آفتاب ولایت حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ
اللہ کا شمار چشتیہ سلاسل کے معروف ترین بزرگان دین میں ہوتا ہے، سلسلہ
چشتیہ میں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز کے بعد سب سے زیادہ شہرت آپ ہی
کے حصے میں آئی، آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں اور خلفا کی تعداد 700 ہے،
چھ سو خلفاءانسانوں میں اور سو خلفاءجنات میں سے تھے، آپ مجذوب السالک تھے
یعنی آپ کی روحانیت کے تین حصے جذب کے اور ایک حصہ سلوک پر مشتمل تھا۔
نام اور شجرہ نسب:
آپ کا نام مسعود اور والدین کا نام سلیمان تھا اسی نسبت سے مسعود بن سلیمان
کہلائے، آپ فاروقی ہیں، آپ کا شجرہ نسب عمر بن الخطاب سے جاملتا ہے۔
القابات:
گنج شکر ، شکر گنج، بابا فرید، شہباز لامکاں، باباصاحب کے القابات سے آپ کو
یاد کیا جاتا ہے۔
پیر طریقت:
آپ نے قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی کے دست حق پر بیعت کی
جو خواجہ معین الدین چشتی کے جانشین تھے۔
آپ کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ کو بیک وقت آپ کے پیرو مرشد خواجہ قطب
الدین بختیار کاکی سمیت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ
غریب نواز رحمتہ اللہ نے بیک وقت روحانی قوت عطا کی اس موقع پر سلطان الہند
نے تاریخی الفاظ ادا کیے کہ قطب الدین تم ایک شہباز کو زیر دام لائے ہو جس
کے بعد آپ کو شہباز لامکاں کا لقب عطا ہوا کہ جس کا ٹھکانہ کہیں نہیں صرف
سدر تہ المنتہیٰ پر ہے۔
مریدین خاص:
قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسوی(محبوب ترین مرید)
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءمحبوب الٰہی(نظامی سلسلے کے بانی)
حضرت مخدوم علاء الدین احمد صابر کلیری(صابری سلسلے کے بانی)
حضرت خواجہ بدرالدین اسحاق (داماد)
بابا منگھوپیر(کراچی میں مدفون ہوئے)
حضرت شمس الدین ترک پانی پتی(جنہیں ا?پ نے صابر کلیری کے ساتھ کردیا تھا)
شیخ نجیب الدین متوکل(بھائی)
چار ہم عصر اولیائے کرام:
حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانی: آپ نقشبندی سلسلے کے بانی ہیں، ملتان میں
مدفون ہوئے۔
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر:صاحب عرس، آپ سے فریدی سلسلہ جاری ہوا، پاک
پتن میں مدفون ہوئے۔
حضرت جلال الدین سرخ بخاری: نام سے ہی ظاہر ہے، آپ جلالی کیفیت کے حامل تھے
حضرت عثمان بن مروندی المعروف حضرت لعل شہباز قلندر : آپ چاروں دوستوں میں
سب سے کم عمر تھے، سہیون میں آپ کا مزار مرجع الخلائق ہے۔
درگاہ خاص حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے صاحب شجرہ خواجہ امین الدین
نظامی کے مطابق آپ چاروں دوست تھے، سب سے کم عمر لعل شہباز قلندر تھے، آپ
چاروں سہروردی سلسلے کے بانی پیر طریقت شیخ شہاب الدین سہرودری کی خدمت میں
حاضری کے لیے بغداد روانہ ہوئے، نصف شب کو پہنچے، شیخ شہاب نے حضرت عثمان
کو بلایا، ان سے خدمت لی، سینے سے لگا کر علم منتقل کیا اور انہیں لعل
شہباز قلندربنادیا، بعدازاں باری باری تینوں بزرگوں کو بلایا اور اپنی
تصنیف عوارف المعارف(تصوف کی شہرہ آفاق کتاب) کا درس دیا اور مراتب سے
نوازا۔
بابا فرید نے اپنے چھ خلفا کبیر کو چھ علاقہ ولایت عطا کیے، قطب عالم شیخ
جمال الدین ہانسوی کو ہانسی، خواجہ نظام الدین اولیاءکو غیاث پور(دلی)،
مخدوم صابر کلیری کو کلیر شریف، منگھوپیر بابا کو کراچی کا علاقہ عطا کیا
جبکہ اپنے داماد شیخ بدر الدین اسحاق کو اپنے ساتھ رکھا جب کہ لعل شہباز
قلندر کو سیہون شریف بھیجا، ہر خلفا کبیر کے ماتحت سوسو خلفا رکھے جو کہ چھ
سو ہوئے جب کہ سو خلفا جنات میں سے تھے یوں 700 کی تعداد پوری ہوتی ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندربابا فرید کا بہت احترام کرتے تھے، آپ کے حکم پر لعل
شہباز قلندر بابا منگھوپیر بابا سے ملنے کراچی تشریف لائے اس وقت یہ جگہ
غیر آباد تھی، آپ کا مسکن ندی کنارے تھے، لعل شہاز قلندر ندی سے آپ کے گھر
تک مگرمچھ پر سفر کرکے گئے، بعدازاں آپ کے چند خلفا منگھوپیر بابا کی خدمت
میں آئے تو آپ بھی اپنے پیرو مرشد شیخ لعل شہبازکی تقلید مگر مچھ پر سواری
کرکے گئے بعدازاں وہ سارے مگر مچھ منگھوپیربابا کے مزار پررہ گئے اور انہیں
وہاں کے مجاوروں نے باقاعدہ خوراک دی، ان ہی مگرمچھوں کی نسل کے مگر مچھ آج
تک مزار کے احاطے میں موجود ہیں۔
اولادیں
آپ نے دو شادیاں کی، چھ اولاد نرینہ اور تین اولاد زرینہ پائیں
شیخ بدرالدین سلیمان، شیخ شہاب الدین گنج علم، شیخ نظام الدین شہید، شیخ
یعقوب، شیخ عبداللہ، شیخ نصراللہ، بی بی فاطمہ، بی بی شریفہ، بی بی مستورہ
کرامتیں:
پتھر سونا بن گیا
آپ سے بہت سی کرامتیں پیش آئیں، ایک بار ایک عورت بیٹیوں کی شادی کی
درخواست کے لیے آئی اور رونے لگی، آپ نے پتھر پر قل ھو اللہ احد پڑھ کر دم
کیا تو وہ سونا بن گیا بعدازاں عورت بھی اپنے گھر میں یہ کرنے لگی لیکن
پتھر پتھر ہی رہا اس نے آکر آپ سے کہا تو آپ نے تاریخی جملہ ادا کیا کہ
اٹھارہ برس تک فرید نے وہ کیا جو خدا نے کہا اب فرید جو چاہتا ہے خدا اسے
پورا کردیتا ہے۔
والدہ کو کچھ مشکوک غذا کھانے نہ دی:
ایک بار دوران حمل آپ کی والدہ نے کچھ بیر توڑ کر کھائے تو طبیعت ایک خراب
ہوئی، قے ہوئی اور سارا کھایا باہر آگیا،جب آپ بڑے ہوئے تو والدہ نے کہا کہ
میںنے د وران حمل کبھی مشکوک شے معدے میں داخل نہ کی تب ہی تمہیں اتنی عظمت
نصیب ہوئی تو بابا فرید نے کہا آپ کھا بھی لیتی تو میں کھانے کہاں دیتا
تھا، آپ نے والدہ کو بیروں کا واقعہ یاد دلایا تو والدہ حیرت زدہ رہ گئیں۔
جادوگروں کے ٹولے کو شکست دی:
آپ اجودھن میں تشریف فرما تھے کہ ایک گوالن دودھ لے کر گزری، آپ نے خریدنے
کی پیشکش کی تو بولی کہ ایک جادوگر ہمارے جانوروں کا دودھ خریدتا ہے اسے نہ
بیچیں تو جانورو مرجاتے ہیں، دودھ کی جگہ خون آتا ہے، آپ نے اسے روک لیا
اور تسلی دی، اسے ڈھونڈتے ہوئے جادوگر کاایک چیلا آیا تو آپ نے اسے کہا
بیٹھ جاﺅ وہ بیٹھ گیا اور چاہنے کے باوجود اٹھ نہ سکا، دوسرا آیا تو آپ نے
اسے بھی بٹھالیا اس طرح پورا گروہ آیا اور آپ فرماتے گئے بیٹھ جاﺅ اور کوئی
نہ اٹھ سکا، آخر میں جادوگر خود آیا اور وہاں بیٹھنے پر مجبور ہوگیا، جب
اٹھ نہ سکا تو سر زمین پر رکھ کر معافی چاہی، آپ نے مشروط رہائی دی اور
جادوگر تمام چیلوں سمیت وہ علاقہ فوری طور پر چھوڑ گیا۔
آپ کی کرامات بے شمار ہیں جنہیں مختصر وقت میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل
تھا اس لیے اختصار کے ساتھ صرف یہ تین کرامتیں تحریر کی گئی ہیں۔
گنج شکر کی وجہ تسمیہ:
اس ضمن میں کتب تصوف میں چار روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔
اول روایت یہ ہے کہ بچپن میں آپ کی نماز کی عادت کوبرقرار کھنے کے لیے آپ
کی والدہ قرسم خاتون آپ کے مصلے کے نیچے چپکے سے شکر رکھ دیا کرتی تھیں اور
فرماتی تھیں کہ جو بچہ نماز پڑھتا ہے اسےاللہ تعالیٰ شکر عطا کرتا ہے ایک
دن شکر رکھنا بھول گئیں لیکن غیب سے مصلے کےنیچے سے پھر بھی شکر نکل آئی جس
پر قرسم خاتون کی آنکھیں بھر آئیں اور انہوں نے لاج رکھنے کا خدا کا شکر
ادا کیا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ آپ درخت کے نیچے آرام فرما تھا کچھ تاجر چینی لے کر
گزرے آپ کے استفسار کہہ دیا کہ یہ تو نمک ہے تو آپ نے فرمایا کہ نمک ہی
ہوگا، بعد ازاں تاجر وں نے بازار پہنچ کر بوریاں کھولیں تو نمک ملا، واپس
آکر معافی کے طلب گار ہوئے تو آپ نے فرمایا بوریوں میں چینی ہے تو چینی ہی
ہوگی، بوریاں کھولی گئیں تو چینی نکلی۔
تیسری روایت یہ ہے کہ آپ ضعف کے سبب رات کے اندھیرے میں ذکر الٰہی کرتے
ہوئے گزرے اور گرپڑے ، منہ میں جو مٹی آئی وہ شکر بن گئی تو آپ کے پیرو
مرشد نے آپ کو شکر گنج قرار دیا
چوتھی روایت ہے کہ آپ نے پیرومرشد کے کہنے پر طے کے روزے رکھے، آپ پانچ سے
چھ دن سے روزے سے تھے محض پانی سے روزہ رکھ رہے تھے، ضعف اور مدہوشی میں آپ
نے مٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی جو چینی بن گئی۔
وصال:
سلسلہ چشتیہ کے یہ آفتاب ولایت 95 سال کی عمر میں 5محرم الحرام 690ہجری کو
علالت کے سبب دنیا سے پردہ فرما گئے، آپ کے وصال کے وقت آپ کے عزیز ترین
محبوب خواجہ نظام الدین اولیا آپ کے پاس نہ تھے جس طرح آپ اپنے پیرومرشد
قطب الدین بختیار کاکی کے وصال کے وقت موجود نہ تھے۔
آپ کا مزار مبارک ملتان کے قریب پاک پتن شریف میں واقع ہے جہاں عرس نہایت
عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
|