بالکونی

پورے شہر میں ہر طرف توڑ پھوڑ جا ری تھی۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر پورے شہر کو ادھیڑ دیا گیا تھا۔ میں دائیں بائیں دیکھتا ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر بہت آہستہ گاڑی چلا رہا تھا۔ موڑ مُڑتے ہی سامنے وہ گھر دکھائی دیا جس کی چھتیں غائب تھیں اور مزدور دیواروں کو توڑنے کے لئے ان پر ہتھوڑے چلا رہے تھے۔ غیر ارادی طور پر میں نے گاڑی سڑک کے ایک طرف خالی جگہ پر کھڑی کی اور تیزی سے باہر نکل مکان کی طرف دیکھنے لگا۔ بہت سے مزدور مکان کو گرانے کے لئے کام کر رہے تھے۔میراجی چاہا کہ آگے بڑھ کر مزدوروں کو روک دوں کہ ان دیواروں کو نہ توڑیں، میرے احساسات کو زندہ رہنے دیں۔ کچھ تو باقی رہنے دیں۔ مگر شاید یہ نہ میرے بس میں تھا اور نہ ہی اُن مزدوروں کے بس میں۔میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا بالکل اس مکان کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ بڑے بڑے ہتھوڑوں نے تھوڑی سی دیر میں دیواروں کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اب کچھ مزدور بالکونی کو توڑ رہے تھے۔ مجھے یوں لگا بالکونی پر لگنے والی ہر ضرب میرے دل کے کسی گوشے میں چوٹ لگا رہی ہے۔ بالکونی کی دیواریں پوری طرح ٹوٹ گئی، اب مزدور دوبارہ بڑی دیوار پر زور آزمائی کر رہے تھے جس میں بالکونی کا فرش پھنسا ہوا تھا۔ اچانک بالکونی کا فرش ایک جھٹکنے کے ساتھ دیوار کو چھوڑ کر بیس فٹ نیچے زمین پر دھم سے آگرا۔ مجھے لگا میرے دل کا ایک حصہ ٹوٹ کر زمین پر دھم سے گر گیا ہے۔ نمناک آنکھوں سے میں نے ٹوٹی ہوئی بالکونی کو بیسیوں ٹکڑوں میں بٹ کر زمین پر گرے ملبے میں ملبہ ہوتے دیکھا اور بوجھل قدموں سے واپس گاڑی کی طرف چل پڑا۔

وہ مجھ سے آٹھ دس سال بڑی تھی۔ انتہائی خوبصورت، سفید رنگ، نرم و نازک، پتلی دبلی، شوخ چنچل، ہنس مکھ، ہر بات پر قہقہے لگانا، ہر بات میں کوئی نہ کوئی مذاق کی صورت نکالنا اُس کی عادت تھی۔ ہم ایک ہی مکان کے مکین تھے۔ ایک منزل پر ہمارا گھر اور دوسری منزل پروہ لوگ رہتے تھے۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔وہ میٹرک کر چکی تھی اور میں ان دنوں شاید پانچویں یاچھٹی کلاس میں تھا۔ ہم بہن بھائی سکول سے آتے تو اُس نے کسی نہ کسی کھیل کا خاکہ تیار کیا ہوتا۔ ہم سکول کے آنے کے بعد کھانا کھاتے، وہ انتظار کر رہی ہوتی، ہم کھانے سے فارغ ہوتے تو کھیل شروع۔ کبھی لُڈو، کبھی کیرم بورڈ، کبھی چُھپن چھپائی، آج کیا کھیلنا ہے یہ فیصلہ وہی کرتی اور جب فیصلہ سناتی تو ہم خوشی سے چھلانگیں لگاتے۔ بچپن کے یہ دن بہت خوبصورت تھے۔ جس دن ہم چُھپن چھپائی کھیلتے تو ایک دوسرے کو پکڑتے ہوئے اُس کے خوبصورت سفید نرم و نازک ہاتھ میرے جسم کو چھوتے یامیرا اُس کے ہاتھوں کواپنے ہاتھ میں پکڑنامجھے بہت بھلا لگتا۔ سکول سے واپس آکرہمیں دو گھنٹے تک کھیلنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس کے بعد ہم نے پڑھنا اور سکول کا کام کرنا ہوتا تھا۔ دو گھنٹے گزرتے، ہم کتابیں اٹھائے پڑھنے بیٹھ جاتے۔ وہ کسی سکول کی اُستانی کی طرح ہمارے پاس بیٹھ کر ہم پر رُعب جماتی اور پڑھنے میں مدد بھی کرتی۔ میں انگلش میڈیم سکول میں تھا۔ اُس نے سرکاری سکول سے میٹرک کیا تھا۔اس لئے انگریزی کے معاملے میں پڑھاتے ہوئے وہ کچھ پریشان ہو جاتی، مگر باقی مضامین میں وہ کسی اُستانی سے کم نظر نہ آتی۔ پانچ چھ سال سینئر ہونے کے ناطے وہ رُعب بھی بھرپور جماتی۔ اسی طرح ہنستے کودتے ہمارا بچپن گزرا۔

میٹرک کے بعد اُس کی ماں نے اُس کی منگنی کر دی تھی۔ اُس کا منگیتر اُس کی خالہ کا بیٹا تھا۔ کبھی کبھار وہ گھر آتا تو وہ اُس کے سامنے بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آتی۔ پوری ٹیم لے کر دوڑتی بھاگتی گھر میں اُودھم مچا رہی ہوتی۔ ماں کہتی بیٹا وہ تیرا منگیتر کیا کہے گا کہ اتنی بڑی ہو گئی ہے اور عقل نہیں آئی۔ وہ ہنس کر جواب دیتی ماں اچھا ہے، اگر وہ سڑیل مزاج ہے، بغیر کسی وجہ سے باتیں بنانے والا ہے غیر ضروری رعب ڈالنے والا ہے تو اچھا ہے شادی سے پہلے ہی پتہ چل جائے گا، تم اسے چھٹی کر ادینا، دنیا میں لڑکے کونسے کم ہیں۔کوئی مل ہی جائے گا۔ اونچی آواز میں یہ کہتے ہوئے وہ ہنستی ہوئی پھر کھیل کود میں مصروف ہو جاتی۔ اُس کا منگیتر مسکرا کر اُس کی باتیں سنتا رہتا۔

پھر ایک دن اُس کی شادی ہو گئی۔ شادی کی تقریب میں ہم پوری طرح شریک تھے۔ اُس وقت کی روایات کے مطابق مہمانوں کو کھانا کھلانا، کھانے کے انتظامات کرنا اور سب کچھ عزیزوں ، ہمسایوں اور بہن بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ چنانچہ ہم نے وہ ذمہ داری پوری طرح نبھائی۔وہ دُلہن بن کر رُخصت ہو رہی تھی تو سب اُسے مل کر رو رہے تھے۔ اُن سب کو روتا دیکھ کر میں بھی ایک طرح منہ بسورے کھڑا تھا۔ گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اُس نے مجھ سمیت سارے بچوں کو بلایا، سب سے ملی اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر ایک نئے گھر چلی گئی۔اس دن محسوس ہوا جیسے زندگی میں شاید کوئی چیز کم ہو گئی ہے اک نامحسوس سی محبت تھی جو بچھڑ گئی۔ شادی کے بعد ہفتے میں ایک آدھ بار وہ دن بھر کے لئے آتی اور ہمیں یوں لگتا جیسے ہماری خوشیاں لوٹ آئی ہوں۔گھر میں بہار آ جاتی۔ ہم دن بھر خوب اُودھم مچاتے اور شام کو اُس کا میاں آتا، ہنس کر ہمیں پوچھتا کہ آج کا دن اچھا گزرا ہے؟ ہم ہاں کہتے تو جواب میں کہتا میرا تو اداس گزرا ہے۔ ہم سب قہقہہ لگاتے۔

ایک دن میں اُس چوک سے گزر رہا تھا تو اُسی بالکونی پر وہ اور اُس کا میاں کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر شور مچانے لگی کہ اوپر آؤ۔ میں نے معذرت کی تو اپنے میاں کو کہنے لگی، اینٹ پکڑو ،اگر یہ اوپر نہ آیا تو اسے ماریں گے۔ وہ حسب معمول ہنس رہا تھااور وہ بالکونی پر کھڑی اونچی آواز میں کسی کی پرواہ کئے بغیرمجھ سے مخاطب تھی۔ میں نے پھر معذرت کی اور کسی دوسرے وقت آنے کا وعدہ کیا۔ بہت منتیں کرکے بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔پھر سالہا سال بیت گئے۔ میں جب بھی اُس چوک سے گزرتا میرے قدم رُک جاتے اور آنکھیں اُس بالکونی پر اُسے تلاش کرتی رہتیں۔ کبھی کبھار وہ نظر آتی، مگرمیں تیزی سے گزر جاتا۔ مجھ میں اس سے بات کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔ بالکونی کو دیکھنے کے بعد میں جانے کیوں اداس ہو جاتا۔ ذہن میں ایک فلم سی چلنے لگتی۔ وہی بچپن، وہی کھیل کود، کبھی اس کے نرم و نازک ہاتھ مجھے چھو رہے ہوتے،کبھی میں نے ان سفید نرم ہاتھوں کو تھاما ہوتا ،کبھی ہم دونوں ایک جگہ چھپ کر بیٹھے ہوتے اور مجھے یوں لگتا کہ آج بھی اس کا محسوس ہوتالمس میرے احساس کو اک مسرت سے سرشار کر رہا ہے۔ بالکونی تو نظروں سے اوجھل ہو جاتی مگر ذہن دیر تک ماضی کی انہی یادوں میں الجھا رہتا ۔ بہت دفعہ جی شدت سے چاہا کہ اوپر جاؤں اور اسے مل کر آؤں، مگر ہمت نہ ہوئی اک چور سا دل میں محسوس ہوتا۔ اب کچھ سالوں سے بالکونی پر کچھ انجان لوگ نظر آرہے تھے۔ شاید اس نے یہ گھر چھوڑ دیا تھا اور کسی نئی جگہ منتقل ہو چکی تھی۔ مگر یہاں سے گزرتے ہوئے میری جذباتی کیفیت میں کچھ فرق نہیں آیا تھا۔میں جب بھی یہاں سے گزرتا،ہمیشہ یہاں رکتا اور کسی انجانی تلاش میں مگن رہتا۔شاید اس انجانی محبت کو جو میرے لاشعور میں بسی تھی، میری پہلی محبت، جو آدمی چاہنے کے باوجودکبھی بھول نہیں سکتا۔

آج یہاں سے گزرتے ہوئے جب میری نظروں کے سامنے وہ بالکونی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گری تو یوں لگا میرا بچپن ریزہ ریزہ ہو گیا۔ میرے شوق، میری مسرّتیں، میرے ماضی کی حسین یادیں اور بہت کچھ ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔میری محبت مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھین لی گئی۔ اک ملبے کا ڈھیر تھا کہ جس میں میری ہر چیزملبہ ہو گئی تھی۔ اب وہ جگہ میرے لئے میری یادوں کا قبرستان تھی، جس میں سب کچھ دفن ہو گیا تھا۔ میں نے نمناک نظروں اس ملبے کو دیکھا جس ملبے میں بالکونی کے ٹکرے کھو گئے تھے اور بوجھل قدموں سے چلتا ہوا گاڑی تک واپس آگیا۔ اب یہاں ایک بہت بڑا چوک بنے گا جس پر نئی نسل اٹھلاتی ہوئی چلی گی، یہ جانے بغیر کہ اس چوک کی تعمیر میں پرانی نسل کے کتنے لوگوں کے جذبات کا خون شامل ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500486 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More