دو حادثات کے درمیانی وقفہ امن کو خوشی
کہتے ہیں ،انسانی زندگی اسی خوشی و مسرت اوررنج و الم کا سنگم اور حسین
امتزاج ہے ،لیکن نہ خوشی و مسرت کو دوام ہے اور نہ ہی درد و غم کو قرار ہے
،یہ دھوپ چھاؤں کی مثل ہیں اور اسی دھوپ چھاؤں کا نام زندگی ہے ۔زندگی کی
رعنائیوں اور دلکشیوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہر مذہب میں خوشی و مسرت کے
مواقع موجود ہیں ۔جنہیں لوگوں نے وقت اور موقع کی مناسبت سے منانا ہوتا ہے
، اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو اہم مواقع پر عیدین کی نعمتوں سے
نوازا ہے ۔جن کیلیے ہر سال میں ایام مخصوص ہیں ۔عید الفطر ماہ صیام کی پر
مشقت بدنی و روحانی عبادت کے بعد اور عید الالضحی حضرت اسمائیلؑ کی فرماں
برداری اور اطاعتِ فرزندی کی یاد تازہ کرنے کے لیے عطا کی گئی ہے-
عیدالفطر اﷲ تبار ک و تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے ایسا تحفہ ہے جو کہ
مسلمانوں کے ایک ماہ تک اعمال صالحہ اور عبادات کے بدلے میں اﷲ تعالیٰ نے
اپنے پیارے بندوں کو انعام کیا ہے ۔جب بندے اﷲ کی خوشنودی کے لیے متواتر
ایک ماہ صوم و صلوٰۃ اور تسبیح کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے ہیں اور رضائے
خداوندی کے لیے بتائے ہوئے طریقہء کار کے مطابق حلال سے بھی اپنا ہاتھ
کھینچ لیتے ہیں ۔تلاوت قرآن پاک اور مطالعہ احادیث سے ’’انفاق فی سبیل اﷲ
‘‘ صدقہ خیرات اور زکٰوۃ کی ادائیگی کی ترغیب ملتی ہے کہ صاحب حثیت مسلمان
مالی طور پر بھی راہ خدا میں دل کھول کر خرچ کرتے ہیں تو اﷲ اپنے بندوں سے
خوش ہو کر انھیں انعام و برکات سے نوازتا ہے اور خوشی کا یہ دن عطا ہوتا ہے۔
مسلمان جب عید کی نماز کے بعد گھر لوٹتے ہیں تو ان کے تمام گناہ معاف ہو
چکے ہوتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ ایسے کون سے اعمال صالحہ انجام دئیے گئے
ہیں جس سے تمام گناہ معاف ہو گئے ہیں۔ قارئین کرام ! جواب یہ ہے کہ اﷲ
تبارک و تعالیٰ نے ماہ صیام انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے مختص فرمایا ہے
کہ رمضان المبارک میں کیے گئے نیک اعمال صالحہ کی توفیق اور نفس کی تربیت
جو رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں ہوتی ہے اگر اسے جاری رکھا جائے تو
اسی کا نام ہی تزکیہ نفس ہے اور جو اس تربیت پر قائم رہ گیا وہ فلاح پاگیا
۔
یقینا ماہ صیام میں سبھی مسلمان خشوع خضوع سے اپنی عبادات سر انجام دیتے
ہیں لیکن ایک پہلو غور طلب ہے کہ دلوں میں کینہ ،نفرت ،کدورت اور بے عملی
ہو تو عبادات قبول نہیں ہوتیں ۔جبکہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو کہ حقوق اﷲ کی
ادائیگی میں کوشاں مگر حقوق العباد کو فراموش کر دیتے ہیں اور اس روش
پرمسلسل کاربند رہتے ہیں جبکہ صوم و صلوۃ کے بھی پابند رہتے ہیں۔ ایسے ہی
لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ان کی عبادات ان کے منہ پر مار دی جائیں گی کہ
یہ سب دکھاوا ہے اورجب دل ہی صاف نہیں ہیں تو قبولیت کیسی ؟ آپ مالک کُل ،سے
گناہوں کی معافی کے طلبگار ہیں جبکہ آپ خود کسی کو معاف کرنے کے روادار
نہیں ہیں تو معافی کیسی ؟ آپ خوشنودی خداوندی چاہتے ہیں مگر رضائے الہی کے
لیے کسی کی معمولی خطا کو بھی درگزر نہیں کر سکتے تو خوشنودی کیسی ؟ آپ کو
اﷲ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے مگر آپ کسی غریب کو اس خوشی میں شامل نہیں
کرنا چاہتے تو شکرانہ کیسا ؟ آپ خدا ئے باری تعالیٰ سے انصاف کے متمنی ہیں
جبکہ آپ کی ذاتی بے انصافی کا ڈنکا بجتا ہے تو انصاف کیسا؟آپ کو اﷲ نے
رعایا پر حکمران بنایا ہے مگر آپ مفادات میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ
اپنے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا تو اس عنانیت میں اخلاص کیسا ؟ عید تو
خوشیاں بانٹنے ، محرومیاں سمیٹنے ،خزاں رسیدہ بھوکے چہروں کو ہمدردی سے
تھپتھپانے،یتیم ومسکین کے خسارے کو کم کرنے ،آسانیاں بانٹنے اور روٹھے ہوؤں
کو منانے کا نام ہے ۔اگر آج کے دن آپ کی وجہ سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ
پھیل جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کی عید ہوگئی اورآپکو جنت کی نوید ہوگئی
لیکن یہاں ایک بات غور طلب ہے کہ جہاں خوشیاں بانٹنے کے ذمہ دار ان اہل
ثروت ہیں وہاں سب سے زیادہ ذمہ داری حکومتی سربراہان پر نافذ ہوتی ہے کہ
خوشیوں کی تقسیم کا ایسا انتظام کیا جائے کہ تہواروں پر غریب رنجیدہ اور
آبدیدہ نہ ہو کیونکہ دکھی دل کی آہ آسمان تک جاتی ہے اور ان مبارک ساعتوں
میں ہر لمحہ’’لمحۂ قبولیت‘‘ ہوتا ہے ۔
مگر ورطۂ حیرت میں ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کا یہ ’’آخری ‘‘ماہ
صیام بھی لفاظی کی نذر ہوگیا اور مہنگائی نے غرباء کی کمر توڑ کر رکھ دی
مگرتمام کرتا دھرتا پاناما کے داغ دھبے دھونے میں مصروف رہے ۔یہ مقام افسوس
نہیں تو کیا ہے کہ ماہ صیام کے مقد س مہینے میں بھی آخرت اور خوف الہی پر
مفادات غالب رہے ۔نتیجتاً ’’والمر مع من احب ‘‘ کے مصداق عوامی جذبات نے
مدینہ تک پیچھا کیا ۔آج جبکہ پوری دنیا کے مسلمان عیدالفطر منا رہے ہیں،
ایسے میں ماہ صیام کے دوران ہونے والے چند دلخراش واقعات میری نظر سے گزرے
بلاشبہ یہ حادثات پہلی دفعہ نہیں ہوئے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ
عید کی خوشی جہاں بہت سے لوگوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھلا دیتی ہے وہیں
بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی محرومیاں رلانے لگتی ہیں ۔یہ المیہ ہے
کہ ریاست کے کرتا دھرتا ایسا توازن قائم نہیں رکھ سکے جو ان محرومیوں کو
خوشیوں اور سلامتیوں کا پیرہن پہنا سکے ۔مزید زکوۃ اور صدقات کی تقسیم
مستحقین تک نہیں پہنچتی حالانکہ اس قدر اکٹھا کیا جاتا ہے کہ اکٹھے کرنے
والے برانڈڈ گاڑیوں اور جائیدادوں کے مالک بن جاتے ہیں مگر غریب کی حالت
نہیں بدلتی ۔
کیس نے سچ کہا ہے کہ جب دل کو ہو قرار تو سب کو سوجھیں تیوہار جبکہ غریب
غربت کے تفکرات کی بھول بھلیوں میں موت کوسکون کی وادی سمجھ بیٹھا ہے۔ اٹک
کے علاقے حضرو میں ایک خاتون نے بچوں کے عید کے کپڑوں کا مطالبہ پورا نہ کر
سکنے کے صدمہ سے ہر دلبرداشتہ ہو کر تین بچوں سمیت ۳۰ فٹ گہرے کنویں پر
چھلانگ لگا دی جس کے نتیجے میں دو بچے جاں بحق ہو گئے ریسکیو حکام کے مطابق
دونوں بچے موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ ماں اور ایک بچے کو بچا لیا گیا ہے
اور وہ ہسپتال داخل ہیں جہاں ان کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جاتی ہے
۔ایسے ہی غربت کے ہاتھوں بچے کی پیدائش کے دوران ہسپتال انتظامیہ کے ناروا
سلوک کی وجہ سے ایک عورت دم توڑ گئی اور کل اس کے شوہر نے بھی خودسوزی کر
لی ۔ایسے ہی ملتے جلتے دلخراش واقعات ماہ صیام میں رونما ہوئے ہیں اور
جمعتہ الوداع کے موقع پر پارہ چنار اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں
40افراد شہید اور 120زخمی ہو چکے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ آئل ٹینکر کا حادثہ
جو کہ آخری خبریں آنے تک 140افراد کی جان لے گیا اور بے شمارہسپتالوں میں
تڑپ رہے ہیں ۔اس حادثہ نے تو عید کو ہر طرح سے سوگوار کر دیا ہے ۔اﷲ تعالیٰ
فوت شدگان کو بلند درجات عطا فرمائے اور زیر علاج کو شفا یاب فرمائے ۔اﷲ
تعالیٰ ہر طرح سے معاف فرما دے اور اپنے فضل سے برکتیں ڈال دے ۔مگر ۔۔مقام
افسوس ہے کہ ہمارے حکمران ان حالات میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب
میں موجود تھے اور ان کے خاندان کے افراد قیمتی لباس میں ملبوس اپنی تصاویر
اور سیلفیاں سوشل میڈیا پر شئیر کر تے رہے ۔
آج بس ایک ہی سوال ہے کہ کیا خلق خدا کی خدمت کی ذمہ داریوں پر اجارہ داری
حاصل کرنے کے بعد ایسے’’ عمرے‘‘ کرنے سے’’ عمروں‘‘ کے گناہ معاف ہو جائیں
گے ؟ کیا حالیہ دہشت گردی کی لہر میں ملک و قوم کے کرتا دھرتا کو بیرون ملک
ہونا چاہیے ؟ا ور کیا کسی حکمران کو زیب دیتا ہے کہ اس کے عوام عید خریداری
کے پیسے نہ ہونے پر بھوک اور ننگ سے جان ہار رہے ہوں اور وہ عید لند ن میں
منائے ؟یاد رکھیں کہ شہر کے شہر بے چراغ ہو جائیں تو اندھیرے محلوں کو بھی
اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں لہذااس دن سے ڈریں جب کوئی سفارش یا کرسی کام
نہیں آئے گی !ایسے تمام صدمات و حالات میں تمام امت مسلمہ اور میرے ہم
وطنوں کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں کہ خوشی اور غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے
اور بقول راقم
رات غم کی بھی کسی طور گزر جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔غم نہ ہو زندگی میں تو بھی کمی
رہتی ہے ۔
|