عید خوشی کا نام ہے مسرت کو کہتے ہیں تمام مذاہب ایسے
تہوار مناتے ہیں۔ مسلمان جب رمضان المبارک کے مہینے میں بھوک پیاس اور
نفسانی خواہشات کے امتحان سے گزرتے ہیں تو اُن کے لیے عید الفطر کی صورت
میں اﷲ پاک نے خوشی کا سامان رکھا گیاہے۔دو دہائیوں قبل تک عید منائے جانے
کا انداز قدرئے مختلف تھا۔انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا کے نہ ہونے
سے معاشرئے میں رواداری، طمانیت، قناعت پائی جاتی تھی۔صبر کی حالت کی بھی
قدرئے بہتر تھی۔ شیطان کی پرورش بھی اِس قدر نہ ہوتی تھی کہ وہ لوگوں سے
چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی چھین لے۔عام مزور بھی عید کے دن کے لیے کچھ پس
انداز کر لیتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کے لیے جوتے کپڑئے خرید سکنے کی
استطاعت رکھتا تھا۔بہت ہوتا تو عید والے روز نان گوشت اور کھیر بنا کر ماں
باپ اپنے بچوں کے ساتھ خوشیاں منا لیتے ۔ لیکن جیسے ہی سوشل میڈیا ،
پرائیوٹ ٹی وی چینلز۔ انٹرنیٹ، موبائل فونز کی بھرمار ہوئی۔ہمارئے معاشرئے
سے سکون رفو چکر ہوگیا۔ امن و آشتی اور سکون کو غارت کرنے کے اسباب میں سے
ایک بہت بڑا سبب متذکرہ بالا اشیاء کا کردار بہر حال اپنی جگہ موجود
ہے۔معاشیات کا ایک عام سا طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ خواہشات اور وسائل
کے درمیان جو معاشی مسلہء پیدا ہوتا ہے تو اُس کے لیے آخر کار ضروریات کی
اہمیت کے پیش نظر تمام خواشہات کو ترتیب دئے دیا جاتا ہے او اہم ضروریات کو
پورا کرکے اور وسائل کے مطابق اپنے پاؤں پھیلا کر آخر باقی خواشہات کو وقتی
طور پر موخر کردیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، پرائیوٹ چینلز کی
بھرمار نے ہمارئے معاشرئے سے اطمینان چھین لیا ہے۔نہ ختم ہونے والی دوڑ نے
ایسا جنم لیا ہے کہ تمام تر اخلاقی اور روحانی پیمانے مات کھا گئے ہیں۔
حکومت ،جس کا کام ہی سماج کو تقسیم در تقسیم ہونے سے بچانا ہے حکمران خود
ہی سب سے بڑی سماجی تفاوت کا سبب بن رہے ہیں۔ـ"کجھ شہر دے لوک وے ظالم سن
کج مینوں مرن دا شوق وی سی"کے مصداق ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا سکون غارت
کرلیا ہے۔موجودہ حکمرانوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی اشتہاری
مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ اربوں روپے کے اشتہارات اخبارات اور پرائیوٹ چینلز
کو دئے کر اُن کا مُنہ بند کردیا گیا ہے اور عوام ہیں کہ ضروریات زندگی کے
حصول کے لیے مارئے مارئے پھر رہے ہیں۔ جب عام دن گزارہ کرنا مشکل ہوجائے تو
پھر عید کیسے منائی جاسکتے ہے؟رمضان المبارک کے آتے ہی کھانے پینے کی اشیاء
فروٹ کی قیمتوں میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح میں دوسو گنا تک اضافہ
ہوجاتا ہے۔پاکستان میں افراط زر کی شرح عام حالات میں دس فی صد تک رہتی ہے۔
لیکن رحمتوں کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی ذخیرہ اندوز غریب روزئے داروں پر
مہنگائی کا بم گرا دیتے ہیں۔ یوں رحمتوں سے مستفید ہونے کے لیے تاجروں کی
ناجائز منافہ خوری کا شکار بننا پڑتا ہے۔ اور اقلیتیں جو پاکستان کی شہری
ہیں اُن کو بھی اِس رمضان کے مہینے کی وجہ سے ہوشروبا مہنگائی کی چکی میں
پسنا پڑتا ہے۔ گویا مسلم پاکستانیوں کو سزا روزہ رکھنے کی اور غیر مسلم
پاکستانیوں کو روزہ نہ رکھنے کی پاداش میں ہر دو کو ذخیرہ اندوز مافیا کی
ناجائز منافع خوری کا شکار بننا پڑتا ہے۔ تا جر یا حکومت کافروں کی ہو تو
پھر تو مجبوری ہے کہ وہ مسلمانوں کو روزے سے روکنے کے لیے ایسے اقدامات کر
رہے ہیں لیکن جب تاجر مسلمان ہوں اور حکومت بھی اسلامی جمہوریہ ہو پھر
رمضان کے آتے ہی ظلم کرنا کھلا تضاد ہے۔جن کو ہم کافر کہتے ہیں وہ تو اپنے
مذہبی تہواروں کے موقع پر حتیٰ کے مسلم کیمونٹی کے تہواروں پر ضروریات
زندگی کی اشیاء حتی کہ گفٹس وغیر ہ کی قیمتوں میں اچھی خاصی کمی کرتے
ہیں۔پاکستان کے حصول میں جہاں مذہبی آزادی پیش نظر تھی وہاں یہ امر بھی خاص
اہمیت کا حامل تھا کہ مسلمانوں کی سماجی اور معاشی زندگی میں اطمینان آئے
گا۔ لیکن شائد حضرت قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ایسا طبقہ حکمرانی پر قابض
ہوگیا جنہیں نہ تو دین سے محبت تھی اور نہ ہی پاکستانی عوام سے کوئی لین
دین۔ اشرافیہ جو پچھلے ستر سالوں سے اقتدار پر قابض ہے اِس نے حقیقی معنوں
میں بادشاہت قا ئم کر رکھی ہے۔ صرف چند ہزار نفوس پر مشتمل اشرافیہ نے بیس
کروڑ عوام کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ عوام کو نہ تو صحت عامہ کی سہولتیں میسر
ہیں۔ اور نہ ہی تعلیم نہ ہی روزگا راور سب سے بڑھ کر یہ کہ امن نام کی بھی
کوئی چیز نہیں۔جس جمہوریت کے لیے عوام کو بے وقوف کو بنایا جاتا ہے اِس
جموریت کا حُسن ہی یہ ہے کہ یہ بدترین آمریت ہے۔ اِس جمہوری نظام میں
اشرافیہ ہی حصہ لیتے ہی ہے اشرافیہ اپنی اپنی باری پر عوام پر حکومت کرتی
ہے اور پھر اِسی بدترین جمہوریت کا شاخسانہ یہ ہے کہ غریب غریب تر امیر
امیر تر۔پاکستان اﷲ پاک کا نور ہے۔ پاکستان نبی پاکﷺ کے حکم پر بننے والی
ریاست مدینہ ثانی ہے۔لیکن موجودہ حالات میں قومی یک جہتی کو پارہ پارہ کرنے
والے نام نہاد جمہوریت کے چیمپین، سرمایہ دار وڈیرئے ، چوہدری،جاگیر دار
انصاف کے راستے میں بُری طرح حائل ہیں۔ نام مسلمان ہم نے اپنا رکھا ہوا
اورا عمال مسلمانوں والوں اُن کے ہیں جن کو ہم کافر کہتے ہیں۔آخر اِس
مہنگائی کے جن کو کیسے رمضان کے مہینے میں قابو کیا جاسکتا ہے۔آئیے اِس
حوالے سے قابل عمل تجاویز کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن
اشیاء کی فہرست تیاری کی جائے جن کا ستعمال رمضان مین بہت زیادہ بڑھ جاتا
ہے۔ اُن میں پھل، آلو، خوردنی تیل، بیسن ، دودھ دہی وغیرہ وغیرہ اِن اشیاء
کی قیمتوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ طلب میں رسد کے مقابلے
میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلے سے ہی پتہ ہوتا
ہے کہ ایک ماہ کے لیے روزئے آنے والے ہیں تو ِ اشیاء کی مصنوی قلت کو روکنا
آکر کس کا کام ہے عوام کے بس کی تو بات ہے ہی نہیں ساری ذمہ داری حکومت کی
ہے۔ چونکہ ہم بھی دیگر اقوام کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے
ہیں تو فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں کے تحت رسد اور طلب کی قوتیں جہاں
باہم برابر ہوتی ہیں وہ پوائنٹ ایسا ہوتا ہے کہ جہاں اشیاء کی قیمتوں کا
تعین ہوتا ہے۔ لیکن جس طرح کی سوسائٹی میں ہم رہ رہے ہیں جہاں غربت نے پنجے
گاڑ رکھے ہیں۔ساٹھ فی صد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں
ضرورت زندگی کی اشیاء کو فری مارکیٹ اکانومی کی بھینت چڑھادینا ظلمِ عظیم
ہے۔اِیسی اشیاء جو کامن ہیں جن کو عام آدمی خاص طور پر رمضان میں استعمال
کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے اُن اشیاء کی قیمتوں کے تعین میں حکومت کی
مداخلت لازمی طور پر ہونی چاہیے۔حکومت رمضان کی آمد سے پہلے ہی اعلان کردئے
کہ کسی کو ذخیرہ اندوزی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔اور قیمتیں عام حالات کی
سطع پر ہی رکھی جائیں گی۔حکومت رمضان المبارک کے لیے ایک اتھارٹی بنائے جو
تاجرو ں کو قیمتوں میں ناجائز امنافع خوری سے سے روکے اور اشیاء کی قیمتوں
کو اعتدال میں رکھے۔ اس قحط الرجال کے دور میں ڈائریکٹر جنرل فوڈ اتھارٹی
پنجاب جناب نور ا لامین مینگل اور اُن کے محکمہ کے عملے نے حقیقی معنوں میں
ثابت کردیا ہے کہ اب بھی ایسے سرکاری ملازم ہیں جو واقعی خود کو اﷲ پاک کے
سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں۔ ہمارئے ملک میں چند سالوں سے ہوس پرستی نے جس طرح
گھر کر لیا ہے۔ اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں زوال در زوال نظر آتا ہے
ایسے میں اسی محکمے کی محترمہ عائشہ ممتاز صاحبہ نے ایسی کارکردگی دیکھائی
کہ پوری قوم نے اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اب جناب مینگل صاحب نے واقعی کمال
کردیاہے۔چونکہ ہمارے معاشرئے میں اشرافیہ نے قانون کی حکمرانی کو کبھی نہیں
مانا خود تو اشرافیہ عوام پر حکومت کرتی ہے لیکن سارئے قانون سارے ضابطے
فقط غریب کے لیے ہیں۔ دوسری اشیاء کی طرح اِسی وجہ سے ملک میں کھانے پینے
کی اشیاء میں بھی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ حتی کہ گدھے کا گوشت
بھی عوام کو کھلایا جاتا رہا ہے۔وہ لاہور جس کی مشہوری ہی اِس بات کی وجہ
سے تھی کہ یہاں پر کوئی بندہ بھوکا نہیں مرتا۔ سستا اور لذیز کھانا ریڑھیوں
پر دستیا ب ہوتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ لوگ بازار سے کھانا کھاتے ہوئے ڈرتے
ہیں۔ کتے کا گوشت اور پھر گدھے کا گوشت کھانے کے بعد وہ کچھ قوم کے ساتھ
ہونا تھا جس کا تذکرہ محترمہ بانو قدسیہ نے تین دہائی قبل اپنے ناول راجہ
گدھ میں کیا تھا جسمیں حرام رزق خواہ وہ فی نفس حرام ہو یا اُسے حرام کی
کمائی سے خریدا گیا ہو اُس رزق کا کھایا جانا انسان سے انسانیت چھین لیتا
ہے اور پھر وہ گدھ بن جاتا ہے جس کا کام مُردارکھانا ہوتا ہے۔ عاشہ ممتاز
نے واقعی قوم کی ایک عظیم آفیسر بیٹی ہونے کا کردار ادا کیا اور جناب نور
الامین مینگل بھی اِس نوکری کو مشن کے طور پر نبھا رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے
مینگل صاحب کو یہ حوصلہ عطا کیا ہے کہ وہ پسند اور ناپسند کے چکر میں نہیں
ہیں بلکہ اپنے ملک کے شہریوں کو صاف ستھری کھانے کی اشیا بہم پہنچانے کے
لیے وہ دن رات تگ و تاز میں ہیں۔جس طرح سرکاری افسران کے کردار کا دیوالیہ
پن پوری قوم دیکھ رہی ہے اور ایسا ہی حال ہمارئے حکمرانوں کا ہے ایسے میں
قوم کو کھائی جانے والی اشیاء کا میعار حفظان صحت کے اصولوں پر پرکھنے کا
جو بیٹرا فوڈ اتھاڑٹی پنجاب اُٹھائے ہوئے ہے ۔ اِس کے لیے جناب نو الامین
مینگل اور اُن کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔اِس حوالے سے جناب خادم
اعلیٰ بھی تعریف کے مستحق ہیں کہ اُنھوں نے فوڈ اتھارٹی کے افسران کو کام
کرنے کے لیے فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ راقم اکثر اخبارات میں فوڈ اتھارٹی کی
کارکردگی کے حوالے سے خبریں پڑھتا رہتا ہے۔ اور یقین جانیے بہت خوشی ہوتی
ہے کہ مینگل صاحب عوامی جذبات کے عین مطابق کام کر رہے ہیں۔ابھی حال میں
تعلیمی اداروں میں جنک فوڈ اور نام نہاد انرجی ڈرنکس کے حوالے سے جو پالیسی
بنائی گئی ہے اُس پر پوری قوم فوڈ اتھارٹی پنجاب کی شکر گزار ہے۔فوڈ
اتھاڑتی پنجاب کی طرز پر تمام صوبوں میں ایسا کام ہونا چاہیے۔ تاکہ عوام جو
کھا رہے ہیں کم ازکم وہ تو صاف ستھرا ہو اور حلال ہو۔یقینی طور پر فو ڈ
اتھارٹی کے افسران کو اپنے کام کرنے میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔
لیکن اگر نیت ٹھیک ہو اور اﷲ پاک پر مکمل بھروسہ ہو تو ساری مشکلات دور ہو
جاتی ہیں۔ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔فوڈ اتھارٹی کو خاص طور پر
رمضان المبارک کے مہینے میں اور عموی طور پر ساراسال قیمتوں پر نظر رکھنے
اورذخیرہ اندوزی روکنے کا تاسک بھی دئے دیا جائے۔ راقم کے خیال میں اِس
اتھارٹی کے اندر یہ اہلیت ہے کہ یہ قیمتوں کو اعتدال میں رکھ سکیں۔ اگر فوڈ
اتھارتی کو ہی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اختیار دے دیا جائے اور
کسی قسم کی سیاسی و غیر سیاسی سفارش کو خاطر میں نہ لایا جائے توو شائد
رمضان المبارک اور عید میں اشیاء ضرویہ کی اشیاء ارزاں نرخوں پر دستیاب
ہوسکیں۔ جس قوم سے عید کی خوشیاں بھی روٹھ جائیں کس کام کی۔ حکمران وقت کی
آواز پر کان دھریں ملازمت پیشہ افراد کو خصوصی طور پر عید منانے کے لیے
عملی اقدامات کریں۔تاکہ ایک مزدور کا بچہ بھی نئے کپڑئے اور جوتی خرید سکے۔
ورنہ اخبارات میں آئے روز یہ خبریں چھپتی ہیں کہ بچوں کے لیے عید کے کپڑئے
نہ لائے جانے کی وجہ سے باپ پھندئے پر جھول گیا۔ غریب آدمی کو معمولی اشیاء
بھی اپنی اولاد کو فراہم نہ کرسکتا اِس بات کی دلیل ہے کہ حکمرانوں نے عوام
کا بھرکس نکال دیا ہے۔ |