شرافت، صداقت ،امانت اور عوامی خدمت جیسے اوصاف کو اگر
ایک لڑی میں پرو کر دیکھا جائے تو جو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر کر
آئے گی اس کا نام عبدالستار ایدھی ہے۔اندھے کی آنکھ، بہرے کا کان، یتیموں
کا باپ اورایک انسان دوست شخص ایدھی کو بچھڑے ایک سال بیت گیا۔
گزشتہ برس 8جولائی کو وفات پانے والے عبدالستار ایدھی ہندوستان کے مشہور
شہر گجرات کے علاقے ’’بانٹوا‘‘ میں 1928 میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ضرورت
مندوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرنے والے ایدھی کوجب ماں سکول جاتے وقت دو
پیسے دیتی تھی توایدھی ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ
کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ایدھی ابھی
گیارہ برس کا تھا کہ اس کی ماں پر فالج کا حملہ ہوا، مذید ستم یہ کہ ذہنی
توازن کھو بیٹھی اور معز ور ہوگئی، ایسی صورت میں اْسے کل وقتی خدمات گزار
کی ضرورت تھی ، ایدھی نے اس کام لیے اپنے سے بہتر کسی کو نہ پا یااوراس نے
اپنی تمام تر توجہ اپنی ماں پر مرکوز کردی اور اس کی خدمات میں لگ گیا۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں ہجرت کرنے والے عبدالستار ایدھی نے یہاں آکر
روزی کی خاطر پان اور بیڑی کی ریڑھی لگالی،ایک دفعہ سوتر منڈی کے مقام پر
کسی نے ایک مزدور کو زخمی کردیا، مزدور کو ہسپتال پہنچانے کے لیے وسائل
مہیا نہیں تھے ، اس لیے ایدھی اپنی ریڑھی میں مزدور کو ہسپتال پہنچا
آئے،یہیں سے پاکستان کے سب سے بڑے فلاحی ادارے ’’ایدھی فاؤنڈیشن ‘‘ کی
بنیاد پڑی،1951ء میں اس نے میٹھادر میں ایک دکان خریدی اور اس میں غریب
لوگوں کے لیے ڈسپنسری قائم کی۔ ایدھی بھلائی کے اس کام کو اس ڈسپنسری تک
محدود نہیں رکھنا چاہتا تھاچنانچہ اس نے پہلی بار عوام سے دکھی انسانیت کی
خدمت کے لیے مدد کی اپیل کی، لوگوں نے اس پر اعتماد کیا ، ابتدائی طور پر
ایدھی کو دو لاکھ روپے کی رقم وصول ہوئی،ایک کمرہ پر مشتمل ڈسپنسری ایک
چھوٹے سے اسپتال میں تبدیل ہوگئی۔ مسخ شدہ اور ایسی لاشیں جن کے نزدیک جاتے
ہوئے لوگ ڈرا کرتے تھے عبد الستار ایدھی ہر طرح کے ڈر و خوف سے آزاد ہوکر
اس بدبو دار اور تعفن زدہ لاش کو ٹھکانے لگا دیا کرتا تھا۔ایدھی کی فراہم
کردہ خدمت سے عوام ا لناس کا اعتماد ایدھی پر بڑھتا گیا اور ایدھی کی خدمات
کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیا۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کو دنیا میں سب
سے بڑے خدمتی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت خدمات کی مختلف جہتیں ہیں، ایمبولینس سروس کے حوالے
سے یہ دنیا کی سب سے بڑی خدمتی تنظیم ہے، ایدھی ایمبولینسیز میں ائر ایمبو
لینس بھی شامل ہے، ہسپتال ،مردہ خانے ،موبائل دسپنسری، بلڈ بنک اور’’اپنا
گھر‘‘ جس میں بے سہارا، لاوارث، ذہنی معزور وں کو پناہ ملی ہوئی ہے۔ایدھی
کے تحت ’’جھولا ‘‘ایک ایسی منفرد خدمت ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی، پاکستان
میں جس کا کوئی نہیں، ایدھی اس کاسہارا اور مدد گار ہوتا تھا۔
1989ء میں حکومت پاکستان نے ایدھی کو ’نشان امتیاز‘ دیا،عالمی سطح پر بھی
ایدھی کو اعزازار سے نوازا گیا ،1988 میں آرمینیا میں زلزلہ سے متاثرہ
افراد کی خدت کے اعتراف میں اس وقت کی روس کی حکومت نے ایدھی کو ’’لینن امن
انعام‘‘سے نوازا، فلپائن حکومت نے عبدا لستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کو
’’میگسیا ایوار ڈ ‘‘دیا2010میں یونیورسٹی آف بیڈفورڈشائر نے ایدھی کو
ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ گنیز بک آف دی ورلڈریکارڈنے انکی
ایمبولینس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی فری ایمولینس تسلیم کیا۔اسی طرح عبد
الستا ایدھی کوتین سو سے زائد مختلف اداروں نے اعزازات و انعامات سے نوازا۔
عبدالستار ایدھی، موجودہ صدی میں خدمت خلق کی اعلیٰ ترین مثال، انسانیت کا
ایسا سچا بے لوث خدمت گار جو کہ واقعی اپنی مثال آپ تھا۔انہوں نے اپنی
انسانی خدمت کی اس عظیم مہم میں کبھی حکومتوں کے سامنے اپنا دامن نہیں
پھلایا اور پائی بھی کسی حکومت سے لینا گوارا نہیں کیا ۔ایدھی سے ایک صحافی
نے پوچھا آپ گورنمنٹ ، سیاستدانوں یا باہر کے ملکوں سے امداد کیوں نہیں
لیتے؟ ایدھی نے جواب دیا ، ‘‘کبھی ضرورت ہی نہیں پیش آئی اور اگر کبھی مجھے
زیادہ امداد چاہیے ہو، مثلا ، سیلاب ، زلزلہ جیسی قدرتی آفت کے وقت ، تو
میں ملک کے کسی بھی شہرکی کسی بھی سڑک ، فٹ پاتھ،یا چوک میں چادر بچھا کر
بیٹھ جاتا ہوں اور چند گھنٹوں میں اس ملک کے لوگ مجھے کروڑوں روپے دے دیتے
ہیں۔
جب 2005کا زلزلہ آیا تومیں بھی مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے پاکستانی بھائیوں
کی مدد کیلئے امدادی سامان کے ہمراہ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارواں کے ساتھ
زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں گیا تو ہمارے پہنچنے سے پہلے مسیحاعبدالستار
ایدھی نہ صرف پہنچ چکا تھا بلکہ اپنے بیٹے فیصل ایدھی اور رضاکاروں کے ساتھ
بالا کوٹ اورمظفر آباد میں مزدوروں کے ساتھ سخت کام کرتے نظرآیا۔
اپنی زندگی کے شب و روز عوام پر نچھاور کرنے والا مسیحا شدید بیمار ہونے پر
بھی اپنا علاج پاکستان میں ہی کروا تارہا۔ ان کا علاج بیرون ملک دنیا کے
نامور ہسپتالوں میں کرانے کی پیشکشیں ہوئیں۔ مگر ایدھی نے پاکستانیت کا بھر
پور مظاہرہ کیااور سب پیشکشیں ٹھکرا دیں۔
بے مثل سادگی کے پیکرایدھی،ناشتے میں سوکھی روٹی دودھ کے ساتھ کھا تے اور
دوپہر میں ایک روٹی اور سالن پر اکتفا کرلیتے، تمباکو نوشی تو دورزندگی میں
کبھی چائے نہیں پی۔ایک یا دوپہننے کے سوٹ علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا
ایک جوڑا تھی، جس کو وہ سابقہ بیس سال سے استعمال کر تے رہے۔ایدھی چلا
گیا،جو نیکی کے دیے جلا گیا بھلائی کی شمع روشن کرگیا،اسے کوئی زوال نہیں ،ایدھی
زندہ ہے ہمارے دلوں میں یادوں میں اپنے نیک کاموں میں،وہ اپنے حصے کا کام
کرگیا،اب آپ کی باری ہے ہم سب کو ایدھی بننا ہے۔ |