اس میں شک نہیں کہ ہیوگو نے "لامزراہل" جیسے ناولوں سے
بھی بڑی شہرت حاصل کی، لیکن اصل میں اس کی شاعری کا ادبی اثر بہت قوی اور
وسیع تھا جس سے ویرلان، بودلیر اور رمبائو جیسے مختلف شاعرمتاثر ہوئے۔ 1830
ءسے 1845 ء تک اس نے ناول شاعری اور ڈراما میں بڑا نام پیدا کیا۔ پھر اس نے
سیاسیات کی طرف توجہ کی، جب نپولین ثالث ڈکٹیٹر بنا تو ہیوگو کو جلا وطن
کردیا گیا۔ یہ جلا وطنی اٹھارہ سال تک رہی ہیوگو گورنسی کے جزیرے میں اپنی
اس مظلومی میں بھی مزے اڑاتا رہا۔ 1870 ءمیں جب دوبارہ جمہوریت قائم ہوئی
تو ہیوگو پیرس واپس آیا اور آخری پندرہ سال انتہائی کامیابی اور کامرانی سے
گزارے۔ اس کی ادبی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی اور لوگ اس سے بے حد محبت
کرنے لگے۔
ہیوگو زبان اور وزن و بحر کا بہت بڑا ماہر تھا لیکن آج کل کےنقادوں کی رائے
یہ ہے کہ اس میں وہ اعلیٰ کردار اور دماغی قابلیت نہ تھی جو کسی غیر فانی
مصنف کے لیے ضروری ہے، لیکن اپنے زمانے میں وہ ایک ادبی قوت تھا جس کی
اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔ ہیوگو 22 مئی 1885 ء کو وفات پاگیا۔
٭٭٭ |