خدشہ جو سچ ثاتب ہورہا ہے۔

پاکستانی عوام میں بڑھتے ہوئے شعور کا کریڈٹ اگر صر ف اور صرف میڈیا کو دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ابھی کل تک ہم کنویں کے مینڈک بنے اپنے حال میں خوش تھے۔نہ تن پہ کپڑے۔نہ جیب میں مال مگر ہم تھے کہ کامیابیوں کے ایسے مسافر بنے ہوئے تھے۔جو منزل کے قریب ہو۔خوشحالی کا احساس تو تب ہوتاجب دائیں بائیں کی کچھ خبر ہوتی۔مگر ہمیں اندھیروں میں رکھ کر کچھ لوگ اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔میڈیا کی ترقی نے اس بے ایمان سیاست کو ناکام بنایا ہے۔ دنیا کو سکیڑ کر رکھ دیا۔اب اپنے ہمسائے ہی نہیں ساتھ والے شہر بلکہ ملک میں ہونے والے حالات و واقعات سے باخبر ہورہے ہیں۔وہاں کا رہن سہن ہمیں چونکا رہا ہے۔وہاں کے حالات ہمیں اپنی محرومی کا پتہ دے رہے رہیں۔چیزیں کیسی ہونی چاہییں۔ہمارے ہاں کیسی ہیں۔اس کی آگاہی ہورہی ہے۔یہ سب باتیں بڑھتے ہوئے شعور میں مدد دے رہی ہیں۔ہم جو اندھیروں کے عادی تھے۔حقیقت دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔ان لوگوں کا گریبان پکڑنے کا جزبہ بڑھ رہا ہے جو ان اندھیروں کے ذمہ دار ہیں۔جو یا تو ڈراتے رہے۔یا پھر ورغلاتے رہے ۔سب اچھا کی گردان آلاپی جاتی رہی۔یہی سب کچھ ہے کہا گیا۔قوم کو ڈھونگ اور ڈراموں میں پھنسایاجاتارہا۔اب حقیقت سامنے آنے پر عام لوگوں برہم ہیں۔اور بے ایما ن قیادت منہ چھپانے میں لگی ہوئی ہے۔

موسمی پرندوں کے لیے ان دنوں اپنی منزل کے انتخاب میں دقت کا سامنا ہے۔یہ لوگ اپنی اگلی منزل کا تعین کرنے میں یوں مشکل کا شکارہیں۔کہ ابھی تک وہ ہوائیں نہیں چل پائیں۔جو اگلے الیکشن میں مقتدر حلقوں کی نوازش کا پتہ دے سکیں۔اگلی بار کس پارٹی پر دست شفقت ہوگا۔یہ ابھی تک واضح نہیں ہوپارہا۔مسلم لیگ ن تو حکومتی پارٹی ہونے کے سبب اس دوڑ سے ویسے ہی باہرتھی ۔اب یہ مقابلہ پی پی او رتحریک انصاف کے درمیان ہے۔مگر روز بروز متغیر صورتحال سے ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے لیے اگلے الیکشن میں کامیابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔اگر دوسری دو بڑی جماعتیں اسی طرح ایک دوسرے پر جھپٹی رہیں تو نواز شریف کے لیے اگلاالیکشن جیتنا مشکل نہ ہوگا۔ان پرندوں کے لیے پی پی اور تحریک انصاف پہلی چوائس تو ہیں۔مگر موجودہ حالات میں ان کے لیے حتمی انتخاب ایک مشکل امر بنا ہواہے۔کچھ ایسے لوگ جو عجلت پسندی کا شکار ہوئے آج پچھتارہے۔جن لوگوں نے اپنی اڑان میں تیزی دکھائی اب و ہ منجدھار میں ہیں۔نہ انہیں وہاں سکون ہے۔اور نہ وہ باہر آنا آسان سمجھتے ہیں۔حالات یوں کروٹیں بدل رہے ہیں۔کہ کبھی پیپلز پارٹی کا زور دکھائی دیتاہے ۔او رکبھی تحریک انصاف کا شور کانوں کو پڑتاہے۔ایسے میں ایک بڑی خبر بلک افواہ سامنے آئی کہ پی پی کے قریب درجن کے قریب بڑے لوگ تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے رابطے میں ہیں۔ان لوگوں میں قمرالزمان کائرہ۔شوکت بسرا۔مخدوم شہاب الدین ۔اورفردوس عاشق اعوان جیسے بڑے نام شامل ہیں۔یہ چونکا دینے والی خبر یوں تھی کہ بظاہر تحریک انصاف کا شو ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔جس تلاشی اور تفتیش کے کارنامے پر خاں صاحب اتراتے پھر رہے تھے۔اسی قسم کی تلاشی اور تفتیش سے وہ خود گزر رہے ہیں۔بالکل شریف فیملی جیسے حالات سے تحریک انصاف کی قیادت دوچارہے۔اس کی بے بسی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی۔کہ وہ اپنی نااہلی کا ذہن بناچکے ہیں اور اسے گاڈ فادر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ایک قربانی قر ر دے کر مظلوم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ا ب قوم کی نظرمیں محمود وایا ز ایک ہی ثابت ہونے کے سبب تحریک انصاف کا چارم باقی نہیں رہا۔ایسے میں پی پی کے ایک بڑے گروپ کا پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ حیران کن ہے۔بظاہر یہی لگتاہے۔کہ ایک بار پھر پیٹریاٹ گروپ بنانے کا فیصلہ کرلیاگیا۔وہ قوتیں جو تمام معاملات اپنے تابع رکھنے کی عادی ہیں۔انہوں نے ایک ذہن بنالیاہے۔انہیں اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ قانونی او راخلاقی طور پر کیا غلط ہے ۔او رکیا صحیح و ہ تو جو کو اپنے لیے مناسب سمجھتی ہیں۔وہی کرگزرتی ہیں۔جس کی فرمانبرداری پر مطمئین ہوں ۔اس کے لیے اقتدار کے راستے کھول دیتی ہیں۔شاید ا س نئے پیٹریاٹ گروپ کو بھی آنے والے منظر نامے سے آگاہ کردیا گیاہے۔جس کے سبب وہ بظاہر ایک ایسی ٹرین میں سوار ہونے پر آمادہوچکے جس کا ڈرائیور معذور اور مفلوج ہے۔شاید انہیں یہ بھی بتادیا ہے کہ ڈرائیور ی کسی ایک تک رہنے کی پابندی نہیں۔یہاں درجنوں لوگ اسی طرح کی درخواستیں لیے بیٹھے ہیں۔جس طرح کی اس ڈرائیور نے پیش کی تھی۔

پیپلز پارٹی کے لیے اس وقت لمحہ فکریہ ہے۔اگر اگلے الیکشن میں بھی و ہ آؤٹ رہتی ہے تو اس کے لیے بقا کے لالے پڑ سکتے ہیں ۔بظاہر اس کی پوزیشن تحریک انصاف سے بہترتھی۔مگر جس طرح سے حالات اس پارٹی کے ہاتھ سے نکلتے چلے جارہے ہیں۔اس سے اس پارٹی کے لیے ناتی دھوتی رہ گئی۔والی بات بن سکتی ہے۔معاملات کو اس حد تک پہنچانے میں یوں تو دیگر اسباب بھی ہونگے مگر کلیدی کردار اس مفاہمتی سیاست کا طے پائے گا۔ جسے قیادت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوپائی۔بجائے حقائق کا سامنا کرنے اپنی غلطیاں تسلیم کرنے اور اان کے ازالے کا وعدہ کرنے کے اسی بری حکمت عملی پر کاربندرہنے کی کمزور ی نے یہ دن دکھائے ہیں۔جب سے زرداری صاحب نے واطن واپسی کے بعد سے اپنی مخصوص سیاست شروع کردی۔اس طرح کے تنائج کا خدشہ تھا۔جو درست ثابت ہورہا ہے۔زرداری دور کسی بھی پہلو سے مثبت نہیں رہا۔اتحادی جماعتوں نے جناب زرداری کی مک مکا والی مفاہمتی سیاست کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ایک دوجے سے بڑھ کر کرپشن کرنے کی دوڑ سی لگی ری۔تب صدر مملکت کا واحد فریضہ اس لوٹ مار کے تحفظ کی تدابیر نکالنا بنا رہا۔ نظام احتساب کومفلوج کیے رکھنے کی اجتماعی پریکٹس مسلسل جاری رہی۔عوام نے زرداری دور کی کارکردگی سے متعلق الیکشن دوہزار تیرہ میں اپنا فیصلہ سنادیا تھا۔تما م رنگ بازیوں اور شعبدہ بازیوں کاجواب قوم نے اس جماعت کو سندھ کے دیہات تک مقیدکر کے دے دیا۔اب شعبدہ بازی اور ڈھونگ کا دور نہیں رہا۔میڈیا کے بخشے شعور نے اب حقائق کے منافی چیزوں کو مسترد کرنے کا راستہ دیاہے۔مگر پی پی قیادت اب بھی ماضی میں رہنے کی غلطی کررہی ہے۔ زرداری صاحب نے واپسی پر اپنی اسی قسم کی سیاست کا پرچارکیاتو بلاول بھٹو کی ان کوششوں کو زک پہنچی جو والد کی بیروں وطن منتقلی کے دوران کی گئیں۔بلاول بھٹو کو اس واپسی کا دہرا نقصان ہوا۔ا ب تک وہ معاملات کو اپنے ڈھنگ میں چلانے میں لگے تھے۔نئی پارٹی تنظیم ان کا خواب تھا۔ماضی کی غلطیوں کی تلافی ان کا مقصد نئے نعرے اور نیا منشور ان کی تمنا مگر زرداری صاحب کی آمد کے بعدنہ صر ف بلاول کو اپنا ایجنڈا روکنا پڑا بلکہ الٹا وہ ایجنڈا اپنانا پڑا جو زرداری صاحب ترتیب دیتے ۔زرداری دور کو لوگ ایک برا خواب سمجھ کر بھولنے کی خواہش رکھتے ہیں۔بلاول کو ایک موقع دینے کی تمنا بھی تھی۔مگر زرداری صاحب پھر سب پہ بھاری ہوگئے۔زرداری کی زبان بولنے سے بلاول کا امیج بھی خراب ہوا۔خدشہ تھاکہ زرداری اگلے الیکشن میں پھر حائل ہو کر پارٹی کو نقصان پہنچائیں گے۔بدقسمتی سے یہ خدشہ درست ثابت ہورہا ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.