ٍ کسی نے ادب میں نام کمایا تو کسی نے صحافت میں ،کسی نے
رپورٹنگ میں شہرت پائی تو کسی نے کالم نگاری میں ،کسی کی صاف گوئی پہچان
بنی تو کسی کی بے باکی۔مگر مرزا یسینٰ بیگ ایسی شخصیت ہیں جس نے ادب و
صحافت میں بیک وقت اپنی شناخت حاصل کی قلم جب بھی اُٹھا صاف گوئی و بے باکی
وجہ مقبولیت بنی ۔انکی تحریروں کے خاص پہلو تہذیبی رحجان،اپنے وطن عزیز اور
مذہب سے لگاؤ،بلند خیالی، جدت اورفکری اُڑان بھی ہیں ۔ مرزا یسینٰ بیگ بڑی
ہی پہلو دار ممتاز شخصیت ہیں بڑی تقاریب کے کامیاب منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے
بھی حلقے میں اپنا خاص مقام رکھتے ہیں ۔ ہر میدانِ شعبہ میں شہرت کی
بلندیوں پے راج کر نے کے باوجود انکا عاجزانہ دھیما میٹھا لب و لہجہ اور
اخلاق و اطوار قابل رشک ہے۔اِن کی دوستی کی بات کی جائے تو’’قابل اعتبار،
رہنمائی کرنے کی صلاحیتوں کے مالک، دوسروں کی مدد پر ہر وقت کمر بستہ اوردل
پُرخلوص گہری محبت سے بھرپور ‘‘انہیں کا خاصہ ہیں ۔ ارادے کے اٹل اور دھن
کے پک ہیں ، جب وہ کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو اسے مکمل کرکے ہی
دم لیتے ہیںیہی وجہ ہے چھوٹے شہروں میں بھی کامیاب اور یادگار تقاریب کے
انعقاد کا سہرا انکے سر ہے ۔
آئیے مرزایسینٰ کی زندگی میں گزرے نشیب و فراز اور اس میں درپیش انکے
احساسات، حالات و واقعات جانتے ہیں بذبان مرزا یسینٰ۔کہتے ہیں کہ میرے آباوٗ
اجداد تقسیم سے پہلے بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں قیام پذیر تھے میرے
والد اور ان کے بھائیوں کا امرتسر میں بہت بڑا صنعتی یونٹ تھا او ر ہمارے
بزرگوں کا شمار علاقے کی سماجی،مذہبی اور علمی شخصیات میں ہوتا تھا لیکن
تقسیم کے بعد سارا سرمایہ ،کاروبار، جائیداد اور جمع پونجی لوٹ مار کی نذر
ہوگئی اور میرے والد اپنے بھائیوں کے ساتھ بے سروسامانی میں عالم میں ہجرت
کرکے پاکستان کی طرف عازم سفر ہوئے میرے والد جب ان دنوں کے حالات کا تذکرہ
کرتے تھے تو اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے۔والد صاحب کے بہت سے قریبی عزیز
رشتہ داروں نے دوران ہجرت جام شہادت نوش کیا ۔ پاکستان پہنچنے کے بعد میرے
خاندان نے باب پاکستان ، والٹن کے مہاجر کیمپوں میں قیام کیا پھر بعد میں
میرے خاندان کے لوگ پنجاب کے مشہور اور تاریخی شہر ننکانہ صاحب منتقل ہو
گئے
لیکن میری جائے پیدائش پل پیرا ،تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد ہے، جہاں
بسلسلہ کاروبار والد محترم کا قیام تھا ۔ آج بھی جب کبھی میں والٹن میں باب
پاکستان کے پاس سے گزرتا ہوں تو ہجرت کے سفر کی صعوبتیں اور دکھ میری
آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اگرچہ میں نے ہجرت کا وہ پرآشوب زمانہ نہیں
دیکھا ہوا لیکن اپنے بزرگوں سے تکلیف دہ حالات و واقعات سن رکھے تھے اس لیے
ان کے محسوسات و جذبات کو آج بھی اپنے اندر زندہ خیال کرتا ہوں اور اس
معاملے میں مجھے فخر بھی ہے کہ ہمارے خاندان نے بھی پیارے پاکستان کے لیے
جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے ۔میں نے اسلامیات اور ایجوکیشن میں ماسٹرز
ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں جبکہ عربی صرف و نحو اور بول چال کے کچھ ایڈوانسڈ
ڈپلومے کر رکھے ہیں ۔زمانہ طالب علمی میں مجھے لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں
دلچسی تھی اور مزیدار ی کی بات ہے کہ میں بچپن اور طالبعلمی میں کہانیاں
،قصے اور نظمیں پڑھنے کی بجائے کالم، تجزیے ،فیچر اور تحقیقاتی مضامین شوق
سے پڑھتا تھامیرے محلے میں حکیم برکت علی کا مطب تھا اس سے تھوڑا آگے ڈاکٹر
محمد اسلم کا کلینک اور تھوڑی دور آگے بشیر احمد کا سٹور تھا ،تینوں کے پاس
مختلف روزنامہ اخبارات آتے تھے اور میں سکول سے فارغ ہوکر سب کے پاس تھوڑی
دیر بیٹھتا اور بلا معاوضہ اخبار پڑھنے کا لطف اٹھاتا ،میرے ساتھ باقی
قارئین بڑی عمر اور سماجی حیثیت کے حامل ہوتے ہم لوگ اخبار پڑھنے اور پھر
ان میں چھپنے والے مواد ، خبروں اور کالموں پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ
کرتے ۔ اخبار کا مستقل قاری ہونے کی وجہ مجھے اپنے محلے میں امتیازی حیثیت
اور عزت حاصل رہی اکثر بڑے بوڑے اور سادہ لوگ پوچھتے کہ آج اسلامی مہینے کی
کونسی تاریخ ہے ،ملکی حالات کس سمت جارہے ہیں،حکومت کس پارٹی کی بنے گی
،خالی آسامیاں کس محکمے میں ہیں وغیر ہ وغیرہ ۔میں سمجھتا ہوں یہ بچپن کا
مطالعہ اور اخباری ذوق ہے جس نے مجھے بھی کالم نگار ی کے شعبے میں جانے پر
مجبور کردیا ہے اور تمام تخلیقی اصناف میں مجھے کالم نگاری ہی پسند ہے ۔
دراصل یہ ایک فطری میلان ہے ،ایسا فطری میلان جو انسان اپنی پیدائش سے اپنے
ساتھ لیکر آتا ہے یہی وہ صلاحیت ہے جسے خداداد بھی کہا جاتا ہے اور یہ وہ
توفیق ہے جو قدرت نے بہت کم لوگوں کے حصے میں لکھی ہے ،یوں جانیے کہ میرے
حصے میں بھی لکھی تھی ۔ شروع تو زمانہ طالبعلمی سے ہوئی لیکن اب لگتا ہے یہ
میری روح و جان کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔مرزا یسین کی فن و شخصیت کے حوالے
سے مزید ہنرمندیوں کے چھپے پہلو جانتے ہیں چند سوالات کے جوابات میں ۔۔
سوال: شعبہ صحافت میں بھی طبع آزمائی کی؟
جواب: جی میں ملتان سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ میں کچھ عرصہ اداریہ
لکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ فورم رپورٹنگ بھی کرتا رہا ہوں،لیکن جہاں تک
اس شعبے میں کل وقتی طور پر خدمات سرانجام دینے کی بات ہے میں ابھی اس
مرحلے سے کوسوں دور ہوں،کیونکہ صحافت بذات خود ایک کل وقتی ذمہ داری کا نام
ہے او ر جب آپ اس ذمہ داری سے پورے طور پر عہدہ برآنہیں ہوسکتے تو پھر اس
شعبے میں مزید طبع آزمائی کی ضرورت نہیں محسوس کرتا،ہاں البتہ اگر آپ کالم
نگاری،فیچر نگاری، ادبی رپورٹس اور کتب اور شخصیات پر تبصروں اور تجزیوں کو
صحافت کا حصہ سمجھتے ہیں تو پھر اس حوالے سے آپ مجھے صحافت کا حصہ سمجھ
سکتے ہیں
سوال: کیا ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے لاہور کا دیگر شہروں سے کیسے موازنہ
کریں گے؟
جواب: جی آپ کا سوال بڑا اہم اور خوبصورت ہے ،جس طرح لاہور کے ایک عظیم
علمی،ادبی،تہذیبی وثقافتی شہر ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،ہنری ڈی
بالزاک فرانسیسی دنیائے ادب کا بہت بڑا نام ہیں اورفرانس کا شہر پیرس اپنی
خوشبوؤں کی وجہ سے مشہور ہے ،بالزاک نے اپنی تحریروں میں شہر لاہور کو
دنیابھر میں خوشبوئیں بانٹتے والا شہر قرار دیا ہے۔اسی طرح لاہور صدیوں سے
علمی و ادبی مرکز چلا آرہا ہے اور خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ لاہور کی
یہ عظمت آج تک برقرار ہے ، دنیا بھر میں ایک عظیم تہذیبی شہر کے طور پر اس
کی پہچان موجود ہے اور میں اس فخر کے ساتھ زندہ ہوں کہ میں اس شہر میں بستا
ہوں اور یہ شہر میرے اندر تہذیبی و ثقافتی روشنی جگائے ہوئے ہے ۔
سوال: اُردو،پنجابی،انگلش،عربی ۔ہرزبان پر دسترس تو کوئی آسان کام نہیں۔تو
پھر۔۔۔؟
جواب: دیکھیں اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہماری تہذیب، ثقافت،ادب اور خاص
طور پر نظریاتی ،مذہبی اور خاص طور پر سیرت رسول ﷺ کے متعلق اس زبان میں
بہت بڑا ذخیرہ ہے ، پنجابی میری ماں بولی ہے اور ماں بولی سے پیار میری
فطرت میں شامل ہے ،انگریزی اور عربی دونوں عالمی زبانیں ہیں ،عربی میں خاص
طور پر اس نظریے سے سیکھی کہ میں کلام خدا کو اس کے پورے معانی ،مطالب اور
مفاہیم کے ساتھ سمجھ سکوں۔ زبانوں کے سیکھنے کے متعلق حضور اکرم ﷺ کا ارشاد
گرامی ہے کہ جس نے کسی کی زبان سیکھ لی وہ اس کے شر سے محفوظ ہوگیا ۔ یعنی
آپ کسی بھی قوم کے نظریات ،تاریخ اور مقاصد تبھی جان سکتے ہیں جب آپ اس قوم
کی زبان فہمی کا ہنر جانتے ہوں۔
سوال: کچھ اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتائیے کہ آغاز کب اور کیسے ھوا ، نیز
اسکے محرکات کیا تھے ؟
جواب: ابھی تو ادبی سفر صحیح طور شروع ہی نہیں ہو سکا لیکن اس کے محرکات
زاہد حسن،سجاد جہانیہ اور علی اکمل تصور کی تحاریر کی کشش اور رہنمائی جو
مجھے پل پل تحریک دے رہی ہے کہ میں اب فکشن نگاری کی طرف آجاؤں ۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کالم کی زندگی مختصر ہوتی ہے؟اگر ایسا ہے تو
نامور لکھاریوں میں اِس رحجان کم کیوں نہیں ہوپایا؟
جواب: میں ہرگز ایسا خیال نہیں کرتا کہ کالم کی زندگی مختصر ہوتی ہے ،کالم
اگر دل سے لکھا جائے تو وہ اس عہد کی سچائی اور واقعات کا آئینہ دار ہوتا
ہے جو آنے والے زمانوں کی کتاب پر حرف گواہی کی طرح ثبت ہوتا ہے۔ اگر ہم
اردو میں ہی دیکھیں تو آج بھی جہاں چراغ حسن حسرتؔ ،عبدالمجید سالکؔ ،احمد
ندیم قاسمیؔ ،غلام رسول مہرؔ ،ظفر علی خاں،منو بھائی کے تخلیق کردہ کالم
ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور اسی طرح آج کے دور میں عطاء الحق قاسمی،حافظ
شفیق الرحمان اور محمد سجاد جہانیہؔ جیسے ذہین و فطین کالم نگار موجود ہیں
،جہاں تک سوال کے آخری حصے کا تعلق ہے کہ نامور لکھاریوں میں اس کا رحجان
کیوں کم نہیں ہوپایا تو اس کی بنیادی اور بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
سوال: پاکستان رائٹرنگ ونگ کے قیام کا خیال کیسے آیا؟
جواب: مدینہ الاولیاء ملتان سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا خیال تھا کہ ہمیں
اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار لانے اور ادبی سرگرمیوں کی ترویج و اشاعت
کے لیے ایک پلیٹ فارم قائم کرنا چاہیے چنانچہ 21اگست 2015کو ملتان میں اس
کی قیام عمل میں لایا گیا اور اللہ کی مہربانی سے قلیل مدت میں ادبی حلقوں
اس تنظیم کی ایک منفرد پہچان اور شناخت ہے اور اس پلیٹ فارم سے جو کہ ملتان
سے شروع ہوا تھا لیکن اب اللہ کے فضل و کرم سے پورے ملک میں اس کے تحت ادبی
سرگرمیاں جاری و ساری ہیں ۔
سوال: قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایوارڈ بھی دئیے یہ خیال کیسے آیا؟
جواب: کوئی بھی انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو لامحالہ اس کے سینے کے کسی
گوشہ اس کو سراہے جانے اور ستائش کی تمنا پنہاں ہوتی ہے وہ اس کا اظہار کرے
یا نہ،چنانچہ ہمارے پیش نظر لکھنے والے کی اس خواہش کی تکمیل کے ساتھ ساتھ
یہ مقصد بھی شامل ہوتا ہے کہ تخلیق کار کے کام کے عوض کچھ نہ کچھ ٹھوس شکل
میں ضرور پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں شیلڈز ،سرٹیفیکیٹس اور کتابوں سے بڑھ
کر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔لہذا جب کوئی لکھنے والا دیکھتا ہے کہ اس کے
لکھے کی قدر کی گئی ہے تو اس کے اندرکچھ نیا اور بہتر کرنے کا جذبہ
پیداہوتا ہے، سو اسی بات کے پیش نظر ہم نے ایوارڈز کا سلسلہ شروع کر رکھا
ہے۔
سوال: موجودہ ادب سماج میں کس حد تک اثر پذیر ہے؟
جواب: اس طرح تو نہیں جس طرح کے ہونا چاہیے اور اس کی بے شمار وجوہات میں
سے ایک بڑی وجہ ہمارے ملک کے لوگوں کی علم سے،ادب سے اور خاص طور پر کتاب
سے دوری ہے جب تک ایک سماج کتاب کی اہمیت کو نہیں سمجھے گاتو آپ جانتے ہیں
کہ وہاں اد ب کس حد تک اثر پذیر ہوسکتا ہے۔ بالحیثیت مجموعی یہ ہمارا فرض
بنتا ہے کہ ہم پہلے سماج کو کتاب کی اہمیت کی احساس دلا کر اسے کتاب کے
قریب لائیں اور اس کے بعد ہی یہ توقع رکھ سکیں گے کہ ہمارا سماج ، ہمارا
معاشرہ اور ہمارا اردگرد ایک مہذب اور علم دوست ماحول پیدا کر سکے گا۔اس کے
بناء سب خام خیالی ہے ۔
سوال: ادب اور زندگی کے بارے میں آپ کیا نظریہ رکھتے ہیں ؟
جواب: اصل بات یہ ہے کہ ادب اور زندگی دونوں لازم و ملزوم چیزیں ہیں ہم
دونوں کو کسی طور علیحدہ نہ تو دیکھ سکتے ہیں نہ ہی اس کا تصور کرسکتے ہیں۔
آپ یونانی تہذیب کو دیکھ لیں ،عرب معاشرت کو دیکھ لیں یا پھر جدید مغربی
تہذیب کا مطالعہ کریں تو ایک بات جو سب میں یکساں طور پر ایک جیسی نظر آتی
ہے وہ ادب کا زندگی سے اور زندگی سے ادب سے تعلق ہے۔ادب انسان کی تربیت
کرتا ہے ،اسے برے بھلے کی تمیزسکھاتا ہے وہاں کے تہذیبی اور ثقافتی معاملات
کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس خطے کا انسان اور اس
کی تہذیب کس قدر نمایاں، بھرپور اور منفرد ہے،اس لیے ہم یہ بات برملا کہ
سکتے ہیں کہ ادب اور زندگی دو بظاہر منفرد اقدار ہیں لیکن اپنی حیثیت میں
یہ دونوں ایک ہیں اور جب یہ دونوں کسی ایک انسان کے اندر یکجا ء ہو جائیں
تو کہا جاسکتا ہے کہ اب یہ انسان نہ صرف خود ایک مکمل انسان کی شناخت حاصل
کرچکا ہے بلکہ اس کے اندر وہ جوہر بھی پیدا ہوگیا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں
کی اخلاقی اور معاشرتی طور پر بہتر رہنمائی کرسکتا ہے۔
سوال: آپکے نزدیک اچھے لکھاری کو جانچنے کیلئے پیمانہ کیا ہے؟
جواب: بظاہر ایسا کوئی پیمانہ نہیں کہ ہم ایک اچھے یا کم اچھے (اچھے کے
باالمقابل برا لفظ کسی بھی ادیب کے لیے بذات خود ایک بری علامت ہوگا) ادیب
میں تمیز کرسکیں ،پھر کسی بھی لکھنے یا پڑھنے والے کے نزدیک ہر ادیب
کوماپنے کا پیمانہ مختلف ہوسکتا ہے تاہم میرے نزدیک ایک اچھا لکھاری وہ
ہوگا جو نہ صرف یہ کے ماضی کے بڑے ادب اور ادیبوں سے آگاہی رکھتا ہوبلکہ اس
کا اپنے معاصرین سے بھی گہرا تعلق ہو،مزید وہ اپنے ملک سمیت بین الاقوامی
سطح پر ہونے والی سیاسی ،سماجی،معاشی،معاشرتی،جغرافیائی اور تہذیبی
تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتا ہو اور اس کے اندر ان کو اپنے ادب میں سمونے کی
صلاحیت بھی موجود ہو،میرے نزدیک ایک ایسا لکھاری ہی اچھا لکھاری کہا جاسکتا
ہے۔
سوال: ادب اور صحافت میں سب سے بڑا فرق اورسب سے بڑی مماثلت؟
جواب: ادب اور صحافت ایک ہی وقت میں علیحدہ علیحدہ پہچان رکھنے کے باوجود
کسی ایک سطح پر جا کر باہم یکجا ہوجاتے ہیں ،یقیناًایک اچھے ادیب کے اندر
ایک اچھے صحافی کی صفات موجود ہونا چاہییں وہ کسی واقعے کے زیادہ اہم یا کم
اہم ہونے کے بارے میں جانتا ہواس میں کھوج ،تحقیق اور تجسس ہو کہ وہ کسی
بھی ہونے والے واقعے کے اندرونی و بیرونی معاملات کی چھان بین کرنے اور اس
واقعے کے نتیجے تک پہنچنے کی حس بھی رکھتا ہولہذا یہ وہ چیزیں ہیں جو زیادہ
تر ہمیں صحافت کا یا صحافی کا خاصہ نظر آتی ہیں لیکن اصل میں اگر کوئی ادیب
صحافت سے منسلک رہا ہو یا منسلک ہو تو میرے نزدیک اس کا لکھا ہوا ادب ایک
ہمہ وقت بند کمرے میں بیٹھ کر لکھنے والے ادب سے زیادہ موثر ،کارگر اور
نتیجہ خیز ہوگا ۔
سوال: ادب برائے ادب ہونا چاہیے یا ادب برائے اصلاح ؟
جواب: ادب برائے ادب بذات خود کوئی چیز نہیں جب ہم سمجھتے ہیں کوئی بھی چیز
بلاجواز پیدا نہیں کی گئی تو انسان ادب جیسی اعلیٰ اور ارفعیٰ قدر کو بناء
مقصد کے کیسے تخلیق کرسکتا ہے ،لہذاادب کاوہی پہلو مثبت ہوگا جو اصلاح اور
اخلاق سے جڑا ہوا ہوگا اور اس کے اندر کوئی مقصد پنہاں ہوگا۔
سوال: شاعری میں مقصدیت اور ابلاغ کی کیا اہمیت ہے ؟
جواب: کوئی بھی فن پارہ مقصدیت اور ابلاغ کی اہمیت سے خارج قرار نہیں دیا
جاسکتا ، جب آپ اپنے سوال کے اندر لفظ،’’مقصدیت‘‘ لے آئے ہیں تو اس کا مطلب
ہے کہ آپ ’’مقصدیت‘‘ یا مقصد کی اہمیت سے کما حقہ واقف ہیں اسی طرح اگر
کوئی شاعر یا اس کا کلام لوگوں تک ابلاغ ہی نہیں کرتا وہ جو کچھ بیان کرنا
چاہتا ہے سننے والے اسے سمجھ ہی نہیں پاتے اور ایک طرح کے ابہام کا شکار
رہتے ہیں تو آپ خود ہی کہیں ایسی شاعری کا کوئی جواز ہوسکتا ہے؟؟ بہتر ہے
ایسی شاعری نہ کی جائے یا اگر بعض شاعر ایسی شاعری کر رہے ہیں تو ان سے
اغماض برتا جائے ۔
سوال: جدید حسیت سے کیا مراد ھے؟ جدید غزل یا جدید شاعری کیا ہوتی ھے ؟
جواب: اصل میں’’ جدید حسیت‘‘ سمیت بہت سی علامتیں ایسی ہیں جو ہمارے یہاں
مغرب، مغربی ادب یا مغربی نفسیات دانو ں اور مستشرقین کے زریعے ہمارے یہاں
آئی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ایسی علامتیں بذات خود مغرب یا مغربی ادب میں بھی
اپنا جواز کھوچکی ہیں ،حسیت دراصل انسانی محسوسات کا ایک جزو لازم ہے اور
جب سے انسان سے سوچنا محسوس کرنا ،لفظ تحلیق کرنے کے بعد اسے لکھنا شروع
کیا ہے تب سے یہ ہماری تخلیقات کا حصہ رہی ہے چاہے شعری صورت میں یا پھر
نثری روپ میں ، شاید آپ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جدید غزل یا دیگر شعری
اصناف میں’’صنفی‘‘ حوالے سے جو تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں ان کی اہمیت کیا
بنتی ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ شعری اصناف میں تبدیلیاں رونماء ہوتی رہی ہیں
اور یہ حقیقت ہے کہ اگر اس میں کوئی بڑا لکھنے والا پیدا ہوگیا ہے تو وہ
صنف امر ہوگئی ہے ورنہ اس کی موت واقع ہوگئی ہے۔
سوال: کیا آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی شعر و ادب کی کوئی اہمیت باقی ھے ؟
جواب: یوں تو کوئی ایسا دور نہیں گزرا جس میں شعر و ادب کی اہمیت نہ رہی
ہو، اصل میں شعرو ادب کوئی پیشہ یا مشغلہ نہیں یہ تو طرز حیات اور آج تو اس
کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے اس وقت جب ہم کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا
کے دور میں جی رہے ہیں یہ ایک نام نہاد ترقی یافتہ دور ہے جس نے انسانی
رشتوں اور ناتوں کی گہرائی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے ، انسان کو
انسان سے دور کر کے رکھ دیا ہے، آپ شعرو ادب کی ضرورت کی بات کرتے ہیں میں
تو یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے شاعر اور ادیب پر یہ دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ وہ نہ صرف ادب تخلیق کر ے بلکہ ایسا ادب تخلیق کرے جو ان انسانوں کو اس
سے قریب لائے جو بہت دور چلے گئے ہیں۔
سوال: آجکل جو تنقید لکھی جا رہی ھے کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
جواب: تھوڑا سوچتے ہوئے کہنے لگے ۔ ہر ایک لکھی شے سے تو اتفاق ضروری نہیں
ہوتا ،تاہم ادبی اصناف اور رحجانات کی طرح تنقید کے بھی بہت سے اصول و
ضوابط اور مکتبہ ہائے فکرہیں لہذا یہ ہوسکتا ہے بعض نوعیت کی تنقید سے آپ
اتفاق نہ کریں اور بعض نوعیت کی تنقید آپ کو پسند ہو،پھر تنقید کے بذات خود
کتنے ہی مکاتب فکر ہیں،عمرانی تنقید،نفسیاتی،
تاثراتی،ساختیاتی،جدیدیت،رونمائی وغیرہ اتنے شعبوں میں کام ہورہا ہے ظاہر
ہے ان میں سے بعض کو آپ پسند کریں گے اور بعض آپ کو ناپسند ہوں تاہم کام
بہر طور جاری ہے ۔
سوال: اِن احباب کا کچھ ذکر جن کے بغیر ادبی سفر دشوارہو جاتا آپکا۔۔؟.
جواب: معاصرین میں الطاف احمد،قاری محمد عبداللہ اور ملک محمد شہباز اور
آپ(مسکراتے ہوئے ہاتھ کا اشارہ میری طرف بڑھا دیا )شامل ہیں جبکہ میرے
رہنماؤں اور سرپرستوں میں محترمہ پروفیسر رضیہ رحمان صاحبہ،جناب زاہد
حسن،جناب محمد سجاد جہانیہ اور محمد ذاکر صاحبان ایسی شخصیات جنہوں نے مجھے
انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اور ان کی رہنمائی آج بھی میرے ساتھ ہے ،ان کی
رہنمائی ،تعاون اور شفقت اگر راہ زندگی میں شامل نہ ہوتی تو یقیناًادبی
ناممکنات میں یا شاید بہت دشوار ہوتا ۔
سوال: سوشل میڈیا کو شاعری اور ادب کے حوالے سے کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب: دراصل یہ سوال بھی اس سوال کا حصہ کا ہی اک حصہ ہے جس میں آپ نے یہ
پوچھا تھا کہ کیا آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی شعر و ادب کی کوئی اہمیت
باقی ہے؟،’تو اگر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ دور کی ایک طاقتور شکل سوشل
میڈیا بھی ہے۔وہ جو داناؤں کا ایک قول ہے ہر شئے کے دو پہلو ہوتے ہیں روشن
اور تاریک، تو ہمیں بھی سوشل میڈیا کا روشن پہلو ہی دیکھنا چاہیے اور اس کا
روشن پہلو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے ،شاعری سے ،شاعروں سے اور ادب سے لوگو ں
کو قریب کیا ہے ۔ ایک طرح سے اس نے لوگوں کے لفظ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر
سے استوار کیا ہے ۔اب لوگ اپنی شاعری،کہانی یا نثر سوشل میڈیا پر لکھ کر
شائع کرتے ہیں ،ان سرگرمیوں کو ہم مثبت ہی گردانتے ہیں اور سوشل میڈیا نے
لکھاری اور قاری کو ایک دوسرے کے بے حد قریب کردیا ہے ۔
سوال: گھر بار سے دور روزگار کی مشقّت قدرے زیادہ ہوتی ہے، ایسے میں ادبی و
صحافتی سرگرمیوں کے لئے وقت کیسے نکال پاتے ہیں؟
جواب: یقیناًگھر سے دور رہنا اور روزی روٹی سے جڑے رہنا انسان کی قدیم صفت
ہے اس مہاجرت اور بے گھری کا بھی اپنا لطف ہے جو بعض اوقات آپ کی تخلیقی
قوت کو مہمیز دیتی رہتی ہے،اگرچہ اس کے اثرات اور نقصانات اپنی جگہ ،تاہم
اگر آپ کوئی کام صدق دل اور پریقین عزم کے ساتھ کررہے ہیں تو پھر وقت کا
اصراف تو ہوتا ہی ایسے ثمر آور کاموں کے لیے ہے ۔ادب اور صحافت بھی میری
محبتیں ہیں سو ان کے لیے وقت نکالنا مجھے کھلتا نہیں بلکہ آہستہ آہستہ عادت
ہی کچھ ایسی بن گئی ہے کہ مجھے ازبر ہوچکا ہے کہ مجھے کب دفتر کے لیے وقت
نکالنا ،کب گھر کے لیے ،کب ادب ،ثقافت اور تعلیم کے لیے۔
سوال: آپ کے پاس کو نسا طلسم ہے کہ آپ سے ایک بار ملنے والا آپکا ہی ہو
جاتا ہے؟
جواب: آپ نے میرے طلسم کی بات کی ہے ،میں تو سمجھتا ہوں کہ خود میرے دوستوں
،میرے ملنے والوں کی باتوں میں ان کے میل جول میں جادو ہوتا ہے،جس طرح وہ
میری طرف کھنچے چلے آتے ہیں تو میرے دل میں ان سے ملنے ،ان کے ساتھ بیٹھنے
اور ہم کلام ہونے کی خواہش مچلتی ہے،اگر آپ کہتے ہیں تو شاید میری ذات میں
بھی کوئی ایسی خوبی ہو لیکن میرے خیال میں یہ ساری خوبی مجھ میں اپنے
دوستوں کی رفاقت کی وجہ سے ہے اور جس طلسم کا آپ ذکر کررہے ہیں وہ سارا
میرے دوستوں کی طلسماتی خوبیاں ہیں جو رفتہ رفتہ میری ذات میں در آئی ہیں۔
سوال: اپنے شاگردوں یا نئے آنے والوں کیلئے کوئی کامیابی کا گُرہی بتا دیں
جواب: اصل میں گر وغیرہ کچھ نہیں ہوتا، یہ تو فطرت کی طرف سے کی گئی آپ کی
تربیت،آپ کی تہذیب ہوتی ہے جو آپ کو اس راہ پر لیے چلی جاتی ۔ کہنے کا مقصد
یہ کہ فطرت ہے جس کی یہ ساری دین ہوتی ہے ۔ تاہم میں پھر بھی ان لوگوں کے
لیے جو ادب،صحافت اور شعر سے محبت رکھتے ہیں اور جن کا مجھ سے بھی ایک تعلق
خاطر ہے میری ان کے لیے گزارش ہے یہی ہے کہ اپنا نام کمانا چاہتے ہیں تو
مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے تجربات اور نچوڑ کو بیان کرنے کی کوشش کریں
،یقیناًکامیابی قدم چومے گی۔ |