بی ،بی،سی کے مطابق امریکہ نے کشمیرکے معروف جہادی
رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین احمد کو خصوصی طور نامزد کردہ
عالمی دہشت گرد قرار دے دیا ہے ۔انڈیا نے جہاں اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے
وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ردعمل میں اس اقدام کو مکمل طور پر
بلاجواز قرار دیا ہے ۔سید صلاح الدین انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حکومتی
افواج سے برسرپیکار سب سے بڑی کشمیری عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ
ہیں۔27جون کی شب میں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا
گیا ہے کہ انھیں ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے سیکشن ’’ون بی‘‘ کے تحت دہشت گرد
قرار دیا گیا ہے ۔یہ پابندی ان غیرملکی افراد پر عائد کی جاتی ہے جنھوں نے
امریکی شہریوں یا ملک کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی یا معیشت کے خلاف دہشت
گردانہ کارروائیاں کی ہوں یا ان سے ایسی کارروائیوں کا واضح خطرہ ہو۔یہ
اعلان وائٹ ہاؤس میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
کے درمیان ملاقات سے چند گھنٹے قبل کیا گیا۔محکمۂ خارجہ کے بیان میں کہا
گیا ہے کہ سید صلاح الدین نے ستمبر 2016 ء میں کشمیر کے تنازعے کے کسی
پرامن حل کا راستہ روکنے اور وادی میں مزید خودکش بمباروں کو تربیت فراہم
کرنے اور اسے انڈین فورسز کے قبرستان میں تبدیل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔بی
بی سی خبر کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ خصوصی طور پر نامزدہ کردہ دہشت گرد
قرار دیے جانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ نہ صرف امریکی شہریوں پر اب سید صلاح
الدین کے ساتھ مالیاتی لین دین پر پابندی ہوگی بلکہ ان کے امریکہ میں تمام
اثاثے بھی منجمد کر دیے جائیں گے ۔ سید صلاح الدین احمد کی عسکریت پسند
تنظیم حزب المجاہدین کئی دہائیوں سے کشمیر میں انڈیا کے خلاف آزادی کی جنگ
لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے ۔امریکی محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ صلاح
الدین کی سربراہی میں حزب المجاہدین نے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔
اعلان کے فوراََ بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بیان اپنا ردعمل دیتے ہو ئے
جہاں اسے بلا جواز قرار دیاوہی کشمیر سے پاکستان تک ہر فرد کی زبا ن پر ایک
ہی بات ہے کہ یہ نریندر مودی کو خوش کرنے کے اقدام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ یہ سب صرف ایک فرد کی خوشنودی کے لئے کر
سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے نہیں بلکہ امریکہ جان بوجھ کر اس طرح کے اقدامات
اٹھاتا ہے ۔امریکہ ایک ایسی طاقت ہے جس کے سینکڑوں چہرے ہیں ۔یہ کب کیسے
اور کس طرح اپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کا فیصلہ لیتی ہے سمجھنے میں عالمِ
اسلام نے بہت دیر کردی ہے ۔امریکہ کی پہلی اور آخری ترجیح دوسرے ممالک ہی
کی طرح امریکہ ہے اس کے بعد اس کے وہ سبھی حلیف ممالک جو اس کی بولی بولتے
ہیں ۔امریکہ روزِ اول سے اسرائیل کی پشت پر کھڑا رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ
فلسطین کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوا اور نا ہی مستقبل قریب میں اس کے حل
کے امکانات نظر آتے ہیں ۔آج بھی یہودی فلسطینیوں کے گھر گرا کر اپنی
کالنیوں میں توسیع کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور یہ سب کچھ پوری دنیا کی
آنکھوں کے سامنے جاری ہے ۔اسرائیل خود کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ صرف
امریکی فوجی اور معاشی قوت ہے جو اس کو اس قدر مظالم ڈھانے پر ہر دم تیار
اور متحرک رکھتی ہے ۔مسئلہ فلسطین سے پیدا شدہ تمام تر انسانی المیوں کی
ذمہ داری اسی امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے ہر سیاسی بین الاقوامی فورم پر
اس کی کھلی حمایت جاری و ساری رکھی ۔اسرائیل کے بعد اب کچھ عرصے سے امریکہ
بھارت کی پشت پناہی کرنے کے لئے آگے آ چکا ہے اور اپنی ستر سالہ ’’قدرے غیر
جانبدارانہ پالیسی‘‘کو پامال کرتے ہو ئے بھارت کے ملک بھرمیں اقلیتوں پر
بالعموم اور کشمیریوں پر بالخصوص مظالم کو جواز فراہم کردیا ہے ۔امریکہ روزِ
اول سے مسئلہ کشمیر کو’’ دو ممالک ‘‘کے بیچ تنازع قرار دیتا آیا ہے کہ
اچانک نریندر مودی کے دور سے قبل اس نے تحریک کشمیر کی ’’علامت‘‘سید صلاح
الدین احمد کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔
اہم اور قابل غور بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی لازوال دوستی میں
بھارت کی والہانہ شمولیت کواگر چہ ’’مسلمان دانشور‘‘اتحادِ ثلاثہ قرار دیتے
آئیے ہیں اوربھارت کے اسرائیل کے ساتھ کھلے مراسم اب کوئی ڈھکی چھپی بات
نہیں ہے ۔نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھا تب اسرائیلی ماہرین کی
گجرات آوا جاہی گر چہ معنی خیز تھی مگر 2000ء کے قتلِ عام کے بعد جب
مسلمانوں کی کھنڈرات میں تبدیل شدہ بستیوں سے آتشی مادہ کے ڈبے ’’میڈ اِن
اسرائیل‘‘ملے تو اسرائیلیوں کی گجرات آمد و رفت کا خلاصہ بھی ہوا ۔بھارت کے
لئے امریکہ کا یہ قدم اس کی اپنی سوچ کے مطابق انتہائی اہم ضرور ہے مگر
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسے بھارت کو اس کشمیر میں کیا حاصل ہونے والا
ہے جہاں بچہ بچہ اس کے خلاف پتھر اٹھا کر اس کے فوجی نوعیت کے حساس آپریشنز
تک کو ناکام بنا رہا ہے ۔بھارت کا کشمیر میں اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا
نہیں ہے اس لئے کہ کشمیر میں حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ اگر کل کو
’’عسکری تحریک پورے طور پر دب بھی جائے تو بھی کشمیر کی آزادی کی متمنی نئی
نسل تحریک کو ختم کرنے کے بالکل برعکس منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پر
عزم نظر آتے ہیں ۔
کئی برس قبل ہم نے کئی مضامین میں عرض کیا تھا کہ بھارت کی غیر فطری اور
جارحانہ پالیسی ایک روز اس کومکافاتِ عمل کی زد میں لاکر حریت اور جہادِ
کونسل کے بالکل برعکس کسی ایسی شدت پسند جماعت سے گفتگو پر مجبور کر دے گی۔
جو اس کی ایک بھی بات ماننے کو تیار نہیں ہوگی ۔سید صلاح الدین احمد کو
دہشت گرد قرار دینے سے پہلے خود بھارت کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان کی کشمیرسے
متعلق اپنائی گئی ظالمانہ پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اسلام پسند سیاست
دان سید محمد یوسف شاہ سے سید صلاح الدین احمد ہوگیا ۔1990ء سے قبل بھی
بھارت کی ریاستی پالیسی جبر و تشدد پر مبنی تھی نہیں تو شیخ محمد عبداﷲ
جیسے سیکولر سیاستدان کوآج کے حریت لیڈران یا عسکری تنظیموں سے وابستہ
حضرات کے برعکس جیل بھیجنا چہ معنی دارد؟پھر جب پر امن جدوجہد پر یقین
رکھنے والا ’’مسلم متحدہ محاذ ‘‘ وجود میں آیا توبھارت نے تمام تر شرافت و
انسانیت کو بالائے تاک رکھ کرخود ہی اپنی جمہوری اور سیکولر روایات کو
پامال کر ڈالا نتیجہ 1990ء میں عسکریت کی صورت میں ظاہر ہوا اور اب گذشتہ
اٹھائیس برس سے عسکریت بھارت کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہے جس کے عسکریت روحِ
رواں سید صلاح الدین احمد ہیں جس کو دہشت گرد قرار دینے پر بھارت بھر کی
ٹیلی ویژن چینلز بغلیں بجا رہی ہیں ۔
امریکہ کاسید صلاح الدین احمدکو’’بین الاقوامی دہشت گرد ‘‘قرار دینے سے
بھارت کو شاید انٹرنیشنل فورمز میں کچھ عارضی فائدہ حاصل ہو تو ہو مگر جس
کشمیر کی آبادی کو لیکر یہ پورا مسئلہ زندہ ہے اس میں اس ساری اچھل کود سے
کچھ بھی بگڑنے والا نہیں ہے بلکہ نوجوان نسل میں کچھ نئے حوالوں کو لیکر اب
وہ ’’ہیرو‘‘بنے ہوئے ہیں ۔امریکہ ایک بے مہار اور بے اصول ملک ہے جس کو آج
مجاہد اور آزادی پسند کہتے ہیں کل اسی کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ۔حزب
المجاہدین کے جولائی 2000ء میں سیز فائر کے اعلان پرNDAکولیشن سرکار کے تب
کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کیبنٹ کے وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی
نے بھی اس کو مثبت قدم قرار دیکر جنگ بندی کا اعلان کر کے حزب المجاہدین کو
مذاکرات کی دعوت دی تھی ۔نہرو گیسٹ ہاوس میں حزب المجاہدین کے کمانڈروں نے
مرحوم عبدالمجید ڈار کی قیادت میں کمل پانڈے کی سربراہی میں آئے حکومتی وفد
سے بات چیت کی ۔امریکہ اور اکثر یورپین ممالک نے اس وقت اس فائر بندی کی
حمایت کی تھی ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حزب المجاہدین تب بھی تو آج ہی جیسی
تھی پھر صلاح الدین اور اس تنظیم میں کیا بدلاؤآیا کہ امریکہ کو اسے کو
دہشت گرد قرار دینا پڑا ۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حزب المجاہدین حماس اور حزب اﷲ کی طرح
مقامی ایجنڈا کی حامل ایک مقامی جہادی تنظیم ہے۔ یہ عالمی خلافت کی قیام کی
قائل ضرور ہے مگر اسے یہ احساس بھی دامنگیر ہے کہ جب تک ہم بھارتی تسلط سے
آزادی حاصل نہیں کر سکتے ہیں تب تک بین الاقوامی ایجنڈے کی بات کرنا غیر
ضروری ہے ۔حزب المجاہدین یہ بھی جانتی ہے کہ خلافت ’’نعمتِ کبریٰ‘‘ہے مگر
اس کے احیاء کی کوشش بین الاقوامی سطح سے لیکر مسلم ممالک تک ہر سطح پر
ہونی چاہیے مگر ساتھ ہی یہ بھی سمجھتی ہے کہ یہ غلام قوموں کا نہ کام ہے نا
ہی وہ اس کے لئے عملی سطح پرکچھ کر سکتے ہیں سوائے یہ کہ وہ اس کے حق میں
مؤثرآواز اٹھائیں یا ’’آزاد مسلم ممالک ‘‘میں اس حوالے سے برسرِ جدوجہد
تنظیموں کی حمایت کرکے اپنا وزن ان کے حق میں ڈالیں ۔
حز ب المجاہد ین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ریاستِ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی
مقامی عسکری تنظیم ہو نے کے باوجود یہ ابتداء سے لیکر آج تک ان کمانڈروں کے
زیر اثر رہی ہے جوچند ایک غلطیوں کے باوجود خونِ ناحق ، سیاسی اختلافات پر
قتل اور غیر محارب عوام پر وحشیانہ حملوں کے قائل نہیں ہیں ۔حزب المجاہدین
جنگ کو ایک ضرورت سمجھتی ہے ہر وقت اور ہر حال میں جنگ ہی میں رہنا نہیں ۔جن
دانشوروں اور صحافیوں نے حزب المجاہدین کے بیانات کو باریک بینی سے گزشتہ
اٹھائیس برس میں مطالعہ کیا ہوگا انھیں ضرور اس بات کا ادراک ہوگا کہ حزب
کا تصورِ جنگ کیا ہے کہ وہ جنگ کے شوقین نہیں بلکہ بھارت کی ضد ،ہٹ دھرمی
اور بین الاقوامی برادری کی مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں پیدا شدہ انسانی
المیہ پردنیا کے امن پسند عوام کو متوجہ کرانے کے لئے بندوق اٹھائی تاکہ وہ
بھارت کو مسئلہ حل کرنے پر مجبور کرے اور آزادی کے بعد پھر ’’احیا ءِ خلافت‘‘
کے لئے جدوجہد کی باری آتی ہے نہ کہ ابھی جب آپ کو بھارت سانس لینے کا بھی
موقع فراہم نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بین الاقوامی برادری کی حمایت کے توڑ کے
لئے اسے دیگر اقلیتوں اور قوموں کے خلاف جنگ قرار دیکر آزادی کی جدوجہد
ہونے کی نفی کرتی ۔
حزب المجاہدین جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر و باہر ہے کہ ایک جہادی جماعت ہے
اس کے باوجود وہ ’’اقوام متحدہ‘‘کی قراردادوں پر عمل درآمد کی بات کرتی ہے
۔وہ عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ ،ہیومن رائٹس ،ریڈ کراس ،نیٹواور اُو ،آئی،سی
سے مسئلے کے حل میں مدد کا ذکر کرتے ہو ئے ’’اعتدال پسندی پر مبنی
روش‘‘اپنانے والی جماعت کے طور پر اپنا تعارف کراتی ہے ۔حزب المجاہدین حریت
کانفرنس کے پروگراموں کی تائید کر کے یہ باور کراتی ہے کہ وہ ناگزیر تشدد
کی منکر تو نہیں مگر غیر ضروری جنگ و جدال سے بھی پرہیز پر کار بند ہے ۔حزب
المجاہدین کی دھمکیوں کے باوجود یہ سچائی ہے کہ وہ خود کش بمباری پر یقین
نہیں رکھتی ہے ۔آج 30جون2017ء کو پورے اٹھائیس برس کی طویل اور پر مشقت جنگ
کے باوجود شدید اور سخت ردِ عمل کے شکار ہو نے کے برعکس حزب المجاہدین
کشمیر کے نوجوانوں کو ’’داعش‘‘سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہو ئے یہ بین
السطور یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ مسلم ممالک اور معاشروں کے ظالم حکمرانوں
اور سنگدل چودھریوں سے انتقام لیکر اینٹ سے اینٹ بجانے کی بھی قائل نہیں ہے
۔حزب المجاہدین نے ریاست سے باہر سواارب ہندوستانی بے گناہ شہریوں کو کبھی
نشانہ نہیں بنایااور نا ہی اس کی حوصلہ افزائی کی حالانکہ مقامی تنظیم ہو
کر وہ بھارت بھر میں دوسروں کے مقابلے میں انتہائی مؤثر کاروائیاں انجام دے
سکتے تھے ۔حزب المجاہدین کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کی داعی تو ہے ہی مگر
ساتھ ہی وہ’’ غیر ریاستی غیر مسلموں‘‘ کو عبادت سے روکنے کی بھی قائل نہیں
ہے بلکہ وہ ’’یاتریوں اور سیاحوں ‘‘کی کشمیر سیاحت کی حوصلہ افزائی کر کے
دوسروں کو برداشت کرنے کا بھی ثبوت دے چکی ہے ۔حزب المجاہدین نے کبھی بھی
مسلکی تشدد کی حمایت نہیں کی بلکہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہو ئے یہ
ثابت کردیا کہ بین المسلمین تفریق کے روادار نہیں ہیں اور تو اور حزب
المجاہدین میں جہاں سنی المسلک نوجوان شامل ہیں وہی شیعہ حضرات ہی نہیں
بلکہ کم ہی صحیح غیر مسلم نوجوانوں کو تنظیم میں شامل کر کے ان کے لئے ایک
الگ شعبہ بنا کر انہیں دفاعِ وطن کی جنگ میں شامل ہونے کی بھر پور حمایت کر
کے یہ ثابت کردیا کہ ان کے نزدیک ریاست کی دھرتی پر پیدا ہو نے والا ہر فرد
عزت و احترام کا مستحق ہے ۔
المیہ یہی ہے کہ اقوامِ عالم بشمول امریکہ حزب المجاہدین کے طریقہ جدوجہد
کی حوصلہ افزائی کے برعکس انھیں جان بوجھ کر مایوسی کے غار میں دھکیلنے کی
کوششوں میں بھارت کے ساتھ مصروف ہے تاکہ وہ بھی وحشیانہ طریقوں کو اختیار
کرتے ہو ئے اقوام عالم میں اپنی خوفناک تصویر بنا کر پورجدوجہد کی شکل و
صورت کو ہی مسخ کر دے ۔امریکہ اور اس کے نئے حلیف بھارت کی مشترکہ کوشش یہ
ہے کہ کشمیر کی تحریک کو دہشت گردی سے نتھی کراتے ہو ئے ہر ظلم و جبر کو
جواز فراہم کیا جا ئے ۔بھارتی فوجی سربراہ کے بیان سے ایک سال پہلے ہم نے
یہ عرض کیا تھا کہ بھارت کی ترجیحی کوشش یہ ہے کہ کشمیر کی ’’پر امن
تحریک‘‘کسی طرح ’’پرتشددراستوں‘‘پر چل پڑے تاکہ کشمیر میں نسلی صفایا کی
راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہو ۔بعد میں جنرل راؤت نے یہ بات کھل کر کہی
کہ کاش ’’پتھر باز‘‘پتھروں کے برعکس ہتھیار بند ہوتے تو ہم اپنی قوت کا
برپور مظاہرا کرتے ۔حزب المجاہدین ان تمام تر منصوبہ بندیوں سے گہری واقفیت
رکھتے ہو ئے ’’راہِ اعتدال ‘‘پر گامزن ہے اور اسی سے خار کھائی دلی اور
واشنگٹن انتظامیہ صلاح الدین احمد کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے حالانکہ اسے
بھارت کے پالے میں کچھ پڑنے کے بجائے حزب ہی کو فائدہ پہنچے گاجس کا بہت
بڑا ثبوت حافظ محمد سعید ہے جس کو نا صرف دہشت گرد قرار دیا گیا بلکہ بہت
بڑا انعام مقرر کر کے آپ اپنی بیہودہ پالیسی کا مذاق بنوادیا۔ |