ندوی صاحب!’’ میں برہان کا بھائی ہوں، اپنا نمبر
دیجیے،کبھی ضرورت پڑی تو میں فون کروں گا ‘‘اور یہ نوجوان مجھ سے لپٹ گیا
،ہنستا ہوا پھول جیسا چہرہ ،گورارنگ اور آنکھوں سے چھلکتی معصومیت ۔محترم
گیلانی صاحب کے گھرواقع حیدر پورہ سری نگر میں ایک سیمنارپر میں نے تقریر
ختم کی توآخر میں نوجوانوں نے حسب معمول گیلانی صاحب کو گھیر لیا۔تمام تر
ناتوانیوں کے باوجود گیلانی صاحب نوجوانوں کا خاص خیال رکھتے ہیں یہ لمحات
ان کی بذلہ سنجی کے سبب دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں ۔میں جناب سے رخصت ہو رہا
تھا تو مجھ سے پہلے ایک خوبرونوجوان مصافحہ کر کے رُخصت ہوا تھا اور میرا
انتظار کر نے لگا ۔کس سے معلوم تھا کہ یہ نوجوان گھر پہنچ کر چند روز بعد
ہی انتہائی بے رحمی کے ساتھ دوران حراست تشدد سے قتل ہونے والا ہے ۔دو
شہیدوں کے باپ مظفر وانی کے بقول خالد کو برہان سے ملنے کے بعد کہیں راستے
میں گرفتار کر کے دورانِ حراست قتل کیا گیا تھا اس لئے کہ ان کے جسم پر جگہ
جگہ تشدد کے نشانات موجود تھے ۔اس شہادت کے بعد اس راز کا انکشاف ہوا کہ اس
خاندان میں یہ کوئی پہلی شہادت نہیں ہوئی ہے بلکہ انھوں نے اسے پہلے بھی
کئی نوجوان تحریک پر قربان کئے ہیں ۔خالد کے قتل کے بعد برہان کی شہرت میں
بے حد اضافہ ہوا اور انھیں عسکری تحریک کی تاریخ میں سب سے نامور کمانڈر
ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کشمیر کی عسکری تحریک نے بالعموم اور حزب
المجاہدین نے بالخصوص بے شمارکمانڈر پیدامگر جو شہرت برہان وانی کو نصیب
ہوئی اس کا تصور بھی نہ کسی نے کیا ہوگا اور نا ہی مستقبل قریب میں کوئی کر
سکتا ہے ۔یہ نوجوان کشمیر میں ہو رہے ریاستی جبر و تشدد سے متاثر ہوکر حزب
المجاہدین شامل ہوا ۔اس کی عسکری تربیت بھی مقامی نوعیت کی تھی ۔نا یہ اپنے
پیش روؤں کی طرح ’’پاک ٹرینڈ‘‘تھا نا ہی اس نے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں
کی ہوا کھائی تھی ۔یہ کشمیر کی لکھی پڑھی نئی پود کی طرح دو صفات سے متصف
تھا ایک قوم کی مظلومیت پر تڑپ اُٹھنا دوم انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کرتے ہو
ئے سوشل میڈیا سے ’’ابلاغِ حق‘‘کا کام لینا ۔
نوجوانوں کو خدا کے اس بندے نے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور سبھی اہل دانش
حیران تھے کہ آخر اس خوبصورت نوجوان میں ایسی کیا صلاحیت ہے جس کے سبب
کشمیر کے بزرگ ،بوڑھے اور خاص طور پر نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں اسے بے پناہ
محبت کرتی تھیں ۔تاریخ میں ایسے بے شمار کردار پڑھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے
کم عمری میں ہی اپنا نام روشن کیا اور قومیں ان پر مدتِ مدید تک کٹ مرتی
رہی ۔ برہان کا اگر اپنے پیش رو کمانڈروں سے ہی موازنہ کیا جائے تو کئی طرح
سے وہ عبداﷲ بنگرو،مقبول الائی ، اشرف ڈار، عبدالاحد کولنگامی،پروفیسر معین
الاسلام ،شمس الحق ، علی محمد ڈار، ریاض الرسول ،انجینئر محمود الزمان خان
، سیف اﷲ ، کمانڈر مسعود،اکبر بھائی افغانی ،انجینئر مسعود سوڈانی
اورسینکڑوں آزاد کشمیری اور پاکستانیوں کے مقابلے میں کم عمر،نا تجربہ
کار،کم تربیت یافتہ اور نو آموز تھا مگر حیرت انگیز بات یہی ہے کہ برہان
تمام تر مصنوعی کمیوں کے باوجود اس سطح پر چھا گیا کہ اپنے تو اپنے غیر بھی
اس کی تعریفوں کے پل باندھتے سنے گئے۔ڈھائی سو سالہ آزادی کی تحریک میں
ہمیں ایک بھی ایسا نام نہیں ملتا ہے جس نے ’’زندگی کے برعکس موت‘‘سے اپنی
قوم کو اس قدر متاثر کیا ہوکہ نہ صرف انشاء پرداز وں کا ابھی تک یہی موضوع
ہے بلکہ شعراءِ کشمیر میں شاید ہی کوئی ہو جس نے برہان پر کچھ نہ کچھ کہا
ہو۔برہان کی موت پر نثر کے بعد جس صنف کی خوب آبیاری ہوئی وہ ہے مرثیہ۔ اس
کا سلسلہ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی جاری ہے ۔کشمیری خواتین نے ہزاروں
گیت برہان پر گائے اور شاید ہی کوئی نشست ،اجتماع ،سیمنار یا محفلِ مذاکرہ
ہو جہاں برہان کا ذکر نہ چلے ۔سفر ہو یا حضر ہر جگہ برہان کا ذکر آہی جاتا
ہے ۔
بھارت کے قومی میڈیا سے وابستہ سینکڑوں نیوز چینلز اور ہزاروں لوکل چینلزپر
برہان کے متعلق اتنی بحث ہوئی کہ شاید کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی حزب
المجاہدین اتنے بحث و مباحث کا اہتمام نا کر پاتی۔پارلیمنٹ کے دونوں
ایوانوں لوک سبھا اور راجہ سبھا میں خصوصی اجلاس کے دوران برہان ہی چھایا
رہا اور اس کاروائی کو درجنوں بھارتی نیوز چینلز براہ راست نشر کر رہی تھیں
۔ہندوستان کے ہزاروں اخبارات میں آج تک برہان اور اس کے دو ساتھیوں کی قتل
اور نئی پیدا شدہ صورتحال پر بلا مبالغہ لاکھوں صفحات سیاہ کئے جا چکے ہیں
۔کشمیر اور حزب مخالف ان تبصروں اور مباحث سے بے خبر بھارتی میڈیا نے خود
ہی مسئلہ کشمیر بھارت کے کونے کونے تک پہنچا دیا اور اب بھارتی عوام کے لئے
کشمیر اور مسئلہ کشمیر پہلے کی طرح بے خبری کا اشو نہیں رہا ہے ۔گویا برہان
کی موت مسئلہ کشمیر کو بھارت کے کروڑوں انسانوں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ بن
گیا لہذا یہ اعزاز بھی صرف برہان کو ہی حاصل ہے کہ اس کی موت نے مسئلہ
کشمیر کو گمنامی کے غار سے باہرنکال کر بھارت کے عوام اور ایوانوں تک پہنچا
دیا ۔اتنا ہی نہیں برہان وہ پہلا نوجوان ہے جس کے قتل کے بعد پوری کشمیری
قوم سڑکوں پر آکر پانچ مہینوں تک بیٹھ کر آزادی کا مطالبہ کرنے لگی ۔اسے
پہلے 2008ء،2009ء اور2010ء میں بھی عوام نے پر امن طور پر آزادی کا مطالبہ
کیا تھا مگر جو جذبہ اور جوش و خروش ہم نے 2016ء میں دیکھا اس کی کہیں بھی
نظیر نہیں ملتی ہے اور میری معلومات کی حد تک سچائی یہی ہے کہ اسے پہلے بھی
کسی بھی قوم نے سوائے فلسطینی قوم کے اس قدربہادری ، پامردی اور جوش و خروش
کا مظاہرہ نہیں کیاہے ۔
برہان کی موت نے نہ صرف وادی کشمیر میں انقلاب برپا کیا بلکہ پوری ریاست
میں طلاطلم پیدا ہوا ۔کشمیر کے ساتھ ہی ساتھ جموں ڈویژن کے ڈوڈہ ،بھدرواہ،
کشتواڑ،راجوری،پونچھ اور لداخ کے لیہہ اور کرگل اس کی لپیٹ میں آگئے اور
جموں کے مسلمان عمائدین نے میڈیا کے سامنے نئی دہلی پر یہ بات واضح کر دی
کہ ہم جموں کی فرقہ پرست اور متعصب ہندؤں کی ایک محدود اقلیت کے برعکس
کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہم ان کے
ساتھ رہیں گے ۔یہ پہلا موقع تھا جب جموں ڈویژن اور لداخ میں بڑے پیمانے پر
احتجاج ہوئے بلکہ ریکارڈ ہڑتال بھی دیکھنے کو ملی ۔گویا برہان کے خون نے نہ
صرف کشمیر میں انقلاب برپا کیا بلکہ پوری ریاست کی عوام کو اتحاد کی توفیق
ملی ۔حیرت انگیز یہ کہ 1990ء کی طرح ہند نواز جماعتوں سے مستعفی ہو نے کی
ایسی لہر چلی کہ خود تحریک نوازوں کو بھی استعفوں کی بھرمار دیکھ کر حیرت
ہو رہی تھی ۔کئی نوجوان پولیس محکمے سے بھی مستعفی ہو گئے ۔لوکل باڈیز
انتخابات میں جیتنے والے نوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ مستعفی ہو گئے اورچند
گنے چنے ہندنواز افراد’’ہائی سیکورٹی زونز‘‘میں پورے نو مہینوں تک مکمل طور
پر رو پوش ہو گئے یاجموں منتقل ہو نے پر مجبور ہو گئے ۔ہر طرف آزادی کے
نغمے ،ترانے ،تلاوت قرآن اور نعتِ رسول ِ مقبولﷺ مساجد کے لاؤڑاسپیکروں سے
سنائی دے رہے تھے اور یہ سلسلہ آج جولائی 2017ء کے اواخر میں دوبارہ شروع
ہو جاتا ہے جب بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے ۔
یہ اعزاز بھی برہان ہی کو حاصل ہے کہ جہاں اس نے پوری قوم کو آزادی کے لئے
متحد کیا وہی آزادی پسند لیڈرشپ جو عرصہ دراز سے مختلف خانوں میں منقسم رہ
کر قوم کے لئے سوہانِ روح بنی ہو ئی تھی ایک صف میں کھڑی نظر آئی، گرچہ
شہادت سے پہلے کچھ ناگزیر مسائل نے انہیں علامتی صورت میں متحد کیا تھا
۔قوم کے دردِ دل رکھنے والے دانشور تمام تر کوششوں کے باوجود آزادی پسند
قیادت کو مجتمع کرنے میں ناکام ہو چکے تھے ۔ان کے آنسوں اور آہیں لیڈرشپ کے
شدید اختلافات کے سامنے بیکار جاتے تھے ۔متحدہ جہاد کونسل کے چیرمین اور
حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین احمد کی کوششیں اور اپیلیں
بھی مؤثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں ۔حکومتِ پاکستان کی کوششیں بھی بیکاراور بے
سود ثابت ہو رہی تھیں مگر برہان کے خون نے انہیں ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا
حتیٰ کہ اب گذشتہ ایک سال سے مشترکہ پروگرام لیڈرشپ کی جانب سے جاری کئے
جاتے ہیں اور پوری قوم من و عن اس پر عمل پیرا ہے ۔لیڈر شپ کے اتفاق نے
بھارت کی ایجنسیوں کی نیند اڑا رکھی ہے اور ان کے تمام تر حربے ناکام ہو
چکے ہیں اور وہ اس بات کا تجزیہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں کہ
آخر برہان کے قتل کے بعد ایسا ہو کیا گیا ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ لیڈر شپ
بھی ایک ہی مقام پر کھڑی نظر آتی ہے ۔
سب سے اہم اور ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ جوطبقہ کبھی بھی ایک جگہ ایک ساتھ
بیٹھ نہیں سکتا ہے وہ ہے ’طبقہ علماء! ‘جن کی بارہ سو سالہ تاریخ انتشار
اور افتراق کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے کے خلاف فتوؤں سے
جوطوفان برپا کر رکھا ہے اور جو نقصان امت کو ان کے فتوؤں نے پہنچایاہے
اسلامی تاریخ کے لاکھوں صفحات اس شرمناک صورتحال کو بیان کرتے ہوئے بھری
پڑی ہے اور کشمیر بھی افسوسناک صورتحال کی زد میں تھی کہ برہان کے خون نے
ان تمام مسالک اور مکاتبِ فکرکے علماء کو ایک ہی اسٹیج پر لا کھڑا کیااور
میں ماضی میں ان کے کارناموں کے بعد انھیں لاکھوں لوگوں کے اجتماعات میں
ایک جگہ دیکھ کر نہ صرف حیران ہورہا تھا بلکہ مجھے بے حد مسرت بھی محسوس ہو
رہی تھی کہ آسمان نے وہ دن بھی دیکھے جب آزادی کے نام پر ایک دوسرے کے
کندھے سے کندھا ملا کرایک ہی اسٹیج پر کھڑے ہیں ۔علماء نہ صرف ہر جلسہ
،جلوس اور اجتماع میں شامل ہوتے تھے بلکہ پیش پیش رہنے اور ایک دوسرے سے
سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے اور اگر کہیں کسی جگہ انہیں نا بلایا جاتا تو
وہ منتظمین سے ناراض ہو تے تھے ۔ان کی تقاریر میری طرح ہر اس فرد کے لئے
انتہائی حیران کن ہوتی تھیں جو ان کے ماضی کے کارناموں سے واقف تھے ۔ انہیں
ہر جگہ نہ صرف ترجیح دی جاتی تھی بلکہ ان کے عزت و احترام کو بھی مقدم رکھا
جاتا تھا ۔علماء نے بہ یک آواز ہندوستان کو سخت پیغام دیا کہ اگر آپ کو
ہمارے مسالک و مکاتبِ فکر جداجدا نظر آتے ہوں تو ہوں مگر آزادی کے یک نقاطی
ایجنڈے پر ہم متحد اور متفق ہیں ۔پوری ریاست میں ان کے اتحاد سے انتہائی
مثبت اثرات نظر آئے ۔
2016ء میں بزرگوں کے پر مسرت چہرے دیکھنے کے لائق تھے ۔2016ء کے انقلاب نے
نوجوان طبقے کو بالعموم اور طلبا و طالبات کو بالخصوص متاثر کیا اور سچائی
یہ ہے کہ سید علی شاہ گیلانی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا کہ ’’تحریک نئی
نسل میں منتقل ہونی چاہیے‘‘اور وہ انتہائی جوش و جذبے سے نہ صرف منتقل
ہوگئی بلکہ نوجوان اس پر مر مٹنے پر آمادہ ہیں ۔آج کل کشمیر ی’’ طلباء اور
طالبات ‘‘میں جو جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے یہ دراصل 2016ء کے انقلاب
کا نتیجہ تھا جس نے ان میں دیر پاولولہ پیدا کیا ۔فی الحقیقت برہان کی
شہادت نے کشمیر کے بزرگوں،نوجوانوں ،عورتوں اوربچوں میں ایک نئی حرارت ہی
نہیں پیدا کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ تاجر،وکیل،ڈاکٹر،مزدور،استاد ،شاعر،ادیب،فن
کار ،عالم ،مفتی اورشعبہ ہائے حیات سے وابستہ تمام تر انسانوں میں تحریک کا
عشق کوٹ کوٹ کر بھر دیا ۔اس انقلاب کا اہم اور قابل تعریف پہلو یہ سامنے
آیا کہ پوری قوم ایک دوسرے کے غم میں شریک ہو گئی اور اس نے پانچ مہینے کی
مکمل احتجاج اور ہڑتال میں کسی بھی غریب اور تنگ دست کو بھوکے مرنے نہیں
دیا ۔ہر جگہ مقامی اور غیر مقامی افراد کے لئے مفت لنگر قائم کئے گئے
۔ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے مفت کھانے اور دوائیوں کا اہتمام کیا گیا
۔پیلٹ اور گولیوں سے متاثر افراد کے لئے مقامی طور پرمختلف گروپس بنا کر ان
کی دیکھ ریکھ کا انتظام کیا گیا اور قیدیوں کے مسائل کی جانب توجہ دی گئی
گویا برہان کے خون نے نہ صرف پوری قوم کوایک دوسرے کا غمخوار اور ہمدرد بنا
دیا بلکہ پہلی مرتبہ ’’بنیان مرصوص‘‘ کی عملی تفسیر نظر آئی ۔ شاید دنیا اس
یکجہتی اورعملی پہلو سے اس قدر متاثر ہوئی کہ سعودی عربیہ جیسا خاموش اور
تاجر ذہنیت کا حامل ملک کے بادشاہ نے بھی کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر بیان
جاری کردیا ۔ایران کے امام آیت اﷲ خامہ نائی سے لیکر اُو ،آئی ،سی جیسے
کاغذی ادارے تک سبھی منہ کھولنے پر مجبور ہو گئے ۔امریکہ ،برطانیہ ،فرانس
،چین اور روس نے بھی کشمیر پر بیانات جاری کئے گویا کہ برہان کے خون نے ایک
عالم کو متاثر کیا ۔
برہان وانی کشمیر کی تاریخ اور تحریک کا پہلا شہید ہے جس کی شہادت کے پسِ
منظر میں برپا انقلاب سے متاثر ہو کر پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف
نے گیارہ منٹ تک صرف کشمیر پر اقوام متحدہ میں تقریر کی ۔بھارت اس صورتحال
پر نہ صرف بے چین ہو ا بلکہ کشمیر کے بین الاقوامی فورمز پر چھا جانے کے
خوف سے گھبراہٹ میں مبتلا نظر آیا ۔اس کی برہان وانی کو دہشت گردقرار دینے
کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں ۔برہان مظفر وانی اور اس کے دوسرے دو
ساتھیوں سرتاج احمد اور پرویز احمدکی شہادت نے نہ صرف ایک محشر برپا کیا
بلکہ کشمیر کی قیادت سے لیکر ایک عام انسان تک سب کو متاثر کر کے اپنوں اور
غیروں دونوں کو مسئلہ کشمیر کی حقیقت جاننے پر مجبور کردیا اور خود بھارت
کے نوجوانوں میں ایک سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ آخر کشمیری بھارت سے بیزارکیوں
ہیں ؟کیا کشمیر پر بھارت نے قبضہ کیا ہے یا کشمیری اپنی خوشی سے بھارت میں
شامل ہو ئے ہیں ؟ان سوالات کے جوابات تلاشتے تلاشتے وہ اس بات تک پہنچ ہی
جاتے ہیں جس کے لئے برہان سے پہلے اور برہان کے بعد ہزاروں اور لاکھوں
کشمیریوں نے اپنے گرم گرم خون کا نذرانہ پیش کر کے بھارت کے گاندھی ازم کے
فلسفہ عدم تشدد اور سیکولر ازم کا کھوکھلا بھرم توڑ کر سرِ راہ بے نقاب
کردیا ہے ۔اور اب دنیا جان رہی ہے کہ بھارت درحقیقت ایک قابض اور جارح
ریاست ہے جس نے کشمیر پر جابرانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔یہ تو ہوئی برہان کے خون
کے صدقے پیدا شدہ صورتحال اور اس سے حاصل شدہ فوائدکی بات، مگر ایک اہم
سوال ہر ایک شخص کے ذہن میں یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر برہان جیسے معصوم
نوجوان اور بھارت کی زبان میں پوسٹر بوائی میں ایسی کیا خصوصیت تھی کہ اس
کے خون نے قیامت برپا کی ؟میں نے یہ سوال جس سے بھی پوچھا مجھے مطمئن کرنے
میں کامیاب نہیں ہوا سوائے چند ایک ایسے اہل بصیرت کے جن کی نگاہوں سے
متعلق اقبالؒ نے کہا ہے اور برحق کہا ہے
جو ہے پردوں میں پنہاں ،چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے
زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ روحیں ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں اور ظاہر سے اندر نظر نہ
آنے والی روح کی خصوصیت جاننا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے ۔روحوں کے
لطیف و کثیف کی باتیں تو پرانی ہوچکی ہیں مگر مقبول ارواح کا معاملہ پورے
طورپر اﷲ کے علم خصوصی کا معاملہ ہے اور جب بھی یہ روحیں دنیا میں آتی ہیں
تو دیر سویر ان کی خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں ۔برہان ایک لطیف اور مقبول روح کا
حامل معصوم نواجوان تھا جس سے اﷲ تعالیٰ کو محبت تھی تو اس نے حدیث نبویؐ
کے عین مطابق اپنے خاص فرشتوں سے اس کے ساتھ محبت کرنے کی منادی کرادی کہ
سارا عالم برہان کی نام سے گونج اٹھا اور آج تک گونج رہا ہے سچ کہا ہے
علامہ اقبالؒ نے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
|