بہت سی چیزیں ہیں جنہیں لوگ
’بدیہیات‘ کے طور پر لیتے ہیں، جبکہ اسلامی تبدیلی کے داعیوں کو یہیں پر
ایک الگ طرزِ نگاہ اختیار کر لینا ہوگی۔۔۔۔
--- اسلامی تبدیلی کے داعیوں کو، جو کہ دنیا کو اسلام کے نقشے پر سر تا پیر
بدل دینے کا حکم براہِ راست کلام اللہ سے اور سنت رسول اللہ سے لیتے ہیں،
اس بات سے کیا غرض کہ پاکستان کو بنانے والوں کے پیش نظر ’کہاں تک‘ اور ’کس
انداز‘ کی ’اسلامی ریاست‘ بنانا تھا اور ’کہاں تک‘ اور ’کس جدید انداز‘ کی
ایک ’سیکولر ریاست‘ جو خاص حدود میں ’مذہب‘ کا صرف ’احترام‘ کرنے پر یقین
رکھے گی اور زیادہ ہی ہوا تو اسے پارلیمنٹ کو ’ریفر‘ کر دینے پر، نہ کہ خدا
کے ہاں سے اتر آنے والے ہر ہر حکم کے سامنے سمعنا واطعنا کہتے جانے کا
وتیرہء بندگانہ اپنا رکھنے پر۔۔۔۔؟!
--- وہ لوگ جن کا ’عقیدہ‘ براہ راست اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ ایک
پاکستان نہیں پوری زمین اور زمین کے ساتوں بر اعظم کس مقصد کیلئے معرضِ
وجود میں آئے ہیں؟ اُن کو اِن بحثوں کے طول کھینچنے سے کیا غرض کہ اس ملک
کے تاسیس کنندگان کے اہداف ومقاصد کو ’نفاذِ شریعت کے داعی طبقوں‘ نے صحیح
سمجھا ہے یا غلط۔۔۔۔؟!
--- وہ لوگ جن کا ’ایمان‘ ان کو بتاتا ہے کہ مسلم اقوام اور معاشروں کا
اپنا وجود ہی، شرک و الحاد کے سومناتوں سے بھری اس زمین پر کیا معنیٰ اور
کیا دلالت رکھتا ہے؟۔۔۔۔ وہ موحد جنہوں نے یہ بات شریعت کے مصادر سے سمجھی
ہے کہ یہ مسلم معاشرے زمین پر انسانی تاریخ کی کس کہانی کو مکمل کرنے کیلئے
یہاں رکھے گئے ہیں اور یہ کہ اِن کو ’روٹی‘ ملنے اور دوسری اقوام کو ’روٹی‘
ڈالے جانے میں خالقِ کائنات کی جانب سے کس قدر عظیم الشان فرق رکھا گیا
ہے۔۔۔۔؟ اور پھر جو لوگ ان سوالوں پر قیامت کے روز خدائے رب العالمین کے
روبرو جوابدہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔۔
اُن لوگوں کا لائحہء عمل اِس بات پر کیونکر ’کلی انحصار‘ کرے گا کہ کسی ملک
کے بنتے یا علیحدہ ہوتے وقت __ شریعتِ خداوندی کی ’آئینی حیثیت‘ متعین کرنے
کے حوالے سے __ اُس وقت کی سیاسی قیادتوں کی ’دلی خواہش‘ کیا تھی اور کیا
نہیں تھی۔۔۔۔؟ کوئی اچھی خواہش تھی تو اس کا اچھا صلہ وہ اگلے جہان میں
پاکر رہیں گے، البتہ ہمارے فرائض منصبی __ بطورِ قوم، بطورِ امت، بطورِ ملت
__ اِن فوت شدگان کی ’خواہشات‘ اور ’ترجیحات‘ سے نہیں خدا کی اتاری ہوئی
واضح وکامل شریعت سے ہی اخذ ہوتے ہیں، جوکہ چودہ صدیاں پیشتر اور سب
بانیانِ پاکستان وہندستان کی پیدائش سے بہت پہلے مکمل ہو چکی ہے۔ اور اگر
ان کی خواہشات اور ان کے منصوبے خدا کی شریعت کے ماسوا کسی طرز حیات سے
وابستہ تھے تو وہ مالک الملک کے سامنے اپنے ان فاسد اعتقادات اور غیر صالح
اعمال کا حساب دینے سے یہ دیکھ کر مستثنیٰ نہ کر دیے جائیں گے کہ ہم نے
اپنی دنیا میں انکی تعظیم کے کیا کیا انتظام کر رکھے ہیں ، اور ایسی صورت
میں ان کے اعتقادات یا ان کی خواہشات کی پیروی، چاہے وہ کتنی بھی قومی
عقیدت کے ساتھ کی گئی ہو، خدا کے ہاں ہمارا اپنا حساب مشکل کرانے کا ہی
باعث ہوگی۔
--- ’ملک کا آئین‘ توڑنے کی بات جتنی بھی شرمناک اور قابلِ نفرین ہو، لیکن
ایک ہی شخص اگر ’ملک کا آئین‘ بھی توڑتا ہو اور ’خدا کی شریعت‘ بھی توڑ رہا
ہو، تو کونسی بات سب سے بڑھ کر سیخ پا ہونے کی ہے؟؟؟ کیا کسی بھی صاحبِ
ایمان کے یہاں اس پر دو رائیں پائی جاسکتی ہیں؟ کونسی بات سب سے بڑھ کر شور
مچانے اور آسمان سر پر اٹھا لینے کی ہے؟ رتی بھر ایمان بھی ہو تو کیا یہ
مسئلہ ’سوچ کر‘ جواب دینے کا ہے۔۔۔۔؟؟؟
مگر آپ ان کے جاہلی بدیہیات و مسلمات کو دیکھئے۔۔۔۔ جو شرمناک حیثیت ان کی
لغت میں ’آمریت‘ کو حاصل ہے، اتنی تو کیا اس کا عشر عشیر بھی کیا ’خدا کی
حدیں پامال‘ کرنے کو ہے؟؟؟؟؟؟؟
’آئین‘ کچھ حدوں ہی کا تو نام ہے جو کسی زمانے میں پارلیمنٹ کے اندر پائی
جانے والی مخلوق نے اپنے مابعد ادوار کیلئے ’تین چوتھائی‘ اکثریت سے متعین
ٹھہرا دی تھیں اور جن میں ’تین چوتھائی‘ سے کام لے کر کسی بھی دور کی
پارلیمانی مخلوق کسی بھی وقت اپنی مرضی کی ترمیم کر سکتی ہے۔ ان ’حدوں‘ کی
شان تو ملاحظہ فرمائیے، ان کے ٹوٹ جانے پر کیسے کیسے تبرے نہیں کئے جاتے؟
کتنے دفتر ہیں جو روز اس پر سیاہ نہیں کر دیے جاتے؟ کیسا کیسا ’غم وغصہ‘ ہے
جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتا ہے اور اپنا بے ساختہ اظہار کئے بغیر نہیں
رہتا؟ کیسی کیسی مذمت ہے جو روز کی جاتی ہے اور پھر بھی کم سمجھی جاتی ہے؟!
کیسا کیسا شدید رد عمل ہے جو مسلسل ہوتا ہے اور دلوں کی پھر تسلی نہیں
ہوتی؟!
کیا شان ہے ’آئین‘ نامی ایک کتاب کی، جو اس کو توڑے گا قوم کا بچہ بچہ اس
پر تف کرے گااور نسلیں اس کو دشنام دیں گی!!! جو اس کی راہ میں مارا گیا،
یا کم از کم ایسا باور کر لیا گیا، اس کی ’شہادت‘ پر شک کرنا بھی ایمان کھو
دینے کے مترادف!!! اِسی کا نام ’قومی شعور‘ ہے، جس کو پھلتا پھولتا دیکھنے
سے بڑھ کر دلوں کو ٹھنڈک دینے والی کوئی چیز نہیں! کیسی دنیا ہے جہاں خدا
کی حدوں کو صبح شام توڑنا اور رسول کی لائی ہوئی شریعت کی کھلم کھلا خلاف
ورزی کرنا ’کالم‘ تو کیا ایک ’خبر‘ بننے کے لائق نہیں!ماتھے پر تیوری لے
آنے کے قابل نہیں! ’ناگواری‘ کا ایک لفظ بول دینے تک کا مستوجب نہیں! ’مذہب
کا احترام‘ دل میں ہے تو خدا کا سارا حق ادا ہو چکا! زبانیں گنگ ہوجائیں جو
کبھی ایک دن بھی خدا کی حدوں کو پائمال کرنے پر ’سیخ پا‘ ہوتی نظر آئیں، جو
کبھی بھول کر بھی ’شریعت توڑنے‘ کا ذکر اس سنگینی کے ساتھ کریں جس سنگینی
کے ساتھ ’آئین توڑنے‘ کا ذکر کیا جانا صبح شام کا معمول ہے اور’با ضمیر‘
اور ’باشعور‘ ہونے کی علامت اور ’حق پرستی‘ کا معیار!
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا
أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِن
تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا
إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات: 14) یہ بدو کہتے ہیں ’ہم ایمان
لے آئے‘۔ کہو: تم ایمان تو نہیں لائے، تم ابھی یہ کہو کہ ’ہم اسلام میں
داخل ہوئے ہیں‘ جبکہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں تو اترا ہی نہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ
وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الحجرات:
1) اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے کچھ آگے نہ بڑھاؤ، اور ڈرو اللہ
سے۔ بے شک اللہ سننے والا ہے جاننے والا
’خدا اور رسول پر کسی چیز کو مقدم نہ ہونے دینا‘ واضح طور پر شرطِ ایمان
ہے۔ ’احترامِ مذہب‘ کا دعویٰ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ خدا اور رسول کے حق
کو ہر حق پر مقدم رکھنا محض ایک آئینی ودستوری معاملہ نہیں، مومن کے رویہ
اور اپروچ کے اندر بھی اسی چیز کو بولنا ہوتا ہے۔ معاشرے اور نظام اور
سیاست کے ’ناقدوں‘ اور ’تجزیہ کاروں‘ کو بھی اسی معیار پر پورا اترنا ہوتا
ہے۔ یہاں اگر کچھ اور چیزیں اللہ اور رسول کے حق پر مقدم ہوں، اللہ اور
رسول کی حدوں کی پائمالی کچھ دیگر حدوں کی پائمالی کی نسبت نہایت ہیچ نظر
آنے والا مسئلہ ہو۔۔۔۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ ’ایمان‘ ابھی
’دلوں‘ میں تو کیا ’دماغوں‘ میں بھی نہیں اترا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ
صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ
لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات:
2) اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے اوپر مت لے جاؤ، اور نہ
اس کے روبرو یوں اونچا بولو جیسے تم ایک دوسرے کے روبرو اونچا بول لیتے ہو،
مبادا کہ تمہارے سب اعمال برباد ہو جائیں اس حال میں کہ تمہیں اندازہ تک نہ
ہو“
قرآن تو ایک ’مسلم معاشرے‘ کا دستور یہ بتائے کہ نبی کی آواز سے اونچی وہاں
کسی کی آواز سنی تک نہ جائے، اور نہ کسی کو اس کی جراءت ہو، اور نہ یہ بات
اہل ایمان کو کسی صورت گوارا ہو، بلکہ اس پر سب کے سب اعمال غارت چلے جانے
کا اندیشہ ہو، یہاں تک کہ اس آیت کی تفسیر میں ہم دیکھیں کہ وہ صحابی جو
قدرتی طور پر بھاری آواز رکھتے ہیں وہ خوف میں مبتلا ہو کر اس پر گریہ کرنے
لگتے ہیں کہ مبادا ان کے اعمال غارت ہو کر رہ جائیں۔۔۔۔ کوئی ایک نظر دیکھے
تو سہی قوم کو ’راہ دکھانے‘ والے ان ’اصحابِ نظر‘ کی ترجیحات میں ’نبی کی
آواز‘ کو کیا حیثیت حاصل ہے اور وہ پھر بھی اپنے آپ کو ’روشنی‘ کا منبع اور
’آگہی‘ کا مصدر اور ’شعور‘ کا برآمد کنندہ سمجھتے ہیں!
پس۔۔۔۔ وہ بہت کچھ جو یہاں کی ’قومی لغت‘ میں ’مسلمات‘ کے طور پر جانا اور
’بدیہیات‘ کے طور پر مانا جاتا ہے، مگر وہ خدائی میزان کی رو سے سراسر
محرومِ اثبات ہے ۔۔۔۔ سب سے پہلے ہمیں اسے ہی مسترد کر کے اپنے قرآنی
مسلمات اور شرعی بدیہیات کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا، چاہے کسی کیلئے یہ
بات کتنی بھی ناگوار ہو اور چاہے اس پر کتنے ہی ’قومی فتوے‘ ہمارے منتظر
ہوں۔
وہ بہت کچھ جو اِن لوگوں کے یہاں ’مقدس گائے‘ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے
اور جس کا سنتے ہی زبان گنگ اور سر نگوں نہ ہو جانے پر یہ آدمی کو گردن
زدنی سمجھیں گے، ایسی ہر چیز کو بڑی ہی بے پروائی کے ساتھ کتاب اور سنت کے
گھاٹ پر پیش کر دیا جائے گا، اور اس کے حقِ وجود یا اس کی شرعیت validity
کی بابت کتاب وسنت ہی کا فیصلہ حرفِ آخر مانا جائے گا، چاہے کسی کا ’قومی
فلسفہ‘ اس سے کتنا ہی متاثر ہوتا ہو۔
وہ بہت سے زاویے جو اشیاء کے دیکھنے اور بلحاظِ وقعت ان کی درجہ بندی کیلئے
یہاں متعین کر رکھے گئے ہیں، اور جوکہ آسمانی ہدایت کے آئینہ دار نہیں۔۔۔۔
سب سے پہلے ہمیں ان زاویہ ہائے نگاہ کو ہی گمراہی کا نقطہء آغاز ماننا ہوگا
اور ان کی جگہ سوچ اور فکر اور نظر کے نئے زاویے سامنے لانا ہوں گے، چاہے
یہ طرزِ عمل کیسی ہی ’گستاخی‘ پر محمول ہو۔۔۔۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے؛ جس چیز کی تعظیم میں آپ آخری حد تک چلے جانا چاہتے
ہیں اس کے ’ماسوا‘ کو ہیچ جاننا آپ سے آپ لازم لائے گا اور اسی میں ایک خاص
’تسکین‘ بھی۔ مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ
(الاحزاب: 4) ”خدا نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل رکھے ہی نہیں“۔ آپ ایک
چیز کی ’تعظیم‘ میں آخری حد کردینا چاہتے ہیں تو اس کے ’ماسوا‘ کی تعظیم
میں آپ سے آپ کمی آجائے گی۔ یہاں تک کہ اُس ’ماسوا‘ کی تعظیم کرنے والے کی
نگاہ میں یہ ایک ’گستاخی‘ باور ہوسکتی ہے! بلکہ ’ہر دو‘ کو ایک دوسرے سے
ایسی کسی ’شکایت‘ کا ہوجانا باعثِ حیرت نہ ہوگا۔ دل جس کی پوجا کریں زبانیں
اس کے ذکر سے کب تھکتی ہیں! وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ
!!!
پس خدا ئے مالک الملک اور اُس کی شریعت کی ایسی تعظیم، جسے جاہلیت اپنے
’مسلمات‘ کے حق میں ’گستاخی‘ پر محمول کر لیا کرے، آج بھی کوئی نئی بات
ہوگی اور نہ باعثِ خوف۔
’زاویے‘ کا یہ فرق متحقق ہوجائے گا تو چند ہی قدم چلنے کے بعد ’راستوں‘ کا
فرق آپ سے آپ نظر آنے لگے گا اور ’منزل‘ کا سوال بھی ہرگز کوئی ’چیستاں‘
نہیں رہے گا، کہ ستر سال گزر جانے کے بعد بھی ایک قوم کی زندگی میں اس سوال
کا جواب نہ دارد! ذرا تصور تو کیجئے، لگ بھگ پون صدی گزر جانے کے بعد بھی
ایک قوم کے ہاں ’بحثیں‘ ہورہی ہوں، بلکہ ’بحثوں‘ کی ابھی بے حد گنجائش باقی
ہو، کہ ’چلنا کس طرف کو ہے‘!!! ایسی سرگردانی!!! ایک ایسی کمال کی ہمت
رکھنے پر بے شک اس کو داد دینا بھی بنتا ہے، تاہم اس سے بڑا بحران کسی قوم
کی زندگی میں کیا ہوسکتا ہے؟؟؟ |