رمضان شریف کا بابرکت مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے سیاستدان
اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیتے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ الیکشن
قریب آگیا ہو ۔ بازاروں اور ڈیروں کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں۔تمام علاقوں
میں ہر سیاستدان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ورکرز سے افطارپارٹی کا
اہتمام کروائے ۔اور وہ ورکر زبھی اتنے جیالے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے لیڈر
کی افطاری کروانے کے لئے ان سے ٹائم لینے کے لئے ان کے ڈیروں کے چکر لگانا
شروع کر دیتے ہیں تاکہ ان کو ٹائم مل سکے۔اورجیسے ہی ان کو ٹائم ملتا ہے وہ
اپنے اپنے علاقوں کے مین چوکوں پر بڑی بڑی فلیکس لگا کر ان کا استقبال کرتے
ہے تاکہ لیڈر کے دل میں اس ورکر کے لئے جگہ بن پائے۔اور سارے علاقے میں
اعلان کر دیا جاتا ہے کہ فلاں ایم پی اے یا ایم این اے فلاں ورکرز کے گھر
افطار ڈنر کے لئے آرہا ہے جس میں تمام پارٹی ورکرزکو دعوت دی جاتی ہے ۔پنڈال
سجا دیا جاتا ہے ۔اپنے لیڈر کا پھولوں اور ہاروں سے ویلکم کیا جاتا ہے۔
افطاری سے چند منٹ پہلے اپنے سیاسی لیڈر کا خطاب ہونا ضروری ہوتاہے۔ اگر
دیکھا جائے تو یہ افطار پارٹیاں زیادہ تر مخالف سیاسی پارٹیاں زیادہ کرواتی
ہیں وہ اس لئے کہ وہ اپنے ناراض ورکرز کو دوبارہ لولی پاپ دینے کے لئے
اکٹھا کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر خوب ان سے گلے شکوے کہ ہم نے اپنے دور حکومت
میں یہ یہ کام آپ کے علاقے کے لئے کروائے جو کہ اب موجودہ حکومتی کارکردگی
کا رونا رو رہے ہیں ہم نے آپ کے علاقے کے لئے سڑکیں بنوائیں سولنگ لگوائے ،گلیاں
بنوائیں یہ کیا وہ کیا۔ اور پھر موجودہ حکومتی کارکردگی پر اتنی باتیں کرتے
ہیں کہ کیے سے تھکتے ہی نہیں ۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم کس ماہ میں اور کس
موقع پر یہ بات کر رہے ہیں۔ وہ وہ باتیں کرتے ہیں تاکہ ان کے ورکرز کے اندر
وہ مرا ہوا جذبہ دوبارہ باہر نکل سکے۔ اور وہ دوبارہ اپنی پارٹی کی سپورٹ
کے لئے سرگرم ہو سکیں۔
ایسا ماحول پید ا ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاستدان فری نہیں ملتا افطار ڈنر
کے لئے ان کی بکنگ پہلے رمضان سے ہی ہو چکی ہے ۔ اور سیاستدان اپنی اپنی
سیاست خوب چمکا رہے ہیں ۔ موجودہ حکومتی نمائندوں کو بھی پتہ ہے آگے ایک
سال بعد عام الیکشن آنے والا ہے ۔ وہ بھی رمضان شریف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
خوب الیکشن کمپئین میں لگے ہوئے ہیں اور مخالف پارٹیاں بھی موجودہ حکومت کی
ناقص کارکردگی کو اچھالتے ہوئے خوب داد وصول کر رہی ہیں۔مخالفین کو ایسا
محسوس ہو رہا ہے جیسا کہ الیکشن عید کے بعد ہونا ہے اور کمپئین میں کوئی
کسر نہ رہے۔جس میں مختلف حلقوں سے سپورٹ کرنے والے سرکردہ سرکردہ نمائندوں
کو بلایا جاتا ہے۔ اور پھر خوب ان سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار اور اپنے
آئندہ کے الیکشن کے بارے میں خوب باتیں کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ان کو یاد دلایا
جاسکے کہ ہم اگلا الیکشن خوب جوش وجذبے سے لڑیں گے ۔ اورماہ رمضان میں اتنے
بڑے بڑے چھوٹ بولتے ہیں کہ اﷲ کہ پناہ ۔ جو سیاستدان ماہ رمضان کی قدر نہیں
کرتے وہ عوام کی قدر کیا کریں گے ۔ ان سے ہم ملکی خدمت کی کیا امید رکھ
سکتے ہیں۔
ایک بہت بڑی بات جو میں نے نوٹ کی ہے ۔ پورا رمضان گزر جاتا ہے مگر یہ لیڈر
صرف اپنے اپنے ورکرز سے ہی افطار ڈنر کرواتے ہیں ۔کبھی انہوں نے خود یہ
توفیق حاصل نہیں کی ۔ یا پھر وہ اپنے ورکرز سے خوش نہیں کہ ان کوافطاری دے
سکیں جو سیاستدان اپنے ورکرز کے لئے افطار ڈنر نہیں دے سکتا وہ الیکشن
جیتنے کے بعد ان کو کیا یاد رکھے گا۔ یہی بات سوچنے والی ہے۔ مگر اس کو
کوئی نہیں سوچتا ۔ جن کو سیاست کی الف ب کا پتہ نہیں ہوتا وہ سیاسی پارٹیوں
میں عہدے لینے کے لئے پتہ نہیں کیا کچھ نہیں کرتے ۔ اور عہدے بھی کیا کہ
یونین کونسل کا صدر،جنرل سیکرٹری،وارڈ کا صدر اور سیکرٹری، ایسے عہدے جن کا
وجود ہی نہیں ، اور ان عہدوں کا لیبل لگا کر کوئی سیاسی نمائندہ نہیں بن
جاتا اس وقت تک جب تک ان کے اندر انسانیت کی خدمت کاجذبہ موجود نہ ہو ۔ اگر
ان کے اند ر بھی اپنے لیڈروں جیسا جذبہ موجودہوگا تو وہ کبھی ایک اچھا
انسان اور نہ ہی ایک اچھا سیاستدان بن سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماحول کو خوب گرم کرنے کیلئے بڑے بڑے افطار ڈنر کا
اہتمام صرف سیاسی لیڈروں کے لئے ہی کیوں۔کیا ان علاقوں میں غریب نادار،یتیم
لوگ نہیں بستے جن کا حق ہے اور جن کی مدد ہم کوکرنی چاہئے ہم ان کو افظار
ڈنر میں کیوں نہیں بلاتے ۔ہمارے اندر سے انسانیت کی خدمت کا جذبہ کیوں ختم
ہو گیا ہے ۔ یا پھر اپنے سیاسی لیڈروں کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے ہم بھی ان
جیسے ہو چکے ہیں ۔
یہ دنیا ایسے فرشتہ انسانوں سے بھری پڑی ہے جو صرف انسانیت کی خدمت کا جذبہ
رکھتے ہیں مگر ہمیں نظر نہیں آتے ہم کو تو صرف ایسے لوگ پسند ہیں جوصرف
پانچ سال بعد آتے ہیں ہم کو لالچ دیتے ہیں اور پھر پانچ سال تک ہم ان کے
وعدوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی موجودہ
ہیں جو واقع ہی اپنے لوگوں سے،اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں اور ان کی خدمت کے
لئے ہر لمحہ فکر مند رہے ہیں جو سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ان کو کسی
عہدے اور کرسی کالالچ نہیں ہوتا ۔ چند دن پہلے میں نے بھی ایک محب الوطن
انسان کے ہاں افطار ڈنر کیا جس کے اندر واقع ہی انسانیت کی پریشانیوں کا
درد موجود تھا ،ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہوتا تھاجیسا کہ اﷲ نے ان کو
انسانیت کی خدمت کے لئے ہی پیدا فرمایا ہے۔اگر ایسے درد رکھنے والے محب
الوطن انسان ہمارے ملک کی سیاسی باگ دوڑ کو سنبھالیں تو واقع ہی ہمارا
پاکستان خوشحال اور کرپشن سے پاک ہو سکتا ہے |