سانحۂ احمد پور شرقیہ کے اسباب اور ذمہ داران

وطن ِ عزیز ستر برس کا ہوچکا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک سن ِ بلوغت سے باہر نہیں نکل سکا۔جس کی بڑی وجوہات میں تنقیدی اور منفی سوچ کارفرما ہے اور یہی ہمارے معاشرے کے اندر اس قدر مضبوط جڑیں گاڑ چکی ہے کہ ہمیں دوسروں کااچھا کام بھی آنکھوں کو کھٹکتا ہے۔قانون ِ حساب کی رُو سے ان تنقیدی و منفی سوچوں نے تعمیری اور مثبت سوچوں کو منفی سے ضرب دے کر صفر کے ہندسے سے بھی کم درجے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔عیدالفطر سے ایک دن قبل یعنی اُنتیس رمضان المبارک کو جنوبی پنجاب کے ضلع بہالپور میں آئل ٹینکر میں آتش زدگی کا روح فرسا واقع پیش آیا جس میں تاحال 209 لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور اسی تعداد کے نصف زخمی حالت میں زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں۔ یہ واقعہ ضلع بہالپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے قریب اُس وقت پیش آیا جب ڈھائی ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرا ٹینکر قومی شاہراہ پر اُلٹ گیا۔ جیسا کہ ہماری قوم کے خون میں فطری طور پر یہ خوبی رس بس چکی ہے کہ حادثات اور سانحات کے وقت امداد اور نظارے کی غرض سے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے جن کو ماہرین عمرانیات ’’اتفاقی ہجوم‘‘ کا نام دیتے ہیں۔پس یہ حادثہ ہوتے ہی قرب و جوار کی بستی کے لوگ آئل ٹینکر کے قریب جمع ہوگئے، چوں کہ حادثہ قومی شاہ راہ پر پیش آیا تھا تو پھر رواں دواں ٹریفک بھی رُک گئی۔ ایک اندازے کے مطابق کوئی اسّی ، نوے کے قریب موٹر سائیکل سوار اور پانچ سے دس گاڑیوں کے مسافر اسی ’’اتفاقی ہجوم ‘‘ کا حصہ بنے۔اسی اثناء موٹر وے پولیس کی پیٹرولنگ ٹیم بھی جائے وقوع پر پہنچی،جنہوں نے ہجوم کو خطرے سے متعلق بتایالیکن ہجوم اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے پولیس کی ایک نہ سُنی۔اور ٹینکر سے رَس والے پیٹرول بموں کو شاپنگ بیگوں ، بالٹیوں اور بوتلوں میں جمع کرنے میں مصروف رہے۔یہ سارا عمل کوئی چالیس منٹ تک جاری رہا کہ پھر ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی اور ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس نے ’’اتفاقی ہجوم ‘‘ سمیت شاہراہ پر گزرتے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور عید الفطر کی خوشیاں دیکھنے سے قبل قیامت ِ صغریٰ برپا ہوگئی۔ ہلاکتوں میں اضافے کی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ یعنی قرب و جوار کی بستی کے لوگ ، قومی شاہراہ پر گزرنے والے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے مسافر‘جو گاڑیاں پارک کرکے ہجوم کا حصہ بنے تھے اور شاہراہ پر رواں دواں راہ گزرسانحہ کا شکار ہوئے۔

حادثہ رونما ہوا‘ ہم نے اپنی ستر برس سے پھلنے پھولنے والی تنقیدی و منفی سوچوں کے نشتر چلانا شروع کئے۔ حالاں کہ تعمیری اور مثبت سوچ کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم اس دردناک اور اَلم ناک سانحے کے اسباب کی کھوج لگاتے اور مستقبل میں ان سے بچاؤ کے لئے سر جوڑ کر حل تلاش کرتے ۔ بدقسمتی سے ہم ایسی سوچوں سے عاری قوم ہیں۔ مجھے انتہائی افسوس اور کرب سے لکھنا پڑرہاہے کہ ایسے سانحات کہ ذمہ دار ہم سب پاکستانی ہیں۔حکمرانوں سمیت حزبِ اختلاف کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ افراد ، اہل ِ قلم و دانش اور سول سائٹی تمام ذمہ داروں میں شامل ہیں۔آج حزب ِ اختلاف میں بیٹھے لوگ ‘ کل کسی حکمران جماعت کا ضرور حصہ رہے ہوں گے کیوں کہ یہاں جماعتیں بدلنا ‘ موسم بدلنے کے مصداق ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اہل ِ قلم و دانش نے ایسے حادثات سے ممکنہ بچاؤ کے لئے ماضی میں کتنا کچھ لکھا ہے ؟ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا جو اشتہارات کی مدّ میں لاکھوں ، کروڑوں کماتی ہیں انہوں نے کتنی آگاہی مہمیں اَب تک چلائی ہیں۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص حزب ِ اختلاف نے گزشتہ چار سال سے زائد عرصہ میں حصول ِ اقتدار یا حکومت کو گرانے میں ( جو کہ ہماری پُرانی ریت ہے )دھرنے دیئے ، جلسے اور جلوس نکالے، کیا انہوں نے ایسے حادثات کی رُک تھا م کے لئے کو ئی ایک مہم ، جلسہ یا تقریر کی ؟مجھے مزید افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ ہماری اسلام کے نام پر قائم سیاسی جماعتوں نے بھی اس ضمن میں کو ئی کام نہیں کیا ہے۔

ہم صرف حادثات اور سانحات کے بعد تحصیل ہسپتالوں کی حالت ِ زار کا راگ الاپتے ہیں۔ میری ناقص معلومات کے مطابق اس وقت ملک بھر کی کسی بھی تحصیل میں بیک وقت تین سو زخمیوں یا مریضوں کے انتظام والا کوئی ہسپتال موجود نہیں ہے تو پھر ہم تحصیل احمد پورشرقیہ کے ہسپتال اور وہاں سہولیات کے فقدان کا رونا کیوں روتے ہیں۔میری معلومات کے مطابق ملک بھر میں گنتی کے بَرن سنٹر موجود ہیں تو پھر ہم وکٹوریہ ہسپتال بہالپور کو کیوں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہ سب ہماری نااہلی اور تنقیدی و منفی سوچوں کا نتیجہ ہے۔ خدارا! ان سوچوں کو تبدیل کریں اور اپنی کوتاہیوں کا ادراک کھلے ذہنوں سے کرتے ہوئے سانحے کے بعد پاک فوج کے جوانوں ، حکومت ِ پنجاب اور رضاکاروں کوخراج ِ تحسین پیش کریں جنہوں نے زخمیوں کو بچانے کے لئے اپنی حتیٰ الوسع کوششیں کیں اور زخمیوں کو ایک شہر سے دوسرے شہروں میں منتقل کیا۔ اور ساتھ میں یہ عہد بھی کریں کہ ہم نے مل کر پاک سرزمین کی موجودہ حالت ِ زار کو سنوارنا ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 265773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.