صرف دس بارہ سال!

 اپنے ہر دلعزیز، مقبول اور سدا بہار وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے قوم کو عظیم خوشخبری سنا دی ہے۔ رمضان المبارک میں سنائی جانے والی اس خوشخبری کو پورے ہونے میں البتہ دس بارہ برس لگیں گے۔ وزیر موصوف نے قوم کو بتایا ہے کہ’’․․․ اگر تمام سیاسی جماعتیں مل کر ’میثاقِ معیشت‘ پر متفق ہو جائیں تو بہت جلد پاکستان ڈی 20ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے․․․ ہم اگلے چند سالوں میں کینیڈا، اٹلی اور جنوبی کوریا سے آگے نکل جائیں گے․․‘‘۔ ہمارے جیسے عوام کی اکثریت بجٹ کے نشیب وفراز کو نہیں سمجھتی، بلکہ بہت بڑے بڑے ماہرین بھی چکر ا جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سال بجٹ کو’’ الفاظ کا گورکھ دھندا‘‘قرار د ے کر جان چھڑوا لی جاتی ہے۔ دوسرا کام یہ ہوتا ہے کہ میڈیا (خاص طور پر الیکٹرانک) بجٹ پر بحث کرواتا ہے اور نتیجہ کے طور پر ایک طرف بجٹ کو متوازن، عوام دوست اور انقلابی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب اسی بجٹ کو غریب دشمن، غیر متوازن اور اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے والا کہا جاتا ہے، یوں اس پر بحث کرنے والے دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں، اور پروگرام کا اختتام یا اگلے روز اخبار میں شائع ہونے والی سرخی یہ ہوتی ہے،’’بجٹ پر ماہرین کا ملا جلا ردّ عمل ‘‘۔ ہر فریق اپنی اپنی جگالی کرتا، سر کھپاتا، پاؤں پٹختا رہتا ہے اور حکومت بجٹ منظور کروا کر اپنے کام میں مصروف ہو جاتی ہے۔

اب عوام کی مرضی کہ وہ روزے کی حالت میں ہی خوشی سے لوٹ پوٹ ہونا چاہتے ہیں یا یہ فریضہ افطاری کے بعد نبھائیں گے، تاہم ہمارا مشورہ ہے کہ اس کارِ خیر میں تاخیر مناسب نہیں، ہاتھ آئی خوشی سے فوراً فائدہ اٹھانا چاہیے، اس کو نظر انداز کرنا کفرانِ نعمت ہی کہلائے گا۔ وزیر خزانہ نے کینیڈا اور اٹلی وغیرہ سے آگے نکلنے کے لئے کسی بات کی شرط نہیں لگائی، وہ صرف ڈی 20میں شمولیت پر میثاقِ معیشت کی بات کی گئی ہے، کہ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان 2030ء تک اس فہرست میں شامل ہو سکے گا، تاہم اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں موجودہ حکومت سے تعاون کریں تو یہ کام بھی عالمی اداروں کی توقعات سے پہلے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے قومی معاملات میں سیاسی جماعتیں ہم آواز ہو جاتی ہیں، مثلاً دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے موقع پر تمام جماعتوں نے متفقہ فیصلہ ہی کیا تھا۔ مگر عام معاملات میں دیکھا جائے تو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتیں، اس ضمن میں اخلاقیات کا جنازہ بھی نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے بھی ہے کہ اپوزیشن حکومت پر ہمیشہ تنقید کرتی ہے، یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ ہم ہوتے تو یہ کردیتے یایہ ہو جاتا یا یہ ایسے نہ ہوتا۔ مگر یہ تو ممکن نہیں کہ اپوزیشن احتجاج بھی چھوڑ دے، یہی تو اپوزیشن کا کردار ہوتا ہے، یہی تو حکومت کو سیدھے رستے پر رکھنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں مسلم لیگ ن اور پی پی کے درمیان میثاقوں کا کلچر فروغ پذیر رہا ہے، پرویزمشرف کے دور میں جب میاں برادران اور محترمہ بے نظیر سب جلا وطن تھے، تو ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ وجود میں آیاتھا، جس کے بطن سے مفاہمت کی سیاست نے جنم لیا تھا، ایک دوسرے کی باریاں آنے میں تعاون کی بات تھی، برداشت کرنے کا معاہدہ تھا اور نرم گرم بیانات سے کام چلانے کی منصوبہ بندی تھی۔ یہ بہت عرصہ تک ہوتا رہا۔ مگر اب سیاست میں تحریک انصاف بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آگئی ہے، لہٰذا اب دو جماعتی ’مفاہمت‘ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں۔ حکومت صرف اپنی پالیسیوں پر تو میثاقِ معیشت استوار نہیں کرسکتی، دوسروں کی بھی سننی اور ماننی پڑیں گی۔ اس کے لئے سادگی بھی ایک اہم عنصر ہے، مراعات کے نام پر عیاشیوں کی صورت میں ترقیاں نہیں ہوا کرتیں۔ خیر یہ تو ہوتا ہی رہے گا، اصل بات یہ ہے کہ کچرے کے ڈھیروں پر پھرنے والے بچے، چائلڈ لیبر کے نام پر بھاری پتھر اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ’چھوٹے‘، بے روزگاری سے تنگ نشہ کی لعنت اختیار کرنے والے نوجوان، غربت سے تنگ بچوں سمیت نہروں میں کودنے والی مائیں، وسائل اور سکول نہ ہونے کی وجہ سے سکولوں سے باہر لاکھوں بچے اور دیگر عوام صرف دس بارہ سال انتظار کرلیں، ہم کینیڈا اور اٹلی سے آگے نکلنے والے ہیں، جو ڈار صاحب کے ساتھ ترقی کا سفر نہیں کرنا چاہتا وہ شوق سے مندرجہ بالا کاموں میں سے اپنی پسند کا اقدام کر سکتا ہے۔ 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472632 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.