سال رواں کے ماہ جون میں کشمیری قوم کے ایک منفرد ترین
ہیرو برہان مظفر وانی کو سال 2016 کی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں شامل
کیا گیا ۔ ترک میڈیا کی جانب سے سال 2016 ء کی متاثر کن شخصیات جاری کردہ
فہرست میں برہان مظفر وانی کا نام بھی شامل کیا گیا۔ترک میڈیا گروپ ٹی آر
ٹی ورلڈ کی جانب سے جاری فہرست میں ان 20 لوگوں کے نام شامل ہیں، جنہوں نے
2016 ء میں اپنے کاموں سے دنیا میں ہلچل مچا دی۔ٹی آر ٹی کی رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ برہان وانی نے سوشل میڈیا کو تحریک آزادی کے لیے استعمال کر کے
کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونکی۔ برہان نے مختصر عرصے میں سوشل
میڈیا کے ذریعے وہ شہرت حاصل کی ،جواپنی مثال آپ ہے۔برہان وانی نے 15سال کی
عمر میں گھر چھوڑا اور 6سال تک اپنے خطے مقبوضہ کشمیر کے جنگلوں، وادیوں
اور گھاٹیوں میں بھارتی فوج کے تعاقب اور معرکہ آرائیوں میں گزار دئیے ۔وہ
جب اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ 8جولائی کو اسلام آباد کے کرناگ نامی علاقے
میں شہید ہوئے تو اس وقت ان کی عمر بمشکل 21سال تھی۔یوں اتنی سی عمر میں
انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ ایک عالم ان کا معترف ہے۔کشمیری
قوم نے ان کی شہادت کے بعد گولیوں کی برسات میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو
کر ان کا نماز جنازہ ادا کیا۔اژدھام اس قدر تھا کہ ان کا جنازہ 45 کم از کم
بار ادا کیا گیا۔برہان وانی کی سوشل میڈیا مہم سے جہاں کشمیری نوجوانوں نے
بھارتی فوج کی خلاف راہ جہاد اختیار کیا، وہیں اب ان کی شہادت کے بعدیہ
سلسلہ کہیں تیز تر ہے۔برہان وانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2010 ء میں
اپنے آبائی قبضے ترال مقبوضہ جنوبی کشمیر میں اپنے بھائی کے ہمراہ موٹر
سائیکل پہ کہیں جا رہے تھے ،جب مسلح و قابض بھارتی فوجیوں کی ایک ٹولی نے
انہیں پہلے رکنے کو کہا تو ساتھ ہی جہاں تلاشی لی وہیں گالم گلوچ اور
مارپیٹ کے ساتھ ساتھ اہانت آمیز لہجے میں حکم صادر کرے ہوئے سگریٹ لانے
کیلئے کہا۔وہ سیگریٹ لانے چلے تو بھارتی فوجیوں نے ان کے بھائی کی ایک بار
پھرمار پیٹ شروع کردی۔ بس یہی وہ مقام تھا جب برہان وانی کی حساس رگِ حمیت
و غیرت پھڑک اٹھی اورانہوں نے قابض بھارتی فورسزکو اسی موقع پر پوری دلیری
سے کہا کہ ان سے اس بے عزتی کا بدلہ لیا جائے گا،یوں 15سالہ برہان وانی نے
سکول اور سلسلہ تعلیم کو خیر آباد کہااور مجاہدین کی صفوں میں جاشامل ہوئے۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ،ان کے انتہائی کم عمری میں جہادی راہ اختیار
کرنے کے باوجود حیران کن طور پرمسلح تحریک کے خد و خال میں ایک واضح تبدیلی
آئی۔ برہان وانی نے عصر حاضر کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہر وسیلے کو بروئے
کار لا کر مجاہد یانہ جدوجہد کو وسعت بخشی اوریوں بہت سے تعلیم یافتہ
نوجوانوں کیلئے جہادی تحریک میں شمولیت کے راستے کھول دیئے۔ ایک عالم مانتا
ہے کہ برہان وانی کی جہادی صفو ں میں شمولیت نے آزادی کی تحریک کو ایک
رومانوی رنگ بخشا اور وہ دن بدن اِس تحریک کی رومانویت میں اضافہ ہوتا گیا۔
کشمیری جہادی تحریک میں شمولیت او دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت سے مبارزہ
آرائی کوئی مذاق نہیں بلکہ کارے دارد والا معاملہ ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے
کہ جہادی تحریک میں شامل ایک مجاہد کی زندگی چھ یا سات سال سے زیادہ نہیں
ہوتی جس کی تائید برہان وانی کے والد مظفر احمد وانی نے بھی یہ کہتے ہوئے
کی کہ جو کچھ ان کے کے ساتھ ہوا،اس کا انہیں بصد غم والم انتظار تھا۔ اسی
عموم کے مصداق برہان وانی نے بھی اپنی جان عزیز راہ آزادی میں لٹادی ۔مسلح
جہادی تحریک آزادی میں یہ پہلی بار ہو ا کہ کسی شہید کے جنازے اور پھر اس
کے خون سے یوں اس انداز میں نئی تحریک اور نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ جہاد
کشمیر کی اس جدجہد میں وسعت اور اس کے نئے رجحان سازرہبر برہان وانی کی
محبوبیت ایک بڑی داستان کا سرنامہ ہے جو وقت کے چلتے حالات و واقعات کی
زبانی نئی تاریخ جریدہ ٔ عالم پر رقم کرسکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی
ریاستی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد
مقبوضہ وادی میں 59نوجوانوں نے جہادی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کٹھ
پتلی حکومت نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس وقت مقبوضہ وادی میں 318افراد کو
کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیاہے۔ چھ ماہ کی گرفتاریاں
12ہزار سے زیادہ ہیں ۔مقبوضہ جموں کشمیر کی جیلیں بھر جانے کے بعد ہزاروں
نوجوانوں اور بچوں کو بھارت کے مختلف علاقوں کی جیلوں اور عقوبت خانوں میں
ڈالا گیا ہے تو بھارتی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ برہان کی شہادت کے بعد
شروع ہونے والی تحریک ِ آزادی ماند پڑ چکی اور کشمیری ایک بار پھر معمول کی
زندگی شروع کر چکے ہیں۔
کشمیری نوجوانوں میں اس وقت جہاں جہادی تحریک مقبولیت کے عروج پر ہے، وہیں
ان کی اس وقت پسندیدہ ترین تنظیم لشکر طیبہ بن چکی ہے جس میں کثرت کے ساتھ
مقامی ا علیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شامل ہو رہیہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں جتنے
کشمیری نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا ،ان میں ایک بڑی تعداد تعداد لشکر
طیبہ سے وابستہ مجاہدین کی تھی جو کمانڈر برہان وانی کی شہادت اور اس کے
بعد کی تحریک کے نتیجے میں جہادی صفوں میں شامل ہوئے۔ ان میں بشیر لشکری،
جنید متو، ماجد زرگر، ماجد احمد نمایاں طور پر نظر آئے جو اب جام شہادت بھی
نوش کر چکے ہیں۔ لشکر طیبہ کی کمان کئی سال سے ایک کشمیری نوجوان محمود شاہ
کے پاس ہے ۔اس سب نے دنیا کے اس پراپیگنڈے کو بھی ایک بار پھر لغو و بے
بنیاد ثابت کیا ہے کہ لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کی نہیں بلکہ کشمیر سے باہر
کی کوئی تنظیم ہے۔ اسی دوران میں کٹھ پتلی سرکار نے کہا کہ حکومت’’ گمراہ
نوجوانوں او ر جنگجوؤں‘‘ کو واپس لانے کیلئے اقدامات کررہی ہے اوراس سلسلے
میں ایک پالیسی مرتب کی گئی ہے جس کو’’ بازآبادکاری پالیسی‘‘ کا نام دیا
گیا ہے۔ تحریری جواب میں کہا گیا کہ2004ء میں 216’’سابق مجاہدین‘‘ کی با
زآباد کاری کیلئے 2.68کروڑ روپے فراہم کئے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری
ہے کہ اس وقت کشمیری نوجوان بھارتی کی کسی ایسی پیشکش کو قبول کرنے پر تیار
نہیں ہیں اوربھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے آزادی کے مظاہروں کو دبانے کے
لیے طاقت کے استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا ہے
اور وہ موت کو گلے لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق انڈیاکے
ایک پانچ رکنی تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جاری
کردہ رپورٹ میں بھی کی گئی ہے ۔ سال 2016 ء میں مقبوضہ کشمیر میں عام لوگوں
سے ملاقاتوں کے بعد یہ رپورٹ مرتب کرنے والے گروپ میں بھارت کے سابق وزیر
خارجہ یشونت سنہا، اقلیتیوں کے قومی کمیشن کے سابق سربراہ وجاہت حبیب اﷲ،
بھارتی فضایہ کے ایئر وائس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک، معروف صحافی بھارت
بھوشن اور سینٹر آف ڈائیلاگ اینڈ ریکنسیلیشن کے پروگرام ڈائریکٹر ششہوبا
بریو شامل تھے۔اس گروپ نے 2016 ء میں مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں
مظاہروں اور سینکڑوں نوجوانوں کی شہادت کے واقعات کے بعد کولگام، شوپیاں،
اننت ناگ(اسلام آباد) اور بارہ مولہ کا دورہ کیا اور وہاں عام لوگوں، سول
سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے علاوہ مقامی پولیس اور انتظامیہ کے
افسران سے بھی مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کی۔گروپ نے مقبوضہ کشمیر کے
سرکردہ سیاسی قائدین انجینئررشید لنگیٹ، سیف الدین سوز اور سابق کٹھ پتلی
وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداﷲ کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے کئی کٹھ پتلی
ممبران سے بات کی۔گروپ نے رپورٹ کے بنیادی نتائج میں کہا کہ جتنے بھی
کشمیریوں سے انھوں نے ملاقاتیں کیں، سب نے مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دیا
اور کہا کہ جب تک اس کا سیاسی حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، وادی میں موت اور
تباہی کا سلسلہ زیادہ شدت سے جاری رہے گا۔رپورٹ کے مطابق تمام کشمیری سابق
وزیر اعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کی اس تجویز کو یاد
کرتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ کو انسانی ہمدری کے دائرے میں حل کیا جائے۔
مقبوضہ کشمیر کا نوجوان خوف اور شدید نا امیدی کا شکار ہے۔ایک نوجوان جس کا
نام رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا گیا،کے حوالے سے کہا گیا کہ ’’سب سے اچھی چیز
جس کے ہم شکر گزار بھی ہیں، وہ ہتھیاروں کا استعمال ہے جس میں پیلٹ گنیں
شامل ہیں، جس نے ہمارا ڈر اور خوف نکال دیا ہے۔ ہم اب شہادتوں پر جشن مناتے
ہیں۔‘‘ نوجوانوں میں کچھ تو انڈیا سے مذاکرات پر تیار ہی نہیں ہیں اور ان
کے روز مرہ کی بول چال کے الفاظ ہی بدل گئے ہیں جن میں ہڑتال، کرفیو، شہادت
اور برہانی وانی کے الفاظ کا استعمال حاوی رہتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اب نو
آموزکشمیری مجاہدین بھارتی فورسز سے چھینا اسلحہ اور سامان جنگ استعمال کر
رہے ہیں جس کی تصدیق بی بی سی نے بھی اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کی
ہے۔اس نئی صورتحال نے بھارت کو بڑی پریشانی میں مبتلا کیا ہے اور لگتا ہے
کہ جیسے کشمیر ی قوم بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے ،اب ان کی تحریک بہت
جلد منطقی نتیجے پر لازمی پہنچے گی۔ |