قطر سے تعلقات میں دوری تو اسرائیل سے قربت۰۰۰ آخر کیوں؟

مسجد الحرام پر دہشت گردانہ حملہ ۰۰۰ حقیقت کیا ہے؟
مشرقِ وسطیٰ کے حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ،دشمنانِ اسلام اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتے نظر رہے ہیں ، مسلم حکمراں اپنے اقتدار کی بحالی کیلئے دشمنان اسلام سے دوستی کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی معیشت کومختلف معاہدات کے ذریعہ تباہ و برباد کرتے نظر آرہے ہیں۔ایک طرف اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں دوری پیدا ہورہی ہے تو دوسری جانب اسرائیلی حکومت کے ساتھ بعض اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات کا قیام اوراس میں بہتری پیدا ہورہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر مواصلات نے کہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام کا امکان بڑھ گیا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب ، امریکہ کی وساطت سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کی غرض سے مذاکرات کررہے ہیں۔وزیر مواصلات کے مطابق جن معاملات پر بات چیت جاری ہے ان میں اسرائیلی طیاروں کیلئے سعودی عرب کی فضائی حدود کھولنے ، ریاض میں اسرائیل کے نمائندہ کیلئے دفتر کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام کیلئے امریکہ اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر مواصلات نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران کی جانب سے لاحق خطرات کے بعد اب اسرائیل اور سعودی عرب تعلقات میں سرفہرست ہیں۔گذشتہ دنوں یہ بات منظرعام پر آچکی ہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے اشارہ پر ہی سعودی عرب اور دیگر پانچ اسلامی ممالک نے اچانک قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرکے اور اس پرپابندیاں عائد کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ لیکن اب صیہونی مملکت اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام پرکوئی حیرت زدہ نظر نہیں آتا کیونکہ سعودی عرب کے تعلقات ایران سے کشیدہ ہیں جبکہ ایران و اسرائیل کے درمیان تعلقات انتہائی خراب دکھائی دیتے ہیں ۔ماضی میں موجودہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے غزہ سے مصر آنے والی کئی سرنگوں کو بند کرنے میں اہم رول ادا کیا جہاں سے غزہ کے شہریوں کواشیائے خورد و نوش اور دیگر اشیاء فراہم ہوتی تھیں۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکی صدر کی سعودی عرب آمد پر کھربوں امریکی ڈالرس کے عوض اسکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی اوراپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ انکے 31سالہ فرزند محمد بن سلمان کو مستقبل کا بادشاہ بنانے کیلئے جانشینی کا اعلان کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے21؍ جون کو ایک شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد کے منصب سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہد مقررکیا۔ شہزادہ سلمان کے پاس نئی ذمہ داری کے ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی برقرار رہے گا اور وہ نائب وزیر اعظم بھی ہونگے۔العربیہ ٹی وی کے مطابق سعودی عرب کی سلکشن کمیٹی کے 34 میں سے 31 ارکان نے شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر کرنے کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔اس کے علاوہ کئی عہدوں پر ردوبدل کرتے ہوئے شاہی فرمان جاری کیا گیا ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کئے جانے کے بعد عالمی سطح پر مبارکبادی کے پیغامات ملنے لگے جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر یہ قیاس آرائیاں بھی ہونے لگیں کہ سعودی شاہی خاندان میں اختلافات کا آغاز ہوچکا ہے کیونکہ سعودی عرب کی سلکشن کمیٹی کے 34میں سے تین ارکان نے اختلاف کیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ یہ اختلاف کیا نوعیت اختیار کرتا ہے ویسے سعودی شاہی حکومت اس اختلاف کو کسی نہ کسی طرح ختم کردے گی۔ نئے ولی عہد محمد بن سلمان یمن کی جنگ میں وزیر دفاع کی حیثیت سے اہم کردار ادا کررہے ہیں ،تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ولی عہد کی حیثیت سے محمد بن سلمان مستقبل میں نئے عزائم کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک پر سعودی عرب کو فوقیت دینے اور اسکی قیادت میں مسلم ممالک کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی سعی کریں گے۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس کا آغازیمن کی جنگ کی قیادت ، قطرسے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور اس پر معاشی پابندیاں عائد کرنے سے ہوچکا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے قطر پر لگائی گئی پابندی اور سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے قطر سے 13مطالبات کئے ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے 10دن کی مہلت دی ہے ۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تنازعہ کو ختم کرنے کیلئے قطر کو جو فہرست ارسال کی ہے ان میں الجزیرہ ٹی وی کو بند کرنے، ایران کے ساتھ تعلقات میں کمی اور قطر میں ترک فوجی اڈے کو بند کرنے سمیت 13 مطالبات شامل ہیں۔اس کے علاوہ ان ممالک نے قطر سے مطالبہ کیا ہے کہ بحران کے حل کیلئے اسے اخوان المسلمون، داعش، القاعدہ، حزب اﷲ اور جبھ الفتح الشام سمیت تمام دہشت گرد، نظریاتی و فرقہ ورانہ تنظیموں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے ہونگے اور ان دہشت گردوں کو حوالے کرنا ہوگا جنہیں اس نے پناہ دی ہوئی ہے۔ ان چار ممالک نے قطر سے اپنے اندرونی و خارجہ امور میں مداخلت بند کرنے اور ان ممالک کے شہریوں کو قطری شہریت دینے کا سلسلہ بند کرنے کے بھی مطالبات کیے ہیں اسکے علاوہ قطر میں واقع ترک ملٹری بیس بھی ختم کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک عرب افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فہرست میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ قطر کو اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ان ممالک کو پہنچنے والے نقصان کی بھی تلافی کرنا ہوگی۔ قطر کو یہ فہرست کویت نے فراہم کی ہے جو فریقین میں ثالثی کی کوششیں کررہا ہے۔قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک اس وقت تک ان ممالک سے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک کہ وہ قطر پر سے اپنی پابندایاں اٹھا نہیں لیتے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ قطر میں واقع ترک ملٹری بیس بھی ختم کر دیا جائے۔
چھ اسلامی ممالک کی جانب سے قطر پر عائد معاشی پابندیاں اور سفارتی تعلقات کے منقطع کرلئے جانے کے دو ہفتے ہوچکے ہیں ۔ غیر معمولی طور پر سفارتی اور معاشی پابندیوں کا سامنے کرنے والے امیر ترین ملک قطر نے اس پر لگائے گئے دہشت گردی کی معاونت کے الزامات کو مسترد کردیا ہے اور اس نے ان اتحادی ممالک یعنی سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین و مصر کی جانب سے پیش کی جانے والی 13شرائط کو بھی مسترد کردیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ قطر سے پابندیاں ہٹانے کے لئے چار عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ مطالبات میں سے کچھ ایسے ہیں جنہیں پورا کرنا مشکل ہوگا تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تجاویز اس مسئلے کے حل کے لئے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اکھٹے بیٹھیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اس کا مقابلہ کریں، ان کا کہنا ہیکہ جذباتیت کی کمی مسئلے کے حل میں مدد دے گی۔ قطر اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ایسے میں ترکی اور ایران ہی ایسے دو ممالک ہیں جو اسے خوراک اور دیگر اشیاء فراہم کررہے ہیں۔ ترکی اور ایران کی جانب سے قطر کو فراہم کی جانے والی امداد کے بعد ان ممالک نے اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ روس میں متحدہ عرب امارات کے سفیر عمر غباش نے برطانوی اخبار گارڈین کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ قطر پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔ انکا کہنا ہے کہ ہم اپنے تجارتی شراکت داروں پر ہی پابندی عائد کردیں اور ان سے کہیں کہ وہ فیصلہ کرلیں کہ انہیں قطر کے ساتھ کام کرنا ہے یا ہمارے ساتھ۔ اس طرح ان ممالک کا اشارہ کویت، عمان ، پاکستان اور دیگر ممالک سے بھی ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ دیگر اسلامی ممالک قطر کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر امریکہ کے اشارہ پر پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کا ساتھ دے کر اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج دشمنانِ اسلام جس طرح قطر کو دہشت گردی کا معاون ثابت کرنے کیلئے دوسرے اسلامی ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے اور اسے یکہ و تنہا کرکے اس کی معیشت کو تباہ و برباد کردے گا۔ آج اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ماضی پر نظر رکھتے ہوئے اسلامی اتحاد کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے اگر اسلامی ممالک کے حکمراں امریکہ اور دیگر دشمنانِ اسلام کے سامنے ہتھیار ڈالدیتے ہیں تو مستقبل میں انہیں بھی ماضی کے مسلم حکمرانوں کے انجام کو مدّ نظر رکھناہوگا۔ان ممالک کی دوستی اپنے مفاد کے لئے یہودیوں سے کتنی کامیاب ہوپاتی ہے اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوگا جب وہ اقتدار سے بے دخل ہوجائیں گے یا پھر اقتدار میں رہنے کے باوجود کچھ کرنے سے قاصر رہیں گے۰۰۰

مسجد الحرام پر دہشت گردانہ حملہ ۰۰۰
سعودی عرب کے سکیورٹی اہلکاروں نے مکہ مکرمہ میں مسجدالحرام پر دہشتگردانہ حملے کا منصوبہ ناکام بنا نے کا دعویٰ کیا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی سکیورٹی اہلکاروں کی بروقت کارروائی پر شدت پسند نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔ 24؍ جون کو ذرائع ابلاغ نے سعودی وزارتِ داخلہ کے حوالہ سے بتایاکہ ایک عمارت میں موجود خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اس وقت اڑا لیا جب سکیورٹی اہلکاروں نے اس عمارت کو گھیرے میں لیا۔دھماکے کے بعد عمارت کو شدید نقصان پہنچنے اور 11 افرادبشمول پانچ پولیس عہدیدار زخمی ہونے کی خبر منظر عام پر آئی۔ سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان جنرل منصور الترکی نے سعودی ٹی وی کو بتایا کہ 'پولیس نے مسجدالحرام پر حملے کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق مسجدالحرام کے قریب ایک عمارت کو گھیرے میں لیا جس میں ایک مشتبہ شدت پسند تھا۔اس شخص نے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی جس کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی فائرنگ کی۔ اور تھوڑی دیر بعد اس شخص نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔'مسجدالحرام کے قریب اس کارروائی سے قبل مکہ اور جدہ میں پولیس نے ایک عورت سمیت پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔ترجمان نے بتایا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں عمارت جزوی طور پر تباہ ہوئی جس کے باعث چھ عام شہری بھی زخمی ہوئے۔واضح رہے کہ گذشتہ چند سالوں میں سعودی عرب میں متعدد حملے کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کئی کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ۔جبکہ سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں پر بھی حرم شریف پر حملہ کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد ایک حوثی رہنما نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکے پاس بھی حرمین شریفین کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کے ایک عام مسلمان کو ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ حرمین شریفین پر حملہ کریں۔اس حوثی رہنماء کا کہنا تھا کہ ہم پر الزام عائد کرکے سعودی قیادت حملے کا بہانہ بنارہی ہے۔ اس بیان کے بعد کس پر اعتماد کیاجانا چاہیے اور کس پر نہیں مشکل ترین مسئلہ ہے کیونکہ بعض مسلم حکمراں اقتدار کے نشے میں یا اقتدار پر فائز رہنے کیلئے کسی بھی طرح کی نیچ حرکت کرسکتے ہیں کاش عالمِ اسلام کے حکمراں اس سے بچے رہے اور انہیں ملنے والی اسلامی قیادت کا حق وہ پورے ایمانی جذبہ سے ادا کرتے رہے۰۰۰
***

M A Rasheed Junaid
About the Author: M A Rasheed Junaid Read More Articles by M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 256571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.