علامہ اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ایک عبقری شخصیت
علامہ محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ،آپ برصغیر
ہندوپاک کے اہل علم طبقہ میں اور خصوصا جماعت اہل حدیث میں ایک معروف
شخصیت کے حامل تھے،آپ ایک بہترین صحافی ،مقرر، دانشور وادیب اور وسیع
المطالعہ شخصیت تھے ۔
نام ونسب اور ولادت:
علامہ محمد اسحاق بھٹی بن عبدالمجید بن محمد بن دوست محمد بن منصور بن
خزانہ بن جیوا اہل حدیث مسلک سے وابستہ صحافی ، مؤرخ ، عالم دین ،
تجزیہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔ آپؒ کی پیدائش ۱۵؍مارچ ۱۹۲۵ء کو کوٹ
کپورہ ہندوستانی حصہ مشرقی پنجاب میں ہوئی۔
تعلیم:علامہ بھٹی ؒ نےپانچ سال کی عمر میں دادا مرحوم سے قرآن مجید
ناظرہ اور اردو لکھنا ،پڑھنا شروع کیا ، اور ساتھ ہی سرکاری اسکول کی
پہلی جماعت میں داخلہ لیا ۔ اسکول ہی سے چوتھی جماعت پڑھ کر پرائمری
پاس کیا۔ اس کےبعد آپ مولانا عطاء اللہ حنیف محدث بھوجیانیؒ سے کسبِ
فیض کیا اور ۱۹۳۹ء میں آپؒ ہی سے نحو وصرف وغیرہ سیکھا۔
پاکستان ہجرت:۲۴ ؍جولائی ۱۹۴۸ء کو مولانا بھٹیؒ ترکِ وطن کر کے پاکستان
آگئے۔ وہ اپنے ساتھ بہت ہی محدود اسباب لائے تھے۔ اسی سال جب پاکستان
میں جماعتی نظم"مرکزی جمعیت اہل حدیث کاقیام عمل میں لایاگیا۔اس وقت
امیرمولاناداود غزنوی اور ناظم اعلی مولانامحمداسماعیل سلفی تھے،آپ
کوناظم دفتربنایاگیا اس عہدے پر۱۹۶۴ء تک کام کیا۔ اس دوران ۱۹۴۹ء میں
ہفت روزہ الاعتصام کااجراہواجس کےآپ معاون ایڈیٹرتھے،
اورایڈیٹرمولانامحمدحنیف ندوی تھےبعدازاں ۱۹۵۱ء میں مولانا حنیف ندوی
کےمستعفی ہونےکےبعدآپ ایڈیٹربن گئے۔
ادارہ ثقافت اسلامیہ سے وابستگی:
۱۲؍ اکتوبر۱۹۶۵ء کو مشہور اسلامی تحقیقی ”ادارہ ثقافت اسلامیہ،، نے
بغیر کسی درخواست کے ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مولانا بھٹّی کی خدمات
حاصل کرلیں ، یہ وہ ادارہ ہے جو بر صغیر کے معروف محققین کا مرکز تھا ،
جن میں اس ادارہ کے ڈائرکٹر شیخ محمد اکرام ،مولانا محمد حنیف ندوی ،
سید جعفر شاہ پھلواروی ، رئیس احمد جعفری وغیرہ ہیں ۔ یہ ایک نیم
سرکاری ادارہ تھا ، جس میں بھٹی صاحب کو خالص تحقیقی میدان سے واسطہ
پڑا ۔ آپ ادارہ ثقافت اسلامیہ سےوابستہ ہوگئےاور ۱۹۹۷ء تک ۳۲سال اس
ادارے میں کام کرتےرہے۔
تصنیفی خدمات:آپ موصوف ؒ کی تصانیف تقریبا چالیس سے متجاوز ہیں ، ذیل
میں آپ ؒ کی معروف کتابوں کا تذکرہ کیا جارہاہے:’’ نقوش عظمت رفتہ،
بزم ارجمنداں،کاروان سلف، قافلہ حدیث، گلستان حدیث، دبستان حديث، تذکرہ
قاضی سلیمان منصورپوری، تذکرہ مولاناغلام رسول قلعوی، تذکرہ صوفی محمد
عبداللہ، تذکرہ مولانااحمدالدین گکھڑوی ،قصوری خاندان، ارمغان حنیف،
تذکرہ مولانامحمداسماعیل سلفی، برصغیرمیں علم فقہ ،برصغیرمیں اسلام کے
اولین نقوش، برصغیرمیں اہل حدیث کی آمد، فقہائے پاک وہند، میاں فضل حق
اور ان کی خدمات،میاں عبدالعزیز مالواڈہ، تذکرہ محدث روپڑی،
برصغیرکےاہل حدیث خدام قرآن، ہفت اقلیم، برصغیرمیں اہل حدیث کی
اولیات، برصغیرمیں اہل حدیث کی تدریسی خدمات،عربی کےتین هہندوستانی
ادیب، آثارماضی،محفل دانشمنداں، عارفان حدیث، چمنستان حدیث، اسلام کی
بیٹیاں،لسان القرآن، ترجمہ ریاض الصالحین، ترجمہ فہرست ابن ندیم
‘‘وغیرہ وغیرہ ۔
ان کتابوں کے علاوہ بھی علامہ کے اور کئی ایک مایہ ناز کتابیں ہیں جو
زیر طبع یا مسودہ کی شکل میں آپ کے کتب خانہ میں موجود ہیں، اسی طرح
آپؒ کے قیمتی مضامیں بھی ملک وبیرون ملک کے مختلف جرائد ومجلات میں
بکھرے پڑے ہیں۔
یہ تھیں مولانامحمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی قلمی خدمات۔اس کے علاوہ
بھٹیؒ کی شخصیت وہ عبقری اور مایہ ناز ہے جن کی زندگی ہی میں ان پر
ریسرچ اور ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے گئے، چنانچہ پنجاب یونیورسٹی کی ایک
ہونہار طالبہ محترمہ فوزیہ سحرملک نے ایم فل کیا،مقالے کاعنوان
تھا’’محمداسحاق بھٹی کی خاکہ نگاری‘‘۔اوریہ کتاب فیصل آباد کےایک
ادارے’’ادارہ قرطاس‘‘ سے شائع ہوچکی ہے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی نے اکیانوے (۹۱)سال کی ایک لمبی زندگی بسر کی
ہے،مگر زندگی ’’ہر لحظہ نیا طور، نئی برق وتجلّی‘‘کی مصداق رہی ہے،
آخردم تک ان کا تعلق قلم و قرطاس سے قائم رہا، ان کے عزیز اور احباب
ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے اُنہیں آرام کی تلقین و اصرار کرتے رہے،مگر
وہ پارہ صفت تھے اور زندگی کے ہر لمحہ سے کچھ نہ کچھ کشید کرتے رہے۔کون
کہہ سکتا ہے کہ ایک اکیانوے سالہ بوڑھے کا وجودجوانوں سے زیادہ متحرک
اور دماغ کم سنوں سے بڑھ کر قوتِ حافظہ سے لبریز و معمور تھا۔مولانا
کثیرالتصانیف بھی تھےاورکثیر المجالس بھی،عام طور پر لکھنے والے مردم
بیزار ہوتے ہیں، تنہائی کو اپنے کام میں ممدو معاون جانتے اور لوگوں سے
میل ملاپ سے احتراز کرتے ہیں،مگرممدوح بھٹی رحمہ اللہ ایک مجلسی آدمی
تھے،یار باش،دوستی پالنے اور دوستی سنبھالنے والے،کوئی ان کو ملنے جاتا
تو بانہیں اور دِل کھول کر ملتے،کسی کو اجنبیت کا احساس تک نہ ہونے
دیتے،ہر ایک کی ذہنی سطح تک آ کر ملتے کہ زندگی بھر کے لئے اپنا نقش
چھوڑ جاتے،ملنے والا خود اجازت چاہ کر اٹھتا،دِل کھول کر باتیں کرنے
والے اور پوری طرح متوجہ ہوکر سننے والے۔
علامہؒ لکھتے بھی بہت زیادہ تھے۔ اتنا لکھتے تھے کہ کتاب پر کتاب شائع
ہوتی چلی جاتی تھیں۔اُن کےملنے والے حیران ہوتے تھے،کہ یہ مجلسی آدمی
لکھتا کس وقت ہو گاکہ اس کمال کا لکھ گیا۔علامہ محمد اسحاق بھٹیؒنے
تفسیرو حدیث، فقہ و سیرت، تاریخ و ادب پر بھی خوب لکھا مگر ان کو جو
شہرت، ودام ملی وہ ان کو ’’خاکہ نویسی‘‘ کے حوالے سے ملی ہے، گویا وہ
اِس فن کے ’’امام‘‘تھے شخصیات پر انہوں نے جتنا زیادہ لکھا اور جس قدر
لکھا۔ برصغیر کی تاریخ میں کسی اور نے کہاں لکھا ہوگا،ان کے کام کی
کثرت و ندرت کے باعث ہی تو انہیں کویت کی عرب علمی شخصیات نے ’’ذہبیٔ
دوراں‘‘ کے لقب و اعزازات سے نوازا تھا۔ وہ شخصیات پر لکھتے تو اس طرح
لکھتے کہ پڑھنے والا یوں سمجھتا وہ تحریر نہیں پڑ ھ رہا کوئی چلتی
پھرتی تصویر دیکھ رہا ہے، وہ جزئیات تک لکھ جاتے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے
انہیں حافظہ بھی بلا کا عطا فرمایا تھا،عرصہ دراز گزرنے کے باوجود،جس
پر لکھتے یوں کہ جس طرح وہ سامنے حرکت کر رہا ہو۔
علامہ رحمہ اللہ عجزو و انکسار کا حقیقی پیکر تھے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت
ہونے کے باوجود، کبرو نخوت، ذرا سی بھی نہ تھی، کسی بھی ملنے والے پر
اپنی علمیت کا رعب نہیں ڈالتے تھے نہ اُسے احساس ہونے دیتے کہ وہ کتنی
بڑی شخصیت کے سامنے ہے۔ ان کی بود و باش عام سی اور بڑی سادہ تھی،وہ
حقیقتاً بے غرض تھے،ساری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، وہ
اپنی کتابوں سے کئی ناشرین کے خزانے بھر گئے ہوں گے مگر ان کا اپنا
گھر، ایک چھوٹی سی گلی میں، چھوٹا سا ہی رہا۔انہوں نے اپنا نام اپنے
کام کے بل بوتے پر پیدا کیا، وہ نام کے لئے کام نہیں کرتے تھے، وہ تو
شخصیات سے محبت کرتے تھے، اخلاص سے ان کو گمنامی سے نکال کر نمایاں
کرتے تھے، ان کے اخلاص اور دل سے لکھنے کے وصف کے باعث، قدرت نے ان کو
آسمانِ علم و معرفت کا تابندہ ستارا بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کتنے ہی
گمنام لوگ تھے، جن کو آنجناب کے قلم نے تابندگی و درخشندگی عطا کر دی
ہے۔
علامہ بھٹی رحمہ اللہ کا قلم وقرطاس سے زندگی بھر کا رشتہ رہا،وہ بہت
سے علماء کے پروردہ تھے ،تقوی اور تدین سے ان کی زندگی کا گوشہ گوشہ
معمور رہا ۔تمام عمر انتہائی سادگی سے گزار دی’’ستائش کی تمنا نہ صلے
کی پروا ہ‘‘پر صحیح معنوں میں زندگی بھر عمل کیا، ان کی سوانح عمری
’’گزر گئی گزران‘‘ میں اس کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔آج کے دور میں
چندکتابیں لکھنےاور دوسروں کاترجمہ شدہ اپنے نام سےنشر کرنےوالےلوگ
اپنی ہی زبان سےکئی زبانوں کے ادیب اورعلامہ کہلانے لگتے ہیں۔حالانکہ
آپ رحمہ اللہ صحیح معنوں میں اس کے حق دارتھے، لیکن نہ اُنہیں کبھی
کسی نے علامہ کہا، اور اگر کوئی کہہ بھی دیتا تو ان کا مزاج ایسا تھا
کہ وہ اس خراج تحسین کو شاید قبول نہ کرتے۔
علامہ بھٹی رحمہ اللہ کے دل میں ہر ایک کے لئے خیر ہی خیر تھی۔ خیر نہ
ہوتی تو آج کے کینہ و نفرت کے دور میں جبکہ کوئی کسی کے لئے ایک کلمہ
خیر کہنے کو تیار نہیں ہوتا، وہ دوسروں پر اتنا زیادہ اور دھرا دھر
کیوں لکھتے چلے جاتے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ وہ تحریک آزادی کے سپاہی
بھی تھے اور جیل یاترا بھی کر چکے تھے،بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ،جب
ریاستوں کی پرجا منڈل کے پردھان تھے تو مولانا اسحاق بھٹی سیکرٹری تھے
اور ہندی ریاستوں میں انگریز مخالف سیاست کی پاداش میں قید و جبر
برداشت کر چکے تھے۔ مسٹرگیانی ذیل سنگھ جب بھارتی صدر بنے تو اپنے اس
دوست اور ساتھی کو بھارت یاترا کی دعوت دی، مگر مولانا کی درویشی اور
بے لوثی آڑے آگئی،آخر عمر میں ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے
آبائی شہر ’’فرید کوٹ‘‘ کو دیکھ آئیں، مگر بھارتی سفارتخانہ نے ۸۶سال
کے بوڑھے کو ویزا دینے سے انکار کر دیاتھا۔چنانچہ آپؒ اپنی آخری
خواہش اور آبائی شہر کی زیارت سے محروم رہ گئے۔
وفات:ممدوحؒنےاکیانوےبرس کی عمرمیں ۲۲؍دسمبر۲۰۱۵ء بروز منگل، بوقت
تقریبا صبح آٹھ بجے اس دنیا کو چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
إناللہ وإناالیہ راجعون۔
قارئین سے دعائے مغفرت کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ علامہ رحمہ اللہ
کی مغفرت فرمائے اور فرو گزاشتوں سے درگزر فرمائے،اللھم اغفرلہ وارحمہ۔
آمین ! |