انسانی زندگی روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور
خواہشات کے گرد گھومتی ہے اور انسان اسی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے
لئے کئی دفعہ ہر حد کو پارکرجاتا ہے۔اسی طرح کی خوشی میں پوری پاکستانی قوم
ڈوبی ہوئی تھی جوکہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی چیمپیئن شپ جیت کر عوام
کو دی تھی اور رمضان شریف کے آخری عشرہ کے اختتام پر عید کو پُرجوش طریقہ
سے منانے کی خواہش مند تھی کہ اچانک پارا چنار،کراچی اور کوئٹہ میں نامُراد
دہشت گردوں نے اپنا گھنونا کھیل شروع کردیا اور درجنوں بے گناہوں کو ابدی
نیند سُلا دیا۔ ابھی قوم اسی غم میں مُبتلا تھی کہ 29رمضان شریف کو
بہاولپورکے نواح میں واقع احمد پور شرقیہ کے قریب مین کراچی ہائی وے پر
ہزاروں لیٹر پٹرول لانے والا ٹرالہ ایک کار کو بچاتے ہوئے اُلٹ گیا اور
دیکھتے ہی دیکھتے پٹرول پانی کی مانند بہنے لگا اور مین روڈ سے بہتا ہوا
کھیتوں میں جمع ہونے لگا۔ اس چیز کو غنیمت سمجھتے ہوئے نواحی گاؤں کے سادہ
لوح افراد نے پٹرول کو جمع کرنے کے لئے مختلف اقسام کے برتن، کین اور
بالٹیاں جائے وقوعہ پر لاکر اکٹھا کرنا شروع کردیا ۔عینی شاہدین کے مطابق
یہ سلسلہ تقریباً3گھنٹے جاری رہااور لوکل انتظامیہ بھی سوئی رہی اور جائے
وقوعہ پر پہنچ کر مجمع کو کنٹرول کرنے اور خطرے سے آگاہ کرنے سے قاصر رہی
اور لوگ بے خوف و خطر مالِ مُفت سمیٹنے میں مصروف رہے کہ اچانک مجمع میں
سگریٹ نوشی کے شوقین نے اپنا سلگتا ہوا سگریٹ کا آخری حصہ اُس پٹرول والی
زمین پر پھینک دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے زندہ انسانی جانیں جوکہ 300کے قریب
لگ بھگ افراد مالِ مفت سمیٹنے میں مشغول تھے کچھ تو موقع پر ہی کوئلہ ہوگئے
اور کئی ہسپتالوں میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس سارے واقعے نے قوم کو
نڈھال کرکے رکھ دیا اور لوگ ساریاں خوشیاں بھول کر سانحہ میں ہلاک ہونے
والے اور بچ جانے والے افراد کے لئے دُعا گو ہونے لگی۔
اگر ہم اس واقعہ کو دیکھیں تو یہ کوئی نیا واقع نہیں تھا اس سے پہلے بھی
کوئی اس طرح کے واقع رونما ہوچکے ہیں مگر ان واقعات کے محرکات تقریباً ایک
جیسے ہی ہیں اور ان واقعات میں زیادہ تر لالچ، غربت اور وہ ذہنیت ہے جوکہ
ہر وقت لوٹ مار کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتی اور بد قسمتی سے یہ ہمارا
نیشنل کریکٹر بن چکی ہے جوکہ ملک کے ہر طبقے میں صرایت کر چکی ہے۔ اس نیشنل
کریکٹر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا آغاز ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ
سے کرنا پڑے گا اور اپنی قوم کو سمجھنا پڑے گا کہ راستے پر پڑی چیز اپنی
نہیں ہوتی اور جو چیز ہماری نہیں اس کو کبھی ہاتھ نہیں لگانا چاہیے اور اس
نیشنل کریکٹر کو درست کرنے کے لئے ہمارے حکمرانوں کو پسماندہ علاقوں کی
غربت کو اچھی تعلیم و صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان
علاقوں کو دیگر سہولیات سے بھی لیس کرنا ہوگاتاکہ ان کی محرومی ختم ہوسکے
اور اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے اور نا ہی شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹروں
پر بڑے شہروں میں جدید علاج کے لئے لیجانا پڑے۔
|