مدینہ منورہ میں شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ دوپہر کے بعد
سے ہی لوگوں کا ایک ہجوم شہر کے باہر جمع ہوگیا تھا۔ سب کی نظریں شہر کی
جانب سے آنے والی شاہراہ پر جمی ہوئی تھیں۔آج اس نوجوان کی واپسی کا دن تھا
جس کو خلیفہ وقت فاروق اعظم ؓ نے اس کی آخری خواہش کی تکمیل کے لئے تین دن
کی مہلت عطا کی تھی اور جس کی ضمانت حب ِ رسول ﷺسے سرشار ایک صحابی نے دی
تھی۔ اگر وہ نوجوان سورج غروب ہونے تک نہ آیا تو اس کے بدلے میں ضامن صحابی
رسول ﷺ کو قتل ہونا تھا۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ لوگوں کی نگاہیں شہر
سے آنے والی شاہراہ پر مرکوز تھیں۔مگر وہاں سے کسی کے آنے کا نام و نشان نہ
تھا۔یہی وجہ تھی کہ وقت جوں جوں گزر رہاتھا، فاروق اعظم ؓ سمیت تمام لوگوں
کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔دوسری جانب ضامن صحابی رسول ﷺ جرأت و استقامت
سے میدان میں کھڑا تھا۔ کیوں کہ اجنبی نوجوان کی ضمانت دیتے وقت اُس نے
امیر المومنین سے کہا تھا۔ ’’ میں نے اپنا انجام سوچ لیا ہے مگر میں یہ
برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک نوجوان دوسرے مسلمان کے موجود ہوتے ہوئے خود کو
بے گانہ سمجھے۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں جو اخوت کا درس دیا ہے اس کی بناء پر
یہ میرا بھائی ہے اور میں اس کی ضمانت بخوشی دیتا ہوں ‘‘۔ سورج غروب ہونے
کا وقت قریب تھا کہ جلاد کو گردن مارنے کا حکم جاری کر دیا جاتا کہ اچانک
مجمع میں ایک شور اٹھا۔ ٹھہرو ’ ٹھہرو ، اُدھر دیکھو۔ گرد و غبار اُڑ رہا
ہے شاید کوئی سوار آرہا ہے۔ جیسے ہی اونٹنی پر سوار جوان قریب آیا، لوگ
چلّا اٹھے۔ دیکھو! وہ نوجوان آگیا۔ پہنچتے ہی نوجوان نے اونٹنی سے اُتر کر
معذرت کی اور کہا کہ میری اونٹنی کی زین کا تنگ ٹوٹ گیا تھا جس کی وجہ سے
تاخیر ہوئی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا اور میرے محسن ضامن کی
جان بچ گئی۔ اَب میں ہر سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ امیر الومنین ؓ نے
نوجوان سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’ سزا تمہیں بعد میں دی جائے گی۔ پہلے یہ
بتاؤ کہ تمہیں تین دن کی مہلت دی گئی تھی۔ تمہارا پتہ و نشان بھی کسی کو
معلوم نہیں تھا۔ سزائے موت سے بچنے کے لئے تم فرار بھی ہوسکتے تھے ‘‘۔
نوجوان نے بھیگی آنکھوں سے جواب دیا ۔ ’’ امیر المومنین ! میں فرار ہو کر
کہاں جاتا؟ یہاں نہ سہی ، وہاں سزا ملتی۔ لیکن قیامت تک اسلام کے دشمن یہ
طعنہ دیتے کہ محمد ﷺ کے غلام عہد شکن ہوتے ہیں۔اس لئے میں نے سوچا کہ زمین
پر میرے خون کا دھبہ چند دنوں کے بعد مٹ جائے گا لیکن عہد شکنی کا دھبہ
اسلام کے دامن پر ہمیشہ کے لئے رہے گا ‘‘۔ اجنبی نوجوان کی ضمانت کرنے والے
اس جلیل القدر صحابی کا نام حضرت ابوذر غفاری ؓ تھا۔
حضرت ابو ذر غفاری ؓ کا تعلق بنو غفار قبیلہ سے تھا۔ یہ قبیلہ کنانہ بن
خریمہ کی نسل تھا جو 15 ویں پشت میں حضرت محمد ﷺ کے جد اعلیٰ تھے۔ اس قبیلہ
کے لوگ نہایت مفلس تھے اور اُن کا گزر بسر قافلوں سے محصول وصول کر کے ہوتا
تھا۔اور جو قافلے محصول ادا نہ کرتے تو وہ انہیں لوٹ لیتے تھے۔آپ ؓ اپنے
قبیلے والوں کی بُری عادات سے سخت نالاں تھے۔ ایک روز بنوغفار کا ایک شخص
مکہ سے آیا اور آپ ؓ سے فرمایا۔ ’’اے ابو ذر! تمہاری طرح مکہ میں بھی ایک
شخص لا الہ الا اﷲ کہتا ہے اور لوگوں کو بُت پرستی سے منع کرتا ہے ‘‘۔ یہ
خبر سُن کر آپؓ نے فوراً اپنے بلند پایہ شاعر بھائی کو مکہ کے حالات معلوم
کرنے کے لئے روانہ کیا۔ مکہ پہنچ کر انہوں نے آپ ﷺ کے ارشادات سنے تو بے حد
متاثر ہوئے۔ واپس آکر اپنے بھائی سے کہا ۔ ’’ لوگ اسے شاعر ، کاہن اور
جادوگر کہتے ہیں لیکن خدا کی قسم میں نے اسے ایسا نہیں پایا۔ وہ نہ شاعر ہے
، نہ کاہن اور نہ جادوگر ہے بلکہ وہ لوگوں کو محض بھلائی کی طرف بُلاتا ہے
اور بُرائیوں سے منع فرماتا ہے ‘‘۔ آپ ؓ کا تجسس مزید بڑھا اور خود سامان
سفر کر کے مکہ جا پہنچے۔ کچھ دن حضرت علی ؓ کے مہمان رہے اور حضرت علی ؓ کی
حمیت میں آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری دی اور بولے۔ ’’ السلام علیک یا رسول
اﷲ ‘‘۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا۔ ’’و علیکم السلام و رحمۃ و برکاتہ ‘‘۔ یوں
حضرت ابوذر غفاری ؓکو سب سے پہلے اسلامی طریقے سے سلام کر نے کا شرف حاصل
ہوا۔ بعد میں سلام کا یہی طریقہ مسلم معاشرے میں عام ہوا۔ آپ ﷺ کی دعوت پر
فوراً حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپؓ حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ ،
حضرت علی ؓ اور حضرت زید ؓ بن حارثہ کے بعد پانچویں شخص تھے جو مشرف بہ
اسلام ہوئے۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زُہد و تقویٰ ، حق گوئی و بے باکی
، شغف قرآن و حدیث ، ایثار و قناعت اور اﷲ اور رسول اکرم ﷺ سے عشق و محبت
کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ نے انہیں مسیح الاسلام کا لقب عطا کیا۔ جیسا کہ
ارشاد ِ نبو ی ﷺ ہے کہ جس شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا شوق
ہو ، وہ ابو ذر کا دیدار کر لے ۔ آپ ؓ کے علم و فضل کا یہ مقام تھا کہ حضرت
عمر فاروقؓ انہیں حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کے برابر سمجھتے تھے۔ حضرت علی ؓ
کا ارشاد ہے کہ ابو ذر ؓ ایسے علم کو حاصل کئے ہوئے ہیں جس سے لوگ عاجز ہیں
مگر انہوں نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ آپ ؓ نے بہت سے صحابہ کرام ؓ اور
تابعین نے حدیث کا علم حاصل کیا۔بلا شبہ آپ ؓ کی سیرت کا ہر پہلو ملت
اسلامیہ کے لئے روشنی کا مینار ہے۔ آپؓ نے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی خلافت میں بمقام ربذہ 32 ھ میں وفات پائی۔ |