا کر کہو کہ بابا صاحب فرماتے
ہیں یہ علا قہ چھو ڑ جاؤ اگر تم نے حکم عدولی کی تو اس کی سزا بہت بڑی ہوگی
یہ بات سن کر دیہاتی کہنے لگا کہ حضو ر آپؒ کے جائے بغیر سے یہ مردو د نہیں
جائے گا اس با ت کو سن کر آپ غصے میں آگئے اور اپنا عصائے رحمت اٹھا یا اور
کہا جاؤ جا کر یہ عصا اس کو دیکھا ؤ اور یہ پیغام دے دو اﷲ تعالی مہربا نی
فرمائے گا اور دیہا تی عصاٗء مبارک لے جا کر اپنی بیٹی کے سامنے گیا تو جن
چیخنے چلانے لگا اور کہنے لگا کہ میں ابھی اس لڑکی کو اور اس علاقہ کو
چھوڑتا ہوں مہربانی فرما کر مجھے اس تکلیف سے نجات دلاؤ اس بات کو سنتے ہی
دیہاتی نے کہا کہ حضور بابا صاحب سے معافی ما نگو اور وہ حضوربا با صاحب سے
معافی مانگنے لگا اور چیختا چلا تا ہوا بھاگ گیا اور دیہاتی اسی وقت
عصامبارک واپس دے گیا اور حضور کی خدمت میں نذرونیاز پیش کی تو آپ نے
فرمایا کہ یہ لے جا ؤ غریبوں اور مسکینوں کی خدمت کرو۔
حضور بابا صاحب ؒ ایک دفعہ سردیوں میں 121 چک نمبر شمالی سرگو دہا میں
تشریف لائے ہوئے تھے اورڈیڑ ئے میں براجما ن تھے اور اُس وقت ایک مریدِ خاص
جناب حضرت عبد الحقؒ کہنے لگے کہ میرے دل میں خیا ل آیا کہ میں آپؒ کی دعوت
کروں لیکن غربت کی وجہ سے زیادہ اہتمام نہیں کرسکتا اور اتفاق سے اس وقت
گھر میں باجرے کا کچھ آٹا پڑا ہوا ہے کہ اگر یہ کھانا قبول فرمائیں تو میں
دعوت کا اہتمام کرؤں یہ بات سو چ کر جب بابا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے
تو بابا صاحب ؒنے اُن کی طرف دیکھا اور فرمایاآج میری دعوت وہ کرے گا جو
باجرے کی روٹی اور شوربہ پکا ئے گا اس بات کا سننا تھا کہ عبد الحقؒ رونے
لگے اور کہنے لگے حضو ر میری یہ خواہش ہے اگر آپ قبول فرمائیں تو میرے لئے
یہ بہت بڑی سعادت ہوگی آپ نے دعوت قبول فرمالی اور فرمایا کہ دعوت کا
اہتمام کرو اور جس وقت تک میں نہ آؤں کھانا پکانے کے برتن کو استعمال نہ
کیا جائے کھانا پکانے کے بعد حضو ر بابا صاحبؒ نے دعوت کی تیاری کا سنا تو
جتنے لوگ بیٹھے تھے سب کو دعوت دی کہ میرے ساتھ چلو کہتے ہیں کہ اس وقت آپ
کی خدمت میں درجنو ں لوگ موجودتھے اور سب امیر اور غریب لوگ آپؒ کے ساتھ
آپؒ کی دعوت کو توشہ متبرک سمجھتے ہوئے سب ساتھ ہولیے ۔جب بابا عبد الحق
صاحبؒ نے یہ دیکھا کہ میں نے جتنا آٹا تھا اس کی روٹیاں جو
تقر یباًسات آٹھ کی تعداد میں تھیں پکائی ہیں ۔اور یہ سب لوگ ساتھ آرہے ہیں
تو کھانا تو کم پڑجائے گا یہ با ت سوچ کر آپ بہت پریشان ہوئے بابا صاحب ؒنے
بابا عبد الحق کی طرف دیکھ کر کہا کہ عبد الحق پریشان ہونے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے ۔اور اس بات سے باباعبد الحقؒ کی تسلی ہوئی اور بابا عبد الحق کو
رومال مبارک دے کر فرمایا کہ روٹیوں کے اوپر ڈال دو اور کپڑا نہیں ہٹانا
۔آپؒ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔اور سالن والی ہانڈی کے اوپر حضور بابا صاحب
ؒ نے اوپر تھو ڑا سا برتن رکھ دیا اور فرمایا کہ شروع کرو ۔اور راوی کہتے
ہیں کہ اتنا لذیز کھانا ہم نے زندگی نہیں کھایا اور درجنوں آدمیوں کو کھانا
کھلا نے کے بعد جب بابا صاحب نے پوچھا کو ئی آدمی رہ تو نہیں گیا ۔تو کہنے
لگے سب آدمی کھانا کھا چکے ہیں ۔تو حضو ربابا صاحب ؒنے فرمایا کہ تبرک کا
یہ کھانا لوگوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ کھانا بہت سے گھروں میں تقسیم کیا
گیا ۔جب بہت سے لوگو ں کو گھروں تک کھانا پہنچ چکا تو ایک اوور مرید جناب
عید محمد کو تجس ہو اکہ اتنا کھانا لوگوں کو کھلا یا گیا ہے جب کہ ہما رے
پاس گنتی کی چند روٹیا ں تھیں اور ایک مرغی کا سالن جو شوربے کی شکل میں
تھا ۔تو اس نے جب کپڑ اہٹا کر دیکھا اتنی روٹیاں پڑی ہوئیں تھیں جتنی انہوں
نے رکھی تھیں اور سالن بھی ویسے کا ویسا پڑا ہوا تھا ۔اور حیرت سے سب لوگوں
کو بتانے لگا ۔ یہ بات جب باباصاحبؒ کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپ نے بہت
زیادہ ناراضگی کا اظہار کیا ۔اور فرمانے لگے اگر اس سے کپڑا نہ ہٹایا جاتا
اور ہانڈی سے برتن نہ ہٹایا جاتا تو تاقیامت اسی طرح سے اس میں سے کھانا
برآمد ہوتا رہتا ۔اور دنیا چاہیے جتنی ہوتی اس کھانے سے فیضاب ہوسکتی تھی
۔افسوس کے آپ لوگوں نے میری بات پر عمل نہیں کیا ۔تو اس سے ثا بت ہوا کہ اﷲ
والے جب اﷲ کی خوشنودی حاصل کرلیتے ہیں تو وہ ہر کا م کرسکتے ہیں ۔اور ﷲ
تعالی کی مدد سے اﷲ کی مخلوق کو خاطر خواہ فائدہ پہنچاتے ہیں ۔
اور انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک زمیندار آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض
کی کہ حضور سحری سے آگ پر گڑ بنانے کے لئے کڑا ہا چڑھایا ہوا ہے ۔اور جتنا
ایندھن تھا سب جلا دیا گیا ہے ۔اور کڑا ئے کو ابال نہیں آرہا ہے ۔مہربا نی
فرمائیں ۔ایک دفعہ آپؒ تشریف لے چلیں حضو ا اس وقت بہت سے لوگوں میں بیٹھے
ہوئے تھے ا ور کہنے لگے ہاں چلو ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں ۔اور جتنے لوگ اس
وقت تھے سب کے سب حضور کے ساتھ روانہ ہوگئے جب آپؒ ڈیڑے پر پہنچے ہیں تو
کہتے ہیں ہمیں وہ کڑاہا دیکھا ؤ تو نشاندہی پرآپؒ کڑا ئے کی طرف تشریف لے
گئے تو آپ ؒنے کڑا ئے کی طرف دیکھا اور کچھ دیر تو قف فرمایا پھر ایک دم
کڑا ہے کہ نزدیک بیٹھ گئے اور کہنے لگے تم لوگ کہتے ہو کڑا ئے کو ابال نہیں
آرہا یہ دیکھو اُبال کیسے آرہا ہے ۔اور اسی لمحے کڑا ئے میں بہت بڑا اُبال
آناشروع ہوگیا اور حضور با با صاحب ؒ نے اپنے دست مبارک سے اس کو سنبھالنا
شروع کردیا اور ساتھ ساتھ کہتے جارہے تھے کہ آپ اس کو سنبھا لو اس بات کو
سنتے اوردیکھتے کہ حضور بابا صاحب اپنے ہاتھوں سے کڑا ئے کہ ابال کو درست
کررہے ہیں تو اس زمیندار نے بھی اپنے ہاتھ کڑا ہے میں ڈال دیے اور اس کے
ہاتھ جل گئے اور کہنے لگا کہ بابا جی میرے ہا تھ جل گئے ہیں تو حضو ر
فرمانے لگے کہ میں نے کہا تھا کہ اپنے ہاتھ اس میں ڈال دہ وہ کہنے لگے کہ
آپ بھی اپنے ہاتھوں سے اس کو سنبھال رہے تھے اس لئے میں نے بھی ہاتھ ڈال د
ئیے لیکن آپ کے ہا تھوں کو کچھ نہیں ہو ااور میرے ہاتھ جل گئے ہیں اور مجھے
بہت زیادہ تکلیف ہورہی ہیں مہربانی فرما کر کچھ کریں اور حضور بابا صاحب اس
با ت کو سن کر مسکرانے لگے اور فرمایا دیکھا ؤ اپنے ہاتھ تو جب اس نے اپنے
ہاتھ بابا صاحبؒ کی خدمت میں پیش کیے تو وہ اچھے خاصے جل چکے تھے تو آپ نے
اسی وقت ہاتھوں پر دم کیا اور اپنا دست مبارک پھرنا شروع کیا تو آہستہ
آہستہ اس کی تکلیف رفع ہوتی گئی اور ہاتھ اصلی حالت میں واپس آگئے ۔
ایک مرتبہ ایک سائل آپؒ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ا۔ نہایت ہی پریشان حال
تھا ۔ کافی میلوں کا سفر طے کرتا ہو ابابا صاحب کا پتہ پوچھتا ہو اپہنچا۔اس
کا مسئلہ یہ تھا اس کی بیٹی کو آسیب تھا ۔اور بڑے بڑے عاملوں سے علاج
کروایا ۔لیکن اس کا اثر زائل نہیں ہوتا تھا ۔ وہ شخص بے چارہ بیٹی کے سلسلہ
میں مارا مارا پھرتا رہا ۔بابا صاحب کی خدمت اقدس میں حاضری دی اور ا پنا
مدعا بیان کیا ۔بابا صاحب نے فرمایا کہ آپ کی بیٹی کہا ں ہے ۔وہ شخص کہنے
لگا کہ وہ تو بے چاری گھرپر ہے با با صاحب نے اپنی ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے
اس آ سیب زدہ لڑکی کو دم کیا اور کہا کہ جاؤ تمہاری بیٹی اﷲ تعالی کے فضل
وکرم اور نبی کریم ﷺکے صدقے سے بالکل ٹھیک ہوگئی ہے ۔اور اس شخص نے مزید
دریافت کیا کہ بابا صاحب بتائیے کہ مجھے کیسے یقین ہوگا کہ میری بیٹی اب
آسیب زدہ نہیں رہی میں اس سلسلے میں شرقا غربا گھومتا رہا ہوں بابا صاحب نے
فرمایادیکھو اﷲ تعالی کے فضل وکرم سے تمہاری بیٹی اب بالکل صحت یاب ہے ۔
ہاں اگر تم مزید تسلی چاہتے ہو تو سنو تمہارے گھر میں ایک بڑا جامن کا درخت
ہے وہ شخص یہ سن کر بہت حیران ہو اکہ بابا صاحب نہ کبھی میرے گھر آئے اور
ان کو میرے گھر کے بارے میں علم ہے یہ کیا ماجرہ ہے ۔بہر احال وہ چپ رہا
بابا صاحب ؒنے مزید فرمایا کہ جب تم گھر داخل ہوگے تو وہ درخت زمین سے اُ
کھڑا ہو گا ۔وہ شخص بابا صاحبؒ سے اجازت لے کر رخصت ہو ا اور اپنے گھر کی
طرف چل دیا ۔کافی میلوں کا سفر طے کر کے جب وہ گھر پہنچا تو دیکھ کر حیران
رہ گیا کہ جا من کابہت بڑا درخت زمین بوس ہو چکا تھا ۔اور بیٹی بھی تندرست
ہو چکی تھی ۔اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور بابا صاحبؒ کا صدِق دل سے مشکور
ہوا ۔اس طرح ایک اور واقعہ ان سے منسوب ہے ۔آپ ؒ اپنے مریدین کے ہمراہ اﷲ
تعالی کے ذکر کی محفل میں جارہے تھے ۔راستے میں بہت بڑا طوفان اور شدید
بارش تھی ۔آپ ؒ کے مریدین چاہتے تھے کہ بارش بند ہو گی تو منزل مقصود کی
طرف چلیں گے لیکن بابا صاحبؒ نے کہا کہ ہم اﷲ کے ذکر کی محفل کو نہیں چھو ڑ
سکتے ۔انہوں نے اپنے مریدین کو حکم دیا کہ بارش اور طوفان میں ہی چلو اﷲ
تعالی ہمارے ساتھ ہے تما م یہ دیکھ کر محو حیرت ہوگئے کہ بابا صاحب اور
مرید ین تیزبا رش اور طوفان میں جارہے ہیں اور کپڑے بالکل خشک اور چہرے پر
خو شی کے آثا ر نمایاں ہیں ۔با با صاحبؒ نبی کریم ﷺ کے سچے عاشق تھے ۔اﷲ
تعالی کے عاشق اور نبی کریم ﷺ کے عاشق کا بارش اور آگ کچھ نہیں بگاڑ سکتی
تما م مرید ین خود بھی حیران تھے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے کہ یہ
کیا ماجرہ ہے ہم طوفان سے گزررہے ہیں اور ہم بالکل سکون سے ہیں ۔یہ محض اﷲ
کا فضل وکرم تھا ۔اﷲ سے جو لوگ لو لگاتے ہیں ان کو دنیا وی تکلیفیں اور
مصیبتیں کچھ نہیں کہتیں وہ محض اﷲ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اﷲ تعالی ہی ان
کو نوازتے ہیں بظا ہر دنیا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت پریشان حال ہیں
لیکن اﷲ کا ان پر فضل ہر دم جاری وساری رہتا ہے صوفیا ئے اکرام نے جس دانش
مندی ،حوصلے اور عزم صمیم سے اسلام کا بیٹرا اٹھایا اس کی مثا ل آپؒ کی ذات
ہے حضر ت بابا ولایت شاہ قادری نے تحریک آزادی پاکستان میں پورے جوش وخروش
سے حصہ لیا ہے اور مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے جب قائد اعظم نے بر صغیر کے
طول و عرض میں مسلم لیگ کی تنظیم اور مسلمانان ہند کو مطالبہ پاکستان کے
لئے متحد کیا تو آپ نے مسلم لیگ کو فعال بنا نے اور مطالبہ پاکستان کی
اہمیت سے عوا م النا س کو رو شناس کرانے کے لئے فقید المشال جد وجہد کی آپ
ایک شعلہ بیان خطیب تھے اورواعظ بے مثال کے لقب سے جانے جاتے تھے ۔آپ نے
اپنی آتش نوائی اور شعلہ بیانی کو مسلمانا ن ہند کے قلوب میں جزبہ حریت
پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا ۔آپؒ نے برصغیر کے طول وعرض میں اپنے متو
سلین مرید ین اور اولیا ئے کرام سے محبت رکھنے والوں کو تحریک آزادی ہند
میں جد وجہد کے لئے تیا رکیا ۔ 14اگست 1947ء کو مملکت خدا داد کا ظہور
دنیا کے نقشے پر ہوا تو ہندؤوں اور سکھوں نے مسلم کشی کا وہ سلسلہ شروع
کردیا جسے تا ریخ انسا نی کا بد ترین سانحہ قرار دیا جاتا ہے ۔حضرت بابا
ولایت شاہ قادری ؒ کے شب وروز تحریک پاکستان کے لئے وقف تھے اس لئے جو نہی
تقسیم ہند کا اعلان ہو اتو سکھوں کے مقابلے میں جد وجہد کرتے ہوئے جام
شہادت نوش فرمائی ۔آپ ؒنے اپنی شہادت سے بہت پہلے اپنی جائے شہادت اور
قاتلوں کی نشادہی فرما دی تھی ۔آپؒ کے خاندان کے اکثر لوگ قیام پاکستا ن کے
وقت شہید ہوگئے تھے ۔ صرف چند لوگ زندہ پاکستا ن پہنچے ۔
حضرت با با ولایت شاہ ؒ کا شجر ہ مبا رک۔
ان کا شجر ہ حسبی اس طرح ہے ۔حضرت با با ولایت شاہؒ کے مرشد کا نام حضرت
خواجہ الحا ج خیر شاہؒ ان کے مرشد کا نا م حضرت خواجہ پیر مامون شاہ ؒ ان
کے مرشد کا نا م حضرت خواجہ ثبوت شاہ ؒولی ان کے مرشد کا نام حضرت خواجہ
فاضل شاہ قلندرؒ ان کی مرشد کا نا م حضرت خواجہ عبد الرحما ن ؒ ان کے مرشد
کانام حضرت خواجہ عبد الرحمان المعروف پاک رحما ن ؒ ان کے مرشد کا نام شیخ
السلام حا فظ حاجی محمد نوشہ گنج بخش ؒ ان کے مرشد کا نا م خواجہ سخی شاہ
سلیما ن قادری ؒ نوری ان کے مرشد کا نا م حضرت خواجہ قطب الکونین شاہ معروف
ؒ خو شابی ان کے مرشد کا نا م خواجہ سید مخدوم مبارک ؒ حقانی اوچی ان کے
مرشد کا نا م حضرت خواجہ سید شاہ محمد غو ث اوچی ؒ ان کے مرشد کا نام حضرت
خواجہ شمس الدین اعظم حلبی ان کے مرشد کا نا م حضرت خواجہ ابو عبد اﷲ شاہؒ
میر گیلانی ان کے مرشد کانام حضرت خواجہ سید ابو الحسن علی گیلانی ؒ اُنکے
مرشد کانا م حضرت خواجہ ابو البرکا ت سید مسعود گیلانی ؒ ان کے مرشد کا نا
خواجہ سید العباس احمد گیلانی ؒ ان کے مرشد کا نا م خواجہ سید صفی الدین
گیلانی ان کے مرشد کانا م خواجہ سیف الدین عبد الوہاب ؒ ان کے مرشد کا نا م
حضرت محی الدین عبد القادر جیلانیؓ ان کے مرشد کانام حضرت خواجہ ابو سعید
مخدومی ان کے مرشد کانام حضرت خواجہ ابو الحسنؒ ان کے مرشد کا نام حضرت
خواجہ انصرح بن یوسف ؒ ان کے مرشد کانام حضرت خواجہ ابو الفضل عبد الواحد
تمیمی ؒ ان کے مرشد کانام خواجہ ابو بکر شیخ شبلی قاسمؒ ان کے مرشد کانام
خواجہ امام ابو القاسم جنید بغداد ی ؒ ان کے مرشد کا نام خواجہ ابو الحسن
سری سقطیؒ ان کے مرشد کا نام خواجہ حضرت خواجہ ابو المحفو ظ معروف کرخی ؒ
ان کے مرشد کا نا خواجہ ابو سیلما ن داوددطائی ؒ ان کے مرشد کا نام حضرت
خواجہ ابو محمدحبیب عجمی ؒان کے مرشد کا نام حضرت خواجہ ابو سعید حسن بصریؒ
ان کے مرشد کا نام حضرت علی ؒ ۔
یہ بات تو اٹل ہے کہ کسی بھی دلی کا مل کی ولایت کا اہم ترین پہلو تعلیم پر
مبنی ہوتا ہے حضرت بابا ولایت شاہ قادری نہایت ہی پاک سچے اور یادالہی میں
مشغول رہتے تھے ۔انہوں نے ساری زندگی توحید عشق رسول ﷺ کو اپنا سلیقہ وشعار
بیا یا اور لوگوں کو بھی اس پر کا ر بند رہنے کی ہدایت دی حضرت بابا ولایت
شاہ صاحب قادری نوشاہی ؒ وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیتے تھے ۔انہوں نے
زندگی بھر وعدہ پورا کرنے پر لوگوں کور بند کیا حضرت بابا ولایت شاہ ؒ نے
لوگوں کو نماز ،زکوۃ ،روزہ ،حج کی تعلیم پر زور دیا ۔ حضرت بابا ولایت شاہؒ
نے سچائی کو اپنی زندگی کا اولین مقصد اپنائے رکھا ۔ہمشہ سچ اور پاک بازی
کی مچالیں دیتے تھے ۔حضرت بابا ولایت شاہ قادری نوشاہی ؒ کا روحانی فیضان
آپ ؒ کے سجادہ نشین جناب عزت مآب پیر طریقت حکیم میا ں محمد عنائیت صاحب کی
زیر سرپرستی دواں دواں ہے ۔حکیم میا ں محمد عنایئت صاحب قادری نیو مسلم
ٹاون گل والا سرگودہ میں سکونت ہع ہیں ۔بابا صاحب کا فیض ان کے ذر یعے عشاق
رسولﷺ اور اﷲ کے نیک بندوں میں مسلسل جارہی ہے ۔یہاں ہفتہ وار اور ماہانہ
محفل کا انعقاد ہوتا ہے اور بہت سے لوگ جوق درجوق یہاں حاضر ہو کر برکات کی
دعوت سے مالا مال ہوتے ہیں پیر طریقت حکیم محمد عنایت صاحب قادری نوشاہی
باشر یعت اور حمدل شخصیت کے مالک ہیں ان کی خدمت اقدس میں ہر مکتبہ فکر کے
لوگ حاضر ہویت ہیں ۔قدوۃالسالکین ،عمدہ العارین ،فخر خاندان عالیہ محمدیہ
ٰقادریہ نوشاہیہ سرتاج مشتاقان غوثیہ حضرت بابا شاہ قادری شہیدؒ کا سالانہ
عرس مبارک ہر سال سات اکتوبر کو نوشاہی منزل بمقام نیو گل والا سرگودہا زیر
سرپرستی پیر طریقت حکیم میا ں عنائیت قادری نوشاہی منعقدہوتا رہا ہے لیکن
قبلہ حضرت حکیم میاں محمد عنائت قادری نوشاہیؒ کے وصال کے بعد یہ سلسلہ اُن
کے جگر گوشہ حکمے میاں محمد یوسف خان قادری نوشاہی کی سرپرستی میں جارہی ہے
|