ذوالفقار علی بھٹو پر لگائے جانے والے الزامات اور انکے جوابات

ذوالفقار علی بھٹو پر جو بڑے بڑے الزام لگائے جاتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1. بھٹو پر جو سب سے بڑا الزام لگایا جاتا ہے وہ یہ کہ مجیب الرحمٰن کی الیکشن میں واضح برتری پراقتدار اس کے حوالے کرنے کی بجائے اس نے کہا " اُدھر تم ، اِدھر ہم " جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگوں کے مطابق قیام پاکستان کے اول روز ہی بنگلہ دیش وجود میں آ گیا تھا اسکی وجہ یہ تھی دونوں خطوں کے درمیاں سیکڑوں میل کا فاصلہ تھا جس کی وجہ سے دیر تک انتظامی معاملات پر گرفت رکھنا بہت مشکل تھا ۔ دیگر وجوہات کےساتھ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی جس کی بنا پر مولانا ابوالکلام آزاد نے پیش گوئی کر دی تھی کہ پاکستان بننے کے پچیس سال بعد دو لخت جائے گا ۔ پھر فاصلوں کی دوری دلوں کی دوری کا سبب بھی بنتی گئی جس نے بتدریج نفرت کی شکل اختیار کر لی جس میں ایک بڑا کردارہمارے نا اہل اور ناعاقبت اندیش لیڈروں کا بھی تھا ۔ پھر قیام پاکستان کے وقت برصغیر کے مسلمانوں کو یکجا کرنے والی چیز "نظریہ پاکستان " تھا جس کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر رکھی گئی تھی اور پاکستان بننے کے بعد اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی ۔آج بھی اگر ہم مغربی پاکستان کا وجود بطورایک اکائی کے باقی رکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو مضبوط بنانا ہو گا یہی وہ چیز ہے جس موجودہ پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھٹو نے نشتر پارک کے جلسے میں مغربی پاکستان میں اپنی برتری اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کی مکمل جیت کا ذکر کیا تھا جس کواس وقت کے" آزاد اخبار " کے اڈیٹراطہر عباس نے "ادھر تم ادھر ہم" کی سرخی بنادی تھی جس کو اسٹیبلشمنٹ نے ہائی جیک کیا اور بھٹو کے خلاف ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا ۔ اطہر عباس صاحب نے اس بات تسلیم بھی کیا کہ بھٹو نے ایسی کسی بات کا ذکر نہیں کیا تھا اور یہ کہ اس نعرے کی تخلیق میں انکی ذاتی صحافتی شرارت شامل تھی۔ لیکن اگر اس بات درست مان بھی لیں توبھی اس طرح کی باتوں سے قوموں کی تقدیر کے فیصلے نہیں ہوا کرتے بلکہ ہر بات کا ایک پس منظر ہوتا ہے اور یہ فیصلے ایک طویل تسلسل کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ بنگالیوں کو اپنے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کاشدت سے احساس تھا جو بتدریج نفرت کی شکل اختیار کرتا گیا جس کے نتیجے میں مجیب الرحمٰن نے اپنے مشہور زمانہ چھ نکات صدرایوب کے دور ہی میں پیش کر دیے تھے جن کو اُس نے ماننے سے انکار کر دیاتھا ۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جب مجیب الرحمٰن کو مشرقی پاکستان میں واضح برتری حاصل ہوئی تو Bargaining Position مضبوط ہونے پر ایک بار پھر چھ نکات پیش کر دیے ۔ بھٹو مجیب الرحمٰن سے مذاکرات کرنے بنگلہ دیش گئے ۔ بھٹو نے قریب قریب چھ میں سے پانچ نکات تسلیم کر لیے تھے لیکن چونکہ مجیب الرحمٰن اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہو چکا تھا، اورمکتی باہنی نے بھی اپنی کاروائیاں شروع کر دی تھیں جن کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز کاروائیوں میں تیزی آ چکی تھی اس لیے مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پر کسی قسم کی لچک سے بالکل انکار کر دیا اور اس طرح مذاکرات ناکام ہوئے ۔ جب اس سلسلے میں بھٹو سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے " پاکستان کے پا نچ ٹکڑے کر دینے والے مذاکرات ہر گز منظور نہ تھے "۔ اگر اقتدار مجیب الرحمٰن کے حوالے کر دیا جاتا توخدانخواستہ صوبائی خود مختاری کے نام پر مغربی پاکستان کے بھی کئی ٹکڑے ہو گئے ہوتے ۔ ان چھ نکات میں سے اگر مندرجہ ذیل تین نکات کو دیکھیں تو بھٹو کی بات سمجھ میں آتی ہے:
i. ہر صوبے کی علیحدہ کرنسی
ii. ہر صوبے کے اپنے فارن ریزرو
iii. ہر صوبے کی اپنی فوج / ملییشیا
2. دوسرا سب سے بڑا الزام جو بھٹو پر لگایا جاتا ہے وہ " نیشنلائزیشن " ہے یعنی ایک پالیسی کے تحت بڑے بڑے صنعتی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیاگیا جس کی وجہ صنعتی ترقی کا پہیہ رک گیا ۔ ۔ ۔ ۔ قیام پاکستان سے لے کر کچھ خاندان ملک کے وسائل پر قابض تھے بھٹو ان بائیس خاندانوں کی اجارہ داری ختم کرنا اورارتکاز دولت کا خاتمہ کرناچاہتے تھے کیونکہ بھٹو اسلام کو دین، جمہوریت کو سیاست، سوشلزم کو معیشت اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنانے کا منشورلے کر انتخابی سیاست میں اترےتھے بھٹو دور میں ہونی والی اصلاحات میں بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اورپرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر انہیں جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرنا شامل تھا ۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ حالات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اورسوچ و فکر کے بنے بنائے سانچے قبول کر لیتے ہیں حالانکہ اُن کا اس چیز سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ نیشلائزیشن بھی عام آدی کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اس بڑے پیمانے پر اس کے خلاف واویلا کیا گیا کہ دیکھا دیکھی عام پاکستانی بھی اس واویلے میں شامل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے نیشنیلائزیشن سے یہ ادارے قومی دھارے میں شامل ہوئے ان میں کام کرنے والے ملازمین کو سرمایہ داروں کے استحصال سے نجات ملی اور عام آدمی جن میں فیکٹری ملازمین اور صوبائی اداروں کے ملازمیں خاص طور پر شامل ہیں ان کو اس پالیسی سے بہت فائدہ ہوا کیونکہ اس سے پہلے پینشن کے حقوق صرف وفاقی اداروں ( فوج، ریلوے اور ڈاکخانہ )کے ملازمین کو حاصل تھے دیگر اداروں کے ملازمین کو نہ توباقاعدگی سے تنخواہ ملتی تھی اور نہ انہیں پنشن اور دیگر حقوق حاصل تھے ۔ نیشنلائزیشن سے صوبائی اداروں کے ملازمین کو بھی قومی پے سکیلز کے مطابق باقاعدگی سے تنخواہ ملنے لگی اور پنشن کے علاوہ دیگر مراعات بھی حاصل ہو گئیں ۔
3. تیسرا بڑا الزام بھٹو پر یہ لگایا جاتا ہے کہ وہ بائیں بازو کا ایک سیکولر لبرل سوچ کا حامل سیاست دان تھا جس کی فکر و سوچ قیام پاکستان کے جواز سے متصادم تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھٹو پر لگائے جانے والے اس الزام کی حیثیت بھی الزام برائے الزام ہی ہے۔حقیقت یہ ہے قطع نظر اس سے کہ بھٹو کی سوچ و فکر سیکولر تھی یا دینی ، اُس نے اِس سلسلے میں کچھ لازوال کارنامے سر انجام دیے جنہوں نے ریاستِ پاکستان کو نہ صرف شناخت دی بلکہ مستقبل کے لیے اس کی سمت کا تعین بھی کر دیا ۔ ان میں سے کچھ نمایاں کارنامے یہ ہیں: 1973ء کے آئین میں "اسلام" کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا، آئین ہی میں پہلی دفعہ پاکستان کا نام " اسلامی جمہوریہ پاکستان " رکھا گیا اور قرار داد مقاصد کو آئینِ پاکستان کا حصہ بنا کر اس کی متنازع حیثیت کوختم کر دیا ۔قرآن پاک اور اسلام کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا، صدر مملک کے لیے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ،اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام ، عصمت فروشی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال پابندی، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت پر پابندی لگا دی گئی ، بھٹو نے اُمت مسلمہ کے اُس وقت کے سب سے بڑے مسئلے "ختم نبوت " کو ہمیشہ کے لیے حل کر کے آئین کا حصہ بنا دیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ۔ شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی گئی ، جوئے کے اڈوں کو ختم کیا گیا ۔ پہلی بار وزارت مذہبی امُور کا قیام عمل لایا گیا ۔ ملک بھر میں مذہبی تہواروں کو ایک ساتھ منانے کے لیے روئت ہلال کمیٹی قائم کی گئی ۔ حج کا کوٹہ ختم کیا گیا اور تمام درخواست دہندہ کو حج پر جانے کو ممکن بنایا گیا ۔ ہفتہ وار تعطیل اتوار کی بجائے جمعہ کوکر دی گئی ۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر اُمت واحدہ اور اسلامی دولت مشترکہ کے تصور کو آگے بڑھا نے کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد ہواجس میں اسلامی ممالک کے دفاع کو مشترک حیثیت دی گئی اور کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ تمام اسلامی ممالک پر حملہ کا تصور دیا گیا ۔
4. چوتھابڑا الزام جو بھٹو پر لگایا جاتا ہے وہ ہے کہ اُس نے "راشن ڈپو قائم کیے اور روز مرہ کی اشیاء کے حصول کے عوام کو لائنوں میں لگوا دیا" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشرافیہ کی نظر میں بھٹو کا ایک جُرم یہ ہے کہ اس نے ڈرائنگ روم کی سیاست کا خاتمہ کر کے عام آدمی کو سیاسی شعور دیا لوگوں کو پہلی بار اپنے حقوق کا احساس ہوا، اور وہ غلامی کے چنگل سے نکل کر آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے اور اُن میں وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا ہو ا ۔آزادئی جمہور کے اس دور میں ایک نئی سوچ اور فکرنے جنم لیا جسے " بھٹو ازم" کا نام دیا جا سکتا ہے ۔اشرافیہ کو یہ نئی صورت حال کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھی ۔ اس پر زرعی اصلاحات اور نیشلائزیشن جیسی پالیسیوں نے مہمیز کا کام کیا جن کی وجہ سے انہیں اپنے قیمتی اثاثوں سے محروم ہونا پڑا۔ اس ساری صورت حال کے نتیجے میں اشرافیہ کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ۔ بھٹو کے خلاف صنعت کار اور تاجر طبقہ یکجا ہو گیا اور انہوں نے ذخیرہ اندوزی کے زریعے روز مرہ کی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کردی تاکہ عوام میں بے یقینی اوربے چینی کی فضا پیدا ہو اور لوگ بھٹو کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔ بھٹو نے اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے راشن ڈپو قائم کیے تا کہ عوام کو روز مرہ ضروت کی اشیاء سستے داموں ملتی رہیں ۔اس کے ساتھ ہی لوگوں کے مذہبی جذبات کو استعمال کرنے کے لیے " تحریک نظام مصطفیٰ "کاآغاز کر دیا گیا ۔ یہ در حقیقت اینٹی بھٹو تحریک تھی جسے تحریک نظام مصطفی کا عنوان دیا گیا کیونکہ مارشل لاء کے نفاذ اور بھٹو کی گرفتاری کے ساتھ ہی یہ تحریک بھی دم توڑ گئی۔
5. مشہور کالم نگار اور دانشور حسن نثار بھٹو پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے قوم کو حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض کا درس نہیں دیا اس طرح ایک ادھوری اور غیر متوازن فکر سے قوم میں بگاڑ پیدا ہوا اور اس غیر متوازن فکر کے نتیجے میں فیکٹری مزدوروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے لیے مفت سفری سہولتوں کی وجہ سے انہوں نے پڑھائی کے بجائے آوارہ گردی اختیار کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس الزام میں بظاہر کسی قدر صداقت نظر آتی ہے لیکن اگر انسانی نفسیات کوذہن میں رکھتے ہوئے اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک طویل استحصالی دور کے بعد عوام سے جب پریشر ریلیز ہوا تو یہ ایک فطری رد عمل تھا یہ اُسی طرح کا رد عمل ہے کہ جب سپرنگ پر سے دباؤ ہٹایا جاتا ہے تووہ ایک دم اُچھلتا ہے پھر رفتہ رفتہ اپنی اصلی حالت(Stable Position) پر آ جاتا ہے ۔ اسی طرح پسا ہوا یہ طبقہ جب حقوق آشنا ہوا تو بپھر گیا اور باغی ہو گیا۔ اسے Stable Position پر پہنچنے میں وقت درکار تھا اور پھرحقوق اسی لیے دیے جاتے ہیں کیونکہ حقوق کے ساتھ فرائض کی ادائیگی وابستہ ہوتی ہے ، حقوق کے بغیرفرائض کا مطالبہ اور احتساب ایک غیر فطری چیز ہے لیکن اگر اس پالیسی کا تسلسل رہتا تو حقوق کے ساتھ فرائض کی ادائیگی کا احساس بھی اجاگر ہوتا کیونکہ جب منہ کھاتا ہے تو آنکھیں ضرور شرماتی ہیں ۔ ایک آزاد قوم کے افراد پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے جن میں احساس ِ ذمہ داری اورحقوق کے ساتھ فرائض بھی ایک توازن کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔
Afzaal Ahmed
About the Author: Afzaal Ahmed Read More Articles by Afzaal Ahmed: 4 Articles with 7779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.