دستی بمقابلہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ
(Arif Ramzan Jatoi, Karachi)
علاقے کی دکان پر کھڑے تھے، الیکشن کا رزلٹ
سنایا جارہا تھا۔ باہر نہر پر کھڑے ایک شخص نے آواز ’’ماری اوئے دستی جیت
گیا اوئے‘‘ ۔کیا واقعی! ہا یار سچ وچ۔ اور پھر جتوئی شہر کی اس چھوٹی سی
مگر خطرناک بستی کے کچھ لوگ خوش تو کچھ منہ بسوڑتے نکل گئے، مجھے ضلع
مظفرگڑھ کی تحصیل جتوئی کی سیاست میں آج تک کوئی دلچسپی نہیں رہی البتہ اس
وقت دستی ایک نیا نام تھا اور پھر اس پر وہاں کے باسیوں کا ردعمل دیکھ کر
کچھ حیرت ضرور ہوئی تھی۔ دل ہی دل میں خیال آیا کہ کیا پیپلزپارٹی اور ن
لیگ کے خلاف بھی یہاں کوئی کھڑا ہوسکتا ہے اور پھر وہ جیت سکتا ہے۔
دستی کی جیت پر سب سے زیادہ آگ شہر جتوئی کے شاہ گروپ اور بخاری گروپ کو
لگی ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی کی مظفر گڑھ کی سیٹ پر آج تک شاہ اور بخاری کے
علاوہ کسی نے جتینا تو دور کی بات حصہ لینے کے بارے میں بھی نہیں سوچا تھا۔
دستی نے آزاد امید وار کے طور پر جیت کر شاہ اور بخاری دوسرے لفظوں میں
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی عزت کا جنازہ نکالا تھا۔
شاہ اور بخاری یہ دو گروپ ایسے ہیں جیسے بھارت کے راجستھان کے کسی شہر کی
ایک غیر معلوم سے بستی کی سیاسیت۔ جہاں سے مختیاریاں مائی اس لیے جنم لیتی
ہے کہ وہاں پر انصاف اپنی مرضی کا ہوتا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی پولیس والا کسی
سیاسی لیڈر کو ہاتھ تک لگا لے۔ سندھ کے ساتھ جو کچھ سندھی حکومت نے کیا اس
سے کہیں زیادہ جتوئی کے شاہوں اور بخاریوں نے اس جنوبی پنجاب کے ساتھ کیا۔
یوسف رضا گیلانی کے منہ سے ہر وقت جنوبی پنجاب کے فلاح کی باتیں ہوتی تھیں
مگر انہیں آج تک پتا نہیں کہ جنوبی پنجاب کس بلا کا نام ہے۔ ٹی وی کی معروف
شخصیت سردار عبد القیوم خان جتوئی کو کئی بار موقع ملا مگر جتوئی کے حصہ
میں آئی تو صرف اور صرف دھمکیوں کی سیاست۔
ووٹ مخالف پارٹی کو کیوں دیا؟ اس سوال کا جواب ہمیشہ بھیانک ہی ملا۔ اس شہر
کی قسمت میں بھی ایک چیز بہت عام ہے اور وہ ڈر ڈر اورصرف ڈر۔ کھلی آنکھوں
سے فصلوں میں جانور چھوڑ دیے جاتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ
اس کے آگے سے بولنے کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ ہے اپنا منہ تڑوانا اور پولیس
کے پاس جاکر بھی خود ہی ڈنڈے کھانا۔ ووٹ کیوں نہیں دیا اس سوال کا جواب ایک
بار ہمیں بھی بہت مہنگا پڑا۔ ہمارے گھر پر ڈکیتی کروا دی گئی اور اس ڈکیتی
کا مال برآمد کرواتے کرواتے ہمیں اپنا گھر کا باقی سامان بھی بیچنا پڑا۔
انصاف آج تک نہیں ملا۔ یہاں پر ووٹ نا دینے، حمایت نہ کرنے اورمخالفت میں
جانے کا نتیجہ ایک ہی ملتا ہے گھر کا مال اور مویشی چوری، فصل کو آگ لگا
دیا جانا یا پھر کسی بزرگ کی سربازار بے عزتی کروانا۔ گولیاں چلنا ، بندے
مرنا تھانے جانا اور چھوٹ کر واپس آکر اس سے بڑا کارنامہ سرانجام دینا ایک
عام سی بات ہے۔
اس شہر کے کسی بھی ادارے میں غریب کا بس نہیں چلتا۔ بجلی والے اپنی مرضی کا
کنڈا ثابت کر کے میٹر لے جائیں اور پھر اس کے بدلے میں بھاری رقم وصول کر
کے دو چار دن بعد پھر لے جائیں کوئی غیر معمولی نہیں۔اسپتال کی حالت ناگفتہ
بے ہے۔ میری ایک کزن کا ڈاکٹر کا انتظار کرتے کرتے پیٹ میں ہی بچ مرگیا مگر
ڈاکٹر نہ ملی۔ نادرا میں جب دل کرے کام ہوگا جب دل کرے کوئی نہیں ملے گا۔
حقیقی غربت کا احساس اس شہر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ شہر میں کسی کا راج تو
دیہات میں کسی اور کا راج۔ جب جس کا دل چاہیے وہ نہر پر بند باندھ کر پانی
اپنے قبضے میں کر لے اگر کوئی بولے تو اس کا صلہ اسے یا تو راستہ بدلنے کی
صورت میں ملتا ہے یا پھر اسے اپنا سر پھڑوانا پڑتا ہے۔
آج کے اس جدید دور میں بھی وہاں نہ تو پولیس کی چلتی ہے اور نہ ہی کسی
تھانے کی۔ چلتی ہے تو صرف اور صرف وہاں کے سیاسی لیڈر کی۔ ایک مرتبہ ہماری
فصلوں میں جانور چھوڑ دیے گئے۔ جب کزن نے بات کی تو آگے سے ٹھیک ٹھاک مار
پڑی۔ بالآخر پولیس لے کر گئے اس وقت یہ حالت دیکھ کر احساس ہوا کہ جیسے آن
کی آن کسی بری فلم کا سین گھوم گیا ہو۔ ملزمان گھر سے نکلے پہلے میرے کزن
کو مارا اور پھر اس پولیس والے کو دو ماریں اور کہا آئندہ اس طرف آنے کی
ہمت مت کرنا۔
اس شہر کے غریب آدمی کو آج تک کچھ نہیں ملا۔ اگر کسی کا بس چلے تو مسلم لیگ
ن اور پیپلز پارٹی کو ایک ووٹ بھی نا دے مگر اس قدر سوچنا بھی دل گردے
رکھنے والے کا کام ہے۔ ایسے میں جمشید دستی کا آنا یقینا ایک معجزہ تو
ہوسکتا ہے مگر اس کو کس حدک سنجیدہ لیا جائے کچھ معلوم نہیں۔ اب تک جمشید
دستی کا کردار عوامی فلاح میں ہے۔ ایک عام سا آدمی اور سادہ سا انداز عوامی
لیڈر کا ’’لک ‘‘ دیتا ہے۔
جمشید دستی کے نئے نئے دن تھے۔ ایک دن کال کی تو بتایا عارف جتوئی بات کر
رہا ہوں۔ دستی صاحب سادہ سے انداز میں بولے ’’سائیں میڈا‘‘ کیا حال ہن؟۔
کچھ پل کو ایسے لگا کہ جیسے وہ جانتے ہیں مگر کچھ دیر بات کرنے کے بعد
اندازہ ہوا کہ دستی صاحب کا میٹھاسا انداز سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسے لیڈر
کو کوئی بھی سپوٹ کرنے کو تیار ہوگا۔ عوام کی فلاح کے لیے جیل کی ہوا کھانے
والے اس سادہ سے بندے کے لیے نہ تو اسمبلی کا کردار واضح ہے اور نہ ہی ان
عوام کا جن کے لیے وہ نکلے ہیں۔ دستی وہ بندہ ہے کہ جس نے مرکزی اپوزیشن
جماعت سے بھی زیادہ اسمبلی میں اپوزیشن والا کردار ادا کیا۔ اگر عوام اپنے
حق میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہے تو پھر اپنا مثبت اور واضح کردار بھی
دیکھانا ہوگا۔ لیڈر کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور عوام سست ہوں تو لیڈر زیادہ
دیر نہیں چل پاتا۔ میرا مضمون کا لکھنے کا مقصد دستی صاحب کو ان کی حالیہ
کوششوں پر خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ ویلڈن دستی صاحب ۔ |
|