اﷲ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ اپنا محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم
بھیج کر بابِ رسالت مکمل کر دیا۔ بہاروں کی زمیں پر انبیا کی آمد ہوتی رہی۔
محبوب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پتھروں کی زمیں پر بھیجا۔ ریگ زارِ عرب میں
بھیجا۔اہلِ باطل کے معبودانِ باطلہ بھی پتھر کے تھے۔ سچائی کا آوازہ بلند
ہوا۔ حرا کی وادیوں سے علم ویقیں کا اجالا پھیلا۔ وادیِ مکہ نغماتِ توحید
سے گونج گونج اُٹھی۔ سردارانِ قریش، آقایانِ کفر لرزہ بر اندام ہو
گئے۔انھیں پیغمبر آخرالزماں صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوتِ فطرت ایک آنکھ نہ
بھائی۔ جور وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ایذا دی گئی۔ ستایا گیا۔ سماجی بائیکاٹ
کیا گیا۔ ظلم شباب کو پہنچا۔ ہجرت کا عظیم مرحلہ پیش آیا۔ اول جانبِ حبشہ
ہجرت کی گئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت فرما ہوئے۔ جو
ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اہلِ مدینہ مسرور ہو اُٹھے کہ اﷲ کے محبوب
صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ وادی طیبہ -طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا- کے
والہانہ نغموں سے معطر معطر ہوگئی۔اور یہ نغمۂ مدحت بھی بچیوں کی زباں پر
جاری تھا
نَحْنُ جَوَارٍ مِّنْ بَّنِیْ النَّجَّارٖ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِّنْ جَارٖ
ہم خاندانِ بنو النجار کی بچیاں ہیں، واہ کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی
اﷲ علیہ وسلم ہمارے پڑوسی ہو گئے۔
ابھی ہجرت کا مرحلۂ شوق جاری تھا۔ اصحابِ رسول کی املاک کو کفار نے ضبط
کرنا شروع کیا۔ اسلام کے خلاف ان کی ریشہ دوانیاں حدیں پار کر گئیں۔ رسول
گرامی وقار صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں جرأت کی جا رہی تھی۔دوسری
سمت زنگ آلود دل مائل بہ اسلام تھے۔ قبولِ اسلام کا کارواں تیزگام ہو رہا
تھا۔ خطۂ عرب ایسے انقلاب سے گزر رہا تھا جس کے خوش گوار اثرات جلد ہی پوری
کائنات پر رونما ہونے والے تھے۔ کفار نے ٹھان لیا تھا کہ اسلام کی روشنی
بجھا دیں گے۔ ناموسِ رسالت کے جتنے دشمن تھے سب ایک تھے۔ ان کی نگاہیں جانبِ
طیبہ لگی ہوئی تھیں۔ وہ پُر امید تھے کہ چراغِ مصطفوی بجھا دیں گے۔
عہدِ وفا:
اہلِ مدینہ نازاں تھے کہ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم جلوہ گر ہیں۔ اصحاب و
انصار محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے جان نچھاور کرنے کو آمادہ
تھے۔گرچہ اب تک جور وزیادتی اور ظلم و ستم پرصبر ہی کیا گیا تھا۔ لیکن اب
تقاضا تھا کہ باطل کو سرنگوں کیا جائے اور ظلم کے پنجوں کو مروڑ دیا جائے۔
۲؍ ہجری میں حکم الٰہی نازل ہوا کہ ’’خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم
لوگوں سے لڑتے ہیں۔‘‘ اس لیے جہاد کے لیے قصد فرمایا گیا۔صحابۂ کرام و
انصار نے جاں نثاری کا عہدِ وفا کیا۔ بخاری شریف کی روایت میں یہ الفاظ
محفوظ ہیں :’’ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں جنھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام
کو تنہا چھوڑ دیا،ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔‘‘
راویِ حدیث حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اس وقت
دیکھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرۂ انور فرطِ مسرت سے چمک اٹھا ۔ (بخاری
شریف، جلد۲،صفحہ۵۶۴)
انصار کی نیابت میں حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ نے جو تاریخی الفاظ ارشاد
فرمائے وہ اس طرح ہیں :’’ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہم آپ پر ایمان
لائے ہیں ۔ہم نے آپ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے، جو حکم ہو گا اسے بجالائیں
گے ۔آپ بلا تامل اپنا ارادہ پورا فرمائیں ۔ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں
گے ۔قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ۔اگر آپ ہم کو
سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں کود پڑیں گے اور ہم
میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔‘‘
پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اﷲ عنہم کے یہ جاں نثار انہ
جوابات سن کر مسرور ہوئے اور فرمایا :’’ اﷲ کے نام پر چلو ، تمہیں خوش خبری
ہو کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابو جہل یا ابو سفیان
کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطا کروں
گا۔‘‘(زرقانی، جلد۱، صفحہ۶۱۶)
کفار مکہ نے مسلمانوں کو زیارت کعبہ سے روکا، املاک ِ مومنین ضبط کیں،
مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی تیاری کی، اسلام کے خلاف ماحول سازی کی،رسول
کونین صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بنائے، اہلِ ایماں
پر ستم ڈھائے کہ وہ دین سے باز آجائیں۔اسی کے نتیجے میں اسلام کی پہلی جنگ
’’بدر‘‘ کے میدان میں ہوئی۔
معرکۂ بدر:
مدینہ منورہ سے ۸۰؍ میل کی دوری پر بدر واقع ہے۔جہاں ۱۷؍ رمضان کو اسلام و
کفر کے درمیان عظیم معرکہ ہوا۔ جس میں کفر کو شکست ہوئی۔ فتح اسلامی کا یہ
عظیم دن ’’یوم الفرقان‘‘ کہلایا۔ اسلامی فوج ۳۱۳؍ افراد پر مشتمل تھی۔ جن
میں ۶۰؍ انصار بقیہ مہاجرین تھے۔جب کہ کفار ایک ہزار سے کم نہ تھے۔ جن کے
پاس بیش قیمت تلواریں، ہتھیار اور اونٹ وغیرہ سامانِ جنگ کثیر تھے۔ مسلمان
فرسودہ ہتھیار، قلیل سامانِ جنگ کے باوجود اﷲ کی مدد پر مکمل یقین کے ساتھ
محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی قیادت میں باطل سے نبرد آزمائی کو تیار تھے۔
میدان میں زبردست حکمت کے ساتھ محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفیں آراستہ
کروائیں۔ محل وقوع و ماحول کے پیش نظر انتظامات فرمائے۔ قریبی ٹیلے پر حضرت
سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ کے مشورے سے محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے
عریش (سایہ) بنوایا گیا تا کہ میدان جنگ کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ اسی مقام پر
آج مسجد عریش ہے۔ جہاں پہنچ کر روحانی سکون ملتا ہے۔ سالِ گزشتہ ہم نے ۱۷؍
رمضان کی دوپہر اصحابِ بدر کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کیا اور محفلِ
ذکر سجائی، مسجد عریش کی بہاروں میں کئی ساعتیں گزاریں ۔
جاں نثاران بدر و احد پر درود
حق گزارانِ بیعت پہ لاکھوں سلام
تین سو تیرہ جاں نثاران اسلام ایک ہزار سپاہ سے لڑنے کے لیے پر عزم تھے ۔
حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم ایک چھڑی ہاتھ میں لیے میدان میں آئے، صفوں کو
درست فرمایا ۔ سردارانِ کفار کے مرنے کی جگہ نشانات لگائے۔میمنہ اور میسرہ
پر سالار تعینات فرمائے۔جنگی اصول دیے۔ ہدایات دیں۔
حق غالب آیا:
جنگ ہوئی۔ کثیر پر قلیل غالب آئے۔ کفر نے وہ زخم کھائے جس کے نتیجے میں
اسلام کا قصر رفیع مستحکم ہوا۔ جنگ کا غبار چھٹا تو دیکھا گیا کہ جس مقام
پر جس سردارِ قریش کی موت کا فرمایا گیاتھا وہیں وہ قتل ہوا۔علمِ نبوی کی
وسعت کا نظارہ دنیا نے دیکھا۔اﷲ نے فرشتوں کی سپاہ بھیج کر کفر کو مغلوب
کیا۔ جو سازشوں کے خوگر تھے ان کی موت اسلام کی شوکت کا پیغام بن گئی۔ ان
کی نسلوں نے اسلام قبول کیا۔ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم پر جانیں نچھاور کیں۔
آج بھی معرکۂ بدر عزم و یقیں کے ان گنت چراغ نصب کر رہا ہے، جن سے روشنی لے
کر یہود و نصاریٰ اور فرقہ پرستوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے،
اور اسلام کے قصرِ رفیع کی حفاظت کی جا سکتی ہے، آج پھر درجنوں طوفان درپیش
ہیں۔ ہر روز نئے فتنے ہیں۔ شام و عراق، یمن و فلسطین کی تاراجی کے بعد
ایوانِ کفر سربراہانِ مملکتِ اسلامیہ سے متحد ہو کر مزید اسلامی مملکتوں کی
تاراجی کو آمادہ ہے۔ آج پھر حرمین کی مقدس زمیں پر امریکی سربراہِ حکومت کے
دورے یہودی ریاست اسرائیل کے استحکام کا اعلان کر رہے ہیں۔ بیداری کے ساتھ
تگ و دو کی ضرورت ہے۔ جس کا نتیجہ یقینا امید افزا اور عزم کا اشاریہ ثابت
ہوگا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
٭٭٭ |