لال مسجد آپریشن اور اثرات

لال مسجد آپریشن غلطی نہیں دشمنوں کے زرخرید غلام کاملک میں دہشتگردی پھیلانے کےلیے سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کے برے اثرات سے آج تک قوم باہر نہ آسکی،آپریشن سے جہاں مذہبی حلقوں کے خلاف عالمی سطحی پر منفی رائے وجود میں آئی وہی پر میدان جہاد میں سرگرم بعض محب وطن گروپوں میں سے جوق درجوق باغی نکل کر را موساد اور امریکی سی آئی اے کے آلہ کار بن گئے. دشمنوں کو بھر پور موقع ملا کہ وہ لوگوں کو ورغلا کر وطن عزیز پاکستان کیخلاف استعمال کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو دہشتگردوں کی جنت قرار دینے میں کامیاب ہوجائیں.

لال مسجد آپریشن کے بعد سے ملک میں دہشتگردی کی ایسی لہر دوڑی کہ جس میں ہزاروں معصوم لوگوں کی جانیں گئی. ہزاروں بچے یتیم مائیں بیوہ ہوگئی دشمن ملک کی ایجنسیوں نے لال مسجد کے آپریشن کو لیکر وہ کھیل شروع کیا کہ الحفیظ و الامان سب سے زیادہ محب وطن اور ملک سے مخلص مذہبی طبقہ ایسا بدنام ہوا کہ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی سے آتے ہوئے سوزوکی پر چھڑتے منہ سے حسب عادت اللہ اکبر کی صدا بے اختیار نکل گئی... یکایک یہ سنتے ہی گاڑی میں سوار مرد خواتین گاڑی سے اترنے لگے میں سمجھ گیا کہ یہ مجھے خودکش حملہ آوور سمجھ رہے ہیں پھر میں نے سمجھایا بھائی میں کوئی خود کش نہیں ایک اللہ کا بندہ ہوں جسے چھڑائی کے دوران اللہ اکبر کہنے کی عادت ہے.

اتنا خوف وہراس کے شہر قائد میں داڑھی ٹوپی انتہائی مشکوک ہوگئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ جتنے بھی دہشتگرد پکڑے گئے یا مارے گئے ان میں سے بہت کم. لوگوں کی شکل دینداروں جیسی تھی بلکہ اکثر کا تعلق عصری اداروں سے پایاگیا.

سانحات درسانحات کے دروازے کھلتے گئے دہشتگرد مضبوط اور ملک کمزوری کی طرف جانے لگا. پھر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے آپریشن شروع ہوگیا اس میں بھی دیندار طبقے کو سب سے زیادہ نشانہ آئے روز داڑھی ٹوپی والے لوگ ٹی ٹی پی اور دہشتگردوں کے نام پر مارے گئے بہت سے پٹھان دوست بھی قربان ہوئے.

یہاں مذہبی لوگوں کی مرمت ک سلسلہ شہر در شہر جاری تھا تو ادھر عالمی دشمن طاقتیں بالخصوص بھارت تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے اپنے کارندوں کو ملک میں پھیلانے میں مصروف تھے اور یہ خیال مضبوط سے مضبوط تر ہوتاجارہاتھا کہ داڑھی ٹوپی دہشتگردوں کی علامات ہے.

قریب تھا عالمی طاقتیں اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی سے ہم کنار ہوجاتی مگر پاک فوج نے بلاتفریق آپریشن کا اعلان کردیا فوج سرحدوں سے نکل کر رینجرز کی صورت میں شہروں میں آگئی پھر بھی یہ سلسلہ نہ رکا بعض سیاسی قوتوں نے اس آپریشن کا رخ بھی مذہبی طبقے کی طرف موڑنے کی. کوشش کی بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد بلوچستان سے ملنے کے باوجود جمہوری حکومت اس کے خلاف بات کرنے سے کتراتی دیکھائی دی نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا دہشتگردی کا ذمہدار مذہب ومدارس اور علماء کو قرار دینے میں مصروف ہوگیا.مذہبی لوگ بالخصوص وہ مکتبہ فکر جو جہاد افغانستان میں پاک افواج اور اداروں کے شانہ بشانہ تھا اور وہ جس مکتبہ فکر سے مولوی عبدالعزیز اور لال مسجد کا تعلق ہے اس مکتبہ فکر کے خلاف بھی ایسے حالات پیدا کیے گئے تجزیے کئے گئے کہ قریب تھا کی اداروں کو مجبوراً ایکشن میں آنا پڑھتا مگر اسی مکتب ایک جری سیاستدان کی آواز نے تمام سازشوں کو ناکام کردیا اور دشمن سمجھ گئے کہ یہ جب تک ہے پاکستان کے مضبوط مکتب فکر کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنا ناممکن ہے پھر اسی کو قتل کرنے کے لیے کئیں کوششیں کی اللہ تعالی نے اس کی حفاظت فرمائی. پھر شیعہ سنی اختلاف اور اقلیتوں کو لڑوانے کی سازش کی گئی. ایسی مذہبی اقلیتی عبادتگاہوں کوبھی نشایاگیا.جن کی عدم تشدد کی مثالیں دی جاتی ہیں.پھر ملک دشمن ایجنسیوں کے نیٹ ورک مظبوط ہوگئے حتی کہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر بھی فنڈنگ کے الزامات لگے.

اچانک خبر آئی کہ پشاور میں ایک اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کرکے 125سے زائد معصوم مستقبل کے معماروں کو خون میں نہالاکر درسگاہ کے تقدس کو پامال کرکے ظلم کی بدترین مثال قائم کردی ہے اس حالت پر ہر آنکھ کو اشکبار دیکھا ہر. دل غموں میں ڈوب گئے ایک ایسی مایوسی پھیل گئی.

مستقبل کے معماروں کے خون نے قوم کو متحد کردیا اور دہشتگردی کیخلاف متفقہ رائے قائم ہوگئی پارلیمنٹ نیشنل ایکشن پلان کے نام سے دہشتگردوں کیخلاف قانونی طور پر بل بھی پیش کیا گیا اس میں بعض شقوں میں کچھ نادیدہ سیاسی قوتوں نے مذہب کو ہی دہشتگردی کا ذمہدار ٹہرانے اور مذہبی لوگوں کیخلاف قانون میں جول پیدا کرنے کی کوشش کی مگر مذہبی جماعتوں بالخصوص فضل الرحمن صاحب نے بھرپور احتجاج کیا ترمیم تو نہ ہوئی البتہ آپریشن رخ متعین ہوگیاکہ اب بلاتفریق آپریشن شروع ہوگیا اوریوں راحیل شریف کی سربراہی میں پاک فوج نے دہشتگردوں کا قلع قمہ کیا جو کامیابیاں سمیٹتے چلے گئے وہ شہر جہاں خوف کاراج تھا وہاں امن قائم ہوگیا لال مسجد واقعے کے بعد فوج اور عوام میں جو نفرت کے بیچ بونے کی کوشش کی گئی تھی اب وہ بیچ ناکارہ ہوتے چلے گئے اور ملک کے کونے کونے سے دہشتگرد پکڑے اور مارے گئے اور غیر ملکی دشمن ایجنسیاں اور.پڑوسی بے نقاب ہوگئے اگر 9\11کے بعد لال مسجد کا افسوسناک سانحہ رونما نہ ہوتا اور ڈکٹیٹر مشرف بے گناہ معصوم بچوں اور اللہ کے گھر پر پاک فوج کا استعمال نہ کرتا تو یہ دہشتگردی کی جنگ پاکستان پر مسلط کرنا ناممکن تھا اس لیے جنگ کے تسلط اور بغاوت کو اٹھانے کے لیے ضروری تھا اندر آگ بھڑکائی جائے تب ہی تو ایک پرامن احتجاج کا اختتام خون ریز ہوا بے گناہ اور بے قصوروں کو اسلحہ خود رکھ کر قومی دباؤ سے بچنے کےلیے مجرم قرار دینا پڑا

M Nazir Nasir
About the Author: M Nazir Nasir Read More Articles by M Nazir Nasir: 8 Articles with 8329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.