مرنے والوں کی مالی مدد!

 گزشتہ دنوں حویلیاں کے قریب ڈولی چیئر لفٹ گر گئی تھی، جس میں درجن بھر افراد گہری کھائی میں جاگرے تھے ،یوں جان کی بازی ہار گئے تھے۔ فوری وجہ اس حادثے کی یہی بتائی گئی تھی کہ لفٹ والے لالچ کرکے گنجائش سے زیادہ لوگوں کو بٹھا لیتے ہیں،عید وغیرہ کے مواقع پر پیسے بھی زیادہ لیتے ہیں۔ یہ لفٹ ضرورت سے زیادہ بوجھ برداشت نہ کر سکی، جس کی وجہ سے اس کا اپنی منزل پر پہنچنا ممکن نہ رہا۔ گزشتہ روز پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے مذکورہ بالا حادثہ کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین کو امدادی چیک دیئے۔ انہوں نے مرنے والوں کے نام پر آٹھ لاکھ فی کس اور زخمیوں کے لئے تین لاکھ روپے فی کس کا چیک دیا۔ اس موقع پر انہوں نے چند روایتی جملے بھی کہے، جن میں سے مشترک یہ تھا کہ یہ رقم کسی جان کا نعم البدل تو نہیں ہو سکتی، تاہم غم کے موقع پر مدد سے غم کم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں، حادثات و سانحات میں بہت سے ایسے مواقع آتے رہتے ہیں، جب پنجاب حکومت کی طرف سے مرنے والوں کے لواحقین کو امداد دی جاتی ہے، یہ واقعہ صوبہ پنجاب میں رونما نہیں ہوا، بلکہ یہ جگہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں ہے۔ اپنے صوبے کے اندر بھی ہونے والے بہت سے حادثات کے مواقع پر ایسے ہی مدد کی جاتی ہے۔

سوال ضروری ہوتے ہیں، کیونکہ سوال سے ہی معلومات کا درکھلتا ہے، اسی ذریعے سے انسان نامعلوم سے معلوم کی طرف جاتا ہے، مگر کچھ سوال اپنی نوعیت کی بنا پر تلخ ہو جاتے ہیں، وہ ایسی معلومات کا تقاضا کرتے ہیں، جو کوئی خاص انسان نہیں بتانا چاہتا، یا اس سے کسی خاص کو ذہنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا کسی ایسے ہی فرد کی من مرضی سے پردہ فاش ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مگر یہاں بھی کچھ سوال جنم لیتے ہیں، اپنی حدود سے باہر جاکر ایسی مدد کا کیا جواز ہے؟ (ہنگامی اور طبی امداد کی بات اور ہے) یہ بھاری رقوم کس مد سے دی جاتی ہیں؟ ظاہر ہے سرکاری خزانے سے مدد ہوتی ہے۔ اگر اپنے ہی صوبے تک محدود بھی رہا جائے تو کیا حادثات وغیرہ میں مرنے والے تمام لوگوں کے لواحقین کو لاکھوں روپے ملتے ہیں؟ جواب یقینا نفی میں ہے، تو اس خدمت کا میرٹ کیا ہے؟ دراصل ہنرمندی یہی ہے کہ ایسے سانحات کو انسانی ہمدردی کے ملمع میں چھپا دیا جائے، تاکہ کوئی تنقید کرے تو اسے ہر طرف سے خود ہی ملامت کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ یہ سرکاری ہنر مندی ہمیشہ کام آتی ہے، اگر کسی نے تنقید کا اشارہ بھی کردیا، تو اس پر چڑھائی کردی جاتی ہے۔ ظاہر ہے تکلیف اور مشکل کی ایسی گھڑی میں تنقید آسان نہیں ہوتی۔

عید کے موقع پر احمد پور شرقیہ میں ٹینکر سے گرا ہوا پٹرول اکٹھا کرتے ہوئے مرنے والوں کے لئے بیس لاکھ فی کس اور زخمیوں کے لئے دس لاکھ فی کس کا اعلان کیا گیا۔ ایسے وقت میں یہ فیصلہ بھی آسان نہیں ہوتا کہ زخمی کے زخموں کی نوعیت کیا ہے؟ اب احمد پور کے حادثے کے ہر زخمی کو دس لاکھ ملے اور حویلیاں کے ہر زخمی کو تین لاکھ۔ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آیا ہر زخمی کی نوعیت ایک جیسی ہے؟ یقینا بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر بہت سے لوگ مقامی انتظامیہ کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، کیونکہ انتظامیہ کے مقرر کردہ اہلکار ہی جس کی منظوری دیں گے وہی زخمی قرار پائے گا۔کیا جانئے کہ معمولی خراشیں آنے والے کو بھی لاکھوں مل جائیں۔ یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سڑکوں پر حادثات تو ہر روزرونما ہو رہے ہیں، ان میں بلاناغہ درجنوں لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں، مگر لاکھوں روپوں مدد کا حقدار کوئی کوئی بنتا ہے۔ یا تو ایسا ہو کہ صوبہ کی حدود میں (اب تو بات باہر تک جا چکی ہے) کسی بھی حادثہ کا شکار ہونے والے کی مقرر کردہ مدد حکومت کے ذمہ ہو، مگر ایسا نہیں، کسی مرنے والے کے لواحقین کو بیس لاکھ، کسی کے دس لاکھ، کسی کو پانچ لاکھ اور ایسے ہی زخمیوں کو درجہ بدرجہ۔ ان کا میرٹ کون بناتا ہے، کسی کو نہیں معلوم؟ ستم یہ بھی ہے کہ زندہ لوگ سہولتوں کے بغیر مر رہے ہیں، اور جب وہ مر جاتے ہیں تو لاکھوں کی امداد کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ شاید یہ بادشاہوں کا طریقہ ہے، جو آگے سے گزر گیا ، پا گیا، جو پیچھے سے گزرا وہ رہ گیا۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427888 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.