جاوید ملک۔ شب وروز
سانحہ احمد پور شرقیہ نے نہ صرف حکمرانوں کے بلندو بالا دعووئں کی قلعی
کھول کر رکھ دی ہے بلکہ ترقی کے پرفریب لبادوں کے سرِ عام اترنے کے بعد جو
تصویر سامنے آئی ہے وہ اس قدر بھدی ہے کہ سوچ کر ہی رونگتے کھڑے ہو جاتے
ہیں۔
کیا یہ صرف اتناواقعہ ہے کہ احمد پور شرقیہ سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر پل
پکا کے مقام پر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا اور اس سے بہنے والے تیل کو مال مفت
سمجھ کر گردو نواح کی آبادیاں اس پر ٹوٹ پڑیں ۔ لوگ واٹر کولر ، گیلن،
پتیلے، بالٹیاں ، بوتلیں حتیٰ کہ کھانے پینے کے برتن تک اٹھا لائے۔ ہر کسی
کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تیل اکٹھا کر لے تاکہ عید کی خوشیاں
دوبالا کر سکے۔ پچاس منٹ تک تیل جمع کرنے کا یہ خوفناک کھیل جاری رہا اور
ہائی وے پولیس، مقامی انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے غفلت
کی میٹھی لسی پی کر سوئے رہے۔ سبھی ادارے انگڑائی لے کر اس وقت اٹھے جب
اچانک ایک دھماکے کے بعد خوفناک آگ نے لمحوں میں غربت کے مارے ان لوگوں کو
جلا کر کوئلہ بنا دیا۔ اب جائے حادثہ پر جلے ہوئے انسانی ڈھانچے تھے ،
زخموں سے کراہتے ٹیڑھے میڑھے پڑے ادھ جلے متاثرہ لوگ اور دور کھڑے اپنے
پیاروں کو شعلوں کا کفن پہنے سینہ کوبی کرتے چیختے چلاتے لوگ تھے جن کی آہ
و زاریاں کلیجہ پھاڑ رہی تھیں۔
پل پکا کے قریبی دیہی علاقے بستی رمضان جوئیہ، بستی کھوکھراں، بستی نمبردار
اور بستی نذیر احمد کے ہر دوسرے گھر میں ماتم بپا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک
ایک سو ساٹھ سے زائد لوگ اس جانکاہ حادثے میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں
اور لگ بھگ اتنے ہی ساٹھ فیصد سے زائد جلے بدنوں کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ موت
اور زندگی کے درمیان لٹکے سانسوں کی ڈوری بحال رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
لیکن سوال پھر وہی کہ کیا یہ صرف اتنا ہی واقعہ ہے؟ ایک حادثہ کہ جس نے
لمحوں میں ہنستی بستی زندگیاں اجاڑ دیں اور کئی دیہاتوں میں کہرام بپا کر
دیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اصل کہانی تو ان دیہاتیوں کے چہروں
پر نقش ہے جو عید کے دن ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کی بجائے پرسہ دیتے رہے
اور جس روز ان کے چہروں پر خوشیوں کی بہار اور لبوں پر قہقہوں کے آبشاروں
نے امنڈنا تھا اب اس روز ایک سوگواری ہے جس نے ان کی ساری بستیوں کو اپنی
لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وہ بات بھی کرتے ہیں تو لبوں سے آنسووں کے گویا گولے
سے برستے ہیں اور الفاظ ہچکیوں میں کہیں ڈوب جاتے ہیں ۔
اس حادثے نے کئی تاریک پہلوکھول کر رکھ دیے ہیں ۔ پورے بہاولپور میں برن
یونٹ نہیں ہے ۔ وکٹوریہ اسپتال بہاولپورسمیت پورے ڈویژن کے اسپتالوں میں
ایمبولینسیں گنی چنی ہیں ۔ آگے سے جلے دھواں اٹھتے اپنے پیاروں کے جسموں کو
ہتھ ریڑھیوں پر ڈالے اسپتال کی طرف دوڑتے یہ لوگ اس مکروہ نظام کی وہ کر
یہہ تصویر ہیں جو شائد تخت ِ لاہور کے گن گاتے خوشامدیوں کو کبھی دکھائی
نہیں دیتی۔
سب اچھا ہے کے راگ میں مگن مصنوعی ترقی کے خواب جزیروں میں ڈوبے ان نام
نہاد خادمین کو سچ برداشت نہیں ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وکٹوریہ اسپتال
بہاولپور میں جنوبی پنجاب کی غربت اور محرومیوں پر میٹروبس کے منصوبے بنانے
کے سوال پر شہباز شریف چراغ پا ہوگئے اور ان کا تو بس نہیں چل رہا ورنہ جل
کر کوئلہ بن جانے والے ان ڈھانچوں پر ہی مقدمہ درج کروا دیتے کہ جو تیل
چوری کرنے کے جرم کا ارتکاب کر بیٹھے تھے۔
کاش کوئی ان حکمرانوں کو بتائے کہ محرومیاں قدموں پر کھڑی ہوگئی ہیں ، بھوک
ننگ اور افلاس کا قدہمارے قد وں سے بڑھ چکا ہے اور بے بسی خوفناک حدوں کو
چھو رہی ہے۔۔۔۔۔۔بھوک کے وحشی ناچ نے ماؤں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے
لخت جگروں کا گلہ اپنے ہاتھوں سے گھونٹ کر خود بھی موت کا جھولا جھول رہی
ہیں ۔ بے روزگاری کی آگ میں جھلسنے والے پنکھوں سے لٹک کر خودکشیاں کر رہے
ہیں ، ناانصافی اور اقربا پروری کی کوکھ سے وحشت جنم لے رہی ہے ، سوالات کے
وحشی ناگ پھن اٹھائے پھنکار رہے ہیں، چند سوروپوں کی خاطر اپنی زندگی خطرے
میں ڈالنے والے ا س نظام کی فرسودگی کا نوحہ ہیں۔
پنجاب کا اکثریتی بجٹ لاہور پر لگانے والے شہباز شریف نے بہاولپور کے فضائی
جائزے میں دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے لوگوں کے بد ترین حالات ضرور دیکھے
ہوں گے۔ جائے وقوعہ پر گوشت کے جلنے سے پھیلنے والی بساند ابھی تک باقی ہے
اور یہ ہمارے ضمیر پر چابک برسا رہی ہے ۔ چند روز قبل ہی مظفر گڑھ میں نہری
پانی کی غلط تقسیم پر کسانوں کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں مقدمات در
مقدمات کے جال میں پھنسا جمشید دستی بھی ایک ایسی پہیلی ہے جو حکمرانوں سے
بوجھی نہیں جارہی۔
آج ان لٹے پٹے مفلوک الحال لوگوں کیلئے بیس بیس لاکھ روپے کی امداد کا
اعلان کرتے شہباز شریف کو شاید خود بھی معلوم نہ ہو کہ کئی گھرانوں کے تو
سارے خونی رشتے آگ چاٹ گئی ہے ، ساری عمر بے شناخت رہنے والوں کا ڈی این اے
دینے والابھی کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومتیں نہ جانے کب تک خوابِ غفلت سے
جاگنے کیلئے حادثات کا انتظار کرتی رہیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صرف تین سو آگ میں
جھلسے لوگوں کا دکھ نہیں ہے پورا جنوبی پنجاب گذشتہ کئی دہائیوں سے محرومی،
افلاس اور عدم وسائل کی آگ میں جھلس رہا ہے ۔خادم ِ اعلیٰ کے نو سالوں میں
تو انہیں جھڑکیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ شاید اس اندوہناک حادثے کے بعد ہی
حکمران ان کے بارے میں کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کر لیں |