اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ضلع نارووال کے
شہریوں نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک لاکھوں قربانیاں دیں ۔وہاں کے
قبرستانیوں میں پاک فوج سمیت دیگروطن کی حفاظت پر مامور شہداء کی قبریں منہ
بولتا ثبوت ہیں۔ضلع نارووال کی تین تحصیلیں ہیں اور74یونین کونسلیں ہیں،
تحصیل نارووال کی28یونین کونسل ،شکرگڑھ کی 28یونین کونسل اورظفروال18یونین
کونسلیں ہیں ۔مقامی نمائندوں میں یونین کونسلوں میں تقریباؔ70چیئرمین
،450جنرل ،لیبر ،کسان اور لیڈی کونسلر ، زکواۃ و عشر ودیگر کمیٹیوں سمیت
150چیئرمین ،500سے زائد ممبران ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 115 میاں
محمدرشید، این اے 116دانیال عزیز، این اے117احسن اقبال، پنجاب اسمبلی کے پی
پی 133’’ii‘‘ابوحفص محمدغوث الدین ،پی پی ’’ i‘‘ 132اویس قاسم خان ،پی پی
135’’iv‘‘خواجہ محمدوسیم ،پی پی 136’’v‘‘ شجاعت احمدخان،پی پی134’’iii‘‘رانا
منان ہیں۔
مشہورشخصیت پاکستانی انقلابی شاعر فیض احمد فیض ،سابق وفاقی وزیر سیاستدان
انور عزیز ، چوہدری نثار احمد ملہی، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بالی ووڈ اداکار
ڈان آنند ، مشہورگلوکار ،سیاسی رہنما ، سہاراٹرسٹ کے چیئرمین ابرار الحق،
سیاسی رہنماء چوہدری محمد ریاض ادریس، ثاقب ادریس تاج،چوہدری
عبدالرحیم،چوہدری چوہدری محمد سرور خان، جسٹس چوہدری اعجاز احمد ،کرکٹرعدنان
الیاس،لاہور ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد حمید ڈار، بیرسٹرایس ایم
ظفر،منصف افضل احسن،کالم نگار محمدافضل گجرآف شکرگڑھ، سیدعارف نوناری آف
نونار ،صحافی ڈاکٹرعبدالخالق چودھری آف قلعہ احمدآبادودیگر قومی اخبارات ،ٹی
وی چینلوں پرخدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کا تعلق نارووال سے ہے ،
قارئین یہ تمام منتخب عوامی نمائندے شہریوں کی خدمت کے دعوے دار ہیں۔اکثر
تقریبات میں یہ الفاظ تقریروں میں بہت اچھے لگتے ہیں کہ’’تندرستی ہزار نعمت
ہے ‘‘جیسے مقبول عام اور جاندار مقولے کی موجودگی میں کون انسانی صحت کی
زندگی میں اہمیت کو جھٹلا سکتا ہے ۔ کسی بھی انسان کیلئے تندرستی نعمت ِ
غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی ۔لیکن ضلع نارووال میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔
کینسر، ہارٹ اٹیک ، ہیپا ٹائٹس،ڈپریشن اور شیزوفرینیا ، جیسی ذہنی اور
جسمانی بیماریاں امیر وغریب میں قطعاً امتیازنہیں کرتیں لہذا صحت ایک ایسی
دولت ہے جسکا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہے اسی لئے ترقی یافتہ ممالک
میں انسانوں کو صحت و تعلیم کی بہتر اور مفت سہولتیں فراہم کرنے کی بنیادی
ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ضلع نارووال میں چندسرکاری ہسپتال ہیں جن
میں جونیئر ڈاکٹر تعینات ہیں،ہزاروں نجی ہسپتال موجود ہیں جہاں عطاڈاکٹروں
کاراج ہے۔ لیکن افسوس کہ ہزاروں منتخب نمائندوں کی موجودگی میں شعبہ صحت
ناقص صورتحال کو بیاں نہیں کیا جاسکتا۔
عوامی میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا سر کاری ملا زمت کر نے والے ڈاکٹرز کے
پرائیویٹ کلینک بند کروانا کیا حکو مت کی ذمہ داری نہیں ہے ؟؟کیا دیہا تی
علا قوں کے ہسپتا لوں میں ڈاکٹرز کی کمی کو پو را کر کے علاج معا لجہ کی
سہو لیا ت فرا ہم کرنا حکو مت کی ذمہ داری نہیں ؟
کیا دیہا تی علا قوں میں لیڈی ڈاکٹرز کی تعیناتی یقینی بنا نا اور خوا تین
کے مسا ئل حل کر نا حکو متی ذمہ داری نہیں ؟
کیا بڑے شہروں میں مو جود ہسپتا لوں میں صحت عا مہ کی سہولیات فراہم کر نا
حکو متی ذمہ داری نہیں؟
کیا ہسپتا لوں کی لیبز کو معیا ری اور قا بل اعتماد بنا نا حکو متی ذمہ
داری نہیں ؟
کیا سر کا ری ہسپتا لوں میں فا ئل یا پر چی سے زیادہ مر یض پر تو جہ دلا نا
حکو متی ذمہ داری نہیں ؟
وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ہر سانحات پر آبدیدہ ہونا اس لیے بھی بنتا ہے
کہ انسا نوں کی صحت ،علاج سے زیا دہ اہم مو ٹر وے ،اورینج ٹرین میٹرو کے
منصو بہ جا ت ہیں جن کی تکمیل دنوں میں مکمل کی گئی مگر ان منصو بوں پر عمل
کبھی نہ کیا گیا جو انسا نوں کی زندگیاں بچا نے کے لیے ضروری تھا آج پا
کستا ن میں زراعت کا برا حال ہے جس کی بد ولت ہر طرف بھو ک ، تنگ دستی ،نا
چ رہی ہے لو گ ایک دوسرے کو کا ٹنے ،ما رنے ، مرنے ،کے در پے ہیں کیو نکہ
جب تک کسان کے پاس کچھ نہ ہو گا کاروبار زندگی کا پہیہ کیسے چل سکے گا جس
پر پوری قوم آبدیدہ ہے ؟بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمرانوں کے لیے یہ کا فی
نہیں ہے کہ پا کستا ن میں علاج سستاہے نا دو وقت کی روٹی ،حتکہ کو ئی مر نا
بھی چا ہے تو قبر بھی مہنگی پڑ جا تی ہے تو پھر کو ن سی حکومتیں ،کو ن سے
لیڈر ،کون سے دعوے ،کون سے نعرے ؟ہا ں اب قر ضوں کے بو جھ تلے دبی قوم کو
حکمرانوں کے اور افسران کے بیانات سننا ہونگے جو صرف اخبارات ،ٹی وی اور
سوشل میڈیاتک محدودد رہیں گے اور عوام یونہی تڑپ تڑپ کر مرتی رہے گی اور
سرکاری ملازم جیب گرم کرتے رہیں گے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو سب سے پہلے تحصیل لیو ل اور قصبات کے
ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کر نا ہو گا اور ساتھ ہی پرائیویٹ
ہسپتالوں میں دی جانے والی سہولیات کو سامنے رکھ کر جراحی آلات اور مشینری
کا سد باب کر نا ہو گا ۔ |