ملک کی ستر سالہ تاریخ میں اپنی نوعیت کے اہم کیس پاناما
لیکس سے متعلق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاناما کیس کی مزید تفتیش کے لیے
عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں قائم کی گئی جے
آئی ٹی اپنی کارروائی مکمل کر رہی ہے۔ ملک بھر کی تمام نظریں پاناما کیس کی
تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی اور شریف خاندان پر ہی مرکوز ہیں۔ روز پیشیاں
ہورہی ہیں۔اب تک وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں
محمد شہباز شریف، وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز، حسن نواز، نواز شریف کے
داماد ریٹائر کیپٹن صفدر، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور طارق شفیع بھی جے آئی
ٹی میں پیش ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز بھی جے آئی ٹی میں
5جولائی کو پیش ہو ں گی۔ پاناما جے آئی ٹی نے وزیر اعظم نواز شریف کے کزن
طارق شفیع سے بھی تفتیش مکمل کرلی گئی ہے۔ طارق شفیع نے مبینہ طورپرگلف
اسٹیل ملزکی فروخت کے بعد 12 ملین درہم قطری شاہی خاندان کے حوالے کیے تھے۔
طارق شفیع اتفاق فاؤنڈریز کا حصہ رہے اور شریف خاندان کے دبئی میں کاروبار
کی دیکھ بھال کرتے رہے ہیں،وہ شفیع گروپ آف کمپنیز کے ڈائریکٹر ہیں، وہ
شوگر ملز،اسٹیل ملز اور پولٹر ی فیڈزکے پیداواری یونٹ چلاتے ہیں۔ طارق شفیع
شریف خاندان کی دوبئی اسٹیل ملز میں شراکت دار تھے اور ملز کی فروخت کے
معاہدے پر بھی ان کے دستخط ہیں، سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران درخواست
گزاروں اور عدالت نے طارق شفیع کے حلفیہ بیانات میں دستخطوں میں مماثلت نہ
ہونے کی نشاندہی کی تھی۔گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی پاناما
پیپرز کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں کی
تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے
آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے۔ جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد وفاقی وزیر خزانہ
میڈیا کے سامنے جے آئی ٹی اور سربراہ پی ٹی آئی عمران خان پر کافی برہم
دکھائی دیے۔پیشی کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 30 سال سے ملک میں تماشہ لگا ہوا ہے اور
مشرف کے زمانے میں جھوٹ اور بدنیتی کی بنیاد پر مختلف ریفرنسز بنائے گئے
تھے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور حکومت کے خلاف ایک پیسے
کی کرپشن کا الزام نہیں، وزیراعظم اور حکومت کے خلاف سازش ہورہی ہے، کیونکہ
ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی
ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ
عمران خان بنیادی طور پر خوفزدہ شخص ہیں، جس نے اپنی شادی چھپائی۔ جس پر
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر شریفوں
نے جشن منایا اور پیشی کے بعد ماتم، چہرے سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ نون لیگ جے
آئی ٹی کی تشکیل پر منایا گیا جشن اتنی جلدی بھول گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ
جے آئی ٹی کی تشکیل پر ان لوگوں نے فتح کے نشان بنائے اور مٹھائیاں تقسیم
کیں لیکن اب جے آئی ٹی قابو نہیں آرہی تو اسے بدنام کرنے کے لیے زور لگایا
جارہا ہے۔ پاناما کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے وزیراعظم میاں محمد
نواز شریف کے اہل خانہ کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات کی تصدیق کے
لیے برطانیہ کی ایک قانونی فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں، جبکہ مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے شریف خاندان کی تمام کمپنیوں کا
ریکارڈ مانگ لیا ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو لکھے گئے خط میں
شریف خاندان کے بارے میں 19 کمپنیوں کی تفصیلات مانگی گئیں۔ جے آئی ٹی کی
جانب سے لکھے گئے خط میں شریف خاندان کی کمپنیوں کے1980 سے اب تک کے قرضوں،
شریف خاندان کی کمپنیوں کے ذمہ واجب الادا قرضوں کی موجودہ پوزیشن کے بارے
میں تفصیلات مانگی گئی ہیں، اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے اسٹیٹ بینک سے شریف
خاندان کے معاف کیے جانے والے قرضوں، ری شیڈول کروائے جانے والے اور
سیٹلمنٹ کے بارے میں ریکارڈ سمیت شریف خاندان کے ممبران کے ساتھ ساتھ
کمپنیوں کے تمام ڈائریکٹرز کے بارے الیکٹرانک کریڈٹ انفارمیشن بیورو سے
متعلق بھی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ جب 20اپریل کو جب سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججوں پر مشتمل بنچ
نے طویل سماعت کے بعد پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لیے ایک جوائنٹ
انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)کی تشکیل کا حکم جاری کیا تو اس ہائی پروفائل
کیس کے دونوں بڑے فریق یعنی وزیر اعظم نواز شریف، ان کا خاندان اور پاکستان
تحریکِ انصاف کے عمران خان، نہ صرف مطمئن بلکہ خوش بھی تھے۔ اس وقت وزیر
اعظم، ان کے خاندان، وفاقی وزرا اور پارٹی رہنماؤں کی طرف سے اس فیصلے پر
مبارک بادوں کا تبادلہ کیا گیا اورایک دوسرے کا منہ بھی میٹھا کروایا گیا،
لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے کام کرنے کے
حوالے سے ہر طرف سے متنازعہ بیانات کا جو سلسلہ شروع ہو گیا۔ حکومت کی طرف
سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے جے آئی ٹی کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ پی ٹی
آئی نے حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے جے آئی ٹی
کو متنازعہ بنا رہی ہے۔ خود جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ سے شکایت کی ہے کہ اس
کے کا م میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔خود جے آئی ٹی کی نگرانی کرنے والے
سپریم کورٹ سپیشل بنچ کے ایک فاضل رکن نے حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ
جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے خلاف ایک سوچی سمجھی اور مسلسل مہم چلا رہی ہے۔
20 اپریل کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے پاناما لیکس
کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں
جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی، جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ
جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش
کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس
اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین
رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔
جوں جوں تحقیقات کے اختتام کی مدت قریب آرہی ہے، ملک کی سیاست میں گرماگرمی
بڑھ رہی ہے اور شریف فیملی کی پریشانی اور پی ٹی آئی اور دیگر حکومت مخالف
جماعتوں کی خوشی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ حکومت بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ
جے آئی ٹی میں ہم سرخرو ہوں ،مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کے
ارکان کے لہجے صاف بتارہے ہیں کہ وہ پریشانی میں ہیں۔ حکومت کے ارکان کی
جانب سے کئی بار جے ٹی آئی پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے جاچکے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کو معلوم ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آئے گا،
اسی لیے وہ بار بار جے آئی ٹی پر الزامات لگا کر اسے متنازع کر رہے ہیں
تاکہ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں عوام کے سامنے مظلوم بننے کے لیے یہ کہہ
سکیں کہ جے آئی ٹی پہلے ہی ہمارے خلاف تھی، اس لیے فیصلہ ہمارے خلاف دیا
گیا ہے، حالانکہ جب 20اپریل کو جب سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججوں پر مشتمل
بنچ نے طویل سماعت کے بعد پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لیے ایک جوائنٹ
انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)کی تشکیل کا حکم جاری کیا تو اس وقت تمام فریق
خوش تھے۔ اب بھی دونوں کو جے آئی ٹی پر اعتماد کرنا چاہیے۔ پاناما کیس کی
تحقیقات ایک قانونی معاملہ ہے۔ اصولی طور پر اسے قانونی انداز میں دیکھا
جانا چاہیے اور اس پر قانونی انداز میں ہی بات کی جانی چاہیے۔ اس کیس پر
سیاسی بیان بازی نہیں ہونی چاہیے۔ جے آئی ٹی کے ارکان سیاست دانوں کی طرح
بیان بازی نہیں کر سکتے، جب کہ سیاست دان اس معاملے میں آزاد ہیں، اس لیے
میڈیا میں ان کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ بلاشبہ پاناما کیس کی تحقیقات
آئین وقانون کی روشنی میں ایمانداری اور غیرجانبدارانہ انداز میں ہونی
چاہیے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو پیش ہونے والوں کا بھی فرض ہے کہ وہ جے آئی
ٹی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بیان بازی نہ کریں۔یہ عمل مکمل شفافیت کے ساتھ
قطعی غیرجانبدارانہ طریقے سے انجام تک پہنچا تو فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو
زندگی کے تمام شعبوں پر ہر قسم کی بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے ا
سکے نہایت مثبت اور دور رس ثرات مرتب ہوں گے۔
اب پوری قوم اس فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔ پوری قوم یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ
پہاڑ کھود کر نیچے سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ کیا نواز شریف صاحب اس تحقیقات کے
نتیجے میں نا اہل ہوجائیں گے یا پھر انہیں معصوم اور بے گناہ قرار دے دیا
جائے گا۔ حکمران جماعت کے ارکان بار بار یہ بات کر رہے ہیں کہ کے آئی ٹی
میں ہم فاتح قرار پائیں گے، لیکن حکومت مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ شریف
فیملی بری طرح پھنس چکی ہے، جے آئی ٹی سے ان کا بچ نکلنا محال ہے، یہی وجہ
ہے کہ شریف فیملی کے تمام ارکان اور حکمران جماعت کے تمام نمائندے انتہائی
زیادہ پریشان نظر آرہے ہیں۔ شریف فیملی کا جو بھی ممبر جے آئی ٹی کے سامنے
پیش ہوتا ہے، بعد میں آکر جے آئی ٹی کے خلاف بیانات دینا شروع کردیتا ہے۔
ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اسی لیے وہ جے
آئی ٹی کے خلاف بیانات بھی دے رہے ہیں، جبکہ مسلم لیگ کے رکن نہال ہاشمی نے
تو جے آئی ٹی کے ارکان کو دھمکیاں تک بھی دی ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
حکمران جماعت شدید پریشانی کا شکار ہے۔ جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر
جے آئی ٹی کی تحقیقات مکمل ہونے پر سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں مجرم
گردانتے ہوئے نااہل قرار دے دیا گیا تو بھی صرف وزیراعظم ہوں گے اور نواز
شریف صاحب کی جگہ جو بھی وزیر اعظم آئے گا وہ ن لیگ ہی سے ہوگا۔ اگر نواز
شریف کو کوئی سزا سنائی جاتی ہے تو بھی وفاق میں ان کی ہی حکومت ہوگی اور
ممکن ہے نواز شریف صاحب اپنے عربوں کے تعلقات کی وجہ سے کسی بڑی سزا سے بھی
بچ جائیں۔ اگر اس کے برعکس ہوا اور نواز شریف صاحب کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت
میسر نہ آنے کی بنا پر انہیں تمام الزامات سے بری کرکے کلین چٹ دے دی گئی
تو پھر اگلے الیکشن میں مسلم لیگ کو ایک اور نعرہ مل جائے گا۔ |