پاکستان کے سابق نامور سفارتکار اور ازدکشمیر کے صدر
سردار مسعود عبداللہ خان ایکہ ہفتے کے سرکاری اخراجات پر دورہ برطانیہ میں
ہیں ان کے وفد میں سات افراد شامل ہیں جن میں ایک فوٹو گرافر، پریس
سیکرٹری، پاکستان آرمی کے حاضر سروس ملٹری سیکرٹری سمیت دو خواتین ارکان
آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی سحرش قمر اور نسیمہ وانی بھی شامل ہیں سحرش قمر
پلندری سے وزیراعظم پاکستان نوازشریف کے پی- ایس - شکیل اعوان کی صاحب زادی
ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ نسیمہ وانی الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی میں تھیں پھر
ن میں شامل ہوئی اور نامعلوم کسی خفیہ سفارش سے رکن اسمبلی بن گئیں ہیں۔ یہ
دونوں خواتین سپیشل سیٹوں پر منتخب ہوئی ہیں اور دونوں ہی سفارش پر ہوا سے
پرواز کرتے ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی کی رکن بن گئیں۔
صدر ازدکشمیر کے دورے کے مقاصد یہ بتائے جارہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر
برطانیہ میں عوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے جبکہ یہاں
کے اداروں اور پارلیمنٹرین میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ہے تاکہ وہ کشمیر
کے مسئلے پر ہماری حمایت کریں اور بھارت کے مقابلے میں ھماری مدد کریں۔ یہ
ایک آئیڈیل پوزیشن ہے اور صدر مسعود خان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔ لیکن
بدقسمتی سے انہوں نے ایک ایسے وقت میں برطانیہ کا رخ کیا ہے جب یہاں حال ہی
میں الیکشن کے بعد جو معلق حکومت قائم ہوئی ہے اس کو اپنی جان کے لالے پڑے
ہوئے ہیں۔ ٹریسا مے کی منیارٹی گورنمنٹ کو اعتماد اور اختیارات کا جو ووٹ
ملا ہے وہ اپوزیشن کے 309 ووٹوں کے مقابلے میں 326 ووٹ ہیں اور جو 14 ووٹوں
کی سادہ اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ بھی DUP پارٹی کی مشروط حمایت سے حاصل کیی
گئی ہے۔ برطانیہ اس وقت سیاسی اعتبار سے انتہائی غیر یقینی کی سی صورتحال
سے دوچار ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے، یورپین یونین چھڑنے کے بعد معاشی طور پر
یورہی یونین کے ساتھ مزاکرات میں ممبران اف پارلیمنٹ کے اختلافات حکومتی
اور اپوزیشن کیمپوں میں کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ برطانیہ میں پچھلے تین ماہ
میں دہشت گردی کے پے درپے حملوں سے یہاں سب لوگوں پر خوف کے بادل منڈلاتے
ہوئے نظر آتے ہیں، نسلی تعصب اور مزہبی منافرت کے جرایم میں 50 فیصد اضافہ
ہوا ہے، لندن میں آتشزدگی سے جھلس جانے والے اور دیگر ہزاروں کی تعداد میں
آئے روز مظاہرے کررہے ہیں۔ یکم جولائی کو 50 ہزار لوگوں نے لندن میں حکومت
مخالف مظاہرہ کیا ہے جس سے اپوزیشن لیڈر جرمی کوربن نے بھی خطاب کیا ہے۔ ان
حالات میں برطانیہ کے اداروں اور ممبران آف پارلیمنٹ سے کشمیر کے معاملے پر
مدد مانگنا حماقت کے سوا کچھ نہیں اس وقت برطانیہ کو ٹریڈ کے لئے پارٹنرز
کی خود ضرورت ہے۔بہتر یہی تھا کہ یہاں حالات سازگار ہونے کا انتظار کیا
جاتا۔
صدر آزادکشمیر جس ریاست آزادکشمیر کے سرکاری خرچے پر یہاں آئے ہیں اس کی
وہاں اپنی حالت یہ ہے کہ حال ہی میں واپڈا نے بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر
دارلحکومت مظفر آباد کے سیکرٹریٹ،سرکاری ،حکومتی ایوانوں اور،سب کی بجلی
بند کر دی تھی یہ وفد سرکاری پیسے پر برطانیہ آیا ہے،اس کا کیا مقصد ہے
،سیر سپاٹا تو معمول بن گیا ہے لیکن اب سفارشی وفد تشکیل دیتے ہوئے برطانیہ
میں اپنے اپنے علاقے کے لوگوں سے بھی خرچے کرانا،شاپنگ،سیر و تفریح ،اور یہ
سب کشمیر کاز کے نام پر، دنیا میں ،کشمیریوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟
آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ کیا کھلواڑ کھیلا جا جا رہا ہے؟اس دورے کے مکمل
اخراجات کتنے ہیں؟سب یہ جاننا چاہتے ہیں۔ اور اس دورے سے کیا نتائج برآمد
ہونگے صدر مسعود عبداللہ خان کے دورے کو مانیٹرنگ میں لایا جائے تو وہ
سوالوں سے گھبراتے ہیں ایسا بیڈفورڈ اور دوسری جگہوں دیکھنے میں آیا ہے
چونکہ وہ سیاسی آدمی نہیں ہیں۔سردار مسعود عبداللہ ایک سفارتکار ضرور ھو
سکتے ہیں۔ لیکن سیاستدان نہیں۔ منتظمین کو چاہیے کہ وہ انھیں عوامی مقامات
پر نہ لے جائیں ۔ جہاں وہ اپنے آپ پر کئے گئے سوالات کا جواب نہ دے سکیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال اور آزاد کشمیر کے انتظامی امور کی وجہ سے عوامی
مقامات پر ان پر سوالات بنتے ہیں ۔ لیکن وہ سیاسی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے،
نہ ہی ان میں وہ اعتماد ہے اور نہ ہی ان کے نتائج کی خبر۔ حالانکہ ان کے
پیشرو آزاد کشمیر کے اکثر سیاستدان عوامی مقامات پر صحافیوں کے علاوہ عام
پبلک کے بھی سنجیدگی سے جواب دیتے آئے ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان، سردار
عتیق احمد خان اور یاسین ملک اور دیگر برطانیہ کے دوروں کے دوران سفارتی
مہم جوئی کے علاوہ پبلک مقامات پر سوالوں کے جوابات دینے میں سرفہرست رہے
ہیں.سردار عتیق احمد خان سے ہزاروں اختلافات اپنی جگہ لیکن جب وہ 2007 میں
وزیراعظم کی حیثیت سے برطانیہ آئے تو ہر جلسے میں تقریری جگالی کے بجائے
خود سوالوں اور جوابات کا سیشن شروع کرتے اور گھنٹوں جوابات دیتے رہتے یہی
حالت مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مرحوم بھی تھی۔
یہ ضروری ہے کہ برطانیہ میں جب کشمیر پر کسی کو بھیجاا کریں تو یہ ضرور ذہن
میں رکھا جائے کہ یہاں بھی میڈیا موجود ہے، مل مزدوروں کی نسل جوان اور
باشعور ہے۔ اس دورے کے دوران ہوٹلوں میں اپنے ہی لوگوں کو گھنٹوں تقریریں
سنانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا۔ لوگوں کو پیسے دے کر یہاں تفریحی دوروں
پر بھیجنے سے رضاکارانہ طور پر کشمیر کاز کے لئے کام کرنے والوں کو مایوس
کرنے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ یہاں کشمیریوں پاکستانیوں کو تقسیم در تقسیم
ہونے کی ہر سازش کے خلاف آواز آٹھاتا رہونگا یہی ہے میری پکار ہے، سوچ لو
ہم کتنے بدنصیب اور کم بخت لوگ ہیں جو لاشوں کی کمائی کھاتے ہیں ان پر
سیاست کرتے ہیں۔
مجھے حکم ہے ازاں لا الہ الا اللہ |