بسم اﷲ الرحمن ارحیم
(7جولائی،یوم شہادت پرخصوصی تحریر )
امت مسلمہ اس لحاظ سے ایک جداگانہ ملت ہے کہ اس کے تناور درخت کی آبیاری
شہداکے مقدس خون سے ہوتی رہی ہے۔غزوہ بدرسے غزوہ ہندتک،قربانیوں کی طویل
داستان ہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے اورجب تک چراغ مصطفوی سے شراربولہبی
ستیزہ کاررہے گا، یہ مشق ستم جاری رہے گی۔ آسمان گواہ ہے کہ دورعروج سے
غلامی کی زنجیروں کے دوران تک شہداکے پنگھوڑوں کو جھولا دینے والی مقدس
ماؤں کی کوکھ کبھی بنجر نہیں ہونے پائی اور کربلاسے کشمیرتک سرخ اور نوجوان
خون نے توحید کی امانت داری کاحق اداکیاہے۔امت مسلمہ کے شہدا قرآن مجید کی
اس آیت کی عملی تفسیر بنتے ہیں کہ ’’اﷲتعالی کے راستے میں مارتے ہیں اور
مارے جاتے ہیں‘‘اور پھر موت سے ہم آغوش ہوکر حیات جاودانی کے مالک بن جاتے
ہیں جن کے بارے میں خالق کائنات نے خود کہاکہ ’’انہیں مردہ مت کہووہ زندہ
ہیں اور اﷲتعالی کے ہاں سے رزق بھی پاتے ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعور
نہیں‘‘۔کتنے ہی انبیاء علیھم السلام درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور اب یہ
منصب جلیلہ امت وسط کے نوجوانوں کامقدر بناہے،کتنے نصیب والے اور خوش قسمت
ہیں وہ لوگ جنہیں یہ مقام حاصل ہوجاتاہے اور جام شہادت نوش جان کرتے ہیں۔
’’برہان مظفروانی‘‘اسی قافلہ شہداکاایک نوزائدہ مسافرہے۔تقسیم ہندکی تکمیل
میں سرگرم کشمیریوں کی تحریک آزادی نے اس سرزمین برصغیرمیں خونین قربانیوں
کی لازوال داستان رقم کی ہے۔مردوخواتین اور کل مسلمانان کشمیر گزشتہ صدی سے
آج دن تک برہمن کے ظالم پنجہ سے نبردآزما ہیں۔’’برہان مظفروانی‘‘اس تحریک
آزادی کشمیر کی کامیابی و کامرانی کا چمکتاہواستارہ ہے۔نورانی چہرے والا
خوبرو نوجوان ’’برہان مظفروانی‘‘19ستمبر1994کو کشمیر کے علاقے ’’پلوانہ‘‘کے
ایک ’’ترال‘‘نامی گاؤں میں پیداہوا۔اس مقدس شہید کے والد بزرگوارکانام ’’محمدمطفروانی‘‘ہے
جو ایک مقامی سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں۔خوش قسمت ماں ’’میمونہ مظفر‘‘جو تعلیم
کے اعتبار سے مروجہ سائنس میں اعلی تعلیم کی سندیافتہ ہیں لیکن اپنے ہی
گاؤں میں قرآن مجید کی درس و تدریس سے متعلق ہیں۔تعلیمی نسبت سے نجیب
الطرفین یہ نوجوان محمدعربیﷺکا سچا امتی ثابت ہوا کہ آپﷺ کو بھی معلم بناکر
مبعوث فرمایا گیاتھا۔گویا دین و دنیا دونوں گھرمیں قدیم و جدید کے حسین
امتیاز کے ساتھ موجود تھے۔حقیقت یہی ہے کہ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود
ہی ہوتی ہے اور ماں کی لوری اس بچے کی خالی تختی پر جو بھی کنداں کر دے اسے
دنیاکی کوئی طاقت مٹانے پر قدرت نہیں رکھتی۔قرآن کی معلمہ کے گھر میں شہید
کا جنم کوئی انوکھی بات نہیں ہے ،قرآن کے تصور زندگی میں بعد میں آنے والی
زندگی پر اس دنیاکوقربان کرنا فی الحقیقت نفع مند تجارت ہے جس میں خسارے
اور ٹوٹے کاکوئی اندیشہ نہیں۔یہ کل پانچ بہن بھائیوں پر مشتمل ایک معمولی
ومتوسط طبقے کا گھرانہ تھا لیکن اپنے اعلی مقاصد اورآفاقی نصب العین کے
باعث آسمان کے فرشتے اس گھرانے کوایسے دیکھتے ہوں گے جیسے اہل زمین سورج
اور چاند کو دیکھتے ہیں۔
شہیدبرہان مظرفروانیؒ کی پیدائش تک کم و بیش نصف صدی بیت چکی تھی جس دوران
برہمن سامراج کی افواج ایک نہ ٹوٹنے والے تسلسل کے ساتھ اہل کشمیر پر زمین
تنگ کیے ہوئے تھے۔لاکھوں کی تعدادمیں فوج کے ٹڈی دل لشکر دہائیوں پر محیط
عرصے میں ایک وادی کے باسیان پر بندوق بردار ہوکر مسلط رہیں،یہ کہاں
کاانصاف اور کہاں کاقانون ہے۔شہیدبرہان مظرفروانیؒنے اپنے بچپن سے ہی
بھارتی افواج کے ظلم و ستم کی کہانیاں نہ صرف یہ سن رکھی تھیں بلکہ بہت
اوائل عمری سے ان کے آنکھوں کے سامنے خون کی یہ ہولی بھی جارہی تھی۔اپنے
بچپن سے لڑکپن تک اور ہوشمندی کے زمانے کے آغاز میں ہی وادی کے کل باشندوں
کے طرح اس نوجوان کے دل میں بھارتی فوج،بھارتی حکومت،بھارتی عدالتیں،بھارتی
انتظامیہ اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک لاوہ پکناشروع ہوگیا۔اگرچہ نفرت
یہ بحربیکراں ایک مدت سے ہر کشمیری کے دل میں موجزن تھااور اب تک ہے ۔بلکہ
کشمیر سمیت بھارت کے متعددعلاقوں،اقلیتوں اور کئی بڑے بڑے قبائل میں یہ
نفرت اب ایک سونامی کی شکل اختیارکرتی چلی جارہی ہے جس کااظہار آئے روز
اخباروں اور خبروں کی زینت بناہوتاہے۔لیکن شہیدبرہان مظرفروانیؒنے بہت جلد
بہت جذباتی فیصلے کیے ،اس لیے اس کاذہن اب ان حالات کو مزید قبول کرنے کے
لیے تیارنہیں تھا۔آخرکسی بھی نوجوان کے لیے یہ برداشت کرناکیسے ممکن
ہوسکتاہے کہ اس کے گھرمیں بدمعاش بھارتی فوجی دندناتے ہوئے گھس
جائیں،تحریمات کی بے حرمتی کریں اور نوجوانوں کو اغواکرکے لے جائیں۔پھر کسی
نوجوان کی تشددشدہ لاش مل جائے اور کئی نوجوانوں کی سالہاسال تک کوئی خبر
ہی آئے۔بوڑھے والدین دفتروں،تھانوں،فوجی یونٹوں اورعدالتوں سے دھکے دھکے
کھاکھاکر ملک عدم کو سدھارجائیں اور خاندان کے خاندان یوں ہی اجڑتے
رہیں۔تادم تحریریہ کہانی کم و بیش ہر خاندان کے ساتھ کسی نہ کسی نسبت سے
موجود ہے۔
جس سینے میں ایمان کی رمق موجود ہواس کے لیے لکم دینکم ولی دین کے مصداق
مصالحت ممکن نہیں ہوسکتی،چنانچہ شہیدبرہان مظرفروانیؒنے پندرہ سال کی بہت
ہی نوجوان عمر میں ’’کتب علیکم القتال‘‘کی عملی تصویربن گیا۔شہیدکے والد
بتاتے ہیں کہ شہیدبرہان مظرفروانیؒایک باراپنے ایک دوست خالد کے ہمراہ کہیں
عازم سفرتھے کہ راستے میں بھارتی فوجی درندوں نے دونوں کے ساتھ انتہائی
غیرانسانی سلوک کے ساتھ بے پناہ مار پیٹ کی،جسے شہید کی غیرت ایمانی نے
برداشت نہ کیا۔آخرایک فوج کو جو محاذپر لڑنے کے لیے تیارکی جاتی ہے اسے ایک
شہری کومارنے پیٹنے ننگی گالیاں نکال کر اس کی عزت نفسانی مجروح کرنے
کاکیاحق ہے؟؟؟اس کے ردعمل میں 16اکتوبر2010کو شہیدبرہان مظرفروانیؒنے فوج
سے انتقام لینے کے لیے عسکری راستہ اختیارکیااور حزب المجاہدین میں شمولیت
اختیارکرلی۔بغاوت کا جذبہ بہت قیمتی اور قابل قدر جذبہ ہے اور یہ جذبہ
انسانیت کو انبیاء علیھم السلام سے وراثت میں ملا ہے جنہوں نے وقت کے طاغوت
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر علی الاعلان بغاوت کاراستہ اختیارکیااور
دنیامیں سربلند اور اﷲ تعالی کے ہاں سرخروہوئے۔شہیدکادوست خالد ،اسے بھارتی
درندہ صفت افواج نے 13اپریل2015کوایک جعلی مقابلے میں گولی مارکر
شہیدکردیاتھا۔اس کے ساتھ تین اور دوست بھی تھے جنہیں بھارتی فوج نے
گرفتارکرلیالیکن تاحال ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ان
کاکیابنا۔کشمیر کاچپہ چپہ خاص طورپر اورپورے بھارت کاقریہ قریہ عام طور پر
اس طرح کی ان گنت داستانوں کا رونارورہاہے۔
خالدکوتوشہیدبرہان مظرفروانیؒکے دوست ہونے کی سزامل گئی ،لیکن جس طرح فرعون
کی فوجیں گھرگھرگھس کر نومولودبیٹوں کو ذبح کردیتی تھیں اسی طرح برصغیرکے
فرعونیوں نے بھی کشمیر میں گھرگھرتلاشی شروع کردی کہ کہیں تو شہیدبرہان
مظرفروانیؒکاپتہ چلے۔بھارتی حکومت نے ایک ملین کی خطیر رقم شہیدبرہان
مظرفروانیؒکی سرکے لیے مقرر کردی۔وجہ صرف حق گوئی تھی کہ یہ نوجوان
کشمیریوں پر ظلم و ستم کی متحرک تصویوی کہانیاں سوشل میڈیاپر نشر
کرتاتھا۔ان فلموں میں جھوٹ کاشائبہ تک نہیں ہوتاتھااور کشمیرسمیت یہ فلمیں
پورے ہندوستان میں بھارتی حکومت اوربھارتی درندہ صفت فوج کی ننگ انسانیت
کاروائیاں طشت ازبام کررہی تھیں۔لوگوں میں یہ متحرک تصویری حقائق بڑی تیزی
سے مقبول ہورہے تھے اور بھارتی اداروں کے خلاف نفرت کاایک طوفان تھاجولوگوں
کے سینوں میں امڈاچلاآرہاتھا۔حزب المجاہدین میں شامل ہونے والوں کی تصویریں
اور اس نوجوان کی تصاویر بھی فیس بک پر اس قدر شہرت اختیارکررہی تھیں کہ یہ
نوجوان کشمیر کے ہیرو گردانے جانے لگے تھے۔اپنے بیانات اور اعلانات میں
شہیدبرہان مظرفروانیؒواضع اعلان کرتاتھا کہ ہم اپنی دینی تعلیمات کے مطابق
ہندوپوجاپاٹ کرنے والوں کوکچھ نہیں کہیں گے لیکن بھارتی فوج سے بدترین
انتقام لیں گے۔بلآخربہشتوں کایہ مسافر7جولائی2016کواپنے دوساتھیوں سرتاج
احمد شیخ اورپرویزاحمدلشکری کے ہمراہ بھارتی فوجی درندوں کی ایک کاروائی
میں حیات جاودانی پاگیا۔اس نوجوان کی مقبولیت کااندازہ اس بات سے
لگایاجاسکتاہے کہ اس کے جنازے میں انسانوں کااتنا بڑاجم غفیر تھاکہ ایک وقت
میں سب کاجنازہ پڑھناممکن نہ رہا۔وہاں موجود لوگ بتاتے ہیں کہ پچاس مرتبہ
جنازہ پڑھاگیاپھربھی کئی لوگ اس سعادت سے محروم رہے۔بھارتی درندہ صفت فوج
نے ایک برہان وانی کو شہید کر کے ہزارہانوجوانوں میں یہ جذبہ پیداکردیاکہ
وہ اس شہید کے نقش قدم پر چلیں۔اور اس عظیم شہادت نے تحریک آزادی کشمیرکے
یے مہمیز کاکام کیااور تازہ و نوجوان خون نے آزادی کی منزل کوقریب
ترکردیاہے۔شہیدبرہان مظرفروانیؒکایہ پیغام نوشتہ دیوار ہے کہ کوئی
مزاکرات،کوئی اقوام متحدہ قراردادیں ،کوئی عالمی برادری اور صلح جوئی کی
کاروائیاں کشمیر کوآزادنہیں کراسکتیں۔دنیامیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں
لیکن ایک زبان سب قومیں اچھی طرح سمجھتی ہیں اور وہ طاقت کی زبان ہے۔جس دن
مسلمانوں نے ایٹمی طاقت کی زبان بولی کشمیر سمیت برماسے فلسطین تک تمام
مسائل حل ہوجائیں گے،انشاء اﷲ تعالی۔ |