مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح

قائداعظم محمد علی جناح تمام بہن بھائیوں میں سب سے بڑے اور فاطمہ جناح سب سے چھوٹی تھیں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی محمد علی جناح سے تقریباً 17سال چھوٹی تھیں لیکن بھائی کی اس بہن کے ساتھ مثالی محبت یوں بھی تھی کہ فاطمہ جناح ابھی دو سال کی ہی تھیں جب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا فاطمہ جناح 31جولائی1893کو کراچی میں پیدا ہوئیں تو محمد علی جناح اپنی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان میں موجود تھے فاطمہ جناح اپنے بھائی محمد علی جناح سے 1896میں ملیں جب وہ بیرسٹر بن کر واپس آئے 1902میں والد کے انتقال کے بعد فاطمہ جناح کی پرورش محمد علی جناح نے شروع کی محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ سیاسی طور پر 19سال یعنی 1929سے 1948تک ان کے ہمراہ رہیں فاطمہ جناح شروع سے ہی فضول خرچی سے پرہیز کرتیں، ان کا گھر سادہ لیکن زندگی کی تمام سہولیات سے آراستہ تھا فاطمہ جناح ملاقاتیوں کے ہجوم میں بھی پر سکون رہتیں فاطمہ جناح کی تحمل مزاجی اور اپنے بڑے بھائی کا ساتھ دینا زندگی کا مقصد حیات تھا اسی وجہ سے محمد علی جناح اپنے کام میں محنت و لگن سے مصروف عمل رہے

فاطمہ جناح نے 1910میں سینٹ پیٹرک سکول ممبئی سے میٹرک جبکہ 1913میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا محترمہ فاطمہ جناح کو پڑھائی اور آگے بڑھنے کا بہت شوق تھا آپ نے 1922میں بیچلر آف ڈینٹل سرجری کی تعلیم مکمل کی اور 1923میں عبدالرحمن سٹریٹ ممبئی میں ڈینٹل کلینک کھول کر اپنی پریکٹس کا آغاز کیا 1929میں جب محمد علی جناح کی اہلیہ رتن بائی کا انتقال ہو گیا تو فاطمہ جناح نے اپنی زندگی بھائی کے لیے وقف کر دی اور انہیں دکھ درد سے محفوظ رکھنے کا عزم کیا فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ سماجی کاموں،لوگوں کی فلاح و بہبود میں صرف کیا آپ خواتین کے مسائل اور ان کے حل کی بھرپور کوشش کرتیں -

قائداعظم محمد علی جناح کی قیام پاکستان کی جدوجہد میں فاطمہ جناح نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا انہوں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے دن رات کام کیا 1947میں قیام پاکستان کے بعد جب قائداعظم بیمار ہو گئے تو فاطمہ جناح نے عوام کو کہا کہ آپ مایوس نہ ہوں قوم کا قائد جلد ٹھیک ہو جائے گا لیکن قائداعظم بدستور بیمار ہوتے چلے گئے اور 11ستمبر 1948کو اپنی قوم کو سوگوار چھوڑ گئے محترمہ فاطمہ جناح کچھ عرصہ صدمہ میں رہیں لیکن عوام کا ساتھ نہ چھوڑا آپ نے مختلف اوقات میں سکولوں کالجوں اور مختلف جگہوں کا دورہ کیا اور وہاں خطاب بھی کیا فاطمہ جناح نے قائداعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "آج ہم محمد علی جناح کا یوم پیدائش منا رہے ہیں تو اس وقت ہم ان مشکل حالات میں گھرے ہوئے ہیں جو کہ سنگین روپ اختیار کر سکتے ہیں اور جن کے نتائج دور رس ہو سکتے ہیں اور کوئی بھی ان حالات پر تشویش کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔یہ حالات اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ آپ نے قائداعظم کی وفات کے بعد ان کے اسباق کو بھلا دیا"اس کے علاوہ بھی فاطمہ جناح نے مختلف تقاریب میں خطابات کیے -

قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد فاطمہ جناح اور حکومت میں سرد مہری شدت اختیار کر گئی قدرت اﷲ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ صفحہ نمبر 432مطبوعہ جنوری 1986 باب چہارم میں لکھتے ہیں کہ "قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد فاطمہ جناح اور حکومت کے درمیان سرد مہری کا غبار چھایا ،اسی عرصہ کے دوران قائداعظم کی دو برسیاں آئیں اور گزر گئیں دونوں بار مس جناح نے قوم سے خطاب کرنے سے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا کہ براڈکاسٹ سے پہلے وہ اپنی تقریر کا متن کسی کو نہیں دکھائیں گی لیکن حکومت شرط مانے پر آمادہ نہ تھی،کیونہ انہیں خوف تھا کہ ناجانے مس جناح حکومت کے خلاف کیا کچھ بول جائیں "خدا خدا کر کے قائداعظم کی تیسری برسی کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی تقریر سنسر کروائے بغیر ریڈیو سے براہ راست نشر کرواسکتی ہیں لہذا محترمہ کی تقریر کا آغاز ہوا کچھ لمحے بعد ریڈیو ٹرانسمیشن بند ہو گئی بعد میں پتا چلا کہ تقریر میں کچھ فقرے حکومت مخالف تھے جس بنا پر ایسا کیا گیالیکن محترمہ بدستور اپنے الفاظ مائیک پر بولتی گئیں کیونکہ انہیں اس بات کا علم نا ہوا کہ نشریات بند ہیں ۔ اس وجہ سے لوگوں کی طرف سے حکومت کے خلاف زبردست احتجاج ہوا اتنا احتجاج کہ اگر وہ فقرے نشر کر دیے جاتے تو شاید اتنی ذلت برداشت نہ کرنا پڑتی ۔7اکتوبر 1958کو سکندر مرزا کی جانب سے ملک میں مارشل لاء کا نافذکر دیا گیا اور فیلڈ مارشل ایوب خان کو اپنا ناظم مقرر کیا سکندر مرزا نے اپنی حکومت بنانے کے لیے ایسا کیا لیکن 24اکتوبر 1958 کو خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے سکندر مرزا کو برطرف کر دیا اور ملک میں فوجی حکومت قائم کر دی اس کے ساتھ ہی حکمران کنونشن مسلم لیگ کی جانب سے ایوب خان کو صدر پاکستان نامزد کیا گیا لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا اور ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح میدان میں اتریں فاطمہ جناح نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کیا ان کے جلسے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے جلسوں میں شمار ہوتے ہیں 2جنوری 1965کومقرر کردہ تاریخ پر انتخابات ہوئے عوام پر امید تھے کہ محترمہ الیکشن جیت جائیں گی اور ملک کو بابائے قوم کے روپ میں ایک اور سہارا ملے گا لیکن الیکشن کمیشن کا اعلان ہوا کہ ایوب خان پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے ہیں جبکہ فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا ہوا ہے یہ اعلان بہت سے لوگوں کو درست نہ لگا اسی دوران حکومت اور اپوزیشن میں سردمہری پھر پروان چڑھنے لگی اسی وجہ محترمہ کی وفات کے بعد حکومت چاہتی تھی کہ ان کو قائداعظم کے مزار کے قریب دفن کرنے کی بجائے قدم میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے ۔

8اور 9جولائی 1967 کی درمیانی شب محترمہ فاطمہ جناح سابق وزیر اعلی حیدرآباد دکن لائق علی کی بیٹی کی شادی میں شرکت کے بعد واپس گھر آئیں ان کے ملازم کا ایک بیان ہے کہ محترمہ اس روز بھی حسب معمول واپس گھر آئیں تو بہت خوش تھیں انہوں نے کہا کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گی لیکن کچھ پھل کھائے اور قصر فاطمہ کی اوپر والی منزل پر سونے چلی گئیں ملازم کا کہنا ہے کہ محترمہ کا اصول تھا کہ روز صبح اٹھ کر چابیاں برآمدے میں پھینکا کرتیں تھیں جس سے کمروں کے تالے کھلتے اُس روز مقررہ وقت تک چابیاں نہ آئیں تو پریشان ہو گیا ان کے بر آمد نہ ہونے پر ملازم سلیم جہاں کو تشویش ہوئی اسی اثنا میں ان کا دھوبی بیگم ہدایت اﷲ کے ہاں پہنچا اس نے کہا کہ خدا نخواستہ محترمہ کی طبعیت خراب نہ ہو بیگم فوری بھاگتی ہوئی قصر فاطمہ کے نیچے والے کمرے میں گئیں جہاں چابیوں کا گچھا تھااتفاقاََان میں سے ایک چابی محترمہ کے کمرے کو لگ گئی دیکھا تو محترمہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں "-

محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی وصیت کے مطابق مزار قائد میں دفن کیا گیا ان کی قبر قائد سردار عبدالرب نشتر اور لیاقت علی خان کی قبروں کے درمیان ہے محترمہ کی قبر قائد اعظم محمد علی جناح سے تقریباً 120فٹ کے فاصلے پر بنائی گئی قبر کشائی پر تقریباً 12گھنٹے لگے کیونکہ زمین پتھریلی تھی قبر کشائی کے لیے 20گورکھنوں نے حصہ لیا جن کی قیادت ساٹھ سالہ عبدالغنی کر رہا تھا عبد الغنی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قائداعظم ،لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبریں بھی اس نے تیار کی تھیں ۔

محترمہ فاطمہ جناح کی نماز جنازہ قصر فاطمہ میں پہلے ابن حسن چارجوئی نے ساڑھے آٹھ بجے پڑھائی پھر پونے نو بجے میت قصر فاطمہ سے اٹھائی گئی تو لاکھوں آنکھیں اشک بار ہو گئیں جیسے ہی میت کو کندھوں پر اٹھایا گیا تو لاکھوں افراد نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا اور بعد میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے آپ کے جسد خاکی کو سبز ہلالی پرچم میں رکھا گیا تھا محترمہ کا جنازہ پولو گراؤنڈ پہنچا تو وہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد کا مجمع موجود تھا اور وہاں جنازہ کی تیاری پہلے سے ہی میونسپل کارپوریشن نے کرر کھی تھی اس طرح دوسری نماز جنازہ مفتی محمد شفیع نے پڑھائی جب محترمہ کا جسد خاکی زیب النساء سٹریٹ سے آگے بڑھے تو لوگوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی لوگ مزار قائد کی جانب رواں دواں تھے محترمہ کی میت جب مزار قائد کے احاطے میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے وزیر خارجہ شریف الدین پیرزادہ نے کندھا دیا لوگوں کی آمد کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا جوان بوڑھے بچے خواتین زار و قطار اپنے ملک کی ماں کا آخرے دیدار کرنے کو ترس رہے تھے محترمہ کی وفات والے دن ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان بھی ہوچکا تھا پولیس نے ہجوم کو پیچھے ہونے کو کہا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا جس کے بعد ایک بس اور پٹرول پمپ کو آگ لگا دی گئی جس میں متعدد بچے اور خواتین زخمی ہوئے تقریباً 12بج کر 35منٹ پر ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے اپنے لرزتے ہاتھوں سے محترمہ کی میت کو قبر میں اتارا تو اس وقت لوگوں کی تعداد 6لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی جنہوں نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا 12:55پر قبر ہموار ہوگئی یوں محترمہ فاطمہ جناح لاکھوں سوگواروں اور قوم کو یتیم کر کے منوں مٹی تلے سو گئیں -

محترمہ فاطمہ جناح کی موت آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے کہ ان کے ساتھ اس رات کیا بیتا جو وہ موت کی آغوش میں چلی گئیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ محترمہ طبعی موت نہیں بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے 1972میں غلام سرور نامی ایک شخص نے فاطمہ جناح کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی جس کی تفصیل میں مجھے یہاں جانے کی ضرورت نہیں
آخر میں حبیب جالب کا ایک شعر جو انہوں نے محترمہ کے لیے لکھا
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو ہزاروں ہیں مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی کب مرتے ہیں مادرِملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے

Mazhar Rasheed
About the Author: Mazhar Rasheed Read More Articles by Mazhar Rasheed: 129 Articles with 119976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.