نعت ، نعت خوانی یا نعت گوئی‘‘حضرت محمدﷺ کے اوصاف و
کمالات،حسن و جمال بیان ،مدحت، تعریف و توصیف بیان کرنے کے لئے مخصوص
ہیں۔اللہ تعالی فرماتے ہیں(مفہوم) میں آپﷺ پر درود بھیجتا ہوں تم بھی درود
بھیجو اور قرآن کریم میں بھی کئی مقامات پراپنے محبوبﷺ کی تعریف وتوصیف
بیان کی ہے۔’’ورفعنا لک ذکرک‘‘، ’’وللا خرۃ خیر لک من الاولی‘‘، ’’انا
اعطینک الکوثر‘‘، ’’عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا‘‘سمیت کئی اور مقامات
پربھی آپﷺ کی صفات اور عظمت کاذکر ہے۔
عظمتِ نعت کاہی خاصہ تھا کہ حضرت حسان بن ثابتؓ نے نعتیہ اشعار آپﷺ کے خدمت
میں پیش کئے تو آپ ﷺ نے انہیں اپنے ممبر پر بیٹھا دیا۔آپﷺ نے مدینہ میں قدم
رکھا تو بچیوں نے ’’طلع البدر علینا ‘‘ پڑھ کر آپ کا والہانہ استقبال
کیا۔حضرت حسان بن ثابتؓ ، حضرت کعب بن زہیرؓ ،عامر بن اکوعؓ ،عباس بن
عبدالمطلبؓ ، نابغہ جعدیؓ اور حضرت عبداللہ ابن رواحہؓ کا شمار جلیل القدر
نعت گو صحابہ اکرام میں ہوتا ہے۔
جد علما ء کرام میں امام ابوحنیفہؒ ، مولانہ رومؒ ،امام بوصیریؒ ،امام رضا
بریلویؒ ، شیخ سعدی سمیت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ ، سلطان باہوؒ ،
امیرخسروؒ ، پیر مہر علی شاہؒ ، بابا بھلے شاہؒ ، بابا فرید الدین گنج
شکرجیسی برگزیدہ ہستیوں نے بھی نعت گوئی میں طبع آزمائی کی ہے۔میرا ایمان
ہے کہ اللہ تعالی نعت خوانی و نعت گوئی جیسے عظیم نیک عمل کیلئے انہیں کا
انتخاب کرتا ہے جن کے دل میں ایمان کی پُرنورکرنیں زمانے کو روشن کرنے کو
بے تاب ہوں۔نامورنعت گو نعت خواں مقصود احمد تبسم بھی انہیں برگزیدہ ہستیوں
کی صف میں شامل ہیں جنہیں اللہ تعالی نے حمد ونعت گوئی کے لئے منتخب کیا
ہے۔اِنکے ایمان افروزنعتیہ کلام سے چند اشعار ایسے کہ آپ کے لب و قلب سبحان
اللہ کی پُرکیف ورد سے جھوم جائیں
زیارت کریں چل کے غارِ حرا کی جہاں آپﷺ جلوے دکھاتے رہے ہیں
وہاں اُنﷺ کی سانسوں کو خوشبو رچی ہے وہاں اُنﷺکی یادوں کے گلشن کھلے ہیں
میں دیوانہ وار اس لئے چومتا تھا کہ غارِ حرا کے اِنہی پتھروں نے
مرے مصطفےٰﷺ کے معطر بدن کے محبت سے دن رات بوسے لئے ہیں
اُس اقرا کی منزل پہ غارحرا میں جھڑے ہونگے جب پھول اُن ﷺ کی زباں سے
وہ سب خلوتوں جلوتوں کے مناظر وہاں پتھروں پر معقش ہوئے ہیں
اگر تیرا جانا ہو غارِ حرا میں خدا کے حضور اپنے سر کو جھکانا
وہاں بندگی کچھ مزا اور دے گی ،جہاں مرے آقاﷺ نے سجدے کئے ہیں
انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ امارات میں اکثر ادبی محافل میں اِنکے روحانی
سرور بخشتے نعتیہ اشعار ادا ہوتے رہتے ہیں اور قبولیت کے پروانے عطا ہوتے
رہتے ہیں۔نئے انداز، نئے زوایے، نئے استعاروں میں سجی انکی نعت رسول ﷺ
مقبول ہمیشہ ہی سماں باندھتی رہتی ہیں اور سامعین عجب کیفیت میں ایمان کی
تازگی سے سرشار ہوتے رہتے ہیں ۔
مقصود احمد تبسمؔ گوجرانوالا میں 1955میں پیداہوئے، اسلامیہ کالج
گوجرانوالا سے تعلیم حاصل کی، شروع سے ہی دین سے خاص رغبت رہی،بسلسلہ
روزگارگزشتہ 33سال سے دبئی میں مقیم ہیں،تقریباً 32سال سے فارما سوٹیکل
کمپنی میں شعبہ مارکیٹنگ سے وابستہ رہے، وجہ علالتِ صحت کمپنی سے استعفی دے
چکے ہیں مگر تاحال دیارغیر میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مقیم ہیں ۔تقریبا
28سال سے قلمی سفر جاری ہے ۔
اِنکی عزت ،شہرت کے حوالے سے میں یہاں بڑے وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ وہ ماں
کی دعا ہو گی جس نے عرش پر پہنچ کر محترم مقصود احمد تبسمؔ کو نعت گوئی اور
نعت خوانی جیسے مقدس ترین کام کیلئے انتخاب کرایا ہوگا،ورنہ ہم نے دیکھا ہے
کہ شاعری کرتے تو عمریں گزار دی اوریوں کئی شاعر بے نام ہو گئے۔انکا اپنی
والدہ (مرحومہ) سے والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ وقت نزاع والدہ نے کہا
دیا کہ ’’مقصود میں تجھ سے راضی ہوں‘‘۔میری بڑی ہی خوش نصیبی ہے کہ میں اُس
عہد میں جی رہا ہوں جہاں ماں کی عزت توتکریم کرنیو الے مقصود احمدتبسمؔ
جیسی شخصیات موجود ہیں۔ ؔ
بڑی ہی لاجواب شخصیت کے مالک ہیں، خوش شکل بھی ہیں اورخوش مزاج بھی، خوش
اخلاقی، خوش پوشاکی، خوش گفتاری، بھی انہیں کا خاصہ ہے ۔ انکے چاہنے والوں
کا حلقہ وسیع ہے اور کیوں کر نہ ہو کبھی پرائے کو پرایا نہیں سمجھتے اور
اپنے کو پرایا ہونے نہیں دیتے،پہلی بار ملنے والوں سے بھی ایسی چاہت سے
ملتے ہیں جیسے صدیوں سے واسطہ ہو۔مقصود احمد تبسم کے فن وشخصیت کے دیگر
روشن پہلو جانتے کچھ سوالات کے جوابات میں
سوال: اپنی نعت گوئی کے آغاز کے حوالے کچھ بتائیے؟
جواب: بس اتنا ہی کہوں گا کہ جب محبتِ رسولﷺ میں زیادہ گم رہنا شروع کر دیا
۔تو اللہ نے مجھے نعت لکھنے کیلئے منتخب کر لیا ،بس پھر صرف نعت ہی لکھی۔
سوال: آپکے نعتیہ کلام کے البم بھی ریلیز ہوچکے ہیں ،قارئین اُسکے متعلق
جاننا چاہیں گے؟
جواب: جی۔۔! الحمداللہ۔ آر وائی کیطرف سے تین البم ریلیز ہوئے ،پہلے
البم’’موئے مبارک‘‘ کی نو نعتیں موئے مبارکﷺ پر ہیں جبکہ سرکاردو عالمﷺکے
گیسوئیں مبارک اور ریش مبارک کے مقدس بالوں پر روح پرور نعت گوئی کی سعادت
بھی حاصل کر چکے ہیں۔دوسرے البم اور سی ڈی ’’نعلینِ محمد‘‘کے نام سے ریلیز
ہوئی جس میں سبھی آٹھ نعتیں نعلین شریفین پر ہیں ۔
سوال: آپکا لکھا ہواکلام کو نسے کونسے نعت خوان پیش کرنے کی سعادت حاصل
کرچکے ہیں؟
جواب: پروفیسر عبدالروف روفی، سید ریحان قادری، شہزاد مدنی ، اصغر سلطانی،
فیصل حسن نقشبندی، حافظ طاہر قادری، شکیل نظامی، سید آصف علی ظہوری، محمد
علی سہروردی، حافظ اویس سمیت کئی معروف ثناء خوانوں نے میرے حسب منشاء پڑھا
ہے۔
سوال: یہاں حسب منشاء سے کیا مراد ہے؟
جواب: (مسکراتے ہوئے) یعنی نعت پڑھتے وقت نعت کے ادب کو ملحوظ خاطر رکھا
گیا اور طرز گانے پر نہیں تھی۔
سوال: اگر پوچھا جائے کہ سب سے اچھا کلام کس نے پڑھا؟تو
جواب : جی جی کیوں نہیں۔۔۔(فوراً جواب دیتے ہوئے کہا) بتانا میرے لئے باعث
مسرت ہے کہ پروفیسر عبدالروف روفی نے میرا سب سے زیادہ کلام پڑھا اور پڑھنے
کا حق ادا کر دیا۔
سوال: کچھ ہفتے قبل آپ کی پاکستان آمد پر بہت سی مذہبی و ادبی مصروفیات
رہیں ۔ کچھ بتائیے اِس بارے میں
جواب: میرا وزٹ بہت مصروف ترین رہا ،کئی پُرانے دوستوں سے ملنے کا شرف حاصل
ہوا۔ کئی ادبی محافل،ٹی وی پروگرامز میں مدوح کیا گیا۔حلقہ احباب ذوق کے
زیراہتمام پاک ٹی ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں نعتیہ کلام پیش کیا،میرے اعزاز
میں سرفراز علی حسن کے دولت کدہ پر ایک نعتیہ نشست کا بھی اہتمام کیا
گیا۔جس میں اجمل نیازی نے علالت کے باوجود بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
شرکت بھی کی اور اگلے روز اپنے شائع ہونے والے کالم میں اِس نعتیہ نشست کی
روداد بھی لکھی ۔ اے آر وائی ٹی وی چینل پر ’’نعت زندگی ہے‘‘ کے لائیو
پروگرام میں اپنے منتخب نعتیہ کلام بھی پیش کئے۔سرورحسین نقشبندی کی
میزبانی میں میری شاعری اور حسنِ سراپائے رسولﷺ پر گفتگو کا اہتمام کیا گیا
۔اِسکے علاوہ ٹی وی کے معروف کمپیئر صاحبزادہ تسلیم احمد صابری کیساتھ ایک
شام میں بھی شرکت کی اور تسلیم صابری کی نظامت میں ان کی پُرمغز گفتگو قابل
سماعت رہی ، جس کی سی ڈی بھی ریلیز کی جا چکی ہے ۔پیرسید ثقلین حیدرصاحب،
سروربھٹی صاحب سے بھی ملاقاتیں کیں۔
گوجرانوالہ میں مولانا سیدعرفان مجددی اور پیرسید محمد مستجاب شیرازی کے
علاوہ اسلام آباد میں منفرد لب و لہجے کے شاعر ڈاکٹر عزیز فیصل ،شاعر راجہ
احمد رضا اور شاعرپیر عتیق احمد چشتی سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ گوجر خان
میں جامع مسجد غوثیہ میں میرے عزاز میں ایک پُرتپاک تقریب کا بھی اہتمام
کیا گیا۔جمعۃ المبارک میں مولانا سجاد ساجد کے حضور کی چشمانِ مقدس پر خطبے
کے بعد مجھے چشمانِ مقدس پر نعت گوئی کیلئے بھی مدوح کیا گیاروزنامہ آفتاب
میں گروپ ایڈیٹر جناب ممتاز طاہر سے بھی تفصیلی ملاقات رہی۔
سوال: ماشاء اللہ آپ نے تو چند لمحات میں دنیا گھوم لی، سب سے قابل ذکر
پہلو کیا رہا؟
جواب: (انگلی سے آسمان کیطرف اشارہ کرتے ہوئے بولے)اللہ نے وقت میں برکت
ڈال دی ورنہ تمام احباب سے ملنا ناممکن تھا، سب سے خاص ،یادگار اور قابل
ذکر لمحات میرے لئے داتا حضور کے دربار میں حاضری کے تھے ،کیونکہ اِس موقع
پر اندر جا کر قبرشریف پر چادر چڑھانے اور حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔
سوال: آپکا کلام معیار کے اعلیٰ بلندیوں کوچھورہا ہے تو ایسے میں آپ نے غزل
یانظم میں طبع آزمائی کیوں نہیں کی؟
جواب: نعت لکھنے کیلئے دین کا مطالعہ بڑا ضروری ہے جب آپ اسلام کا مطالعہ
کر لیں گے تو پھر آپکا زہن غزل لکھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوگا ،کیونکہ اسلام
ایک حقیقت ہے اور حقیقت کا مطالعہ کر لینے سے مجاز لکھنا زیب نہیں دیتا
،دوسری یہ بات ہے کہ مرنے کے بعد غزل کے شاعر کوکچھ فائدہ نہیں ہو گا، جبکہ
نعت لکھنے سے مرنے کے بعد بھی ثواب کا سلسلہ جاری رہیگا اور میں نے خود
اپنے لئے ایک یہ دعا کی ہے کہ
موت آ جائے وہیں میرے قلم کو مولا
میں بُجز حمدوثناء ایک بھی گر شعر لکھوں
اُن کاکہنا ہے کہ نعت اس واسطے لکھتا ہوں کہ جب مرجاؤں،اِن قصیدوں کے
حوالوں سے حضوری میں رہوں
سوال: زندگی کے کوئی یادگار ترین لمحات،جس سے آپکو احساس ملا ہو کہ آپ کی
دنیا ہی بدل گئی؟
جواب: اِن لمحات کے بارے میں کچھ ایسا کہنا چاہوں گا کہ نعت لکھنے کا اللہ
نے مجھے صلہ دیا ہے، ایک دفعہ حضور کے نعلین مرے سر پر رکھ کر سوا گھنٹہ
نعلین شریفین کی مدح گوئی کا شرف حاصل ہے
سوال: کیا آپ کی نعت گوئی کسی سے متاثر ہے؟
جواب: نہیں ایسا نہیں بلکہ جب میں نے نعت کا مطالعہ کیا تو ثابت ہوا کہ نعت
پر بہت کام ہوچکا ہے مگر صرف آپﷺ کے اعضائے مبارک پر شاعری نہیں ہوئی سو
میں نے اس پر کام شروع کر دیا
سوال: کچھ تو ایسے نام ہوں گے جنہوں نے آپ کو متاثر کیاہو؟
جواب: جی!کہہ سکتا ہوں کہ احمد رضا بریلوی ،علامہ اقبال، پیر نصیرالدین،
ادیب رائے پوری، منظفر وارثی اور اقبال عظیم کی نعت گوئی مجھے متاثر کرتی
ہے۔
سوال: آپﷺ کے اعضائے مبارک پر نعتیں لکھنے کیلئے مطالعہ تو بھی درکار
تھا؟تو پھر۔۔۔
جواب: بالکل ایسا ہی ہے(سر ہلاتے ہوئے)،میں نے آپﷺ نے ہراعضائے مبارک پر
طویل نعتیں لکھیں ہیں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ تمام اسلامک انسائیکلوپیڈیا
میں کوئی حوالہ یا روایت رہ نہ جائے جو مذکورہ عنوان میں لکھ رہا ہوں۔قرآن
واحادیث اور سیرت کی تمام کتب کے حوالے میں جو بھی موضوع لکھ رہا ہوں اس
میں ملیں گے
سوال: پاکستان اور امارات میں فروغ ادب کے حوالے سے کہاں بہتر کام ہورہا ہے
؟
جواب: پاکستان اور امارات دونوں جگہ ہی عمدہ کام ہورہا ہے مگر امارات میں
نعت پر زیادہ کام نہیں ہورہا امارات میں شاید ہی کوئی اور شاعرجو صرف نعت
لکھتا ہو،
سوال: کوئی خلش زندگی میں تاحال باقی ہو؟
جواب: پُراعتماد لہجے میں بولے، زندگی میں کوئی خلش اللہ نے باقی نہیں رہنے
دی، جو مل جائے اس پر شکر کرتا ہوں جونہ ملے اسے اللہ کی رضا اور اپنی
بہتری تصور کرتا ہوں اس لئے میری کوئی خلش باقی نہیں ہے ۔
سوال: اُردو اخبار کے لئے کوئی پیغام؟
جواب: اخبار کاصحافتی معیار بہت اعلیٰ ہے، قارئین کو باخبر رکھنے کیلئے خبر
میں چھپی اصل خبر کی تحقیق میں رہنا قابل تحسین ہے ،یہاں کا نظم و ضبط میرے
لئے باعث تسکین رہا، مزید بس اتنا کہوں گا کہ صحافت ایک معزز پیشہ ہے
ایمانداری اور دیانت سے اس پر رواں دواں رہیں ،قوم کو اور آپ کی اسی میں
بھلائی ہے ۔
مقصود احمد تبسمؔ کے نعتیہ کلام سے چند منتخب اشعار
فقط اس واسطے خالد نے ہر معرکہ جیتا
کہ وہ ٹوپی میں رکھتے تھے مرِے سرکار کے گیسؤ
مشیت بھی تصدق تھی وہ منظر ہی کچھ ایسا تھا
سنوارے جب حلیمہ نے میرے سرکار سے گیسؤ
منیٰ میں بال کٹوا کر کر دیا جب حُکم آقا نے
ابو طلحہ نے بانٹے تھے مرِے سرکار کے گیسؤ
عمر سے عالمِ برزخ میں ملنے پر یہ پوچھوں گا
کفن میں کس لئے رکھے مرِے سرکار کے گیسؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ سر ہے جہاں موئے مبارک وجد کرتے ہیں
خمیدہ گیسو ؤں کا باغِ رحمت ہے سرِ اقدس
بروزِ حشر قدرومنزلت اسکی عیاں ہو گی
امین زینتِ تاجِ شفاعت ہے سراقدس
جناب عائشہ اب آخری دیدار بھی کر لو
کہ زیب رحل آغوش محبت ہے سراقدس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس گھر ایک دلہن کی شادہ اُنکے پسینے سے مہکی تھی
بیت مطیب کہلایا وہ گھر میں پھیلی اتنی خوشبو
اُم سلیم اکٹھا کرتیں کیوں نہ پسینہ اک بوتل میں
مُشک ازفر سے بہتر تھی جسمَ نبی سے بہتی خوشبو
شیر نماکو طیبہ کہنا راز ہے کیا مقصود بتا دے
لفظِ طیبہ طیب سے مشتق اور ہیں طیب کے معنی خوشبو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لبوں سے چھو کر دعا مستجاب ہو جاتی
ہیں استخارہ قدرت لب رسولِ کریم
عمر نے چوما تھا یہ کہہ کے سنگِ اسود کو
بڑھا گئے تیری عظمت لبِ رسول کریم
|