غلامی کا نوحہ اور ہماری قوم کے غدارحکمران اور جرنیل

وہ 36 سال کی عمر کا ایک کثرتی بدن اور کافی لمبے چوڑے ڈیل ڈول کا مالک تھا اسکا قد تقریباً ۵ فٹ اور ۱۱ انچ تھا۔اسے بات بات پر غصہ آجاتا تھا اور وہ انتہائی غصیلا تھا۔ اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اسے غصہ آتا تھا تو وہ اپنے مد مقابل پر ایک خونخوار کتے کیطرح جھپٹتا ہے اور وہ انتہائی بد تمیز ہے ۔خواہ کوئی عورت ہو یا پھر مرد وہ غصے میں اتنا پاگل ہو جاتا تھا کہ اسکے منہ سے جھاگ نکلنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ مادر ذاد گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا تھا۔ وہ 2 اکتوبر 1974 ء کو ایک معمار جو باورچی کے طور پر بھی کام کرتا تھا کے یہاں پیدا ہوا وہ بچوں میں تیسرے نمبر پر تھا ۔ وہ لکڑی اور بورڈ کے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے مکان میں اپنے باپ کے ساتھ ورجینیا کے ایک ٹاؤن جسکا نام بگ سٹون گیپ تھا اور یہ علاقہ 6 ہزار نفوس پر مشتمل تھا میں رہتا تھا ۔اسے بچپن ہی سے فٹبال کھیلنے اور ریسلنگ کا بہت شوق تھا اور اسکے اس شوق نے دوران تعلیم جب وہ ہائی اسکول کا طالبعلم تھا اسے اپنے اسکول کا سٹار بنا دیا تھا ۔ اسنے گریجوایشن کا امتحان1993 ء میں پاس کیا اور امریکن آرمی میں بھرتی ہوگیا۔اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد 1994 ء میں اسے یونائیٹڈ نیشن کے امن مشن پر مقدونیا بھیجدیا گیا ۔ جب وہ مقدونیا کے امن مشن سے واپس آیا تو انفنٹری میں اسکے پانچ سال مکمل ہوگئے اور اسے فورٹ بریگ کے تیسرے سپیشل گروپ میں بھرتی کر لیا گیا جہاں اسنے ۹ سال گزارے اور اسکے بعد اسنے آرمی کو خیر باد کہہ دیا۔ نیوی اور آرمی کے دوسرے سینکڑوں ریٹائرڈ لوگوں کیطرح اسے بھی بلیک واٹر نامی ایک تنظیم میں بھرتی کر لیا گیا یہ بدنام زمانہ تنظیم سی آئی اے کیلئے خفیہ اور پوشیدہ سرگرمیوں میں اسکی نگرانی کرتی ہے اور دہشت گردانہ کارروائیاں بھی کرتی ہے۔ اسے سی آئی اے کے ساتھ عراق بھیج دیا گیا جہاں وہ سی آئی اے کی سیکورٹی پر مامور تھاعراق میں وہ کیا کرتا رہا اور کن سرگرمیوں میں ملوث رہا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ مگر جیسے ہی 2006 ء شروع ہوا اسنے بلیک واٹر نامی تنظیم کو خیر باد کہہ دیا اور وہ واپس امریکہ آگیا اور اپنی بیوی رے بیکا ڈیوس کے ساتھ ملکر لاس ویگاس میں ایک سیکورٹی کمپنی بنا لی اور جلد ہی اسے امریکی سی آئی اے نے ایک پرائیویٹ کنٹریکٹر کے طور پر اپنے ساتھ رکھ لیا۔ اس سیکورٹی کمپنی کا نام گرین بیج تھا جو گرین کارڈ سی آئی اے میں کام کرنے والوں کی شناخت کے طور پر تھا یہ سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر واقع لینگ لی میں یہاں کے ملازمین کی شناخت کرنے کیلئے استعمال ہوتا تھا۔اسی طرح سی آئی اے نے اور بھی بہت سے کنٹریکٹرز کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں امریکی فوج کے باڈی گارڈز جو جنگ کے دوران سفر کرتے تھے ان کی حفاظت کو یقینی بنانا، انکے گزرنے والے راستوں کو نمایاں طور پر انکی حفاظت کیلئے محفوظ بنانا اور انکی منعقد ہونے والی میٹنگوں میں حفاظتی اقدامات کی جانچ پڑتال کرنا اور اسکے علاوہ دوسری چھپی ہوئی سرگرمیاں جن میں قتل وغارت گری وغیرہ وغیرہ شامل تھا۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں سی آئی اے کے کچھ افسر اپنے دفتر کی چھت پر ایک واقعے میں آگ کی لپیٹ میں آ گئے جس سے کافی نقصان اٹھانا پڑا اسطرح وہاں پر مذید سیکورٹی کے انتظامات کی ضرورت پیش آئی اور وہاں بھی اسکی خدمات لی گئیں۔ دوسری طرف عراق اور افغانستان کی جنگ اتنی لمبی ہو چکی تھی کہ اب سی آئی اے کو اپنی حفاظت کیلئے مذید سیکورٹی کنٹریکٹرز کی فوری ضرورت آن پڑی جو نہ صرف امریکیوں کی حفاظت کرتے تھے اسکے علاوہ وہاں پر دوسری تخریبی کارووائیاں کرنے پر بھی مامور تھے تاکہ یہاں کے عوام کو الجھنوں اور مختلف مسائل کا شکا ر رکھا جائے اور انکی توجہ امریکی فوج سے ہٹی رہے جس کیلئے اسے بہت اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔امریکی سی آئی اے نے اس شخص کو اپنی کارروائیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے افغانستان بھیج دیا جہاں یہ شخص امریکی سی آئی اے کیلئے کام کرتا رہا اور مختلف خفیہ سرگرمیوں میں ملوث رہا۔ اسی کے ساتھ امریکہ کی سی آئی اے کو پاکستان میں بھی اپنے لوگوں کی سیکورٹی کیلئے ضرورت پیش آئی کیونکہ امریکہ نے اسلام آباد میں کافی علاقے پر مشتمل تعمیراتی کام شروع کر دئے تھے اور انہوں نے لاہور، پشاور اور کراچی میں بھی بہت سی رہائش گاہیں کرائے پر بھی لی ہوئیں ہیں ۔پاکستان میں طالبان ، القاعدہ اور دوسری جہادی تنظیمیں جو امریکی مفادات کے خلاف کام کرتی ہیں اور جنگجوانہ کاررائیوں میں ملوث ہیں امریکہ کو پاکستا ن میں انکی کاروائیوں کی خفیہ نگرانی کرنے کیلئے 2008 ء میں اپنے سی آئی اے کے ایجنٹوں کی حفاظت اور یہاں پر مختلف کارروئیوں کیلئے اسی بدمعاش کو پاکستان بھیجدیا۔ جہاں وہ پہلے کافی عرصہ پشاور اور اسلام آباد میں رہا اور بعد میں لاہور آ گیا۔ یہ شخص جو سی آئی اے کے ایما پر پاکستان لایا گیا اسکی کیا خفیہ سرگرمیاں تھیں اسکے پاکستان میں لائے جانے کے کیا مقاصد تھے ہماری انٹیلی جینس ایجنسیاں بھی اسکے بارے میں مکمل طور پر لا علم تھیں۔ یہ شخص پاکستان میں سی آئی اے کے ایکٹنگ اسٹیشن چیف کے طور پر کام کر رہا تھا جو امریکی سی آئی اے کیلئے انتہائی اہم اثاثہ تھا۔ یہ پاکستان میں سی آئی اے کے خفیہ مشن پر آیا تھا اور پاکستان میں لشکر طیبہ اور دوسرے اسلامی اور جہادی گروپوں کی جاسوسی بھی کرتا تھا جو آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر کشمیر اور ہندوستان میں جہادی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اسکے علاوہ اس شخص اور دوسرے سی آئی اے کے پے رول پر کام کرنے والے امریکیوں کا کام پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی جاسوسی کرناہے اور اس بات کی کھوج لگانا تھا اور پاکستان میں امریکی مفادات کیخلاف دہشت گرد تنظیموں کی نگرانی کرنا تھا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں امریکہ کیلئے کسطرح کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں ۔ پاکستان میں امریکی سی آئی کے رول پر کام کرنے والے ایسے نہ جانے کتنے انگنت لوگ ہیں جو پاکستان میں جاسوسی پر تعینات ہیں اور ہماری ایجنسیوں کو انکے بارے میں کچھ علم نہیں یہاں تک کہ پاکستان میں امریکی سفارتخانے کو بھی انکے اصل ناموں کے بارے میں علم نہ ہے جو سی آئی اے کیلئے کام کرتے ہیں۔ سی آئی اے کیلئے کام کرنے والے یہ امریکی جاسوس اپنی شناخت کو چھپا کر مختلف تخریبی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہیں اور یہ لوگ پاکستانی حکومت کے ویزے کے قوانین میں نرمی برتنے کے اشارے پر پاکستان کے سفیر کے ایما پر بغیر کسی جانچ پڑتال کے اپنی اصل شناخت کے بغیر جعلی ناموں پر سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان آئے ۔ انہیں اتنی رعایات کیوں دی گئیں، ہماری حکومت نے انکی جانچ پڑتال کیوں نہیں کی، اسکے پیچھے وہ کونسے حالات تھے کہ ہماری حکومت اور خفیہ ایجنسیاں بے بس تھیں یہ بھی ایک لمبی چوڑی داستان ہے۔یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا یہ شخص پاکستان تحریک طالبان اور اس سے متصل دوسری دہشت گرد تنظیمیں جو پاکستا ن میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث پائی جاتی ہیں انکی مدد کیلئے تو سی آئی اے کیلئے کام نہیں کرتا تھاکیونکہ پنجاب کے ایک سینئیر پولیس آفیسر نے لاہور میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ہونے والی دہشت گردی میں اس شخص کے ملوث ہونے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

یہ شخص اپنی گاڑی میں انتہائی جدید اسلحے سے لیس ہوکر لاہور کی سڑکوں پر دندناتا پھرتا تھا اور اسے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسکی سرگرمیاں بھی مشکوک تھیں اور یہ اپنی گاڑی میں اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت بغیر لائسنس کے اچھی خاصی تعداد میں اسلحہ بھی رکھتا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص پاکستان تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کیساتھ روابط میں رہتا تھا اور انہیں اسلحہ کی ترسیل دیتا تھا۔ ہماری پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے بیچارے چھوٹے موٹے کارندے ویسے ہی ڈرپوک ہیں اور کسی بھی گوری چمڑی والے کو اتنی بڑی کار میں دیکھ کر ویسے ہی انکی پینٹ گیلی ہوجاتی ہیں۔

وہ اپنی سفید رنگ کی ہنڈا سوک میں لاہور شہر کی انتہائی مصروف شاہراہ پر نکلا اس شہر میں کبھی راجا رنجیت سنگھ تخت نشین ہوا کرتا تھا اور یہاں پر مغل شہنشاہوں کا راج ہو ا کرتا تھا ۔ مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب یہ راجا مہاراجاؤں اور شہنشاہوں کا شہر ایک اور صنعتی بادشاہ جو لوہے کی بھٹیوں میں لوہا پگھلا کر اسے مختلف اشکال میں ڈھالتے ہیں کے اختیار میں آ گیا ہے اور اب وہی یہاں کے بادشاہ ہیں ۔ لاہور جو پاکستان کا دل کہلاتا ہے اور یہ پنجاب کا دارالخلافہ بھی ہے یہ کئی عشروں سے جہادی تنظیموں کا مسکن بنا ہوا ہے جہاں انکی جڑیں کافی مضبوط ہیں کیونکہ یہانکے لوکل مغل شہنشاہوں کے طرز عمل پر چلنے والے ان دہشت گرد تنظیموں کیلئے نہ صرف نرم گوشہ رکھتے ہیں بلکہ ان سے صرف نظر بھی کرتے ہیں اور انہیں اپنی انتخابی مہم میں استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی سی آئی اے نے اس شہر کی اہمیت کو جانتے ہوئے سی آئی اے کے جراحوں کیلئے انتہائی محفوظ اور بے ضرر پناہ گاہ کے طور پر اسے اپنی قیام گاہ بنا لیا۔

یہ جمعرات کا دن تھا اور 27 جنوری2011 کی دوپہر تھی سردیوں کے موسم میں سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اسنے اپنی رہائش واقع اپر مال سے اپنی سفید رنگ کی ہنڈا سوک گاڑی گیراج سے نکالی اور یہ گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی مال روڈسے ہوتی ہوئی جیسے ہی قرطبہ چوک کے قریب پہنچی تو وہ ٹریفک کے سرخ سگنل کو دیکھ کر مزنگ چونگی پر رک گیا۔ کافی بھیڑ تھی دونوں طرف موٹر سائیکل ، رکشے، سائیکل اور کاروں کا اژدہام تھا۔ جیسے ہی وہ رکا اسکے ساتھ ہی ایک کالے رنگ کی موٹر سائیکل پر سوار دو نو جوان بھی رک گئے۔ فلالین کی گرم چیک دار شرٹ اور پینٹ میں ملبوس اس شخص نے انہیں دیکھتے ہی ااپنا نائن ایم ایم کا انتہائی جدید طرز کا امریکی گلاک پستول نکالا گاڑی کی ونڈ سکرین سے ایک چھناکے کی آواز کے ساتھ ہی گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں دو چیخیں بلند ہوئیں اور وہ دونوں نوجوان اپنے موٹر سائیکل سے نیچے گرکر زمین پر ڈھیر ہو گئے ۔ وہ شخص اپنی جدید ترین خود کار نظام والی گاڑی سے ایک چیتے کی طرح جست لگا کر نیچے اترا اور اپنے پستول سے ان پر مذید فائر کئے جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ دونوں مر چکے ہیں اسنے اپنا جدید ترین سٹلائٹ موبائل فون نکالا اور کیمرے سے انتہائی سکون سے انکی ویڈیو بنائی اور واپس اپنی گاڑی میں چلا گیا۔

اسنے گاڑی میں جا کر گاڑی میں موجود ریڈیو ٹرانسمیٹر سے اپنے قونصل خانے کو اپنی مدد کیلئے فون کیا آن واحد میں ایک ٹویو ٹا لینڈ کروزر پراڈو جس پر جعلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی انتہائی تیزی سے ایک موٹرسائیکل سوار کو کچل کر جان سے مارتی ہوئی غلط سمت سے نمودار ہوئی اور ٹریفک کے اژدہام میں چرچراتے ہوئے بریک لگا کر رکی ۔ اسمیں چار لوگ سوار تھے ۔اسکے بعد وہ وہاں سے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بھاگ گئے اور جاتے ہوئے فلیٹیز ہوٹل کے قریب چند چیزیں بھی پھینک گئے جن میں سو کے قریب رائفل کی گولیوں سے بھرے ہوئے میگزین، بہت سے بیٹری سیل، ہاتھ میں پکڑنے والی ایک چھڑی، قینچی، دستانے، چاقو ، سمت نما، کالے رنگ کا ماسک، ایک کپڑے کا ٹکڑا جس پر امریکی جھنڈا بنا ہوا تھا یہ تمام چیزیں پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیں۔ ٹریفک کے وارڈنز اس کار کا پیچھا کررہے تھے۔ جیسے ہی یہ شخص انار کلی کے چوک میں پہنچا اس شخص کو انارکلی بازار میں کھڑے ہوئے دو ٹریفک وارڈنز نے روکا اور انہوں نے اسے دبوچ لیااور پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اسکی گاڑی کی تلاشی لینے پر اسکی گاڑی سے ایک بغیر لائسنس کے گلاک پستول، ایک انفراریڈ لائٹ، ایک ٹیلی سکوپ، سیٹلائٹ سے تعلق پیدا کرنے والا ایک الیکٹرانک آ لہ ایک عدد سیٹلائٹ فون۔ دو عدد موبائل فون، بریٹا گن اور اس کی کافی تعداد میں گولیاں، مختلف اے ٹی ایم اور دوسرے ملٹری کے کارڈ، ایک عدد کیمرہ جس میں انتہائی حساس اداروں جیسا کہ انڈیا کے بارڈر سے منسلک علاقے اور دوسری اہم تنصیبات کی تصاویر تھیں جنہیں کھینچنا منع ہے ان تصویروں میں پاکستان کی پیرا ملٹری فرنٹیر کور کے ہیڈ کوارٹرقلعہ بالا حصار کی تصاویر بھی ملیں۔اس شخص کا سیٹلائٹ موبائل فون چیک کرنے پر معلوم ہوا کہ اسکے تانے بانے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی سے بھی ملتے ہیں اور یہ دونو ں گروپ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروئیاں کرکے سینکڑوں سویلین ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہماری فورسز کے جوانوں اور افسروں کو قتل کر چکے ہیں۔ اس شخص کے قبضے سے ایک جی پی ایس چپ بھی ملی جس سے امریکی سی آئی اے ڈرون حملوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اسنے اتنی اہم تنصیبات کی تصاویر کیسے لیں موبائل فون پر دہشت گرد گروپس سے اسکے تعلقات کی کھوج کیوں نہ لگائی جا سکی یہ ہمار ی ا نٹیلی جینس کی مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہماری انٹیلی جینس س اور حکمرانوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

اس شخص کو دو پولیس والوں کی تحویل میں پولیس ا سٹیشن کے تفتیشی افسر کے کمرے میں لایا گیا جہاں پر کافی رش تھا ۔ تفتیش کار کا کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تفتیشی افسر کے کمرے میں نصب فون کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی، موبائل پر بھی میسیج آ رہے تھے۔ کمرے میں موجود لوگوں کے موبائل فون بھی مختلف رنگ ٹون میں بار بار بج رہے تھے، یہ لوگ اردو، پنجابی اور انگریزی میں ملی جلی زبانوں میں باتیں کر رہے تھے ۔ اس شور و غوغے اور بجتی ہوئی گھنٹیوں میں سوال جواب کرنا خاصا مشکل تھا ۔ تفتیشی آفیسر نے لوگوں کو رش کم کرنے کیلئے کہا تاکہ وہ اس شخص سے اپنی تفتیش جاری رکھ سکے۔ تمام لوگوں کو تفتیشی آفیسر کے کمرے سے باہر نکال دیا گیا۔

تفتیشی آفیسر نے پہلا سوال داغتے ہوئے پوچھا ۔ کیا تم امریکی ہو؟؟ اسنے اثبات میں سر ہلایا ۔۔ہاں ! تو تم امریکی ہو؟؟۔۔۔۔ اور امریکی سفارتخانے سے تعلق رکھتے ہو ! پولیس آفیسر نے پوچھا ؟؟ اسنے اونچی آواز میں کہا۔۔۔ ہاں۔۔ ہاں میں امریکی ہوں اور میرا پاسپورٹ کہیں گر گیا ہے۔ کیا میں بیٹھ جاؤں ؟ یہ شخص پوچھتا ہے۔۔۔ تفتیشی آفیسر : ہاں بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ اسی دوران وہ اپنی اندر والی فلالین کے لائن دار قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بہت سے شناختی کارڈ نکالتا ہے اور پولیس آفیسر کو دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ میں امریکی سفارتخانے سے ہوں! پولیس آفیسر ! یہ کارڈ تو اسلام آبادمیں امریکی سفارتخانے کے ہیں؟؟ وہ شخص گھومتا ہے اور ایک اور کارڈ جیب سے نکالتا ہے جو لاہور قونصلیٹ کا ہوتا ہے۔ پولیس آفیسر اسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ تم قونصیلیٹ جنرل لاہور میں کام کرتے ہو؟؟ ہاں ! کیا کرتے ہو ؟ مم۔۔۔مم۔۔۔میں وہاں پر کنسلٹنٹ ہوں! تفتیشی آفیسر نے ڈیسک کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک سپاہی سے پوچھا کہ اسکا نام؟؟ سپاہی کی آواز آئی ریمنڈ ڈیوس ! آں۔۔۔ ریمنڈ ڈیوس : کیا تمہارے پاس بوتل ہے؟ ۔۔۔ میرا مطلب پانی کی بوتل۔۔۔۔ڈیوس پولیس آفیسر سے پوچھتا ہے۔۔ ۔ پویس آفیسر قہقہہ لگاتے ہوئے۔۔۔ نو پیسہ نو پانی کی بوتل۔۔۔۔ کمرے میں کھڑے ہوئے ایک اور پولیس آفیسر نے ہنستے ہوئے کہا پانی چاہئے؟؟ ایک اور پولیس آفیسر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے تفتیشی آفیسر سے پوچھا ۔۔۔ کچھ معلوم ہوا ۔۔۔ کہتا کیا ہے یہ ؟؟ کیا یہ تمہاری باتیں سمجھ رہا ہے ۔۔۔ دو نوجوانوں کی جان لی ہے اس نے۔ اسکے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسنے جن دو نوجوانوں کو قتل کیا ہے شاید انہوں نے اسے اپنی گاڑی میں مشین گنیں اور دوسرا اسلحہ لوڈ کرتے ہوئے دیکھا تھا اسی لئے اس نے ان دونوں کو پھڑکا دیا تاکہ اسکا یہ راز نہ کھل جائے۔

یہ خبر جنگل کی آگ کیطرح پورے پاکستان میں پھیل گئی لوگ غم و غصے سے بھرے ہوئے تھے وقوعے کی شام ہوتے ہی لاہور کی بڑی شاہرا ہ مال روڈ پر لوگ بڑی تعداد میں جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام اہم سڑکات پر ٹریفک جام ہو گیا اور لوگوں کے اس جم غفیر نے امریکی قونصل خانے کی طرف بڑھنا شروع کر دیا جہاں لوگوں نے اپنی جذباتی تقاریر کیں اور مطالبہ کیا کہ قاتل کو لاہور کے چوک میں پھانسی دیجائے۔امریکہ کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔۔۔امریکہ مردہ باد۔۔۔امریکی کتے ہائے ہائے۔۔۔۔امریکیو پاکستان سے نکل جاؤ۔۔۔۔ امریکہ کا جو یار ہے وہ قوم کا غدار ہے۔۔۔۔ پولیس نے تمام علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔۔۔ہر طرف شور و غوغا ہے رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار پولیس اور انتظامیہ کے چند افسران کی مداخلت سے یہ لوگ منتشر ہوگئے۔

ہر طرف سفید کپڑوں میں ملبوس آئی ایس آئی کی انٹیلی جینس کے لوگ اور سی آئی اے کے لوگ کوٹ لکھپت کی جیل کی طرف جانے والے تمام راستوں پرموجود ہیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس شخص کو انتہائی خفیہ طریقے سے گاڑی میں بٹھایا گیا ہے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہیں ۔ پاکستانی انٹیلی جینس ، آئی ایس آئی اور امریکن سی آئی اے کے ایجنٹ اور آئی ایس آئی کی ا نٹیلی جینس انتہائی جدید اسلحے سے لیس مختلف گاڑیوں میں سوار ہیں جبکہ اسکی گاڑی میں بھی کچھ لوگ اسلحے سمیت سوار ہیں انتہائی سخت نگرانی ہے ۔ تفتیش کے بعد اس شخص کو انتہائی سیکیورٹی میں کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جانا ہے جو کہ لاہور کے صنعتی علاقے میں واقع ہے ۔ یہ جیل خطرناک قیدیوں کیلئے کافی مشہور ہے اور اس جیل میں چاروں طرف اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔ جیل کے تمام سپاہی اور عملہ انتہائی مستعدی سے جیل کے چاروں اطراف میں موجود ہے یہاں بھی پہلے سے آئی ایس آئی، انٹیلی جینس اور سی آئی اے کے لوگ موجود ہیں جیسے ہی یہ گاڑیاں جیل کے گیٹ پر پہنچتی ہیں انتہائی پھرتی سے جیل کا گیٹ کھولا جاتا ہے اس شخص کے بار ے میں کسی کو علم نہ ہے کہ یہ کونسی گاڑی میں ہے۔ بہت سی گاڑیاں جیل کے اندر اور باہر موجود ہیں آن واحد میں یہ کام اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ پہلے سے تیار کردہ ایک کوٹھڑی میں اس شخص کو دوسرے قیدیوں سے علیحدہ بند کر دیا گیا ہے۔ کسی گارڈ کو اس کی کوٹھڑی کے قریب اسلحہ لیجانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی کوٹھڑی کے قریب بھی انٹیلی جینس نے اپنی پوزیشن سنبھال لی ہے۔ جیل کے اندر اور باہر انتہائی سخت اور کڑی نگرانی پر خفیہ پولیس اور آئی ایس آئی کے لوگ تعینات تھے۔ سی آئی اے کے جاسوس بھی جیل کے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے تاکہ کسی بھی نا خوشگوار حادثے کی صورت میں حالات کو سنبھالا جا سکے۔ حکومت انتہائی دباؤ کا شکار تھی اسکی نگرانی پر مامور سیکورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جیل کے اندر اور باہر چاروں طرف نگرانی کرنے والے کتوں کو مامور کر دیا گیا ہے جو ہر آنے جانے والے کو اپنی حس سے پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کسی بھی اسلحے کی جان کاری کیلئے مستعد ہیں۔ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ امریکن قونصلیٹ نے اپنے خاص سدھائے ہوئے کتوں کو اسکے کھانے کی جانچ کیلئے مقرر کر دیا جو کھانے کو سونگھ کر یہ بتاتے تھے کہ اس میں کسی قسم کا زہر نہیں ہے۔ کیونکہ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ کہیں اسے کوئی زہر دیکر نہ مار دے۔اسکے ساتھ ہی امریکی حکومت نے اسکی حفاظت کیلئے امریکہ سے اسپیشل فورس جو جدید ترین آلات سے لیس تھی اسکی حفاظت کیلئے بھیج دی جو دن رات لاہور اور پاکستان میں ہونے والی ایک ایک سرگرمی کو انتہائی چابک دستی سے دیکھ رہے تھے اور حالات کا جائز ہ لے رہے تھے۔ وہ لاہور میں رونما ہونے والی ایک ایک خبر سے امریکی صدر اور سی آئی اے کے سربراہ کو ہاٹ لائن پر با خبر رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر اس شخص کی رہائی کیلئے انتہائی فکر مند ہے۔

امریکیوں نے اس شخص کو چھڑانے کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ اسکے ساتھ ہی پورے ملک میں امریکہ کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ۔ مظاہرین بہت مشتعل تھے ہر روز ہر طرف جلاؤ گھیراؤ تھا شاہراہیں بند کر دی گئیں تھیں امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی ۔ کالج ، اسکول، یونیورسٹیاں، سیاسی جماعتیں اور دوسری مذہبی جماعتیں اور مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی دی جائے ان مظاہروں میں رو بروز شدت آتی جا رہی تھی۔یہ شدت اتنی گھمبیر ہوتی جا رہی تھی کہ اسے پاکستان کی حکومت کیلئے کنٹرول کرنا مشکل ہو چکا تھا۔اخبارات ، میگزین، رسالے اور ٹی وی کے پروگرامز ریونڈ ڈیوس کی خبروں سے بھرے پڑے تھے ہر روز ایک نئی کہانی سامنے آ رہی تھی ۔ ایک پنڈورا باکس کھل چکا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا بھی اس تمام صورت حال کو عوام کے سامنے خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کر رہا تھا۔ تبصرے، ٹاک شوز ، خبریں کوئی ایسا محاز نہ تھا جس پر ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی لگانے کا مطالبہ نہ ہو رہا ہو۔

ریلیاں ، جلوس، طلباء تنظیمیں، مزدور یونین ، مذہبی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں ایک ایسا سیلاب رواں تھا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور ہر روز یہ بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔ایسے میں امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کی پریشانی اور تشویش اپنی حدوں کو چھو رہی تھی۔بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ امریکیوں کو پاکستان سے نکالا جائے اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی کے پھندے پر لٹایا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

ابھی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں شدید ہنگامے جاری تھے کہ 6 فروری کو ایک اور لرزا دینے والی خبر نے ان مظاہروں میں اور آگ بھڑکا دی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا کہ مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ نے دل برداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھا کر فیصل آباد کے ہسپتال میں جان دے دی ہے اسنے مرتے ہوئے ڈاکٹروں کو یہ بیان دیا کہ امریکیوں نے میرے بے گناہ شوہر کو مار دیا ہے ۔ قاتل کو چوک میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا جائے تاکہ مجھے چین آئے۔ اور اب امریکہ اور پاکستان آپس میں معاملات کو طے کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ مجھے انصاف نہیں ملے گا اور میرے شوہر کے قاتل کو دباؤ میں آکر چھوڑ دیا جائیگا۔ مجھے پاکستان کی عدالتون اور قانون سے انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ جیل میں میرے شوہر کے قاتل سے مہمانوں جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قاتل کی طرح برتاؤ نہیں کیا جارہا ۔ اور میں اپنے شہید شوہر کی موت کو برداشت نہیں کر سکتی اور جلد مر کر اسکے پاس جانا چاہتی ہوں اور اسکے بعد ہسپتال میں اسکی موت واقع ہوگئی۔

اسکی موت کے بعد پاکستان میں لوگوں کے جذبات اور بھی بھڑک اٹھے ۔ جلاؤ گھیراؤ ، شاہرات کی بندش، ٹریفک جام ، ریلیوں پر پولیس حکام کی آنسو گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ بھی لوگوں کے بھڑکتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا نہ کر پائی اور انہوں نے پاکستان کی حکومت پر زور دینا شروع کر دیا کہ امریکی سفارتخانے کو بند کیا جائے ورنہ وہ لوگ امریکی سفارتخانے پر حملے کرینگے۔ صورت حال بجائے کمزور پڑنے کے اس واقعے کے بعد اور بھی پر تششد ہو گئی احتجاج اور مظاہروں میں تیزی آ گئی ۔بہت سے اہم امریکیوں کو سفارت خانے اور قونصل خانے سے واپس امریکہ بلالیا گیا ۔ کسی بھی بلوے یا حملے کے پیش نظر سفارتخانے اور قونصل خانوں پر سیکورٹی کے انتظامات انتہائی سخت کر دئے گئے۔ اور مارے جانے کے خوف سے امریکیوں کی سرگرمیاں محدود ہو گئیں اور انہیں احکامات جاری کر دئے گئے کہ وہ باہر نہ نکلیں ورنہ انہیں مار دیا جائیگا۔

امریکی سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر جو لینگ لے میں واقع ہے یہاں پر کافی ہلچل ہے یہ 21 فروری کا دن ہے سی آئی اے کے سر کردہ لوگ انتہائی کشادہ ہیڈ کوارٹر کے ایک بہت بڑے کانفرنس ہال کے ٹیبل کے گرد بیٹھے ہوئے ہیں اور انتہائی اہم معاملے پر زور و شور سے بات چیت جاری ہے امریکہ میں مقیم پاکستان کے سفیر حسین حقانی جیسے ہی اس کشادہ کمرے میں داخل ہوتے ہیں تمام لوگ خاموش ہو جاتے ہیں اور حسین حقانی کو انکی مخصوص نشست جوکہ پینیٹا کے قریب ہی تھی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا جاتا ہے ۔ حال احوال کے بعد پینیٹا اصل معاملے کی طرف آتے ہوئے حسین حقانی سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بارے میں پوچھتا ہے مگر حسین حقانی کی دھاڑتی ہوئی آواز کمرے میں گونجتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تمہیں اس شخص کو جیسن بورس کے حلئے میں بھیجنا ہی تھا تو اسے وہ تمام مہارت اور ہنر مندی کے گر سکھاکر بھیجنا چاہئے تھا۔ اسکے بعد کافی دیر تک مذاکرات چلتے رہے اور شاید وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ حسین حقانی نے پاکستان میں پیدا ہونے والی صورت حال کو بھانپتے ہوئے کسی بھی امید افزاء نتیجے کا کوئی عندیہ نہیں دیا اور اس گفتگو کا کوئی امید افزاء نتیجہ برآمد نہ ہو سکا ۔

دوسری طرف امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا تھا کہ ہمارے سفارتکار کو جتنی جلدی ہو سکے رہا کیا جائے کیونکہ بطور سفارتکار اسے استثناء حاصل ہے اور پاکستان میں انتہائی خطرہ ہے کہ کہیں اسے کوئی جان سے نہ مار دے۔یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ جہادی تنطیم لشکر طیبہ نے اپنے دہشت گردوں کو ریمنڈ ڈیوس کے قتل کے مشن پر مامور کرکے بھیجدیا ہے اور وہ اسے قتل کرنے کیلئے لاہور میں سرگرم ہیں اور کسی وقت بھی وہ ریمنڈ ڈیوس کو جان سے مار سکتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے دوران تفتیش ریمنڈ ڈیوس کیلئے ایک ٹیم بھی تیار کر لی تھی کہیں یہ شخص دباؤ میں آ کر امریکی راز افشاء نہ کر دے اور ایسی صورت حال میں اسے اس ٹیم کے ذریعے مروا دیا جائے کیونکہ اس شخص کے پاس انتہائی خفیہ اور حساس راز تھے جو امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ افشاء ہوں جس سے امریکہ کی سبکی ہو اور انکا راز فاش ہو جائے۔پاکستان کی خفیہ ایجینسیوں کے سربراہان ، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور صدر ہاٹ لائن پر امریکی صدر اوباما سے ایک ایک لمحے کی خبر پر گفتگو کیلئے پریشان تھے انکی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ وزیر اعظم ، صدر ، وزیر خارجہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب ملک میں بگڑتی ہوئی صورت حال سے کافی پریشان تھے اور اس صورت حال میں امریکہ کا یہ رہائی کا مطالبہ انکے لئے کافی پیچیدہ ہوتا جا ررہا تھا کیونکہ ملکی حالات روز بروز کشیدگی کی جانب بڑھ رہے تھے اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہو ا سمندر ہر روز پورے ملک میں حکومت اور امریکہ کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہا تھا ۔ایسے میں امریکی مطالبات ملک میں حالات کو اور بھی خراب کر سکتے تھے۔

وزیر اعظم ، صدر اور وزیر خارجہ نے عدالتوں میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی مگر حالات کے پیش نظر یہ بہت مشکل ہو چکا تھا۔ دوسری طرف پاکستان کی آئی ایس آئی اور امریکی سی آئی اے میں تلخیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی سفارتکار حسین حقانی پر بھی امریکی دباؤ بڑھ رہا تھا ۔ دوسری طرف امریکی سینیٹر زپاکستان کی امداد بند کرنے ، اپنے سفارت کار کو واپس بلانے اور امریکہ سے پاکستانی سفارتکار کو نکالنے کی باتیں کر رہے تھے اور پاکستان کو مزہ چکھانے کی دھمکیاں دے رہے تھے اور وہ بار بار پاکستان میں وزیر اعظم اور صدر پر دباؤ بڑھا رہے تھے مگر حالات کی تلخی شاید انہیں بے بس کئے ہوئے تھی ۔

ان تمام حالات کے باوجود سی آئی اے مضبوطی سے کھڑی رہی اور اسنے اپنی حکمت عملی میں اتنے گھمبیر حالات میں بھی کوئی تبدیلی نہ کی۔ جب امریکی صدر نے بھانپ لیا کہ اب حکومت پاکستان انکی مدد کیلئے کچھ نہیں کر سکتی تو اس نے منٹر کو یہ کام سونپا کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ سے مل کر کوئی راستہ نکالے۔ منٹر نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا سے را بطہ کیااور اسنے تمام معاملات کو کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ صدر اوباما ڈیوس کو جلد از جلد اس مصیبت سے نکال کر اس معاملے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

کیمرون منٹرانتہائی زیرک سفارتکار تھا اسنے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اور وہ کتابی کیڑے کے نام سے مشہور ہے۔ منٹر اس سے پہلے عراق میں بھی تعینات رہا اور وہ اپنے وسیع تجربے کی بنیاد پر اس معاملے کو بھانپ چکا تھا اسنے فیصلہ کیا کہ اسے پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی سے رابطہ کرنا چاہئے اور وہ اس سے معاملات کو طے کرے اور کہے کہ ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ ڈیوس سی آئی اے کیلئے کام کرتا تھا اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو ہم اسے واپس امریکہ بھیج دیتے ہیں او ر وعدہ کرتے ہیں کہ پھر وہ کبھی بھی پاکستان نہیں آئیگا۔ اور اسطر ح ہم ڈیوس کو بحفاظت واپس لے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا جو ایک انتہائی چالاک انٹیلی جینس کے مالک تھے جنہیں
ایک ماہ کے بعد ریٹائرڈ ہونا تھا وہ چاہتے تھے کہ سی آئی اے اور آئی اسی آئی میں پڑنے والی دراڑ کو بھر کر تعلقات کو جوڑا جائے اور ریمنڈ ڈیوس کو اس صورت حال سے چھڑوانا انکے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔دو ہفتے گزرنے کے بعد جنرل پاشا کی ملاقات کیمرون منٹر سے ہوتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر میں ریمنڈ ڈیوس والا معاملہ حل کروا دوں تو ؟؟ میرے پاس اس معاملے کو حل کرنے کا ایک ذبر دست منصوبہ ہے۔ منٹر کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی اور اسکے چہرے پر ایک عجیب سی خوشی تھی جو مکمل طور پر عیاں ہو رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اس منصوبے کو جاننے کیلئے بے چین تھا۔ جنرل پاشا نے منٹر سے انتہائی خفیہ انداز میں کہا کہ وہ ڈیوس کو اس تمام صورت حال سے مکھن میں پڑے ہوئے بال کیطرح نکال کر باہر لے آئیگا اور اسکا بال بھی بیکا نہیں ہوگا ۔ جنرل پاشا نے کہا کہ ہم اس معاملے کو انتہائی خاموشی سے پایہ تکمیل تک پہنچائینگے اور کسی کو کانو کان اسکی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہئے ورنہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو جائیگا۔ اسے انتہائی خفیہ رکھنا ہے۔ کیمرون منٹر نے پوچھا یہ سب کچھ کیسے ہوگا جنرل پاشا نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ میرا کام ہے بس تم دیکھتے رہو۔ جنرل پاشا نے منٹر کو پوری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مذہب اور اسلامی روایات کے مطابق اگر مقتول کے ورثاء کو خون بہا کے طور پر دیت کی رقم ادا کردی جائے اور صلح ہو جائے تو قاتل کو قید سے رہائی مل سکتی ہے۔منٹر جنرل پاشا کی یہ بات سن کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ اسنے پوچھا کہ یہ سب تم کیسے کرو گے کیونکہ مقتولین کے ورثاء تو راضی ہونے کا نام نہیں لے رہے اور پورے ملک کے حالات بھی خراب ہیں۔ جنرل پاشا نے کہا یہ تم مجھ پر چھوڑ دو کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اور کانو کان کسی کو خبر تک نہ ہونے دی یہاں تک کہ قانون اور عدالت بھی اس معاملے میں بے خبر رہے۔

مقتولین کے گھر پر کافی دنوں سے مشکوک سرگرمیاں جاری ہیں۔ سفید کپڑوں میں ملبوس انٹیلی جنس کے لوگ مختلف اوقات میں گھر کے باہر چکر لگا رہے ہیں۔ کچھ لوگ مقتولین کے گھر والوں سے خفیہ بات چیت میں مصروف ہیں۔ مقتولین کے کچھ ورثاء کافی غصے میں ہیں اور معاملات طے نہیں ہو پا رہے۔ ایک
روز صبح سویرے تین مشکوک شخص مقتول کی بیوی کے چچا کے گھر میں کمرے کے پچھلی کھڑکی کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو جاتے ہیں اورمقتول فہیم کی بیو ی کے چچا کو زبر دستی ہاتھ پاؤں پکڑ کر اسکے حلق میں کچھ زہریلی گولیاں ڈال دیتے ہیں۔ جس سے اسکی طبعیت خراب ہو جاتی ہے اسے فوری طور پر الائیڈ ہسپتال میں لے جاتے ہیں۔ اسی اثناء میں جیسے ہی گھر والے دروازے سے باہر دیکھنے کیلئے آتے ہیں انہیں چند لوگ یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور گھر والوں کو خوب مارتے پیٹتے ہیں جس سے انمیں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے۔ وہ کافی پریشان ہیں ۔ انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔۔۔ انکے گھر کے لوگوں کو اغوا کرکے نا معلوم جگہ پر رکھا گیا ہے ۔ جہاں ان پر صلح کیلئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ آخر کار مقتولین کے گھر والوں کو خوفزدہ کرکے خون بہا ادا کرنے پر منا لیا جاتا ہے۔ کتنے پیسے لیکر یہ معاملہ حل ہوجائیگا۔۔۔بیس لاکھ روپے لے دیں۔۔۔پاگل ہو گئے ہوبیس لاکھ تو بہت کم ہیں ۔۔۔ اگر سے بھی ذیادہ لے دیں تو؟؟؟؟۔۔۔وہ لوگ حیرانگی اور خوف کے ملے جلے رجحان کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور کہتے ہیں جیسے تمہاری مرضی۔۔۔ اچھا تم چپ رہو ۔۔۔ہم پر چھوڑ دو کہ کتنی رقم لینی ہے۔۔۔آخر کار معاملہ 20 کروڑ میں طے پا جاتا ہے۔تمام لوگوں کو انتہائی خاموشی سے رات کے اندھیرے میں انتہائی خفیہ مقام پر منتقل کردیا جاتا ہے۔ ایک وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور اس سے دیت کے کاغذات اور تمام ورثاء کے حلف نامے تیار کروائے جاتے ہیں انہیں انتہائی خفیہ رکھا جاتاہے۔اور ورثاء کے وکیل کو بھی اس بات کی خبر نہیں کہ اندرون خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔

کئی روز سے ان کے گھروں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔۔۔ وکلا ء بھی کافی پریشان ہے کہ پیشی نزدیک آ رہی ہے اور یہ لوگ نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔محلے والے بھی انکے غائب ہونے پر لا علم ہیں۔۔۔میڈیا کے لوگ اس جستجو میں ہیں کہ انکا پتہ معلوم کیا جائے کہ آخر ایک دم یہ لوگ کہاں چلے گئے ہیں مگر وہ سب انہیں ڈھونڈنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

آج 16 مارچ ہے ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیشی کیلئے جانا ہے پلاننگ کے مطابق اس سے پہلے کہ عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کو پیش کیا جائے مقتولین کے وکیل کو اس بارے میں ذرہ برابر بھی علم نہیں ہو نا چاہئے۔ ۔۔ ابھی عدالت کا وقت شروع ہونے میں 4 گھنٹے باقی تھے کہ مقتولین کے وکیل اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ اور اسکے جونئیر وکلاء کو انکے گھروں سے اغوا کرکے ایک گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم جگہ پر لیجا کر بند کر دیا گیا ہے ۔ ورثاء کے وکیل نے بتایا کہ وہ مقتولین کے ورثاء سے 14 مارچ سے رابطے کیلئے کوشش کر رہا ہے مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا انکے موبائل فون بند پڑے تھے اور انکے گھروں پر تالے پڑے ہوئے تھے ۔پڑوسیوں اور محلے والوں نے بتایا کہ انہیں معلوم نہ ہے وہ گھر کو تالا لگا کر کہاں چلے گئے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کو عدالت میں پیشی پر لے جانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔۔۔جیل میں انتہائی سخت سیکیورٹی ہے۔۔۔سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکورٹی ۔۔۔۔آئی ایس آئی۔۔۔ اور امریکی سی آئی اے کے لوگ جیل سے لیکر عدالت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ۔مختلف گاڑیوں کی آمد و رفت اور آنا جانا لگا ہوا ہے۔۔۔ حالات انتہائی گھمبیر اور مشکوک ہیں۔۔۔۔۔ ریمنڈ ڈیوس کو انتہائی سیکورٹی میں ایڈیشنل شیشن جج محمد یوسف اوجلا کی عدالت میں پیش کرنے کیلئے لایا جا چکا ہے ۔۔۔۔اسکے ہاتھ سامنے کی جانب ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔۔۔اسے انتہائی ڈرامائی انداز میں ایک لوہے کے پنجرے میں بند کرکے عدالت کے کمرے میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔یہ پنجرہ بلٹ پروف ہے تاکہ اگر کوئی حملہ کردے تو ریمنڈ ڈیوس محفوظ رہے۔۔۔۔ کسی بھی ناگہانی صورت سے نمٹنے کیلئے انتہائی سخت انتظامات ہیں۔۔۔۔عدالت میں ہر طرف سیکیورٹی کے لوگ سفید کپڑوں میں اور وردی میں ملبوس ہو کر پھیلے ہوئے ہیں۔۔۔ وکلاء کالے کوٹوں میں ملبوس ہیں اور دوسرے لوگ سماعت کے انتظار میں ہیں۔۔اخبارات۔اور میڈیا کے لوگ عدالت کے کمرے کے باہر اور اندر بڑی تعداد موجود ہیں۔۔۔۔ ڈیوس کے چہرے پر مایوسی کے آثار ہیں۔۔۔۔۔ چہرہ اترا ہوا ہے اور وہ کافی تھکا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ اسے اپنی رہائی کے بدلے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی ڈیل کے بارے میں کچھ عمل نہ ہے اور اسے یقین ہے کہ اسے آج پیشی مل جائیگی۔ سیکورٹی کے لوگ بھی کالے کوٹ میں ملبوس وکلاء کے بھیس میں کسی بھی انہونی سے نمٹنے کیلئے کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔۔۔۔عدالت کی کرسیوں پر بھی بہت سے وکلاء اور میڈیا کے لوگ بیٹھے ہیں۔۔۔امریکن قونصلیٹ کے لوگ جن میں امریکن قونصلیٹ جنرل کارمیلا کورنائی بھی موجود ہیں۔۔۔ایک شخص عدالت کے کمرے کے آخری کونے میں ایک وکیل کے بھیس میں کالے کوٹ میں ملبوس ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ اور یہ مشکوک شخص اپنے موبائل پرکسی سے گفتگو میں مصروف ہے۔ ۔۔اسکی انگلیاں موبائل فون کے کی پیڈ پر انتہائی تیزی سے چل رہی ہیں اور وہ دوسری طرف کسی سے ٹیکسٹ میسجنگ میں مصروف ہے۔۔۔۔ کسی کو بھی اس شخص کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ اسوقت یہ شخص جو عدالت کے کمرے میں اپنے سیل فو ن پر مصروف ہے یہ ایکانتہائی طاقتور شخص ہے اور پاکستان کی ایک انتہائی خفیہ ایجنسی کا سربراہ ہے۔۔۔۔وہ امریکی سفیر کیمرون منٹر سے ڈائریکٹ رابطے میں تھا اور عدالت میں ہونے والی پل پل کی خبر سے اسے آگاہ رکھے ہوئے تھا۔۔۔۔ اسنے کیمرون منٹر کو پہلا ٹیکسٹ میسج لکھا کہ ۔۔۔۔ ڈیوس کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔۔۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے تمام کام مکمل اور انتہائی خاموشی سے سر انجام دیا جا چکا ہے۔۔۔ تمام چیزیں منصوبے کے تحت ہو رہی ہیں۔۔۔ مقدمے کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔۔۔ ایڈیشنل سیشن جج نے کہا کہ مقدمے کی سماعت کو آگے بڑھایا جائے۔۔۔ کیا ملزم کو ڈپلومیٹ ہونے کی حیثیت سے اشتثناء حا صل ہے۔۔۔۔پاکستانی میڈیا کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ڈیوس اتنی جلد جیل سے باہر نہیں آئیگا۔۔۔ دوران سماعت اچانک استغاثے کا نیا وکیل راجا ارشاد ایڈووکیٹ اپنی سیٹ سے کھڑا ہوتاہے جو اسلام آباد سے آیا ہوا ہے اس نے عدالت سے استدعا کی کہ جناب والا ! مقدمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور میں جناب والا سے التماس کرونگا کہ کمرہ عدالت کو لوگوں اور میڈیا والوں سے خالی کروایا جائے۔تاکہ کارروائی کو آگے بڑھانے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔۔۔۔آرڈر۔۔۔۔آرڈر ۔۔۔۔تمام لوگوں کو میڈیا سمیت حکم دیا جاتاہے کہ کمرہ عدالت کو فوری خالی کر دیا جائے۔۔۔کمرہ عدالت میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ شروع ہوگئی۔۔۔۔ لوگوں نے مختلف باتیں بنانا شروع کردیں عدالتی سیکورٹی حکام نے میڈیا اور سب لوگوں کو کمرہ عدالت سے باہر نکال کر کمرے کو اندر سے بند کر دیا۔۔۔کمرے میں خاموشی ہے ۔ ہر ایک انتظار میں ہے کہ کیا ہونے والا ہے ۔۔۔۔جونہی یہ وکیل ایڈیشنل شیشن جج کے سامنے پیش ہوا اسنے 345Cr.PC کے تحت ایک درخواست پیش کی کہ مقتولین فیضان حیدر اور فہیم شمشاد کے قانونی وارثوں کے درمیان صلح ہو چکی ہے اور انہوں نے قاتل کو معاف کر دیا ہے۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی دیت کے تیار کئے گئے کاغذات بھی عدالت کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی پاکستان کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کا بنایا ہوا یہ انتہائی خفیہ منصوبہ فاش ہو جاتا ہے۔۔۔عدالت میں موجود چند لوگ انگشت بدد ندان رہ جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے اور کس وقت ہوا ۔۔۔ اسی اثناء میں ڈپٹی پراسیکیوٹر محمد اکرم مقتولین کے لواحقین کو بلا کر عدالت کے سامنے پیش کرتا ہے۔۔۔۔ عدالت صلح کی اس ڈیل کا بغور جائزہ لیتی ہے اور اسکے بعد منظور کرتے ہوئے ۔۔۔لواحقین کو ایک ایک کرکے بلاتی ہے اور ان سے اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کیا یہ صلح انکی آزاد مرضی سے وجود میں لائی گئی ہے۔۔۔۔ سب لواحقین اپنا اپنا تسلیمی بیان قلمبند کرواتے ہیں ۔۔۔۔۔عدالت میں مقتولین کے 18 قانونی ورثاء کی طرف سے انکے حلف نامے پیش کئے گئے جن پر انہوں نے اس صلح کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے دستخط اور انگوٹھے ثبت کئے ہوئے تھے۔۔۔ عدالت میں فیضان حیدر کی بیوہ بھی پیش ہوئی جس نے عدالت کے سامنے یہ اقرار کیا کہ اسنے دیت کے طور پر خون بہا کے 30 ملین روپے وصول کر لئے ہیں۔ اور اسے ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے میں کوئی اعتراض نہ ہے۔۔۔تما م لواحقین نے ریمنڈ ڈیوس کے سامنے اپنی ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے اسے معاف کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ ہم یہ سب کچھ بغیر کسی دباؤ کے اپنی آزاد مرضی سے کر رہے ہیں اگر ریمنڈ ڈیوس کو آزاد کر دیا جائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔۔۔جج ایک دم حیران رہ جاتا ہے وہ اٹھ کر پیچھے ریٹائرنگ روم میں جاتا ہے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آتا ہے۔۔۔۔چند لمحوں کیلئے سوچتا ہے اور وہ فائل پر کچھ لکھتا ہے ۔۔۔۔اورعدالت ریمند ڈیوس کو چھوڑنے کے احکامات جاری کر دیتی ہے۔۔۔۔جیسے ہی جج ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنے کے احکامات دیتا ہے۔۔۔۔ کونے میں بیٹھا ہوا کالے کوٹ میں ملبوث شخص۔۔۔ایکدم اپنے موبائل پر جھکتا ہے اور انتہائی تیزی سے ایک پیغام لکھتاہے کہ ۔۔۔مبارک ہو۔۔۔ ریمنڈ ڈیوس کو عدالت نے بری کر دیا ہے۔۔۔ سب کام خوش اسلوبی سے اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے۔۔۔انسان کا بنایا ہوا قانون دم توڑ گیا اور اسی کیساتھ خدا کا قانون اس پر حاوی ہو گیا اور قتل کے اس گناہ میں ملوث قاتل طاقت کے بل بوتے پر خدا کے بنائے ہوئے قانون کی پناہ میں ٓگیا۔

عدالت میں یہ تمام ڈرامہ اردو زبان میں سٹیج کیا گیا۔۔۔ریمنڈ ڈیوس اس تمام ڈرامے سے بے خبر اپنے لوہے کے پنجرے میں خاموشی کیساتھ یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔۔۔۔کیونکہ عدالت کی یہ کارروائی اردو زبان میں تھی جو اسکی سمجھ میں نہ آئی۔۔۔۔ وہ اسوقت انتہائی غصے کے عالم میں تھا جب آئی ایس آئی کے کارندوں نے اسے اس سٹیل کے پنجرے سے نکال کر عدالت کے پیچھلے کمرے سے باہر دھکیلا جہاں ایک کار پہلے سے اسکی آمد کی منتظر تھی۔۔۔۔ اور خفیہ پولیس کے ادارے بھی اپنے اپنے کام پر مامور تھے۔۔۔۔ ریمنڈ ڈیوس اس تمام کارروائی سے بے خبر تھا اور وہ جھنجلا رہا تھا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔۔۔جیسے ہی اس قاتل کو کار میں بٹھایا گیا یہ کار تیزی سے بہت سی کاروں کے درمیان سیکیورٹی کے حصار میں لاہور ائر پورٹ کی جانب بڑھ گئی۔طے شدہ پروگرام کے تحت منصوبہ یہ تھا کہ ریمنڈ کو فوری طور پر پاکستان سے کسی بھی طریقے سے نکال کر جلد از جلد نزدیکی ائیر پورٹ پر منتقل کیا جائے ۔۔۔ڈیوس انتہائی خوفزدہ تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ اسنے ساتھ بیٹھے ہوئے آئی ایس آئی کے آفیسر کی طرف انتہائی خونخوار آنکھوں سے دیکھا اور انگلش میں ایک گالی دیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ کیا مجھے مارنے کیلئے لے جایا جا رہا ہے۔۔۔۔ وہ اتنا خونخوار ہو رہا تھا کہ اس سے اس بات کی توقع بھی کی جا سکتی تھی کہ وہ کار میں بیٹھے ہوئے اپنے ساتھ آئی ایس آئی کے افسر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیتا۔۔۔مگر یہ سب کچھ بغیر کسی نا خوشگوار واقعے کے ہوگیا۔۔۔جیسے ہی کار لاہور کے والٹن ائیر پورٹ پر پہنچتی ہے ائیر پورٹ پر ہلچل مچ جاتی ہے۔۔۔۔ اس قاتل کو باہر لیجانے کے تمام انتظامات انتہائی خفیہ طریقے سے پہلے سے مکمل ہو چکے تھے۔۔۔ ڈیوس کو اس کار سے باہر نکالا گیا۔۔۔۔سی آئی اے کے جاسوس بد حواسی کے عالم میں اسکی جانب بڑھے اور انہوں نے ڈیوس کو اپنے حصار میں لے لیا۔۔۔ کیمرون منٹرنے ریمنڈ ڈیوس کو اسکی رہائی پر مبارک دی۔۔۔ریمنڈ ڈیوس حیرانی کے عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔لاہور ائر پورٹ پر کھڑے تیار 12 سیٹوں پر مشتمل سیسنا جہاز میں کیمرون منٹر، سی آئی اے کے سینئرآفیسر، ریمنڈ ڈیوس ، مقتول خاندان کے چار لوگ جن میں عمران حیدر جو مقتو ل فیضان حیدر کا بھائی تھا ، محمد وسیم جو مقتول محمد فہیم کا بھائی اور انکے خاندان کے دو دوسرے لوگ بھی موجود تھے ۔۔۔ اشارہ ملتے ہی ٹھیک شام کو چار بجکر پینتالیس منٹ پر جہاز نے اڑان بھری اور وہ ان تمام افراد کو لیکر نزدیکی ائیر پورٹ بگرام افغانستان کی جانب بڑھ گیا ۔

پاکستانی نو جوانوں کے اس لرزہ بر اندام قتل اور انتہائی سنسی خیز واقعہ کے پیچھے وہ کونسے عوامل تھے جو اس قتل کا باعث بنے؟؟ ۔۔۔۔ ایک فاسق قاتل ریمنڈ ڈیوس کون تھا ؟۔۔۔۔ وہ پاکستان میں کن خفیہ سر گرمیوں میں ملوث تھا؟۔۔۔۔ کیا وہ سی آئی اے، بلیک واٹر، ڈائینا کارپ، ٹی ایف 373 (ڈیلٹا فورس) کیلئے کام کرتا تھا ؟؟۔۔۔۔کیا وہ پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا؟۔۔۔کیا وہ پاکستان سے اجرتی دہشت گرد حاصل کرکے ان سے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر بم نصب کرکے سینکڑوں لوگوں کو مارنے پر مامور تھا؟؟۔۔۔۔۔کیا وہ پاکستان کی افواج کو کمزور کرناچاہتا تھا۔۔۔۔۔کیا وہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں سے روابط میں رہتا تھا اور انہیں اسلحہ فراہم کرتا تھا۔ کیا وہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے میں ملوث تھا؟۔۔۔ اس نے بم حملوں میں کتنے پاکستانیوں کو خون میں نہلایا ۔۔۔۔۔ان تمام سوالات کا جواب ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے پیچھے مضمر ہے۔کیاان تمام حالات کے پیچھے پاکستان کی اسوقت کی حکومت ، پنجاب حکومت کے خادم اعلیٰ اور انکے وزیر قانون، ہماری افواج اور انٹیلی جینس اداروں کے سربراہان کی پر اسرار خاموشی اور غلامی کی وہ روش ہے جس پر پوری قوم نوحہ کناں ہے ۔۔۔۔یہ ایسے ہی ہے جیسا بہت بڑے سازشی محل میں کھلنے والاوہ دریچہ جسے ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا ہو ۔۔۔۔ یہ واقعہ اور اسمیں ملوث ہماری قو م کے غداروں کی وجہ سے پوری قوم کی غیرت ملی کو موت کی نیند سلا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاکستان کی تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گیا۔۔۔۔مگر ہماری قوم آج بھی اپنی افواج کے جوانوں، جرنیلوں، بے گناہ اور معصوم شہریوں کی قربانیاں پیش کر رہی ہے اور قوم سوال کر رہی ہے کہ کیا اب بھی ہمارے ملک میں کوئی ریمنڈڈیوس ہے جو بے گناہوں اور معصوم لوگوں کو خون میں نہلا رہا ہے؟؟ اور اسے بچانے کیلئے پاکستانی قوم کا غدار ہی استعمال ہوگا۔۔۔۔اسکی رہائی کیلئے اس قوم کے غدار نے کتنی رقم اور مفاد حاصل کیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 140109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.