تقریبا 20کروڑ سے زائد انسانوں پر محیط پاکستان میں ساڑھے
9کروڑ سے بھی زائد خواتین آباد ہیں انہی میں سے ایک محترمہ مریم نواز شریف
صاحبہ ہیں جوڈیشل اکیڈمی کے باہر پیشی بھگتنے کے حاضر ہوئی تو پولیس کی ایک
سینئر آفیسر نے گاڑی کا دروازہ کھلتے ہی جھٹ سے سیلیوٹ کیا اور نیچے گرنے
والے قلم کو جھک کر اٹھایا اور پھر مودبانہ انداز میں مریم بی بی کے ساتھ
چلتی ہوئی وہ خاتون پولیس آفیسر جوڈیشل اکیڈمی داخل ہوگئی جبکہ اس دوران
اور بھی بہت سے پولیس افسران ہاتھ باندھے کھڑے رہے پولیس کا ملزمان کے ساتھ
اس طرح کا رویہ کوئی نئی بات نہیں جب بھی کوئی ملزم پیسے والا ہوتا ہے یا
اقتدار میں ہوتا ہے پولیس ہمیشہ اسکی غلام ہی نظر آئی ہے جبکہ دوسری طرف
پورے ملک میں خواتین اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر انصاف کے لیے ترستی ہیں
اور اسی مقصد کے لیے تو اکثر خواتین نے اپنے اوپر آگ بھی لگائی مگر ہماری
پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی یہ وہ بھینس ہے جسکے آگے کوئی بین کام نہیں کرتی
بلکہ چارہ کی ایک مٹھی بھینس کو دودھ دینے پر مجبور کردیتی ہے ہمارے دیہاتی
علاقوں کے تھانوں میں تعینات پولیس والے جاتے ہی اس نیت سے ہیں کہ انہوں نے
وہاں پر اپنے حصے کی دولت کیسے اکٹھی کرنی ہے بے گناہوں کو پکڑ پکڑ کر کیسے
ذلیل وخوار کرنا ہے اور ناجائز فروشوں کوپروٹوکول دیکر ان سے مال کیسے
بنانا ہے اور تو اور غریب اور بے بس خواتین کو مجبور کرکے انہیں کیسے سبق
سکھانا ہے چور کو سعد اور سعد کو چور کب اور کیوں بنانا ہے یہ سب طریقے
ہماری پولیس بہت اچھے طریقے سے سرانجام دے رہی ہے شک کی بنا پر گھروں میں
گھس کر خواتین کی عزتیں پامال کرنا اور پھر گھسیٹ گھسیٹ کر گاڑی میں
پھینکنا پولیس والوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے تھانے میں آنے والوں کو ذاتی
ملازم سمجھنا اور پھر انہی کے کام کے لیے انکو خرچہ کرنے پر مجبور کرنا
ہماری پولیس کا کمال ہے انصاف کے حصول کے لیے تھانے میں آنے والی مجبور
خواتین کی عزتیں تھانوں میں ہی پامال ہوتی بھی دیکھی گئی انہی میں ایسی
خواتین بھی ہیں جو صبح سے شام تک محنت مزدوری کرتی ہیں ایک سورج کی گرمی
دوسری اینٹوں والے بھٹہ کی تپش اپنی جان کو جلانے والی خواتین اپنے بچوں کو
دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے دے پاتی ہیں دیہاتوں میں جانوروں کے ساتھ
جانوروں کی طرح کام کرنے والی ہماری مائیں اور بہنیں سال بھر کے بعد بھی
ایک سوٹ کپڑوں کا نہیں خرید سکتی جاگیر داروں ،سیٹھوں اور بڑے بڑے ٹیکس
چوروں کے گھروں کو شیشے کی طرح چمکانے والی خواتین اپنے پھٹے پرانے جوتے
تبدیل نہیں کرپاتی اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف خواتین سالہا
سال سے حصول انصاف کے لیے دھکے کھاتی کھاتی خاک بن جاتی ہیں سرکاری اور
پرائیوٹ اداروں میں کام کرنے والی خواتین جنسی درندوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر
بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہیں کچھ مختلف اداروں میں اپنے حقوق کی جنگ
لڑرہی ہیں مگر سوائے ناکامیوں اور مایوسیوں کے اور کوئی چیز انکے حصے میں
نہیں آتی ،ہمارے سرکاری اداروں میں کام کے سلسلہ میں آنے والی خواتین وہاں
پر بیٹھے ہوئے بھیڑیوں سے اپنا دامن بڑی مشکل سے بچا پاتی ہیں ،ہسپتالوں
میں نام نہاد علاج کے بہانے خواتین کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے
کیونکہ یہ سب خواتین کسی وزیراعظم کی بیٹیاں نہیں ہیں اور وزیراعظم بھی وہ
جسے یہ مجبور اورمظلوم خواتین اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب کرتی ہیں اپنے
بہتر مستقبل اور پاکستان کے وقار کو بلند کرنے کے لیے مشکل ترین حالات میں
گھر سے باہر نکل کر لائن میں لگ کرووٹ کی پرچی ڈالنا تاکہ قائداعظم کی محنت
اور اقبال کے خوابوں تعبیر مل سکے مگر آج تک جو بھی آیا اس نے ہی عوام کو
بیوقوف بناکر ملکی دولت لوٹی اور پھر سینہ تان کراپنی کرپشن کو جائز ثابت
کرنے پر ایڑی چوٹی کازور لگادیا اور یہ صرف وہ افراد ہی نہیں کررہے جنہوں
نے کرپشن کرکے ڈھیروں دولت کمائی بلکہ انکے ساتھ جڑے ہوئے ہر شخص نے اپنے
اپنے حصے کی گالیاں اور دھمکیاں ضرور دی پانامہ لیکس کے حوالہ سے مختلف
ممالک میں ایشوز اٹھے تھے الزامات لگتے ہی ان ممالک کے سربراہان نے حکومت
سے فورا علیحدگی اختیارکرلی تھی مگر پاکستان ایسا واحد ملک ہے جہاں چوری
اور سینہ زوری جیسے الفاظ کثرت میں بولے جاتے ہیں اور ان کا عملی مظاہرہ
بھی دیکھنے کو ملتا ہواور پولیس پورے پروٹوکول کے ساتھ ملزمان کے دفاع میں
کھڑی ہو تو پھر اپنا ووٹ دینے سے پہلے ایک بار لازمی سوچ لیں کہ یہ آپکے
اعمال کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عوام لٹنے کے باوجود ملزم بنی کھڑی ہے اور
لوٹنے والے پورے زور شور سے گرج چمک رہے ہیں کبھی جے آئی ٹی کو دھمکیاں دی
جاتی ہیں تو کبھی مخالفین کو دبانے کے لیے جیلوں میں بند کرکے چوہے اور
بچھو چھوڑے جاتے ہیں تاکہ عوام کی بات کرنے والوں کو سبق سکھایا جاسکے ۔جے
آئی ٹی سپریم کورٹ کے کہنے پر کام کررہی ہے جس نے صرف اپنی رپورٹ سپریم
کورٹ میں جمع کروانی ہے ابھی فیصلہ تو بعد میں سپریم کورٹ نے دینا ہے مگر
حکمران طبقہ اور انکے حواریوں کو سازشیں ابھی سے نظر آناشروع ہوچکی ہیں اس
لیے ابھی سب کو خاموشی سے انتظار کرنا چاہیے کہ جب فیصلہ آئے گا تب ا س
فیصلے میں تلاش کریں کہ جمہوریت کے خلاف سازش کہاں ہے ،نظریہ پاکستان پر
حملہ کدھر ہے ،خفیہ ہاتھ کہاں کھڑے اورکونسے ہیں ،اس تمام کیس کے نتیجہ میں
نظام کی بے عزتی کیسے ہوئی،عوام کی توہین کونسی تھی ؟یہ تمام باتیں سپریم
کورٹ کے فیصلے کے بعد کیں ہیں دیکھنا تو یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے ملزمان سے
ایسا کیا پوچھ لیاکہ ہر طرف ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی ہے اور بدتمیزی کا
ایسا طوفان آیا ہوا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا کبھی تو محسوس ہوتا
ہے کہ یہ سب ایک فلم چل رہی ہے اور اس فلم کا ڈائریکٹر بہت خوبصورتی سے اسے
اپنے انجام کی طرف لے کرجارہا جبکہ اسکے کردار بھی بڑی مہارت سے اپنے فن کا
مظاہرہ کررہے ہیں آج تک جتنے بھی ایشو زکھڑے کیے گئے جب وہ اپنے عروج پر
پہنچتے تھے اسی دوران ایک نیاایشوبنا دیا جاتا تھا اور پھر چند ماہ بعد
عوام کی نیندیں حرام کرنے والا معاملہ بلکل ختم کرکے نیا مسئلہ پہلے سے بھی
زیادہ سنگین بنادیا جاتاتھا یہ سابق صدر آصف علی زرداری کی کامیاب پالیسی
تھی جسکی بدولت پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کیے اوراپنے نعرے روٹی ،کپڑا
اور مکان کے برعکس کام کرکے عوام کی ذہنی ،جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کو
سلب کرلیا تھانہ جانے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ اسی فلم کو نئے ایکٹروں کے
ساتھ پھر شروع کردیا گیا ہے تاکہ انسان کی جو بنیادی ضروریات روٹی ،کپڑا
اور مکان ہیں ان سے توجہ ہٹائی جائے بے روزگاری ،لوڈ شیڈنگ اور قتل وغارت
سے توجہ ہٹائی جائے صرف ایک ہی مسئلہ کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے کہ
عوام کی نیندیں حرام ہوجائیں اور حکمران سکون سے اپنا وقت پوراکرکے آنے
والے وقت کی پلاننگ کرتے رہیں مگر مجھے امید ہے کہ اس خوبصورت فلم پیشیاں
کا اختتام انتہائی خطرناک ہوگا۔ |