شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں
محمد نذیر حسین محدث دہلوی حسینی حسنی بہاروی ہندی برصغیر ہندوپاک کی عظیم
المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور کےشیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار
فردِ وحید تھےآپ کی ولادت ۱۸۰۵ ءمطابق ۱۲۲۰ھ میں موضع بلتھوا میں ہوئی
جو ملک ہندوستان کے مشہور ، سرسبز وشاداب اور مردم خیز صوبہ بہار کے ضلع
مونگیر میں واقع ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد آپ کے خاندان کے بعض افراد قصبہ
سورج گڑھ چلے گئے تھے ،جو موضع بلتھوا سے پانچ چھ میل (جنوب) کے فاصلہ پر
آباد تھا ۔ آپ کے والد گرامی سید جواد علی فارسی زبان میں خاصا مہارت
رکھتے تھے ،آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ،آپ علم وعمل
اور زہدوورع میں کافی معروف ومشہور اور ممتاز تھے ۔آپ کی وفات ۱۳ ؍اکتوبر
۱۹۰۲ءمطابق ۱۰ ؍رجب ۱۳۲۰ھ بروز دوشنبہ بوقت بعد نماز مغرب دہلی میںہوئی
اور دہلی کے شیدہ پورہ قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا ۔ (فتاویٰ نذیریہ
۔ج؍۱ ص:۴۹)
آپ ایک ممتاز اور مایہ ناز شخصیت کے حامل تھےآ پ نے تقریبا ۶۰ ؍سالوں تک
دہلی میںعلم وحکمت کا چراغ روشن کئے رکھا اور ہزاروں کی تعداد میں بے مثال
جانباز اور قرآن وسنت کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ترویج واشاعت کرنے
والے باکمال پروانے پیدا کئےجو درس نذیری سے فیضاب ہوکر دنیا میں علم وعمل
اور اخلاص وللہیت کے آفتاب وماہتاب بن کرچمکے۔اللہ نے آپ کو ایک بیٹے سے
نوازاتھا جن کا نام سیدمحمد شریف حسین بن سید محمد نذیر حسین دہلویؒ ہے ۔
اس مختصر سے مقالہ میں موصوف کی علمی اور خاندانی نیزدینی ودعوتی خدمات اور
شخصیت کے کچھ گوشوں کو اجاگر کرنے کی حقیر کوشش کی گئی ہے ۔اللہ موصوف کی
خدمات کو قبول فرمائے۔
ولادت: سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے اکلوتے فرزند مولانا
سیدمحمد شریف حسین کی ولادت ۱۸۳۳ ءمطابق ۱۲۴۸ھ کودہلی میں ہوئی ۔ جیساکہ
الحیاۃ بعد المماۃ کے مصنف اور میاں صاحب کے مشہور سوانح نگار مولانا فضل
حسین بہاری رحمہ اللہ کے بیان کےمطابق ۱۲۴۸ھ کے آغازمطابق ۱۸۳۳ء میںمیاں
صاحب کی شادی ہوئی تھی اور اسی کے آخر میں نو دس مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ
نے آپ کو بیٹا عطا کیا جس کا نام شریف حسین رکھا گیا ۔
سلسلہ نسب: مولانا سید شریف حسین بن سید محمد نذیر حسین دادیہال اور ننیہال
دونوں جانب سے نقوی حسینی ہیں آپ کا سلسلہ نسب پینتیسویںپشت میں بواسطہ
حضرت حسین، علی کرم اللہ وجہہ اور چھتیسیویں پشت میں بواسطہ حضرت فاطمۃ
الزہراء ، رسول اللہ ﷺ سے ملتاہے ۔(تاریخ اہلحدیث ص: ۲۵)
جو اس طرح ہے :سید شریف حسین بن سید محمد نذیر حسین بن جواد علی بن عظمت
اللہ بن اللہ بخش بن محمد بن ماہ رو بن محبوب بن قطب الدین بن ہاشم بن چاند
بن معروف بن بدھن بن محمد بن محمود بن داؤد بن فضل بن فضیل بن ابوالفرح بن
حسن عسکری بن نقی بن علی تقی بن موسیٰ رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن
محمد باقر بن زین العابدین علی بن حسین بن علی بن ابی طالب۔
شکل وشمائل : مولانا سید محمد شریف حسین رحمہ اللہ کا حلیہ اور شکل وصورت
کچھ ا س طرح تھا : ہڈیاں چوڑی ،چہرہ ،آنکھیں ،سر ناک ،کان اور قد سب متوسط
،داڑھی گنجان اور گول ۔ بدن بلغمی ،رنگ مائل بسیاہی ،سر اور مونچھ منڈواتے
تھے ۔
اور لباس اس طرح تھا : نین سُکھ کی دوپلّی ٹوپی پورے سر میں ،انگرکھا دلی
کی وضع کا شوپ خوردہ ،لینکاٹ کا پاجامہ اور اسی کا سفید رومال ،گز در گز کا
ہاتھ میں جاڑوں میں دولائی اور روئی دار داروگلہ ۔ (الحیاۃ بعد المماۃ
ص:۲۷۸)
خانوادے کی علمی حیثیت : علم انسان کو اعلیٰ مقام عطاکرتاہے کیونکہ یہ اللہ
کا عطیہ اور انعام ہواکرتاہے ،اسی کا نتیجہ تھا کہ خاندان نذیری کو اعلیٰ
مقام اور ممتازحیثیت حاصل تھی ،چنانچہ اسی افضیلت کو واضح کرتے ہوئے عالم
اسلام اور جماعت اہل حدیث کے مشہور سوانح نگار علامہ محمد اسحاق بھٹی رحمہ
اللہ نے اپنی کتاب دبستان حدیث میں لکھا ہے کہ ’’آپ کا خاندان اس نواح میں
علم وفضل میں بھی ممتاز تھا اور دنیوی لحاظ سے بھی اسے احترام کی نگاہ سے
دیکھا جاتاتھا ۔چھٹے مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے اس خاندان کے
بعض افراد خدمت قضا پر مامور چلے آرہے تھے ۔عہد قضا کی دوسندیں اس خاندان
کے بعض افراد کے پا س موجود تھیں ایک بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی عطاکردہ
سند ،جسمیں ان کو سورج گڑھ اور بعض دیگر مقامات کے منصب قضا پر فائز کیاگیا
تھا اور ایک سند شاہ عالم بادشاہ کی طرف سے جاری کی گئی تھی ،اس میں بھی
سورج گڑھ اور صوبہ بہار کے بعض دوسرے مقامات کے عہدہ قضا پر متمکن ہونے کا
فرمان مرقوم تھا ۔ (دبستان حدیث ص: ۲۸)
تعلیم وتربیت
آغوش مادر میں : ویسے تو سیر ت اور سوانح کی کتابوں میں آپ کی والدہ
ماجدہ کا کوئی خاص تذکرہ نہیں ملتاہے البتہ علامہ سید نذیر حسین محدث دہلوی
رحمہ اللہ اپنے لخت جگر اور اکلوتے فرزند کے تعلق سے ان کی وفات کے غم میں
مولوی حفاظت اللہ مرشدآبادی سے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ’’اکلوتا بیٹا کس قدر اپنے باپ کا لاڈلا ہوتاہے ،مگر میاں شریف حسین
لڑکپن سے بے تکلف تھے ،میں نے جو کھلایا وہی کھایا اور جو پہنایا وہی پہنا
،کوئی چیز خود مجھ سے کبھی طلب نہ کی ‘‘۔(دبستان حدیث ص:۷۴)
گویا کہ وہ اس شعر کے عملی نمونہ تھے کہ : وہ فیضان کرم تھا یا کہ مکتب کی
کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
ابتدائی تعلیم او راساتذہ کرام : سید شریف حسین نے بالکل ابتدائی تعلیم
اخوندجی ولایتی سے حاصل کی جو اسی نام سے مشہور تھے کچھ استعداد حاصل کرنے
کے بعد مختلف اوقات میں مولوی عبدالرزاق صاحب نابینا اور مولوی عبدالخالق
جو میاں صاحب کے خسر اور آپ کے نانا لگتے تھے ،او رمولوی رحمت اللہ بیگ
صاحب سے جو اپنے فن میں کامل تھے ان سے درسیات پڑھے ۔جب کہ خاص نصاب حدیث
وفقہ اور تفسیر اپنے والد بزرگوار ہی سے تمام کیا ۔ (اہل حدیث امرتسر ۱۹
؍دسمبر ۱۹۱۹ء ص:۵، مقالہ نگار: سید عبدالسلام مالک مطبع فاروقی دہلی بازار
بلیماراں )
اورتراجم علمائے اہلحدیث ہند کے مصنف ابو یحییٰ نوشہروی کے بیان کے مطابق
ابتدائی تعلیم کے علاوہ آپ نے سند واجازہ حدیث حضرت سید نواب صدیق حسین
خاں مرحوم والی بھوپال او ر شیخ حسین بن محسن یمنی سے بھی حاصل کی۔(دیکھئے
:تراجم علمائے اہلحدیث ہند ،از: ابویحییٰ امام خان نوشہروی ص:۱۷۰)
ذہانت وفطانت :سید صاحب رمز شناس اور نہایت ذکی تھےاوران کی ذکاوت کا
اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بارمولانا سید نذیر حسین
صاحب کی خدمت میں مولوی احمد علی صاحب عین درس کے وقت تشریف لائے اور مولوی
احمد علی صاحب ان اصحاب میں تھے جو یہ کہتے تھے کہ میاں صاحب نے مولوی شاہ
اسحاق صاحب سےنہیں پڑھا ہے ،میاں صاحب نے اس بارے میں مولوی احمد علی سے
گفتگو کرتے ہوئے اشارہ ہی کیا تھاکہ صاحبزادے ان کی مسند عطیہ مولانا محمد
شاہ اسحاق صاحب لے آئے اور مولوی احمد علی صاحب نے ملاحظہ کرکے تصدیق
وتسلیم کی۔(اہلحدیث امرتسر،شمارہ :۱۹دسمبر ۱۹۱۹ء ،ص:۵ ) نیزآپ کی ذہانت
وفطانت اور ذکاوت علمی کا یہ عالم تھا کہ زمانہ طالب علمی میں اپنی کتابوں
پر حواشی لکھتے رہے اور جب میاں صاحب کے پاس بہت زیادہ فتاویٰ آنے لگے اور
تدریسی اوقات میں تاخیر ہونے لگی تو میاں صاحب نے فتویٰ نویسی کا کام آپ
کے سپرد کردیا ۔ (تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء ،از: عبدالرشید عراقی ص
۷۱)
علمی لیاقت وصلاحیت :اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہانت وفطانت کے ساتھ ساتھ ایسے
شفیق باپ سے نوازاتھا جو اپنے زمانہ کا یکتائے روزگارتھا جہاں علماء کی ایک
بڑی جماعت زانوئے تلمذ تہہ کیا کرتی اور وہ ہر مید ان میں مرجع خلائق تھی
اسی کا ثمرہ تھا کہ مولاناموصوف بھی اعلیٰ صلاحیت اور اونچی شخصیت کے مالک
تھے آپ نے اپنی پوری زندگی اپنے والد محترم کے سایہ شفقت میں گذاری ،آپ
کو تاعمر لکھنے اور پڑھنے کا شوق تھا باپ سے ہر وقت کے انسلاک اور استفادے
کی وجہ سے آپ کی معلومات کا دائرہ کافی وسیع تھا اورخاص طور سے کتب منقول
میں بڑی مہارت تھی اور مسائل پر بھی بڑی گہری پکڑ رکھتے تھے ۔
تدریسی خدمات:آپ ایک بہترین اور باصلاحیت مدرس بھی تھے جن لوگوں نے آپ سے
کسب فیض کیاہے ان کا بیان ہے کہ مولانا نہایت تحقیق وتدقیق کے ساتھ پڑھاتے
تھے ،آپ عصر کے بعد نہر سعادت خاں پر تفریح کر تے اور نماز مغرب کے بعد
مولوی حفیظ اللہ صاحب کی مسجد میں بیٹھ کردرس دیتے تھے اور اسی طرح ۱۸۵۸ء
کے ناگفتہ بہ حالات کے بعد مدرسہ میاں کے قیام سے پہلے سید صاحب گلی میں
بیٹھ کر طلبا کو قرآن وحدیث کا درس دیا کرتے تھے ،ایک دفعہ مولوی عبدالرب
صاحب واعظ جو آپ کے ماموں تھے ،مکان پر تشریف لائے ،دیکھا کہ آپ گلی
میںقرآن و حدیث پڑھا رہے ہیں ،ہنس کر فرمایاکہ گلی میں قرآن اورحدیث کا
درس دیتےہو ،سید صاحب نے فرمایا’’ان شاء اللہ‘‘ اسی طرح گلی گلی قرآن
وحدیث پھیلے گا‘‘۔ ( اہلحدیث امرتسر، دسمبر ۱۹۱۹ ء)
تصنیفی وتالیفی خدمات: جہاں تک مولانا کی تصنیفات وتالیفات کا معاملہ ہے تو
جتنے بھی سوانح نگاروں نے ان کی سوانح قلمبندکی ہے کسی نے اس کا تذکرہ نہیں
کیا ہے یا تو اس کا موقع نہیں ملا یا پھر وہ نایاب ہے جو لوگوں کی دسترس سے
باہر ہے ۔
فقہ وفتاویٰ :چونکہ آپ کے والد محترم مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی
رحمہ اللہ کو اپنے اکلوتے اور لاڈلے بیٹے کی علمی صلاحیت پر پورا پورا یقین
تھا ،اس لئے آپ نے تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کا بھی کام آپ
کے ذمہ سونپ رکھا تھا اور مولاناشریف حسین صاحب تقریبا اپنی وفات سے ۲۰
؍برس پہلے سے ہی فتویٰ نویسی کا کام کرتے تھے ،اور جہاں کہیںمسائل میں
پیچیدگی ہوتی تووالدمحترم سے دریافت کرلیاکرتے تھے ۔جس سے اندازہ ہوتاہے کہ
آپ کے فتوئو ں کی ایک لمبی تعداد ہوگی لیکن میری کم علمی کےمطابق شاید وہ
کہیں دستیاب نہیں ہے ۔
شاگردان :آپ کے شاگردوں کی مفصل تفصیل تو کہیں نہیں مل سکی لیکن آپ کے
مخصوص شاگردوںمیں مولوی حاجی عبدالغفار آف علیجان دہلی قابل ذکرہیں ۔
امامت وخطابت: آپ ایک بہترین اور کہنہ مشق مدرس کے ساتھ ایک منجھے
ہوئےامام اور خطیب بھی تھے ،والد صاحب کی مسجد میں نماز پنچگانہ کے امام
تھےنماز میں تعدیل ارکان کا اس درجہ اہتمام فرماتے کی صبح کی نماز تقریبا
پون گھنٹہ میںاور ظہر کی نصف گھنٹے میں ختم کرتے تھے ،میاں صاحب کو آپ کی
امامت وخطابت پر بہت فخرتھاچنانچہ میاں صاحب کبھی کبھی ان کی عدم موجودگی
میں ازراہ لطف فرماتے تھے تھے کہ ’’میرا سا امام دہلی سے کلکتہ تک نہیں
‘‘۔(تراجم علمائے اہل حدیث ص : ۱۷۰)
عقیدہ ومنہج:آپ سلفی منہج وعقیدہ کے حامی تھےاور اسی عقیدہ کی نشرواشاعت
کو باعث عزوشرف سمجھتے تھے ،چنانچہ منہج سلف کو عام کرنے میں آپ اور آپ
کے والد محترم نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ دہلی اور اس کے علاقے نیز آپ کے
شاگردان کی ایک لمبی تعداد اس کا واضح ثبوت اور گواہ ہے۔
زہدوورع: مولانا شریف حسین صاحب نہایت مہذب ،بااخلاق ،پاکیزہ سیرت ،ملنسار
،خوش مزاج ،مہمان نواز ،صوم وصلوۃکے پابند ،نہایت متین ،سنجیدہ مزاج ،کم
سخن ،سادگی پسند اور بے تکلف تھے ۔آپ کے زہدوورع کا حال یہ تھا کہ وقت کا
محدث اور پایہ کا عالم دین (سید نذیر حسین محدث دہلوی)آپ کی امامت میں
نماز پنچگانہ اداکرتاتھا ،اور اس پر فخربھی کرتاتھا کہ ’’میرا سا امام دہلی
سے کلکتہ تک نہیں ‘‘۔
وقت کا صحیح استعمال : آپ وقت کے بڑے پابندتھےیہی وجہ ہے کہ آپ نے پورے
وقت کا شیڈول بنا رکھا تھا اور اسی کے مطابق جملہ امور انجام دیتے تھے
۔مولانا ممدوح ؒ صبح سے ظہر تک درس وتدریس ،ظہر سے عصر تک فتاویٰ نویسی
کرتے اورعصر کے بعد تفریح کرتے اور مغرب کے بعد نہر کی مسجد مولوی حفیظ
اللہ صاحب والی میں بیٹھ کر درس دیتے تھے ۔
اس طرح مولانا موصوف ایک ممتا ز عالم دین ،بہترین مفتی اور مشہور استاد کے
ساتھ ساتھ ایک خوش مزاج اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے اللہ نے آپ کو
بیشمار خوبیوں سے نوازاتھا ۔لیکن اللہ کی مشیت کے آگے کسی کا کچھ نہیں
چلتا وہی حال ہمارے ممدوح کا بھی ہوا کہ آپ اپنے والد محترم کی زندگی ہی
میں اس دارفانی کو چھوڑ کر دار البقاء کی طرف کوچ کرگئے ۔ ’’ اناللہ وانا
الیہ راجعون ‘‘
وفات :آپ کی پیدائش کے بارے میں تقریبا تمام تاریخ نویسوں کا اتفاق ہے کہ
۱۲۴۸ھ مطابق ۱۸۳۳ء کو پیدا ہوئے لیکن وفات کے سلسلے میں سوانح نگاروں اور
محققین کے یہاں کچھ اختلاف پایا جاتاہے(البتہ عربی تاریخ میں تقریبا سب کا
اتفاق ہے کہ آپ کی وفات ۶؍جمادی الآخرۃ ۱۳۰۴ھ کوہوئی ) یہی وجہ ہے کہ
سوانح نگاروں کی اس سلسلے میں مختلف رائیں ہیں البتہ ہم یہاں اس تاریخ کو
نقل کررہے ہیں جو تواتر کے ساتھ آیاہے:
٭فضیلۃ الدکتو ریوسف المرعشلی صاحب نے اپنی کتاب’’نثر الجواہر والدرر فی
علماء القرن الرابع عشر‘‘ میں لکھاہے کہ ’’ السید الشریف العفیف :شریف حسین
ابن شیخنا نذیر حسین الحسینی الدہلوی المحدث ۔ مات لست خلون من جمادی
الآخرۃ سنۃ اربع وثلاث مئۃ والف ببلدۃ دھلی ،وکان والدہ حیا ‘‘ ( نثر
الجواہر والدرر فی علماء القرن الرابع عشر از : دکتور یوسف المرعشلی ج؍ ۱
ص: ۵۰۵)۔ یعنی سید شریف حسین ابن شیخ نذیر حسین الحسینی محدث دہلوی رحمہ
اللہ کی وفات ۶؍جمادی الآخر ۱۳۰۴ھ کو دہلی میں ہوئی اس وقت آپ کے والد
محترم باحیات تھے۔
٭اورمولانا فضل حسین بہاری صاحب نے اپنی کتاب ’’الحیاۃ بعدالمماۃ ‘‘ میں
لکھا ہے کہ ’’ میاں صاحب کے حج سے لوٹنے کے ساڑھے تین برس بعد اور اپنی
والدہ ماجدہ رحمہا اللہ کے انتقال سے ۱۷؍ برس بعد اور میاں صاحب کی وفات سے
۱۶؍برس قبل مولانا سید شریف حسین صاحب نے ۶؍جمادی الآخرۃ ۱۳۰۴ھ مطابق
۲؍مارچ ۱۸۸۷ ء بروز چہار شنبہ کو ۵۷؍ برس کی عمر میں انتقال فرمایا‘‘۔
(دیکھئے: الحیاۃ بعدالمماۃ ص:۱۰۲، ۲۷۷)
٭جب کہ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی نےتراجم علمائےاہلحدیث
ہندمیںمولاناکاسن وفات ۶؍جمادی الثانی ۱۳۰۴ھ مطابق ۱۹؍فروری ۱۸۸۸ء لکھاہے
۔( تراجم علمائے اہلحدیث ہند ص: ۱۷۰)
٭اسی طرح صاحب’’ تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء ‘‘نے ۶؍جمادی الثانی
۱۲۰۴ھ مطابق ۱۹؍فروری ۱۸۸۸ءلکھاہے ۔(دیکھئے :تذکرۃ النبلاء فی تراجم
العلماء ،ص ۷۱)
نوٹ: یہاں مولف ؒ سے عربی تاریخ نقل کرنے میں یا تو سہو ہوا ہے یا پھر پروف
کی غلطی سے ۱۲۰۴ھ لکھاہواہے )۔
٭سید عبدالسلام صاحب لکھتے ہیںکہ ’’مولانا سید شریف حسین کا انتقال ۶؍جمادی
الآخرۃ ۱۳۰۴ھ مطابق ۲؍مارچ ۱۸۸۷ءبروز چہار شنبہ ۵۶؍سال کی عمر میں ہوئی
۔ (اخبار اہل حدیث امرتسر، ص:۶ ۔ ایڈیٹر مولاناثناء اللہ امرتسری ؒ ۔ ۱۹
دسمبر ۱۹۱۹ء مطابق ۲۵ ؍ربیع الاول ۱۳۳۸ھ)
٭اسی طرح علامہ اسحاق بھٹی صاحب مرحوم نے الحیاۃ بعد المماۃ کا حوالہ دیتے
ہوئے ۶؍جمادی الآخرۃ ۱۳۰۴ھ مطابق ۲ ؍مارچ ۱۸۸۷ ء کو ترجیح دی ہے ۔ (
دیکھئے: دبستان حدیث ،از محمد اسحاق بھٹی ص: ۹۶)
تجہیزوتکفین :اس طرح شہر دہلی کا ایک روشن ستارہ ۶؍ جمادی الثانی ۱۳۰۴ھ
مطابق۲؍مارچ ۱۸۸۷ء بروز بدھوار۵۶؍برس کی عمرمیںمسکراتاہوا ٹوٹ گیا اور
دہلی کے عظیم المرتبت واعلیٰ منقبت انسان کو غموں کا بوجھ دیکر رخصت ہوگیا
،جسے شیدہ پورہ قبرستان میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپردخاگ
کردیاگیا ۔ ’’اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ‘‘
خدا رحمت کندیں عاشقان پاک طینت را
اولادواحفاد :
اللہ نے آپ کو دو لڑکے اور تین لڑکیوں سے نوازاتھا ۔لڑکوں میں سے ایک کا
نام مولوی سید عبدالسلام ہے اور دوسرےصاحبزادے کا نام مولوی سید ابوالحسن
ہے ۔ اللہ سب کے بشری لغزشوں کو معاف فرمائے اور مرنے کے بعد کروٹ کروٹ جنت
الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین !
|