بدقماش کملیش کی دریدہ دہنی

بات کو تولنا اور اس کو اپنی ذات پر استعمال کرکے اس کی گیرائی و گہرائی کا جائزہ لینا کہ وہ کس حد تک موثر ہے یہ عقلمند انسان کی پہچان ہے ، کیونکہ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ خوشکن چیزوں پر مسرت کا اظہار کرتی اور ناپسندیدہ چیزوں پر ناگواری کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ اگر انسان بولنے سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ محاسبہ کرلے تو اس بات کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوجائے گا ۔ پھر جو بھی بات کہے او ربولے گا وہ عقلمند کی بات ہوگی اور ندامت وخجالت سے عاری ہوگی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ﴿مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید﴾ کہہ کر اشارہ دے دیاہے کہ بولنے سے پہلے غور کرنا ضروری ہے اس لئے کہ بات کی مثال اس تیر کی سی ہے جس کو صحیح رخ دے کر نشانے پر لگایا جاتااور شکار کیا جاتاہے ،یوں ہی تیر چلا دینا بیوقوفی کی علامت تو ہے ہی ساتھ ہی تیر بھی ضائع ہوتااور انسان مطعون ہوجاتاہے اسی طرح تیر چلانے سے پہلے ہر زاویہ سے اسکو آزمایاجاتاہے کہ وہ شکار کے موافق ہے یا نہیں ۔ اگر موافق ہے تو ٹھیک ورنہ یا تو کنارہ کشی اختیارکی جاتی ہے یا پھر تیر کش کے دوسرے تیر کو آزمایا جاتاہے اسی کو نشانہ پر تیر لگنے سے تعبیر کیا جاتاہے اور ایسا شخص نشانہ بازکہلاتاہے کیونکہ تیر کا چلانا کمال نہیں ہے، بلکہ اسکو نشانے پر صحیح استعمال کرنا مردانگی ہے اسی وجہ سے حکمت والی کتاب قرآن حکیم میں اللہ نے ساری انسانیت کو حکمت بر مبنی تعلیمات دی ہیں اور خجالت وندامت کی راہ سے نجات کا راستہ دکھلایاہے تاکہ لوگوں کی عزت و شان محفوظ رہے اور وقار مجروح نہ ہو اور معاشرے کاماحول پراگندہ ہونے سے بھی بچارہے تاکہ حقوق و واجبات کی ادائیگی باہمی خیرخواہی کے جذبہ کے ساتھ انجام پاتی رہے ۔
یہ ایک ایسااصول ہے جو انسانوں کو تنقید کا گرسکھلاتاہے اور اپنی خامیوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کی راہ ہموار کرتاہے نیز بیجا تنقیدوں کے دروازے بند کرتاہے جو بھی انسان اس راستے پر چلے گا وہ کامیابی سے ہمکنارہوگا اور اسکا وقار بلند ہوگا لیکن جو اس کی خلاف ورزی کرے گا باتوں کے الفاظ کی گہرائی کو وہ نہیں سمجھے گاتو ذلت و رسوائی اسکا ہمیشہ تعاقب کرتی رہے گی جو اسکے دل و دماغ کےچین و سکون کو چھین لے گا اور باربار ندامت وخجالت کاکچوکا اسے معافی مانگنے پر پشیماں کرتے رہے گا ۔ جارج ڈبلیو بش اور ٹونی بلیئر نے عراق پر اپنی طاقت کا دھونس جمانے کی غرض سے ہتھیاروں کا جھوٹا پروپیگنڈ ہ کرکے حملہ کیا تھا مگر سچائی نے ان کا ایسا تعاقب کیا کہ انھیں اپنے جرم کا اقرار کرکے معافی مانگنا پڑا ، اورذلت و رسوائی کے سواکچھ ہاتھ نہیں آیا اسی کو کہتے ہیں کہ ’’ جب چڑیا چگ گئی کھیت تو پھر پچھتانے سے کیا فائدہ ‘‘ ۔

شام کے ساتھ سحر کا نمودار ہونا اور اندھیرے کے بعد اجالے کا آنا لازمی امر ہے ہمارے ملک کے مسند اقتدار پر جب سے بی جے پی براجمان ہوئی ہے تب سے اسکے ہاتھو ںکے طوطے بے قابو ہوکر اڑنے لگے ہیں اور صحن گلشن کی ہر شاخ پر بیٹھ کر برسات کے مینڈھک کی مانند ٹرٹر کرنے لگے ہیں جیسے لگتاہے کہ انہیں مسند اقتدار کی گرمی نے سانپوں کے مثل بلوں سے نکلنے اور شدت برودت نے گیدڑ کی آواز نکالنے پر مجبورکردیا ہے ،پوزیشن یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر شاخ کا الّو آواز نکالنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں بیتاب نظر آرہاہے اور سورج کی روشنی کو بھی ماند دینے کی فراق میں دکھائی دے رہاہے۔ ہندومہاسبھا کے کارکن کملیش تیواری اور بھارت ہندو یوا مورچہ کا کارکن دیپ پرکاش شکلا نے محمد عربی ﷺ اور آپ کے ازواج مطہرات اور جانثار اصحاب پر دشنام طرازی میں اپنی دریدہ دہنی اور گندی اورغلیظ فکر کا مظاہر ہ کرنے میں تو حد ہی کردی اور انسانیت کی تمام حدودکو پار کرگیا ،جب کہ ہمارے نبی ﷺ کی ذات گرامی دنیائے انسانیت کی نگاہ میں بڑی قدرومنزلت کی حامل ہے بلکہ چند بنیاد پرست مفکرین کو چھوڑ کر اکثر صاحب مرتبت افرادآپﷺ کو دنیائے انسانیت کا سب سے عظیم قائدو رہبر اور قد آور شخصیت کے طورپر تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی زندگی کے ہرہر پل کو احترام وعقید ت کی اعلیٰ نگاہ سے دیکھتے ہوئے پوری انسانیت کی فلاح یابی کی معراج تصو رکرتے ہیں ۔ اور عقیدت و محبت کی راہ میں امن و شانتی اور صلح و یکجہتی کا سنگ میل مانتے ہیں اور سیادت و قیادت میں عظیم سپہ سالار کا مرتبہ دیتے ہیں ۔ ایک عیسائی مفکر مائیکل ہارٹ اپنی کتاب’’ سو عظیم لوگ‘‘ میں آپ ﷺ کی خصوصیا ت بیان کرتے ہوئے لکھتاہے کہ ’’ممکن ہے کہ انتہائی متائثر کن شخصیات کی فہرست میں حضرت محمد ﷺ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی او ردینی دونوں محاذوں پر برابر کامیاب رہی ‘‘۔

کملیش تیواری اور د یپ پرکاش شکلاکا ناعاقبت اندیشانہ نظریہ بتلاتاہے کہ وہ شام کے ساتھ سحر اور اندھیرے کے ساتھ اجالے کے آنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ شام اور تاریکی ہی رہے گی اور ان کا جرم دبیز تاریکیوںکے پردے میں چھپا ہی رہے گا کبھی اس پر سورج کی کرن نہیں پڑے گی ،کاش کہ اس خبیث ذہنیت انسان نے تنہائی میں یہ سوچنے کی کوشش کی ہوتی کہ سورج پر تھوکنا اور پانی میں غلاظت کرنا دونوں قبیح خصلتیں ہیں کیونکہ سورج پر تھوکنے کا مطلب اپنے چہرے پر غلاظت ڈالنا اور پانی میں غلاظت کرنے کا معنی اس کی کریہہ بدبو سے محظوظ ہوناہے ،کیا ہی اچھا ہوتاکہ یہ ناعاقبت اندیش انسان اپنی خول سے باہر نکل کر آزادنہ طورپر غور وفکر کرنے کی کوشش کرتے اور تمام غیر اسلامی اسکالر س ومفکرین کی کتابوں کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ کرکے اپنی دلی کدورت کا بخار ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے اور خاکی نیکر اور بنڈی کی نفرت انگیز سیاست کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے تاکہ ان پریہ واشگاف ہوجاتا کہ اصلی بدکردار کون ہے ؟ اورکس کی خمیر میں خباثت و نجاست بھری ہوئی ہے تو وہ ہرگز سورج پر تھوکنے کی گھنائونی کوشش وسازش نہ کرتے کیونکہ نبی کی سیرت و صورت دونوں دنیائے انسانیت کے لئے ایک عظیم تحفہ تھی ۔

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.