احمقوں کی جنت

لگتاہے۔ایک بار پھر ان قوتوں کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔جو اگلے الیکشن میں اپنا منظور نظر سیٹ لانے کی متمنی تھین۔شاید یہ قوتیں الٹی گنتی کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہیں۔انہیں متواتر اندازے غلط ہونے کی اذیت کا سامنا ہے۔دوہزار تیرہ کے الیکشن کے دوران یہ قوتیں جس الجھن کا شکار تھیں آنے والے الیکشن کے سلسلے میں بھی وہی الجھن درپیش ہے۔تب نواز شریف کو کسی بھی طریقے سے روکنے کے لیے جتن کیے جارہے تھے۔اب بھی وہی مصیبت چمٹی ہوئی ہے۔تب خاں صاحب کو انداز حکمرانی سمجھانے کے لیے ایک لمبا چوڑا وقت لگایا۔مگر بات نہ بنی ۔کینیڈاسے ایک شخص کو منگواکر خاں صاحب کی مزید تربیت کا وقت حاصل کرنے کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔جس کے سبب جنرل الیکشن میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔اس شخص کو برداشت کرنا پڑا جس کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کا ذہن بنالیا گیاتھا۔اب جب کہ نئے الیکشن سر پر ہیں۔ایک بار پھر یہ قوتیں تہی دامنی کی شکارہیں۔اس بار بھی وہ کوئی ایسا سیٹ اپ تیار نہیں کرپائیں۔جس پر صد فی صد اطمینان ہو۔وقت کم دیکھتے ہوئے ایک بار پھر تحریک انصاف پر دست شفقت رکھنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ جس طرح سے پنچھی ایک بار پھر تحریک انصاف کا رخ کررہے ہیں۔اس بات کی دلیل ہے کہ ایک بار پھر خاں صاحب کی نئے سرے سے تربیت کا فیصلہ کیا گیاہے۔

پی پی کے چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے پارٹی کے جانے والے لوگوں کو گندے انڈے قرار دیا ہے۔یہ وہی گندے انڈے ہیں جنہیں زردای صاحب نے سینے سے لگائے رکھا ۔جو گئے وقتوں میں ان کے واقفان حال تھے۔ن کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان میں سے کسی کو وزیر اطلاعات بنا دیا۔او رکسی کو وزیر پیداوار۔او ر کسی کو کسی ادارے کا سربراہ۔آج یہ لوگ گندے انڈے قر ار پائے ہیں۔شاید ان لوگوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا زرداری صاحب صرف اور صرف اپنا ہی حق سمجھتے ہیں۔چاہتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھاپائے۔ا ب ان لوگوں کے تحریک انصا ف میں شمولیت کے بعد ان کی خوبیاں خامیاں بن چکیں۔جانے اگلے کچھ دنوں میں اور کتنے لوگ ادھر سے ادھر اورادھرسے ادھر ہونگے۔ان کے بارے میں تحریک انصاف او رپی پی قیادت کا جانے کیا رد عمل ہوگا۔فی الحال پنچھی اڑان کے اس فیز میں پی پی کو ایک بڑا جھٹکا لگاہے۔وہ افواہیں سچ ثاتب ہوئیں۔جو کچھ عرصے سے میڈیا میں گردش کررہی تھی۔کہا جارہا تھاکہ پی پی میں سے ایک بڑا گروپ تحریک انصاف چھوڑرہا ہے۔اس گروپ میں شامل کچھ نام چونکا دینے والے تھے۔کوئی یقین کرنے پر آمادہ نہ تھا۔مگر اب یہ تمام افواہیں سچ ثابت ہورہی ہیں۔قریبا وہ سبھی لو گ جن کے نام اس گروپ میں شامل تھے۔پارٹی چھوڑ چکے۔لسٹ میں سے اکا دکا لوگ اب بھی پی پی میں شامل ہیں۔وہ اب بھی پارٹی وفاداری کے حلف دے رہے ہیں۔مگر اس طرح کی تسلیوں کی وقعت یوں کچھ نہیں کہ جانے والے بھی اسی طرح کی قسمیں اور وعدے دیا کرتے تھے۔زرداری صاحب ان کے جانے کی پرواہ کیے بغیر اب بھی اگلے الیکشن میں فتح کے لیے پرامید ہیں۔کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے پی پی قائد کا کہنا تھا۔کہ اگلے الیکشن کی تیاری کریں۔پی پی اگلے الیکشن میں پورے ملک سے کامیابی حاصل کرے گی۔

پرندوں کی اس نئی جہت نے ایک بار پھر ہماری قومی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کو عیاں کیاہے۔یہ اڑانیں زرداری صاحب کی ناکامی کا ثبوت تو ہیں۔مگر کیا اس سے تحریک انصاف کی کامیابی کابھی کوئی پتہ چلتاہے۔کیاخاں صاحب جو سنہرے خواب قوم کو دکھارہے ہیں۔زرداری صاحب کے گندے انڈے ان کی تعبیر دے پائیں گے۔کیا اس طرح کا کچر ہ اکٹھا کرکے تحریک انصاف نیا پاکستان بنانے کا عزم رکھتی ہے۔پھر سب سے بڑھ کر وہ بادشاہ گر قوتیں جو اگلے پانچ سالوں کے لیے اپنے تابعداران کی ایک ٹیم ترتیب دے رہی ہیں۔ان کی کامیابی کا کیا یہی معیار رہ گیاہے۔وہ ریاست کے وسیع تر مفاد کی گردان الاپتے ہیں۔مگر ریاست کو چلانے کے لیے جو سیٹ اپ مسلط کرتے ہیں۔وہ ریاست کی تباہی کاموجب بنتارہاہے۔ متوازی حکمران کسی طور پسپائی پر آمادہ نہیں۔کبھی انہیں منہ چھپائی کی حاجت ہوا کرتی تھی۔ا ب یہ تکلف بھی نہیں رہا۔سراپا گند اکٹھاکرکے اسے قوم پر مسلط کیا جارہا ہے۔یہ تجربہ کامیاب ہوسکتاہے۔کچھ لوگوں کو اگلے الیکشن مین جتوادیا جائے گا۔مگر ا س طرح کی پریکٹس کا انجام کیا ہوگا۔ہم اس طرح کی پریکٹس کے سبب قدم بقدم نیچے آرہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پستی کی کوئی حد بھی ہو گی کہ نہیں۔دراصل اس طرھ کے کچرے کو مسلط کرنے کا مقصد اگلے کچھ سالوں کی موجوس کا تصور ہے۔یہ کچر ا جو گند مچائے گا اس کی بنیاد پر اس سے چھٹکارہ پانے کا بہانہ ہاتھ آئے گا۔نئے لوگ اکٹھا کرنے کا موقع ہاتھ آئے گا۔نئے لوگ نئے نام او رنئی پارٹی۔بادشاہ گر قوتیں ایسے ہی سیٹ اپ کو پسند کرتی ہیں جو ناپائیدار ہو۔جس کی کوئی وقعت نہ ہو۔کوئی پہچان نہ ہو۔زردار ی صاحب اب بھی اگلے الیکشن میں فتح کے خواب دیکھ رہے ہیں۔حضرت آپ نے پچھلے الیکشن کے نتائج کی بنیاد اپنے دور حکومت میں رکھی تھی۔اور اگلے الیکشن کے نتائج آپ کی اپوزیشنی کے معیار سے جڑی ہوئی ہے۔کیا آپ نے حزب اختلاف کا کوئی قابل فخر کردار نبھایاہے۔جس سے آپ کو اگلی حکومت بنانے کی کوئی تاویل مل سکے۔تحریک انصاف تو ایک حادثاتی جماعت تھی۔وہ تو ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کھڑی کی گئی۔مگر پی پی کا ایک عظیم او رمضبوط ڈھانچہ آپ نے اپنی مفاہمتی سیاست سے غیر مؤثر کر کے رکھ دیا۔اپوزیشن میں رہنے کے باوجود آپ کو حق بات کرنے کی ضرور ت پیش نہ آئی۔کسی ایشو پر کوئی وزنی دلیل نہ پیش کی گئی۔بجائے آپ اپنی حکومت کی غلطیوں کی تلافی کی تدبیر کرتے ۔آپ اس بد ترین حکومت کو مثالی اور لاجواب قرار دینے کی کوتاہی کے مرتکب ہوئے۔آپ نے اپنی مخصوص سیاست سے پی پی سے پچھلا الیکشن گنوادیا۔اور اب اگلا الیکشن بھی اسی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔اگلے الیکشن میں اپنے اپنے گھوڑے اتارتے۔زرداری صاحب ۔خاں صاحب اور بادشاہ گر پرامید ہیں کہ میدان مار لیا جائے گا۔خالی ہاتھ۔میدان مارنے کی تمنا پالنے والے اور کند تلواروں سے فتح یابی کے خواب دیکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔اس جنت میں خواب ہمیشہ خواب ہی رہتے ہیں۔حقیقت کبھی نہیں بن پائے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.